چئیرمین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام

جاسم محمد

محفلین
اپوزیشن کا چیئرمین سینیٹ کو ووٹ دینے والے ارکان کیخلاف کارروائی کا فیصلہ
ویب ڈیسک 2 گھنٹے پہلے
1764117-shahbazsharif-1564669384-822-640x480.jpg

تحریک عدم اعتماد کے حق میں 50 ووٹ پر چیئرمین سینیٹ کو اخلاقی طور پر چلے جانا چاہیے۔ فوٹو: اسکرین گریب

اسلام آباد: قومی اسمبلی میں قائد حزب ِ اختلاف شہباز شریف نے کہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی ناکامی میں کچھ ضمیر فروشوں نے ضمیر فروشی کی۔

چیئرمین سینیٹ کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک ناکام ہونے پر اپوزیشن چیمبر میں شہباز شریف کی زیر صدارت اپوزیشن رہنماؤں کا اجلاس ہوا جس میں چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری، خورشید شاہ، (ن) لیگ اور جے یو آئی (ف) کے ارکان نے شرکت کی۔

اجلاس میں اپوزیشن کی چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کے عوامل کا جائزہ لیا گیا اورپارٹی پالیسی سے انحراف کرنے والے اراکین کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔

بعد ازاں میڈیا سے بات کرتے ہوئے شہبازشریف کا کہنا تھا کہ سلیکٹڈ حکومت ضمیرفروش سے سینیٹ میں جیت گئی، دھاندلی زدہ الیکشن کی تاریخ آج پھردہرائی گئی، ہمارے 14 ووٹ چیئرمین صادق سنجرانی کو گئے، تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کچھ ضمیر فروشوں نے ضمیر فروشی کی، کن لوگوں نے ایسا کیا ضرور پتہ لگائیں گے، اگلے ہفتے ہم پھراے پی سی کال کریں گے۔

اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آج کٹھ پتلی کامیاب ہوا،عوام پر ظلم کیا گیا، ہماری ہارمیں بھی جیت ہے،یہ کس چیزکی خوشیاں منارہے تھے؟ ہم اس چیئرمین سینیٹ کا مقابلہ کریں گے، سینیٹرز کو خریدنے کے باوجود 50 سینیٹر نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف ووٹ دیا،50 سینیٹرز نے اس جعلی سلیکٹڈ چیئرمین سینیٹ کیخلاف ووٹ دیا، اخلاقی طور پر انہیں چلے جانا چاہیے۔

قبل ازیں سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر راجا ظفر الحق نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں صبح سے اندازہ تھا، ہمیں معلوم تھا کہ لوگ دوسری طرف جائیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
آج کی اس ذلت سے ثابت ہو چکا ہے کہ ملک میں اصل اقتدار جس کے پاس ہے اسی کے پاس رہنا ہے۔ اپوزیشن اگر حکومت کے خلاف کچھ کرنا چاہتی ہے تو مقتدر حلقوں سے ڈیل یا ڈھیل مانگے۔ وگرنہ آج واضح اکثریت کے باوجود ان کے ساتھ جوہوا ہے۔ یہی کچھ اگلے 4 سالوں میں ہوتا رہے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی ناکامی نوشتہ دیوار ہے
01/08/2019 ناصر اقبال خان 1,115 Views

ہماری سیاست کے سینے میں دل نہیں دھڑکتا مگر نناوے فیصد سیاستدانوں کے دل صرف اقتدار کے لئے دھڑکتے ہیں۔ ہماراسیاسی کلچر تبدیل ہونہ ہو لیکن سیاستدانوں کارنگ دن میں کئی بار گرگٹ کی طرح ضروربدلتا ہے۔ باب العلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کاقول ہے، ”طاقت اوردولت ملنے سے انسان بدلتا نہیں بلکہ بے نقاب ہوجاتا ہے“۔ ہمارے کئی سیاستدان اقتدارمیں آنے کے بعد نہ صرف بری طرح بے نقاب ہوئے بلکہ زیرعتاب بھی آئے مگر عوام کی آنکھوں پربندھی شخصیت پرستی کی پٹیاں پھر بھی نہیں اتریں۔

