چئیرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام

فرقان احمد

محفلین
عسکری ایندھن سے لیس ایک زبردست اڑان ق لیگ اور ایم کیو ایم نے بھی بھری تھی۔ آج وہ جماعتیں کدھر کھڑی ہیں؟ :)
اس لئے میں نہیں سمجھتا کہ دیگر سیاسی قوتوں کو آن بورڈ لئے بغیر تحریک انصاف کا چورن زیادہ دیر تک عوام میں بکے گا۔ یہ شاید 5 سال تو جیسے تیسے نکال لیں۔ لیکن اس کے بعد پھر وہی دو پارٹی سسٹم واپس آجائے گا۔ جس کے خلاف عمران خان نے 22 سال جدوجہد کی تھی۔
ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ ریاست کی بقا کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔ ملک انارکی اور افراتفری کی طرف بڑھ رہا ہے۔ سرمایہ دار غائب ہوتے جاتے ہیں۔ مرزا یار کو گلیاں تو سُونی مل گئی ہیں؛ ہاں مگر، یہ بے رونق بھی تو ہیں! گلی محلے ویران پڑے ہیں ۔۔۔! اور پہرے داروں کا کہنا ہے کہ سب اچھا کی رپورٹ دی جاوے! :) اُوپر جائے تو صرف مثبت خبر! یعنی کہ، تصور ہی تصور میں، ہر طرف چہل پہل ہے، ہر دن عید کا دن ہے اور ہر رات، شب برات! :) آپ بھی ناروے سے یہاں چلے آئیے نا اور خوب پٹاخے پھوڑیے! :)
 
آخری تدوین:
سوال تو یہ ہے کہ ملک کی قسمت کے فیصلے کون لوگ کر رہے ہیں اور انہیں کس نے یہ اختیار دیا ہے۔ کون سے سیاست دان کو کب مائنس کیا جائے یا کس کو کب مسند پر بٹھایا جائے یہ کلیتأ عوام کا فیصلہ اور انہی کا حق ہونا چاہیے۔
 

جاسم محمد

محفلین
سوال تو یہ ہے کہ ملک کی قسمت کے فیصلے کون لوگ کر رہے ہیں اور انہیں کس نے یہ اختیار دیا ہے۔ کون سے سیاست دان کو کب مائنس کیا جائے یا کس کو کب مسند پر بٹھایا جائے یہ کلیتأ عوام کا فیصلہ اور انہی کا حق ہونا چاہیے۔
یہ اصولی موقف ہے جو کہ بلاشبہ درست ہے۔ البتہ عملی طور پر دیکھیں تو ملک میں ایک بھی ایسی سیاسی جماعت یا لیڈر نہیں جس کے ماضی یا حال میں خلائی مخلوق سے روابط نہ رہے ہوں۔ اس لئے ملک کو اس سیاسی نہج تک پہنچانے والے سیاست دان خود ہیں۔
جب عمران خان ۱۷ سال سے مسلسل شکست کھا رہے تھے تو تو ۱۷ سال اور کھا لیتے۔ لیکن وہ بے صبرے ہو گئے اور خلائی مخلوق سے ڈیل کر لی۔ نتائج سب کے سامنے ہیں۔
اسی طرح نواز شریف اور بینظیر نے ۲۰۰۶ میں میثاق جمہوریت معاہدہ کیا تھا جس میں فوج کو سیاست سے باہر رکھنے کا اعلان کیا تھا۔ لیکن جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو نواز شریف خلائی مخلوق کی ایما پر کالا کوٹ پہن کر عدالت چلے گئے۔
اسی طرح زرداری نے پچھلی حکومت میں خلائی مخلوق کا نامزد کردہ سنجرانی سینیٹ چیئرمین لگوایا۔
پھر بھی سارا قصور فوج کا ہے؟ فوج تو مظلوم ہے۔ اصل کرپٹ سیاست دان ہی ہیں جو خلائی مخلوق کے آگے لیٹ جاتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
سب سے مزاحیہ لمحہ وہ تھا جب الیکشن ہارنے کے بعد سینیٹر دوبارہ کھانا کھانے بیٹھے تو ارکان کی تعداد پھر 64 تھی :laugh::laugh::laugh:
 

جاسم محمد

محفلین
اپوزیشن سینٹ الیکشن کیوں ہاری؟
02/08/2019 میاں عمران احمد
سینٹ الیکشن 2018 میں ن لیگ اکثریتی پارٹی تھی۔ اسمبلی میں دو تہائی اکثریت ہونے کی وجہ سے ن لیگ کا سینٹ الیکشن جیتنا طے تھا۔ لیکن جب الیکشن ہوئے تو ن لیگ سینٹ الیکشن ہار گئی۔ آصف زرداری کو اس وقت جوڑ توڑ کا بادشاہ قرار دیا گیا۔ زرداری صاحب اپنی ذو معنی ہنسی میں اس جیت کا کریڈٹ لیتے دکھائی دیے۔ وہ محفلوں میں اکثر ذکر کیا کرتے تھے کہ میں بلوچستان اور کے پی کے جا کر بیٹھ گیا اور الیکشن مینج کیا۔ لیکن صاحب بصیرت لوگ جانتے تھے کہ زرداری صاحب تو صرف مہرہ ہیں اصل کھیل مقتدر قوتوں نے کھیلا ہے۔

آج کے سینٹ الیکشن میں اپوزیشن کے تمام سینٹرز ملا کر 65 ووٹ بنتے تھے جبکہ حکومت کے صرف 36 ووٹ تھے۔ لیکن جب الیکشن ہوا تو اپوزیشن ہار گئی۔ جہانگیر ترین کو اس جوڑ توڑ کا بادشاہ قرار دیا جا رہا ہے۔ جہانگیر ترین ٹی وی شوز اور نجی محفلوں میں اس کا کریڈٹ لیتے نظر آرہے ہیں۔ تحریک انصاف والے ترین صاحب کو ہیرو قرار دے رہے ہیں اور کچھ اپوزیشن کے رہنما بھی جہانگیر ترین کو اس سانحے کا ذمہ دار سمجھ رہے ہیں لیکن یہاں بھی صاحب بصیرت لوگ جانتے ہیں کہ جہانگیر ترین تو ایک مہرہ ہے۔ اصل کھیل مقتدر قوتوں نے کھیلا ہے۔

افسوس اس بات کا ہے کہ بچے خود کو باپ سے سیانا سمجھنے لگے ہیں۔ جس آصف علی زرداری نے 2018 کی سینٹ الیکشن میں اسٹبلشمنٹ کے آشیرباد سے ن لیگ کی صفوں میں کھلبلی مچا دی تھی اور ان کی اکثریت کو اقلیت میں بدل دیا تھا وہ آج کیونکر یہ بھول گئے کہ جو پی پی نے دکھائی تھی وہ طاقت دراصل اسٹبلشمنٹ کی تھی۔ جو آپ کی اقلیت کو اکثریت میں بدل سکتے ہیں وہ آپ کی اکثریت کواقلیت میں بھی بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

آپ کو کیوں یاد نہ رہا کہ آپ اپنا جو قد کاٹھ محسوس کرتے تھے اس کے پیروں میں اسٹبلشمنٹ کے قدآور جوتے تھے۔ آپ کیوں یہ حقیقت فراموش کر بیٹھے کہ جن کے تلوے چاٹ کر آپ نے 2018 کا سینٹ الیکشن جیتا تھا اس تلوے کے چاٹنے کے امیدوار اور بھی ہیں۔ جو خدمات آپ نے ماضی میں پیش کی ہیں ان خدمات کی ادائیگی کے لیے اور بھی لوگ موجودہیں۔ آپ نے کیسے سوچ لیا کہ اپنے ہاتھ کاٹ کر مقتدر قوتوں کے پاس گروی رکھوانے کی بعد آپ آزادانہ پرواز کی صلاحیت برقرار رکھ سکیں گے۔

آصف علی زرداری صاحب آپ تو اتنے بیوقوف نہ تھے پھر آپ سے یہ حماقت کیسے سرزرد ہو گئی۔ بغاوت کے اصولوں میں بنیادی شرط یہ ہوتی ہے کہ آپ کی طاقت کم از کم کسی ایک پہلو سے مخالف کی نسبت زیادہ ہو یا آپ کے پیادے ایمان کی حد تک آپ سے وفادار ہوں۔ لیکن آپ تو دونوں محاذوں پر کمزور اور نالائق ثابت ہوئے ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ آپ تو پہلے سے ہی چاروں شانے چت ہیں آپ نے جنگ کا محاذ کھولنے کا اعلان کر دیا اور جہاں تک بات ہے پیادوں کی وفاداری اور ایمانداری کی تو جناب اعلی یہ انڈے آپ کے جیسے ہی ہیں۔

یہ سینٹرز اور وزرا اسمبلی میں اللہ کو حاضر ناظر جان کر قسم اٹھاتے ہیں کہ وہ کرپشن نہیں کریں گے۔ لیکن جیسے ہی یہ وزارتوں میں آتے ہیں یہ پہلے ہی دن حلف توڑ دیتے ہیں۔ کرپشن، لوٹ مار اور ملک دشمنی کی ایسی مثالیں قائم کرتے ہیں کہ شیطان بھی شرما جائے۔ جو پیادے ملک کے ساتھ وفادار نہیں رہ سکے وہ آپ کے ساتھ کس طرح وفادار رہ سکتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ آپ جیسے زیرک سیاستدان نے ایسے پیادوں پر بھروسا کر کے طبل جنگ کیونکر بجا دیا۔

زرداری صاحب جہاں تک میں سمجھ پایا ہوں کہ آپ طاقت کا غلط اندازہ لگانے کے ساتھ ایک فطری غلط فہمی کا شکار بھی ہو گئے تھے۔ انسان فطری طور پر خود کو مقتدر قوتوں کا لاڈلا سمجھتا ہے۔ انسان کا خیال ہے کہ جو برا میرے مخالف کے ساتھ ہو رہا ہے ایسا برا میرے ساتھ نہیں ہو سکتا کیونکہ میں آقاکا لاڈلا ہوں۔ لہذا وہ اس غلط فہمی میں احتیاطی تدابیر کرنا اور برے وقت کی تیاری کرنا بھول جاتا ہے۔ لیکن جیسے ہی اس پر برا وقت آتا ہے تو وہ اپنی اوقات میں آ جاتا ہے۔ آپ نے اچھے وقت میں برے وقت کا خیال نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ آج آپ سابق صدر پاکستان ہونے کے باوجود بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں اور اکثریت رکھنے کے باوجود سینٹ الیکشن ہار گئے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
قومی ادارے کے سربراہ کو متنازع بنانے کی کوشش، حاصل بزنجو 8 اگست کو عدالت طلب
203202_8559764_updates.jpg

گوجرانوالہ کی سیشن عدالت نے اندراج مقدمہ کی درخواست پر سینیٹر حاصل بزنجو کو 8 اگست کو طلب کر لیا — فوٹو: فائل

گوجرانوالہ کی سیشن عدالت نے قومی ادارے کے سربراہ کو متنازع بنانے کی کوشش پر نیشنل پارٹی کے سربراہ سینیٹر حاصل بزنجو کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست کو سماعت کے لیے منظور کرلیا۔

سینیٹر حاصل بزنجو کے خلاف اندراج مقدمہ کیلئے درخواست گوجرانوالہ کے وکیل منظور قادر بھنڈر نے دائر کی جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ حاصل بزنجو نے اپنے بیان سے قومی ادارے کے سربرا ہ کو متنازع بنانے کی کوشش کی۔

ایڈیشنل سیشن جج طارق سلیم چوہان نے پٹیشن سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے سی پی او گوجرانوالہ سے رپورٹ طلب کرلی ہے جبکہ سینیٹر حاصل بزنجو کو بھی 8 اگست کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔

عدالت نے سیکریٹری سینیٹ اسلام آباد کو سینیٹر حاصل بزنجو کی عدالت طلبی کا نوٹس بھجوادیا ہے۔

حاصل بزنجو شکست تسلیم کریں: وزیر دفاع
دوسری جانب وزیردفاع پرویز خٹک نے بھی سینیٹر حاصل بزنجو کے بیان پر ردعمل میں کہا ہے کہ بے بنیاد تبصروں سے بہتر ہے کہ حاصل بزنجو شکست تسلیم کریں اور ایسا تبصرہ ان کی سیاسی بصیرت اور سنجیدگی کی عکاسی نہیں کرتا۔

سینیٹر حاصل بزنجو اسپتال سے گھر منتقل
علاوہ ازیں نیشنل پارٹی کے سربراہ حاصل بزنجو کو کراچی میں نجی اسپتال میں طبی معائنے کے بعد گھر منتقل کر دیا گیا۔

نیشنل پارٹی کے سربراہ حاصل بزنجو کو کراچی میں اسٹیڈیم روڈ پر واقع نجی اسپتال لایا گیا جہاں ان کا مکمل طبی معائنہ کیا گیا۔