ووٹرز کی شخصیت پرستی یعنی بت پرستی سیاسی قیادت کی مفادپرستی سے بدتر ہے۔ اگرعوام اپنے نمائندوں کومنتخب کرتے وقت ان کے کرداراورمعیار کاخیال نہیں رکھیں گے توان کا اپنامعیار زندگی ہرگز بلند نہیں ہوگا جبکہ ہماری ریاست کی حالت زاربھی نہیں بدلے گی۔ عوام اس سیاست کوتواناکریں جوریاست اورریاستی اداروں کی مضبوطی کے لئے ہولیکن جوسیاستدان ریاست کے ساتھ سیاست کررہے ہیں اقتدار کے ان دیوانوں کو منتخب ایوانوں سے بہت دوررکھنا ہوگا۔

سرورکونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہیں، ایک صحابیؓ ؓنے بارگاہ رسالت ؐ میں عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم مومن اورمنافق میں کس طرح فرق کرسکتے ہیں، سراپارحمت ؐنے ارشاد فرمایا اس مجلس میں حضرت علی ؓ کاذکر کرومومن خوش ہوں گے جبکہ منافقین کے چہروں پر ناگواری نمایاں ہو گی۔ میں سمجھتا ہوں اگر ہم نے پاکستان کے محبان اورغداروں سمیت دشمنان کو شناخت کرنا ہوتوان کے روبروپاک فوج کی کامرانیوں، قربانیوں اورشہداء کی شجاعت کے واقعات بیان کریں تومحبان وطن یقینا رشک کریں گے جبکہ غدار وں کاخبث باطن باہرآجائے گا۔

وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورہ امریکا میں پاکستان کے دبنگ سپہ سالار اعظم جنرل قمرجاویدباجوہ بھی ان کے ساتھ تھے جس پرمخصوص عناصر کی طرف سے بیجا تنقیدکی گئی۔ جوپاک فوج کاخیراندیش نہیں وہ پاکستان کاخیرخواہ نہیں ہوسکتا۔ ہماری منتخب اورمخلص دفاعی قیادت کا ایک پیج پرہونا قوم کی خوش قسمتی اوراستحکام پاکستان کے لئے نیک فال ہے۔ ماضی میں منتخب حکمران دفاعی قیادت کے مدمقابل آتے رہے جس سے ہمارا ملک نقصان اٹھاتارہا۔

اناپرست حکمران ریاستی اداروں کویرغمال بنانے کی دوڑ میں اپنے اقتدارپرخودکش حملے کرتے رہے۔ پنجاب سمیت چاروں صوبوں کی پولیس بھی پاک فوج کی طرح آزادوخودمختاراورپروفیشنل ادارہ بن جائے، یہ عوام کی دیرینہ آرزوہے جبکہ ہمارے بیشتر سیاستدان پاک فوج کوبھی پولیس کی طرح اپنا ”فرمانبردار“ بنانے کے خواہاں ہیں۔ آج پاکستان کے لئے پاک فوج سے ہروہ کام لیا جارہا ہے جووہ بہترانداز سے کرسکتی ہے۔ پاکستان کی بنیادوں کواپنے خون سے سینچنے والے فوجی جانبازہمارے محبوب ہیں جبکہ پاک فوج ہماراسرمایہ افتخار ہے۔

پاک فوج نے جہاں جنرل قمر جاویدکی قیادت میں دہشت گردوں کی قمرتوڑی وہاں بھارتی جارحیت کاکراراجواب دیا۔ وزیراعظم عمران خان نے دورہ امریکا کے دوران انتہائی پرسکون اورپراعتماد اندازمیں دھواں دار بلے بازی کرتے ہوئے کریز کے چاروں طرف شاندار شاٹ کھیلے۔ وزیراعظم عمران خان کی خوداعتمادی ان کی خودداری کانتیجہ ہے۔ نیازی سرنڈر نہیں کیا کرتے، امریکا میں عمران خان کی سربلندی، سروری، برتری اورسرفرازی نے یہ بتادیاہے۔ مہنگائی نے کسی حدتک عمران خان کاسیاسی گراف گرادیا تھا مگر کامیاب دورہ امریکا نے انہیں پھرسے عوام میں مقبول اورعوام کامحبو ب بنادیا۔ عمران خان کے کامیاب دورہ امریکا سے جہاں بھارت میں صف ماتم بچھ گئی ہے وہاں پاکستان کی چندسیاسی پارٹیاں بھی ہنوز حالت سوگ میں ہیں۔