خاندانی ذرائع کے مطابق حاصل بزنجو کینسر کے عارضے میں مبتلا ہیں۔

کینسر کے باعث ان کی آج ایمیونوتھراپی بھی کی گئی ہے جس کے بعد ان کے طبی معاونین نے گھر جانے کی اجازت دے دی ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو تبدیل کرنے کی اپوزیشن اور ڈپٹی چیئرمین سلیم مانڈوی والا کی تبدیلی کی حکومتی کوششیں ناکام ہوگئیں۔

اپوزیشن کی جانب سے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی اور اپوزیشن نے حاصل بزنجو کو متفقہ امیدوار نامزد کیا تھا۔

تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کے بعد سینیٹر حاصل بزنجو نے بیان دیا تھا جس میں قومی ادارے کے سربراہ کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی تھی جس پر پاک فوج کے ترجمان نے ان کے بیان کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ معمولی سیاسی فائدے کے لیے جمہوری عمل کو بدنام کرنے کا رجحان جمہوریت کی خدمت نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
مہاراجہ جنرل ہرنام سنگھ اور مولانا کی سیاسی بصیرت
02/08/2019 محمد واحد
ایک دفعہ کا ذکر ہے ہرنام سنگھ ٹرین میں اپنے اہل و عیال کے ساتھ محو سفر تھا۔ ہر نام سنگھ تھوڑا سا سرشار بھی تھا۔ اہل و عیال میں اس کی بیوی بیٹی بیٹا چھوٹا بھائی اور دو ملازم شامل۔ ہرنام سنگھ سے کچھ دور اک دوشیزہ پرنام کور بھی اپنی ماں کے ساتھ اپنی منزل کی جانب رواں تھی۔ اکیلی لڑکی ٹرین کا لمبا سفر ہرنام سنگھ نے موقع غنیمت جانا اور اپنے اہل و عیال کو لے کر پرنام کور کے قریب ہو کے بیٹھ گیا۔ پرنام کور کی الہڑ جوانی مستانی آنکھیں لانبے گیسو دراز مژگاں دل پھینک ہرنام سنگھ کو بے چین کر گئی۔

سرشار ہرنام سنگھ کن اکھیوں میں پرنام کور کو دیکھتا اور مونچھوں کو ایسے تاؤ دیتا جیسے ہرنام سنگھ ، مہاراجہ جنرل ہرنام سنگھ ہے۔ دل میں ارمان مچل مچل جاتے۔ ٹرین میں جو بھی کچھ بیچنے آتا ہرنام سنگھ فورًا خرید کے اہل وعیال سمیت پرنام کور اور اس کی ماں کی نظر کرتا۔ کھائیں جی کھائیں واہ گُرو کی کرپا سے بہت کچھ ہے اپنے پاس۔ گھر، نوکر، چاکر زمیں جائیداد، موٹر کاریں۔ کسی چیز کی کمی نہیں۔ ( پرنام کور دل ہی دل میں کہتی بس جوتیوں کی کمی ہے ) ۔ واہے گُرو کی دین ہے واہ گُرو کا خالصہ واہ گُرو کی فتح۔ سرشاری میں نعرے کلکاریاں کبھی گانے گاتا کبھی اٹھ کے ایسے چلتا جیسے دھمال ڈالنے لگا ہے۔ ہرنام سنگھ پرنام کور متاثر کرنے کے لیے ہزار جتن کررہا تھا۔ ہرنام سنگھ کی بیوی سب کچھ دیکھ کر دل ہی دل میں کڑھ رہی تھی۔

ٹرین اک جگہ رکی اور اک پہلوان شمشیر سنگھ اپنے چیلوں چانٹوں کے ساتھ ڈبے میں داخل ہوا۔ پہلوان نے ہرنام سنگھ کو ٹکٹیں دکھائیں اور کہا یہ سیٹیں میری ہیں اس لیے آپ اپنی جگہ پہ چلے جائیں۔ سرشار ہرنام سنگھ اوپر سے پرنام کور کے سامنے ایسی بے عزت ہرنام سنگھ کو کیسے ہضم ہوتی۔ لگا اکڑنے پہلوان نے ہرنام سنگھ کی صحت اور سرشاری کی حالت دیکھتے ہوئے پیار سے سمجھانے کی کوشش کی مگر بے سود۔ ہرنام نے پہلوان کو سنگین نتائج اور ہڈی پسلی توڑنے کی دھمکیاں دی۔

پہلوان نے نے ہرنام سنگھ کو پکڑا اور ٹھیک ٹھاک طبیعت صاف کردی۔ درد سے بلبلاتا ہوا ہرنام اٹھا او کہنے لگا اتنے تم پہلوان میرے بھائی کو ہاتھ لگا کر دکھاؤ۔ پیشتر اس کے ہرنام سنگھ کا بھائی بیچارا جو چپ کرکے بیٹھا تھا کچھ بولتا پہلوان نے اس کی ہڈی پسلی ایک کردی۔ ہرنام سنگھ سنبھلتے ہوئے پہلوان کو کہنے لگا رہتے نہیں تم اتنے بڑے پہلوان میرے بیٹے کو ہاتھ لگا کر دکھاؤ تمہاری طبیعت درست نہ کردی تو کہنا۔

پہلوان نے ہرنام سنگھ کے بیٹے کو بھی پکڑ کے دوہرا کردیا۔ ہرنام سنگھ نے پہلوان کو کہا ہوگئی تیری بس۔ اب ہمت ہے تو میرے ملازم کو مار کے دکھا۔ پہلوان نے اسی آن میں ملازم کو دھونا شروع کردیا۔ ملازم بے چارا پٹ کے بیٹھا ہی تھا کے ہرنام سنگھ پھر غرایا مرد کا بچہ ہے تو میرے دوسرے ملازم کو ہاتھ لگاؤ۔ پہلوان نے دوسرے ملازم کی بھی ٹھکائی کردی۔ پہلوان دوسرے ملازم سے فارغ ہوا تو ہرنام سنگھ نے پھر آواز دی غیرت ہے تو میری بیٹی کو ہاتھ لگا کے دکھا۔

بیٹی پہ ہاتھ اٹھانا معیوب سا تھا لیکن اب بات پہلوان کی اپنی غیرت کی تھی سو اس نے بادل نخواستہ اس کو بھی دو لگا کے ڈھیر کردیا۔ ہرنام سنگھ پھر گرجا اگر باپ کی اولاد ہے تو میری بیوی پہ ہاتھ اٹھا کے دکھا۔ پہلوان نے نہ چاہتے ہوئے اس کو بھی دو جڑ دیں۔ ہرنام سنگھ نے پہلوان کو پھر للکارا اب کی بار ہرنام کی ماں کو درد سہنا پڑا۔

پرنام کور چپ چاپ یہ سب تماشا اور ہرنام سنگھ کی دانش مندی دیکھ رہی تھی۔ پرنام کور اٹھی اور بولی ہرنام سیوں تمہارا اس پہلوان سے کیا جوڑ۔ بالفرض تمہیں جوش آبھی گیا تھا تو خود لڑ جھگڑ کے ہارتے اور نکل جاتے۔ سارے خاندان کو جوتیاں مروانے کیا تُک تھی۔ ہرنام سنگھ نے عرض کیا پرنام کورے میں مار کھا کے چپ چاپ زخم سہلاتا چلا تو جاتا لیکن میرے اہل و عیال نے گھر جا کے میرا جینا حرام کردینا تھا۔ اب جب سب کو جوتیاں پڑی ہیں تو سبھی اپنی بے عزتی اور مار کی وجہ سے چپ رہیں گے۔

مولانا فضل الرحمٰن کی عظمت اور سیاسی بصیرت کو دور سے سلام ہے۔ مولانا خود تو الیکشن ہار کے اسمبلیوں سے باہر تھے۔ خود تو وقت اور حالات کی مار کھا رہے تھے باہر بیٹھ کر کڑھ رہے تھے۔ مگر مولانا نے ساری اپوزیشن کو اکٹھا کرکے جس مہارت سے مار کھلائی ہے اور اک لاحاصل مشق میں بے عزت کروایا ہے یہ کام مولانا ہی کرسکے تھے۔ اسے کہتے ہیں سیاسی بصیرت۔
 

جاسم محمد

محفلین
نواز شریف ہارس ٹریڈنگ کے بانی ہوں اور عمران خان ولی اللہ بن کر رہیں؟
03/08/2019 آصف محمود
سینٹ میں جو کچھ ہوا، مجھے شاہد خان اورکزئی یاد آ گئے۔ یہ بڑی دلچسپ کہانی ہے۔ شاہد اورکزئی صاحب کو لوگ ان کی پیٹیشنز کی وجہ سے جانتے ہیں لیکن ان کی ایک اور وجہ تعارف بھی ہے۔ مجھے ان کی شخصیت کے اس پہلو کا اس وقت علم ہوا جب وہ خود عدالت تشریف لے گئے اور کہا کہ نواز شریف ان کے پیسے نہیں دے رہے اس لیے عدالت سے درخواست ہے وہ انہیں میاں صاحب سے پیسے لے کر دے۔ میاں صاحب نے شاہد اورکزئی کے کون سے پیسے دبائے ہوئے تھے؟

یہی اصل کہانی ہے۔ یہ 1993 ء کے انتخابات کی بات ہے۔ اس زمانے میں شاہد اورکزئی نواز شریف صاحب کے میڈیا کنسلٹنٹ ہوا کرتے تھے۔ اس الیکشن میں مسلم لیگ نے 73 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور پیپلز پارٹی نے 89 نشستیں جیتی تھیں۔ تاہم مسلم لیگ ن کو حاصل ہونے والے کل ووٹ پیپلز پارٹی سے زیادہ تھے۔ مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی سے قریبا چار لاکھ ووٹ زیادہ لیے تھے اس لیے میاں صاحب کا خیال تھا کہ حکومت بنانا ان کا حق ہے۔

میاں صاحب نے شاہد اورکزئی کے ذمے لگایا کہ اگر وہ فاٹا کے سات اراکین اسمبلی کی وفاداریاں خرید لیں تو میاں صاحب انہیں ایک کروڑ پچھتر لاکھ روپے دیں گے۔ شاہد اورکزئی نے میاں صاحب کے حکم پر ہارس ٹریڈنگ شروع کر دی اور ان کا دعوی ہے کہ وہ اس میں کامیاب رہے۔ لیکن پیپلز پارٹی نے دیگر جماعتوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنالی۔ چنانچہ میاں صاحب نے کہا بس اب اس ووٹ کو عزت دی جا سکتی ہے پیسے نہیں دیے جا سکتے۔ شاہد اورکزئی عدالت چلے گئے اور انہوں نے کہا کہ میں نے نواز شریف کے کہنے پر لوگوں کی وفاداریاں خریدیں۔

میں نے اپنا کام کر دیا۔ اب میاں صاحب اپنا کام نہیں کر رہے۔ عدالت میں شاہد اورکزئی نے بتایا کہ میاں نواز شریف نے ان سے ایک کروڑ پچھتر لاکھ کی ڈیل کی تھی لیکن اب تک انہوں نے صرف ایک کروڑ پانچ لاکھ ادا کیے ہیں اور باقی کے ستر لاکھ دینے سے انکار کر رہے ہیں۔ انہوں نے درخواست کی کہ میاں نواز شریف سے ہارس ٹریڈنگ کے بقایا جات جو کہ ستر لاکھ روپے بنتے ہیں، لے کر انہیں دیے جائیں۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ میرے علم میں نہیں۔

تاہم جتنا واقعہ میں نے یہاں بیان کیا ہے، یہ ریکارڈ پر ہے۔ چھانگا مانگا سے لے کر مری تک، نواز شریف نے ہمیشہ ہی ووٹ کو عزت دی ہے لیکن یہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ ہے جس کی بازگشت عدالت تک پہنچی۔ اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں الیکشن کے الزامات بہت سوں کو دیے جاتے ہیں لیکن اعزاز صرف میاں نواز شریف کو حاصل ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ کا بچہ جمورا بن کر اقتدار تک ان کا پہنچنا عدالت کے رو برو ایک حقیقت بن کر سامنے آ گیا۔

کل سینٹ میں جو کچھ ہوا اس پر سیخ پا ہونے کا حق ایک عام شہری کو تو حاصل ہے کہ مقدس ایوانوں میں بیٹھنے والوں کا ضمیر کیا ہوا؟ قرارداد پیش ہوئی تو یہ 64 تھے، ووٹنگ ہوئی تو 50 رہ گئے لیکن یہ آنسو مسلم لیگ ن کیسے بہا رہی ہے؟ کیا اس کی تکلیف یہ ہے کہ جس واردات کے جملہ حقوق کبھی ان کے نام محفوظ ہوتے تھے اسی واردات نے اب ان کے پاؤں جلا دیے ہیں۔ پہلے مگر مچھ کے آنسو ضرب المثل تھے، اب ن لیگ کے آنسواس مرتبے پر فائز ہو چکے ہیں۔