پنجاب کے زیرک اورانتھک صوبائی وزیر اطلاعات میاں اسلم اقبال نے کہا ”کپتان نے امریکہ میں بھارت کوناک آؤٹ کردیا“ وہ اپنے قائداوروزیراعظم عمران خان کے حالیہ تاریخی اورکامیاب دورہ امریکاپربامعنی تبصرہ کر رہے تھے۔ کپتان عمران خان اپنے پرجوش اورپرعزم ٹیم ممبر میاں اسلم اقبال سے جوکام لے رہے ہیں وہ اس سے بھی برترپوزیشن پر بہترطورپرکام کرسکتے ہیں تاہم وزرات اطلاعات کے لئے میاں اسلم اقبال کا انتخاب دیرآئددرست آئدکے مصداق ہے۔

میاں اسلم اقبال جذباتی یاشرارتی نہیں بلکہ منفرد، موثر، مثبت اورمنجھے ہوئے سیاسی اسلوب کے ساتھ بات کرتے ہیں، معاشرے کے مختلف طبقات میں ان کی بات غورسے سنی جاتی ہے۔ ریاست یاجماعت کے لئے اطلاعات کاشعبہ انتہائی حساس ہوتاہے اور اس کاقلمدان احساس سے عاری کسی شخص کونہیں دیاجاسکتا۔ میاں اسلم اقبال کی شخصیت میں استقلال اورسیاست میں استدلال ہے۔ مرکزمیں کپتان اپنے ٹیم ممبرز فوادچوہدری اورفردوس عاشق کے درمیان تناؤسے چشم پوشی نہیں بلکہ انہیں نصیحت کریں کیونکہ وہ ٹیم کامیاب ہوتی ہے جس کے ٹیم ممبرز ایک دوسرے کو ”پاس“ دیتے ہیں جبکہ ایک دوسرے کو ”بائی پاس“ کرنیوالے فیل اورفلاپ ہوجاتے ہیں۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی قرارداد کافیصلہ آنے والے چندروزتک ہوجائے گا۔ راقم نے 12 جولائی کے اپنے کالم میں بھی تحریک عدم اعتماد کی ناکامی کاعندیہ نہیں دیا بلکہ دعویٰ کیا تھا۔ میرے نزدیک اس تحریک عدم اعتماد کی ناکامی نوشتہ دیوار ہے کیونکہ مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کے قائدین کی ”کمزوریاں“ اور ”مجبوریاں“ کسی قیمت پراپوزیشن کومتحد اورتوانانہیں ہونے دیں گی۔

مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی درحقیقت ریل کی وہ دوپٹڑیاں ہیں جودورتک ساتھ توچل سکتی ہیں مگر ا ن کاملن کبھی نہیں ہوسکتا۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف چارج شیٹ کے لئے اپوزیشن کے پاس کوئی جوازاور مواد نہیں، صادق سنجرانی کاواحد سیاسی گناہ اپوزیشن کا ناجائز چارٹرآف ڈیمانڈ تسلیم نہ کرنا اور ان کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی نہ بننا ہے۔ آصف زرداری کاخیال تھا صادق سنجرانی کی کامیابی ان کے مرہون منت ہے لہٰذاء وہ ان کے مفادات کاپہرہ دیں گے لیکن چیئرمین سینیٹ نے پیپلزپارٹی کے سیاسی گناہوں کابوجھ اپنے کندھوں پراٹھانے سے صاف انکارکردیا۔

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اپنے انتخاب کے بعد پاکستان اورآئین سے وفاداری کاحلف اٹھایا تھاوہ اس پرکاربند ہیں۔ اپوزیشن قیادت سینیٹ اورقومی اسمبلی کے درمیان تناؤبلکہ تصادم کے درپے ہے۔ اگراپوزیشن قیادت کولگتا ہے وہ قومی اسمبلی سے پاس ہونیوالے بل سینیٹ میں مسترد کر دے گی، اس سے ملک میں بدترین آئینی بحران پیدا ہوجائے گا اوراس کے بعدوزیراعظم عمران خان سرنڈرکردیں گے جبکہ نواز شریف اورآصف زرداری سمیت اپوزیشن کے دوسرے اسیران کورہا جبکہ احتساب کاباب بندکردیاجائے گاتویہ محض اس کی خام خیالی ہے۔