ہارس ٹریڈنگ کی آلودگی نواز شریف کے دامن سے لپٹی ہو یا عمران خان کے دامن سے، ہر دو صورتوں میں یہ ایک آلودگی ہی رہے گی لیکن اس آلودگی کو معاشرے میں متعارف کرانے والی قیادت شریف اگر معصوم سی عفیفہ بن کر دہائی دینے لگے تو یہ رویہ بذات خود مضحکہ خیز حد تک شرمناک رویہ قرار پائے گا۔ ہارس ٹریڈنگ کے بانی نواز شریف ہیں۔ کیا کبھی وہ اس نامہ اعمال پر نادم ہوئے؟ اقوال زریں سنا دینا الگ بات ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف جب جلاوطنی کے بعد واپس تشریف لائے انہوں نے 146 لوٹوں کو ٹکٹ دیا تھا۔

میاں صاحب ایک تاجر ہیں، حساب سودو زیاں کے ماہر۔ ان سے منسوب ایک روایت ہے کہ جس کو میں نے پیسوں سے خرید نہ لیا ہواس پر میں نے کبھی اعتبار نہیں کیا۔ سوال یہ ہے زرداری صاحب اور مولانا فضل الرحمن پر انہوں نے کیسے اعتبار کر لیا؟ وہ روایتی انداز سے معاملہ فرما چکے ہوں تو الگ بات ہے ورنہ سامنے کی بات ہے کہ جس معرکے میں سرخرو نواز شریف نے ہونا ہو زرداری اس معرکے میں اپنی توانائیاں کیوں جھونکیں گے؟ مولانا فضل الرحمن ہماری سیاست کے زیرک ترین کردار ہیں۔

وہ اپنے کارکنان کو ایک ایسے معرکے کا ایندھن کیوں بنائیں گے جس میں سارا فائدہ صرف نواز شریف کا ہو؟ نواز شریف کے جس بیانیے کے ساتھ ان کا اپنا خاندان نہیں کھڑا زرداری اور مولانا ان بیانیے کے میمنہ میسرہ پر کیوں کھڑے ہوں گے؟ سیینٹ میں جو کچھ ہوا یہ کسی سینیٹر کی انفرادی واردات نہیں، کم از کم دو جماعتوں کی حد تک یہ اجتماعی واردات محسوس ہو رہی ہے جو قیامت کے اشارے پر انجام دی گئی۔ تاہم مان لیں یہ انفرادی واردات ہے تو اس میں حیرت کیسی؟

آپ نے سینٹ ٹکٹ کون سا تقوی اور کردار دیکھ کر بانٹے تھے کہ اب صدمے کی حالت میں چپ چاپ دیوار سے لگے بیٹھے ہی۔ سینیٹر طلحہ محمود صاحب کون سے شیخ الحدیث ہیں کہ جے یو آئی ان پر مہربان ہے؟ ہاں ہر جماعت اپنا ایک اے ٹی ایم رکھنا ضروری سمجھتی ہو تو یہ الگ بات ہے۔ سر پیٹیے مگر یاد رکھیے پہلے سینٹ کا ٹکٹ بکتا ہے، اس کے بعد سینٹر بکتا ہے۔ میثاق جمہوریت کے بعد جب آپ سب نے مل جل کر حکومت کی تھی تو انجمن مفادات باہمی کی قربتوں کا یہ عالم تھا کہ برادرم اعجاز الحق خورشید شاہ کو اپوزیشن لیڈر کی بجائے وفاقی وزیر برائے امور اپوزیشن کہا کرتے تھے۔ ان دنوں آپ چاہتے تو بہت کچھ بدل دیتے۔ سوال یہ ہے کہ جمہوریت کے اس عہدِ ہنی مون میں آپ نے خفیہ رائے شماری کا قانون بدل کیوں نہ دیا؟ کیا آپ یہ چاہتے ہیں آپ خود تو پوری تندہی سے ہر واردات کرتے رہیں لیکن عمران خان آپ کے مقابلے میں اللہ کا ولی بن کر رہے؟
بشکریہ روزنامہ 92۔
 

فرقان احمد

محفلین
نواز شریف ہارس ٹریڈنگ کے بانی ہوں اور عمران خان ولی اللہ بن کر رہیں؟
03/08/2019 آصف محمود
سینٹ میں جو کچھ ہوا، مجھے شاہد خان اورکزئی یاد آ گئے۔ یہ بڑی دلچسپ کہانی ہے۔ شاہد اورکزئی صاحب کو لوگ ان کی پیٹیشنز کی وجہ سے جانتے ہیں لیکن ان کی ایک اور وجہ تعارف بھی ہے۔ مجھے ان کی شخصیت کے اس پہلو کا اس وقت علم ہوا جب وہ خود عدالت تشریف لے گئے اور کہا کہ نواز شریف ان کے پیسے نہیں دے رہے اس لیے عدالت سے درخواست ہے وہ انہیں میاں صاحب سے پیسے لے کر دے۔ میاں صاحب نے شاہد اورکزئی کے کون سے پیسے دبائے ہوئے تھے؟

یہی اصل کہانی ہے۔ یہ 1993 ء کے انتخابات کی بات ہے۔ اس زمانے میں شاہد اورکزئی نواز شریف صاحب کے میڈیا کنسلٹنٹ ہوا کرتے تھے۔ اس الیکشن میں مسلم لیگ نے 73 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور پیپلز پارٹی نے 89 نشستیں جیتی تھیں۔ تاہم مسلم لیگ ن کو حاصل ہونے والے کل ووٹ پیپلز پارٹی سے زیادہ تھے۔ مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی سے قریبا چار لاکھ ووٹ زیادہ لیے تھے اس لیے میاں صاحب کا خیال تھا کہ حکومت بنانا ان کا حق ہے۔

میاں صاحب نے شاہد اورکزئی کے ذمے لگایا کہ اگر وہ فاٹا کے سات اراکین اسمبلی کی وفاداریاں خرید لیں تو میاں صاحب انہیں ایک کروڑ پچھتر لاکھ روپے دیں گے۔ شاہد اورکزئی نے میاں صاحب کے حکم پر ہارس ٹریڈنگ شروع کر دی اور ان کا دعوی ہے کہ وہ اس میں کامیاب رہے۔ لیکن پیپلز پارٹی نے دیگر جماعتوں کو ساتھ ملا کر حکومت بنالی۔ چنانچہ میاں صاحب نے کہا بس اب اس ووٹ کو عزت دی جا سکتی ہے پیسے نہیں دیے جا سکتے۔ شاہد اورکزئی عدالت چلے گئے اور انہوں نے کہا کہ میں نے نواز شریف کے کہنے پر لوگوں کی وفاداریاں خریدیں۔

میں نے اپنا کام کر دیا۔ اب میاں صاحب اپنا کام نہیں کر رہے۔ عدالت میں شاہد اورکزئی نے بتایا کہ میاں نواز شریف نے ان سے ایک کروڑ پچھتر لاکھ کی ڈیل کی تھی لیکن اب تک انہوں نے صرف ایک کروڑ پانچ لاکھ ادا کیے ہیں اور باقی کے ستر لاکھ دینے سے انکار کر رہے ہیں۔ انہوں نے درخواست کی کہ میاں نواز شریف سے ہارس ٹریڈنگ کے بقایا جات جو کہ ستر لاکھ روپے بنتے ہیں، لے کر انہیں دیے جائیں۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ میرے علم میں نہیں۔

تاہم جتنا واقعہ میں نے یہاں بیان کیا ہے، یہ ریکارڈ پر ہے۔ چھانگا مانگا سے لے کر مری تک، نواز شریف نے ہمیشہ ہی ووٹ کو عزت دی ہے لیکن یہ اپنی نوعیت کا واحد واقعہ ہے جس کی بازگشت عدالت تک پہنچی۔ اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں الیکشن کے الزامات بہت سوں کو دیے جاتے ہیں لیکن اعزاز صرف میاں نواز شریف کو حاصل ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ کا بچہ جمورا بن کر اقتدار تک ان کا پہنچنا عدالت کے رو برو ایک حقیقت بن کر سامنے آ گیا۔

کل سینٹ میں جو کچھ ہوا اس پر سیخ پا ہونے کا حق ایک عام شہری کو تو حاصل ہے کہ مقدس ایوانوں میں بیٹھنے والوں کا ضمیر کیا ہوا؟ قرارداد پیش ہوئی تو یہ 64 تھے، ووٹنگ ہوئی تو 50 رہ گئے لیکن یہ آنسو مسلم لیگ ن کیسے بہا رہی ہے؟ کیا اس کی تکلیف یہ ہے کہ جس واردات کے جملہ حقوق کبھی ان کے نام محفوظ ہوتے تھے اسی واردات نے اب ان کے پاؤں جلا دیے ہیں۔ پہلے مگر مچھ کے آنسو ضرب المثل تھے، اب ن لیگ کے آنسواس مرتبے پر فائز ہو چکے ہیں۔

ہارس ٹریڈنگ کی آلودگی نواز شریف کے دامن سے لپٹی ہو یا عمران خان کے دامن سے، ہر دو صورتوں میں یہ ایک آلودگی ہی رہے گی لیکن اس آلودگی کو معاشرے میں متعارف کرانے والی قیادت شریف اگر معصوم سی عفیفہ بن کر دہائی دینے لگے تو یہ رویہ بذات خود مضحکہ خیز حد تک شرمناک رویہ قرار پائے گا۔ ہارس ٹریڈنگ کے بانی نواز شریف ہیں۔ کیا کبھی وہ اس نامہ اعمال پر نادم ہوئے؟ اقوال زریں سنا دینا الگ بات ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ نواز شریف جب جلاوطنی کے بعد واپس تشریف لائے انہوں نے 146 لوٹوں کو ٹکٹ دیا تھا۔

میاں صاحب ایک تاجر ہیں، حساب سودو زیاں کے ماہر۔ ان سے منسوب ایک روایت ہے کہ جس کو میں نے پیسوں سے خرید نہ لیا ہواس پر میں نے کبھی اعتبار نہیں کیا۔ سوال یہ ہے زرداری صاحب اور مولانا فضل الرحمن پر انہوں نے کیسے اعتبار کر لیا؟ وہ روایتی انداز سے معاملہ فرما چکے ہوں تو الگ بات ہے ورنہ سامنے کی بات ہے کہ جس معرکے میں سرخرو نواز شریف نے ہونا ہو زرداری اس معرکے میں اپنی توانائیاں کیوں جھونکیں گے؟ مولانا فضل الرحمن ہماری سیاست کے زیرک ترین کردار ہیں۔

وہ اپنے کارکنان کو ایک ایسے معرکے کا ایندھن کیوں بنائیں گے جس میں سارا فائدہ صرف نواز شریف کا ہو؟ نواز شریف کے جس بیانیے کے ساتھ ان کا اپنا خاندان نہیں کھڑا زرداری اور مولانا ان بیانیے کے میمنہ میسرہ پر کیوں کھڑے ہوں گے؟ سیینٹ میں جو کچھ ہوا یہ کسی سینیٹر کی انفرادی واردات نہیں، کم از کم دو جماعتوں کی حد تک یہ اجتماعی واردات محسوس ہو رہی ہے جو قیامت کے اشارے پر انجام دی گئی۔ تاہم مان لیں یہ انفرادی واردات ہے تو اس میں حیرت کیسی؟

آپ نے سینٹ ٹکٹ کون سا تقوی اور کردار دیکھ کر بانٹے تھے کہ اب صدمے کی حالت میں چپ چاپ دیوار سے لگے بیٹھے ہی۔ سینیٹر طلحہ محمود صاحب کون سے شیخ الحدیث ہیں کہ جے یو آئی ان پر مہربان ہے؟ ہاں ہر جماعت اپنا ایک اے ٹی ایم رکھنا ضروری سمجھتی ہو تو یہ الگ بات ہے۔ سر پیٹیے مگر یاد رکھیے پہلے سینٹ کا ٹکٹ بکتا ہے، اس کے بعد سینٹر بکتا ہے۔ میثاق جمہوریت کے بعد جب آپ سب نے مل جل کر حکومت کی تھی تو انجمن مفادات باہمی کی قربتوں کا یہ عالم تھا کہ برادرم اعجاز الحق خورشید شاہ کو اپوزیشن لیڈر کی بجائے وفاقی وزیر برائے امور اپوزیشن کہا کرتے تھے۔ ان دنوں آپ چاہتے تو بہت کچھ بدل دیتے۔ سوال یہ ہے کہ جمہوریت کے اس عہدِ ہنی مون میں آپ نے خفیہ رائے شماری کا قانون بدل کیوں نہ دیا؟ کیا آپ یہ چاہتے ہیں آپ خود تو پوری تندہی سے ہر واردات کرتے رہیں لیکن عمران خان آپ کے مقابلے میں اللہ کا ولی بن کر رہے؟
بشکریہ روزنامہ 92۔
اس کالم میں بیشتر حقائق کو واضح انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یہی تو المیہ ہے کہ جو کچھ ماضی میں سیاسی قیادتیں کرتی رہیں، آپ بھی وہی کچھ کر رہے ہیں۔ نئے پاکستان میں اس کی گنجائش بھی نہ ہونی چاہیے تھی۔ اس لیے، اُن میں اور آپ میں کوئی فرق نہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
اس کالم میں بیشتر حقائق کو واضح انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ یہی تو المیہ ہے کہ جو کچھ ماضی میں سیاسی قیادتیں کرتی رہیں، آپ بھی وہی کچھ کر رہے ہیں۔ نئے پاکستان میں اس کی گنجائش بھی نہ ہونی چاہیے تھی۔ اس لیے، اُن میں اور آپ میں کوئی فرق نہیں۔
عمران خان کوئی ولی اللہ نہیں ہیں۔ جس طرح انہوں نے الیکٹ ایبلز اور اسٹیبلشمنٹ کو ساتھ ملا کر اقتدار حاصل کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
اگر صرف ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آتے تو حالات یکسرمختلف ہوتے۔
لیکن جیسا کہ ایک سابق آئی ایس آئی چیف نے عمران خان کو کہا تھا کہ قوم صرف چوروں کو ووٹ ڈالتی ہے۔ وہ بات آج بھی سچ ہے۔ جونہی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ پی ٹی آئی سے ہٹے گا، قوم دوبارہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو ووٹ دےکر جتوا دے گی۔
 