کامیاب دورہ امریکا کے بعد وزیراعظم عمران خان کامورال مزید بلندہوگیاہے۔ بے رحم احتساب کے حامی وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن کے عزائم ناکام بنانے کے لئے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کوڈٹ جانے کامشورہ دیاتھا اوروہ پوری طرح ڈٹ گئے ہیں کیونکہ فرزندبلوچستان صادق سنجرانی کواپنے منصب سے زیادہ پاکستان، آئین اورسینیٹ کاوقارعزیز ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے اپوزیشن چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک اعتماد کی قرارداد ”وڈرا“ کر لے ورنہ شکست اورخفت کے سواکچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم کے روح رواں مولانافضل الرحمن کے پاس گنوانے کے لئے کچھ نہیں بچاکیونکہ وہ توپارلیمنٹ سے باہر ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کی قیادت کابہت کچھ داؤپرلگا ہواہے۔ ان کے اپنے ”کرم“ انہیں انتہائی قدم اٹھانے سے روک رہے ہیں۔ مولانافضل الرحمن کے پاس سینیٹرز کاجووفدگیا اس کاتعلق پی ٹی آئی نہیں بلوچستان عوامی پارٹی سے تھا۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر شبلی فرازتومحض اپنے دیرینہ دوست اور ساتھی سینیٹرانوارالحق کاکڑ کے اصرار پرساتھ چلے گئے تھے۔

مولانافضل الرحمن نے کوئٹہ میں ختم نبوت کے نام پرہونیوالے حالیہ اجتماع میں سیاسی تقریر اورمنتخب حکومت پرشدیدتنقید کرتے ہوئے اکتوبر میں اسلام آبادکی طرف مارچ کانقارہ بجادیا ہے، افسوس اجتماع میں شریک مدارس کے معصوم بچوں کے اذہان وقلوب میں نفرت اورتعصب کابیج بویاگیا۔ ہماری ریاست کسی قسم کی منافرت اور مذہبی یاصوبائی کارڈ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ ہمارے ملک میں دین کے نام پرسیاست کرنیوالے بھی ”اسلام“ سے زیادہ ”اسلام آباد“ کی محبت کے اسیر ہیں۔

انہیں اسلام کاپرچم سربلندکرنے سے زیادہ اسلام آباد پراپناپارٹی پرچم لہرانے میں دلچسپی ہے۔ جودین کے نام پردنیا کی محبت میں گرفتار ہیں عوام نے انہیں 2018 ء کے انتخابات میں مسترد کردیاتھا۔ اگردین کے نام پرسیاست کرنیوالے صادق اورامین ہوتے توآج اسلامی جمہوریہ پاکستان پردین فطرت اسلام کاغلبہ ہوتا۔ جواسلام کے ساتھ وفانہیں کرتے وہ اسلام آباد کے وفادار کس طرح ہوسکتے ہیں۔

مسلم لیگ (ن) اورپیپلزپارٹی کے بیانیہ کے خلاف اعلان بغاوت کرتے ہوئے متعدد ارکان نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کرکے اپنی اپنی جماعت میں فاروڈ بلاک کی بنیادرکھ دی تھی، آنے والے دنوں میں وزیراعظم عمران خان سے مزید ارکان کے ملنے کی امید ہے۔ یقینا اپوزیشن پارٹیو ں کے سنجیدہ ارکان اپنے بدعنوان رفقاء کوبچانے کے لئے اپناسیاسی مستقبل قربان نہیں کر یں گے۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے اخلاص، مجموعی طورپران کی شاندارشخصیت اور سینیٹ میں قابل رشک رویے نے اپوزیشن کے اعتدال پسند سینیٹرز کو اپناگرویدہ بنالیا ہے، اگر اپوزیشن نے چیئرمین سینیٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس نہ لی اورخفیہ رائے شماری سے فیصلہ ہواتو اپوزیشن کے باضمیر ارکان صادق سنجرانی اوران کے سرگرم حامیوں وزیراعلیٰ بلوچستان میرجام کمال خان، سینیٹر انوارالحق کاکڑاور بلوچستان کے سابق صوبائی وزیرداخلہ سرفرازخان بگٹی کوہرگزمایوس نہیں کریں گے۔

وزیراعظم عمران خان کے سٹینڈ جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان میرجام کمال خان، سینیٹر انوارالحق کاکڑاوربلوچستان کے سابق صوبائی وزیرداخلہ سرفرازخان بگٹی نے اپنے صادق جذبوں سے بازی پلٹ دی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے سٹینڈ کی بدولت چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اب ڈینجرزون میں نہیں رہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان میرجام کمال خان، پاکستانیت کے علمبردارسینیٹر انوارالحق کاکڑاور سرفرازخان بگٹی کے سینیٹ میں اپوزیشن ارکان سے رابطے رائیگاں نہیں جائیں گے۔

بلوچستان کی زیرک قیادت میرجام کمال خان، سینیٹر انوارالحق کاکڑاوربلوچستان کے سابق صوبائی وزیرداخلہ سرفرازخان بگٹی نے انتہائی سنجیدگی سے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک اعتماد کوہینڈل کرتے ہوئے اپوزیشن ارکان کے ضمیر پردستک دی ہے، سیاسی قیادت کے درمیان رابطے سے بندگلی میں بھی راستے بن جاتے ہیں۔ ان کی دستک سے اپوزیشن ارکان کے دروازے کھلیں نہ کھلیں روشن دان ضرور کھلیں گے۔ صادق سنجرانی کوگراتے گراتے اپوزیشن خودناک آؤٹ ہوجائے گی۔ قومی سیاست میں صادق سنجرانی جیسی نفیس شخصیات کادم غنیمت ہے، بلوچستان سمیت چاروں صوبوں میں کوئی ان کی شخصیت اورسیاست پرانگلی نہیں اٹھاسکتا، وہ آئینی منصب سے ہٹانے نہیں بلکہ سرآنکھوں پربٹھانے کے قابل ہیں۔
 

جان

محفلین
کمال ہے بھئی۔ پیپلز پارٹی ۴۰ سالوں میں سندھ کو روٹی کپڑا مکان نہ دے سکی۔ ن لیگ ۳۰ سالوں میں لاہور کو پیرس نہ بنا سکی۔ لیکن وہ اب بھی اہل ہیں بلکہ اصل جمہوری لوگ ہیں۔
البتہ تحریک انصاف صرف ۵ سال میں وعدہ کے مطابق تبدیلی لا کر دکھائے۔ نہیں تو نااہل سمجھی جائے گی۔ مان گئے بھئی ایسی “باشعور” عوام کے مطالبات کو :)
اگر اہلیت کا یہی معیار دیگر سیاسی جماعتوں کے لئے بھی رکھا ہوتا تو آج تحریک انصاف کی حکومت نہ ہوتی :)
اول تو ہم کئی بار کہہ چکے ہیں کہ ہمارا فوج کے سائے میں پلنے والی سیاسی پارٹیوں سے کوئی تعلق نہیں لیکن آپ بضد ہیں کہ اپنی حکومت کی نااہلی کا موازنہ دوسروں کی نااہلی سے کرنا ہے۔ موازنہ کرنے سے قبل اپنے دعوے تو ایک بار سن لیا کریں، بھول گئے ہوں تو یہاں پیش کروں؟
دوم آپ اعتراف کر رہے ہیں کہ پانچ سال بعد بھی اہلیت یہی ہو گی جو آج ہے۔
تیسرا ہمیں باشعور قطعی نہ سمجھا جائے اگر ہوتے تو کم از کم خان صاحب ابھی اقتدار میں نہ ہوتے۔ جو قوم ریاست مدینہ اور مذہب کے نام پہ بلیک میل ہو جاتی ہے اس سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔ ہم اعتراف کرتے ہیں کہ ہم آپ جتنے باشعور قطعی نہ ہیں کہ 40 اور 30 سالہ جیسی من گھڑت تاریخ ایجاد کرنے کے بعد کہیں کہ خان صاحب پانچ سال پورے کرنے والے پہلے وزیراعظم ہونگے اتنی اللوجیکل اور متضاد باتیں اور ایسے گھٹیا پروپیگنڈے کا سہرا تو باشعور پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم کو جاتا ہے! ہمیں فخر ہے اس بات پہ کہ ہم تھوڑی بہت تاریخ سے واقف ہیں اور کسی شخصیت پرستی میں مبتلا نہ ہیں کہ اس کے غلط کو بھی صحیح ثابت کرنے میں جت جائیں! تحریکِ انصاف کی اہمیت میرے نزدیک ایک رجعت پسند سیاسی مسلک سے زیادہ کچھ نہیں!
 