فرقان احمد

محفلین
عمران خان کوئی ولی اللہ نہیں ہیں۔ جس طرح انہوں نے الیکٹ ایبلز اور اسٹیبلشمنٹ کو ساتھ ملا کر اقتدار حاصل کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔
اگر صرف ووٹ کی طاقت سے اقتدار میں آتے تو حالات یکسرمختلف ہوتے۔
لیکن جیسا کہ ایک سابق آئی ایس آئی چیف نے عمران خان کو کہا تھا کہ قوم صرف چوروں کو ووٹ ڈالتی ہے۔ وہ بات آج بھی سچ ہے۔ جونہی اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ پی ٹی آئی سے ہٹے گا، قوم دوبارہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو ووٹ دے دے گی۔
قوم اگر چوروں کو ووٹ ڈالتی ہے تو ان 'چوروں' کو سیاسی منظرنامے پر لانے والے کیا ہوئے؟ :) اُن کے لیے بھی کوئی اچھا سا نام رکھیں۔ :) آپ اسباب پر نظر رکھنا بھول جاتے ہیں؛ یہی آپ کے تجزیے میں بنیادی جھول ہے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
قوم اگر چوروں کو ووٹ ڈالتی ہے تو ان 'چوروں' کو سیاسی منظرنامے پر لانے والے کیا ہوئے؟ :) اُن کے لیے بھی کوئی اچھا سا نام رکھیں۔ :) آپ اسباب پر نظر رکھنا بھول جاتے ہیں؛ یہی آپ کے تجزیے میں بنیادی جھول ہے۔ :)
اچھا سا نام ذہن میں ہے۔ البتہ پاکستان آکر نجی ملاقات میں ہی بتا سکتا ہوں ۔ اسے پبلک کرنا غداری کے مترادف ہوگا:)
 

فرقان احمد

محفلین
اچھا سا نام ذہن میں ہے۔ البتہ پاکستان آکر نجی ملاقات میں ہی بتا سکتا ہوں ۔ اسے پبلک کرنا غداری کے مترادف ہوگا:)
اورکزئی صاحب سے ہی مل لیجیے گا اور اُن کو ہی بتا دیجیے گا۔ اُن سے کسی زمانے میں ہماری ملاقاتیں رہی ہیں۔ :) تاریخ کے اس عجب کردار سے مل کر ویسے آپ بہت 'انجائے' کریں گے۔ :)
 

جاسم محمد

محفلین
دھوکہ دہی سے متعلق’’گوریلا رپورٹ‘‘جسے نظر انداز کیا گیا
اسلام آباد(عمر چیمہ)دھوکہ دہی سے متعلق ’’گوریلا رپورٹ‘‘جسے نظر انداز کیا گیا،مشاہد حسین سید کے مطابق پیپلز پارٹی رہنما کو سندھ حکومت گرانے کا پیغام دیا گیا تھا۔تفصیلات کے مطابق،چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے سے چار گھنٹے قبل حزب اختلا ف کے معروف سینیٹرز راجا ظفر الحق کے دفترمیں جمع ہوئے تھے تاکہ تیاریوں کا جائزہ لے سکیں۔یہاں ن لیگ کے ایک سینیٹر نے ایسی معلومات فراہم کیں ، جس پر ان کے ساتھی یقین کرنے کو تیار نہیں تھے۔یہ معلومات اپوزیشن کو نقصان پہنچانے سے متعلق کوششوں کے حوالے سے تھی، جس میں سب سے اہم بدھ کے روز ہونے والا اجلاس تھا۔مشاہد حسین سید نے شرکا کو بتایا کہ میری گوریلا رپورٹ کے مطابق، ایک بزنس مین نے پیپلز پارٹی رہنما سے آدھی رات کو ملاقات کی تھی۔انہوں نے ان دونوں کے نام بتائے۔
بزنس مین کی ذمہ داری یہ پیغام پہنچانا تھی کہ سینیٹ میں عدم تعاون کی صورت میں سندھ حکومت گرادی جائے گی اور دیگر سہولیات بھی واپس لے لی جائیں گی۔اس کے بعد پیپلز پارٹی رہنما نے اپنے رشتے دار کو یہ پیغام پہنچایا ، جو کہ خود بھی سیاست میں ہیں تاکہ وہ مطلوبہ ہدایت آگے پہنچا سکے۔مشاہد حسین سید کی فراہم کردہ معلومات شرکاء کے لیے کسی دھماکے سے کم نہیں تھی۔ان شرکا میں میر حاصل بزنجو،میاں رضا ربانی، شیری رحمان اور جاوید عباسی شامل تھے۔رضا ربانی نے شرکاء کو بتایا کہ وہ بزنس مین اور اپنی پارٹی رہنما کے درمیان ملاقات کی تصدیق یا انکار نہیں کرسکتے،تاہم ، انہیں پورا یقین ہے کہ پیپلز پارٹی سینیٹر ز کو کوئی ہدایت نہیں دی گئی ہے۔شیری رحمان نے بھی اس پر توجہ نہیں دی۔جس کے بعد مشاہد حسین سید نے ان سے کہا کہ انہوں نے جو باتیں کی ہیں انہیں نظر انداز کردیا جائےلیکن اپنے سینیٹرز پر نظر رکھی جائے۔اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔مشاہد حسین سید کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق، پیپلز پارٹی رہنما نے پارٹی کے پانچ سینیٹرز کو ہدایت کی تھی کہ وہ پارٹی لائن کے خلاف ووٹ دیں۔اس معاملے میں ملوث حکومتی حلقوں کے ذرائع نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ پیپلز پارٹی کے دو دیگر سینیٹرز نے صادق سنجرانی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔انہوں نے آزادانہ طور پر پارٹی ہدایت کے خلاف ایسا کیا۔یعنی پیپلز پارٹی کے مجموعی سات سینیٹرز نے ، جب کہ ن لیگ اور دیگر چھوٹی اپوزیشن جماعتوں کے بھی سات سینیٹرز نے پارٹی ہدایت کے خلاف ووٹ دیا ، چوں کہ انتباہ پر کان نہیں دھرے گئے اس لیے اپوزیشن کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔
تحریک عدم اعتماد میں ناکامی کے بعد اپوزیشن الائنس کا اجلاس منعقد کیا گیا، جس کا مقصد زخموں پر مرہم رکھنا تھا۔شہباز شریف نے مشترکہ کمیٹی کے قیام کی تجویز دی جو تحقیقات کرے کہ دھوکہ دہی میں کون ملوث ہے اور ان کی پارٹی تعلق سے قطع نظر سب کو یکساں سزا دی جائے۔اے این پی اور دیگر ارکان نے اس تجویز سے اتفاق کیا۔تاہم، ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کے نمائندگان نے اس تجویز کو مسترد کردیااورکہا کہ ان کی جماعت علیحدہ سے کارروائی کرے گی۔اب ، جب کہ اپوزیشن سینیٹر ز ماضی کی جانب دیکھتے ہیں تو وہ اس کی ممکنہ وضاحت کی جانب بھی نظر کرتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے لچک کا مظاہرہ کیوں نہیں کیاکہ اپوزیشن سلیم مانڈوی والا کو ووٹ نا دیتی اور اس کے بجائےحکومت کی ان کے خلاف تحریف عدم اعتماد کو کامیاب ہونے دیتی۔رولز کے مطابق، یہ ثابت کرنا تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والوں کی ذمہ داری تھی کہ سلیم مانڈوی والا بیشتر ارکان کی حمایت کھو بیٹھے ہیں۔تاہم، اپوزیشن جماعتوں کا اصرار تھا کہ انہیں ان کی حمایت میں بھی ووٹ دینا چاہیئےتاکہ ایوان میں ان پر اعتماد کا مظاہرہ کیا جاسکے۔حکومت نے تحریک عدم اعتماد کے دوران صادق سنجرانی کو ووٹ دیا تھا حالاں کہ اس کے پاس اکثریت نہیں تھی۔اپوزیشن کی یہ تجویز کہ سلیم مانڈوی والا کے کیس میں بھی یہی بات دہرائی جاتی کو مسترد کیا گیا کیوں کہ پیپلز پارٹی سینیٹرز کا کہنا تھا کہ ان کے پارٹی اجلاس میں یہ فیصلہ ہوچکا تھا کہ اس طرح کے کسی بھی عمل کا انعقاد نہیں کیا جائے گا۔اگر ایسا کیا جاتاتو اس سے پیپلز پارٹی سینیٹرز کے کردار پر مزید شکوک وشبہات پیدا ہوتے۔64میں سے اپوزیشن کے 50سینیٹرز نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتما د کی حمایت کی تھی ۔اگر اسی طر ز پر ووٹ دیئے جاتے تو سلیم مانڈوی والا کو شکست ہوجاتی اور ایک نئی بحث کا آغاز ہوتا کہ اگر 53یا زائد ان کے حق میں ووٹ دیتے اور وہ لوگوں کو سوچنے پر مجبور کردیتے کہ وہ کون ہیں اور انہوں نے دھوکہ کیوں دیا جب کہ تحریک عدم اعتماد صادق سنجرانی کے خلاف تھی۔
 