جاسم محمد

محفلین
ہم اعتراف کرتے ہیں کہ ہم آپ جتنے باشعور قطعی نہ ہیں کہ 40 اور 30 سالہ جیسی من گھڑت تاریخ ایجاد کرنے کے بعد کہیں کہ خان صاحب پانچ سال پورے کرنے والے پہلے وزیراعظم ہونگے اتنی اللوجیکل اور متضاد باتیں اور ایسے گھٹیا پروپیگنڈے کا سہرا تو باشعور پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم کو جاتا ہے!
پیپلز پارٹی 1970 اور ن لیگ 1990 سے کسی نہ کسی شکل میں اقتدار میں رہی ہیں۔ لیکن ہمیشہ یہ رونا روتی رہی ہیں کہ ملک کے وزیر اعظم کو آئینی مدت پوری نہیں کر نی دی جاتی۔
میں نے اس حوالہ سے لکھا تھا کہ اگر عمران خان تمام تر اپوزیشن کے باوجود 5 سال نکال گئے تو پھر آپ کا بیانیہ کیا ہوگا۔
 

جاسم محمد

محفلین
مجھے صرف یہ بتائیے کہ کابینہ کے کتنے فیصد ممبران ہیں جو پچھلے تیس، چالیس سالوں میں مختلف حکومتوں کا حصہ نہیں رہے؟
ایک دو کو چھوڑ کر باقی سارے پرانی حکومتوں میں رہ چکے ہیں۔ اسی لئے تو حکومت کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
یہ جنرل فیض کے لوگ ہیں۔ جنرل فیض آئی ایس آئی کے چیف ہیں: حاصل بزنجو
یعنی انگور کھٹے ہیں :)
اس سے کیا فرق پڑتا ہے! :) ہم اُس دن کے منتظر ہیں جب اِس مُلک میں اُصولوں کی سیاست ہو گی۔ :) ہم قحط الرجال کا شکار ہیں۔ :) سیاست دان ہوں یا عسکری صفوں میں موجود افسران، زیادہ تر افراد ابن الوقت ہیں۔ مزید کیا کہا جائے!
 

جاسم محمد

محفلین
اس سے کیا فرق پڑتا ہے!
بس ویسے ہی سُنا تھا کہ مقتدر حلقوں ، حکومت نے صحافیوں اور میڈیا پہ "سچ" بولنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
آج حاصل بزنجو کا یہ ایجنسی مخالف بیان مختلف ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر چلتا رہا۔ کوئی صحافی غائب ہوا نہ کوئی چینل بند ہوا۔ ;)
 

فرقان احمد

محفلین
بس ویسے ہی سُنا تھا کہ مقتدر حلقوں ، حکومت نے صحافیوں اور میڈیا پہ "سچ" بولنے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
آج حاصل بزنجو کا یہ ایجنسی مخالف بیان مختلف ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر چلتا رہا۔ کوئی صحافی غائب ہوا نہ کوئی چینل بند ہوا۔ ;)
ایسے مقتدر حلقے اور سیاست دان کس کام کے؟ ان پر کیا بات کی جائے! :) وقت ضائع کرنے سے کیا حاصل!
 

جاسم محمد

محفلین
ایسے مقتدر حلقے اور سیاست دان کس کام کے؟ ان پر کیا بات کی جائے! :) وقت ضائع کرنے سے کیا حاصل!
کسی کام کے نہیں۔ لیکن کم از کم یہ کریڈٹ تو دیں کہ اب بات خلائی مخلوق، اسٹیبلشمنٹ، محکمہ زراعت سے ہوتے ہوئے سیدھا سازش کرنے والے جرنیلوں کے اصل ناموں تک پہنچ چکی ہے۔ :)
 

فرقان احمد

محفلین
کسی کام کے نہیں۔ لیکن کم از کم یہ کریڈٹ تو دیں کہ اب بات خلائی مخلوق، اسٹیبلشمنٹ، محکمہ زراعت سے ہوتے ہوئے سیدھا سازش کرنے والے جرنیلوں کے اصل ناموں تک پہنچ چکی ہے۔ :)
یہ جرنیل صرف ملکی سیاست میں کمالات دکھا سکتے ہیں۔ جب اصل محاذ پر مقابلہ ہو تو پھر آپ کو معلوم ہی ہے کہ سول قیادت کو جا کر انہیں چھڑوانا پڑتا ہے۔ :)
 
Top