جاسم محمد

محفلین
پہلے اپوزیشن کو سپورٹ کرنے والے لفافے سینٹ میں ذلیل ہوئے لیکن دل نہیں بھرا۔ جس کے بعد سوشل میڈیا پر ذلیل ہوگئے :)
 

جاسم محمد

محفلین
جنرل فیض سے توقع ہے اپنے ادارے کو سیاست سے الگ رکھیں گے، بلاول
ویب ڈیسک 2 گھنٹے پہلے
1766248-bilawalz-1564827996-679-640x480.jpg

جہانگیر ترین اور گورنر پنجاب نے پی پی سینیٹرز سے رابطہ کیا تھا، چیرمین پیپلز پارٹی فوٹو:فائل

لاہور: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ جنرل فیض حمید سے توقع ہے کہ آئی ایس آئی کو سیاست سے الگ رکھیں گے۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری نے لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹ ووٹنگ میں کھلے عام دھاندلی ہوئی، پی پی پی کے تمام سینیٹرز نے استعفیٰ دے دیے ہیں لیکن ہم نے اب تک کسی کا استعفی قبول نہیں کیا بلکہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی ہے، جب تک تحقیقات کا عمل مکمل نہیں ہوجاتا میں کسی پر شک نہیں کرسکتا، پی پی پی سینیٹر کو دھمکیاں بھی دی گئیں جبکہ جہانگیر ترین اور گورنر پنجاب چوہدری سرور نے بھی رابطہ کیا تھا۔

حاصل بزنجو کے جنرل فیض پر الزامات سے متعلق سوال کے جواب میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ قانون کو توڑنے والوں اور غیر جمہوری طاقتوں کو عدالتی مدد دینے والوں پر سنگین غداری کا آرٹیکل 6 لگتا ہے، یہ آرٹیکل صرف ان لوگوں پر لاگو ہوتا جو آئین کو توڑیں۔

بلاول کا کہنا تھا کہ چیرمین سینیٹ کیخلاف ووٹنگ میں جنرل فیض کی مداخلت کی میرے پاس کوئی خبر نہیں آئی لیکن غیر جمہوری قوتیں اس معاملے میں ملوث تھیں، ماضی میں آئی ایس آئی سیاست میں اور دھاندلی کےلیے استعمال ہوئی ہے، اب وہ چیزیں نہیں ہونی چاہئیں، آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض سے بڑی توقعات ہیں کہ اپنے ادارے کو سیاست سے الگ رکھیں گے، متنازع نہیں بننے دیں گے، اور حکومت کے ہاتھوں اپنے ادارے کو استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
بلاول کا کہنا تھا کہ چیرمین سینیٹ کیخلاف ووٹنگ میں جنرل فیض کی مداخلت کی میرے پاس کوئی خبر نہیں آئی لیکن غیر جمہوری قوتیں اس معاملے میں ملوث تھیں، ماضی میں آئی ایس آئی سیاست میں اور دھاندلی کےلیے استعمال ہوئی ہے، اب وہ چیزیں نہیں ہونی چاہئیں، آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض سے بڑی توقعات ہیں کہ اپنے ادارے کو سیاست سے الگ رکھیں گے، متنازع نہیں بننے دیں گے، اور حکومت کے ہاتھوں اپنے ادارے کو استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
بلاول کی چھوٹی چھوٹی خواہشیں :)
 
Top