جدید مسلم ذہن میں علم کی دوئی کا مسئلہ

آصف اثر

معطل
جبکہ مغربی نظریہ میں سائنس یا اسٹیبلشڈ فیکٹس کو ہی علم کہا جاتا ہے۔ وحی و الہام کی کوئی حیثیت نہیں۔
ان مذہب پسندوں میں سے ایک تو وہ ہیں جو ... ’جدید مغربی تہذیب‘ نامی کسی ایک ٹھوس اکائی کو نظریاتی طور پراپنے مقابل فرض کر کے اس کے خلاف جہاد کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
سچ پوچھئیے تو ہمیں ان سے اس کے علاوہ کوئی شکایت نہیں کہ وہ ہم جیسے کیوں نہیں، یعنی مان کیوں نہیں لیتے کہ جدید دور میں تہذیبی سرحدیں تیزی سے انہدام پذیر ہیں اور کم از کم اتنی دھندلا چکی ہیں کہ مشرق و مغرب کی تہذیبی دوئی ایک ایسا قصہ پارینہ ہے جو بس تاریخِ فکر کی کتابوں میں ہی ڈھونڈنے سے ملتا ہے۔
اب کون درست ہے اور کون غلط، فیصلہ آپ ہی کردیجیے۔
البتہ یہاں ”تہذیبی سرحدیں“ کے الفاظ آیا ”نظریاتی سرحدات“ کی ترجمانی کررہےہیں یا نہیں، یہ واضح نہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
جاسم محمد المعروف عارف کریم
میرے دو سوالوں کا یہ جواب نہیں ہے۔
پہلے سوال کا جواب آپ اس لیے چھوڑ گئے کیوں کہ کالم نگار کا پروپگنڈا اس پر مبنی ہے۔
کالم نگار پروپگنڈسٹ سے پوچھیے کہ یہ اصطلاحات ریاضی کی ہیں یا طبیعات کی یا کیمیا کی یا کمپیوٹر سائنس کی یا سیاسی و سماجی علوم کی؟
  • مارکسسٹ اور پوسٹ مارکسسٹ نقاد
  • سرمایہ دارانہ لبرل ہیومنزم
  • تہذیبی مباحث کا تجزیہ
 

جاسم محمد

محفلین
اس پر میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ ذرا یہ بتائیں جب پہلے نکتے میں کہہ بھی دیا گیا کہ جو علوم براہِ راست قرآن کریم، حدیث شریف اور دینی احکام سے جُڑے ہوئے ہیں، وہ علم ہے اور جن امور کا ”اِصالۃً تعلق“ کسبِ معاش ہے وہ فن وہنر ہے۔ تو پھر اس پر اعتراض کیا ہے؟
یہ علم کی تعریف ہے؟
 

آصف اثر

معطل
جاسم محمد المعروف عارف کریم
میرے دو سوالوں کا یہ جواب نہیں ہے۔
پہلے سوال کا جواب آپ اس لیے چھوڑ گئے کیوں کہ کالم نگار کا پروپگنڈا اس پر مبنی ہے۔
کالم نگار پروپگنڈسٹ سے پوچھیے کہ یہ اصطلاحات ریاضی کی ہیں یا طبیعات کی یا کیمیا کی یا کمپیوٹر سائنس کی یا سیاسی و سماجی علوم کی؟
  • مارکسسٹ اور پوسٹ مارکسسٹ نقاد
  • سرمایہ دارانہ لبرل ہیومنزم
  • تہذیبی مباحث کا تجزیہ
مخاطب کون ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ ڈاکٹر عبدالسلام کو کافر مانتے ہیں یا نہیں؟
جواب ہاں یا نہیں میں دیں۔ اگر بالفرض آپ کا جواب ”ہاں“ میں ہو، تو کیا وہ اس فیصلے کو تسلیم کرتے تھے یا نہیں؟
یہ پوچھنا کیوں ضروری ہے، یہ آپ کے جواب کے بعد۔
قادیانی 1974 کی آئینی ترمیم سے قبل بھی اپنےآپ کو مسلمان تصور کرتے تھے اور اس کے بعد بھی کرتے ہیں، اور کرتے رہیں گے۔
مسلم اکثریت قادیانیوں کو مسلمان تصور نہ بھی کرے تو اس سے قادیانیوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ معاملہ ان کا اور رب کے درمیان ہے۔
ایک طرف آئین میں لکھا ہے کہ ہر شہری کو اپنے مذہب کی آزادی ہے۔ دوسری طرف وہی آئین ایک شہری سے یہ آزادی لے کر کہتا ہے کہ اب تم خود کو مسلمان نہیں کہہ سکتے۔
اس قسم کی مضحکہ خیز قانون سازی اور کہیں دیکھنے کو نہیں ملتی۔
 

جاسم محمد

محفلین
اب کون درست ہے اور کون غلط، فیصلہ آپ ہی کردیجیے۔
البتہ یہاں ”تہذیبی سرحدیں“ کے الفاظ آیا ”نظریاتی سرحدات“ کی ترجمانی کررہےہیں یا نہیں، یہ واضح نہیں۔
درست اور صحیح کا فیصلہ پڑھنے والے پر چھوڑتا ہوں۔
بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اسلامی اور مغربی تہذیب مختلف ہے۔ ان میں بہت کم قدریں مشترک ہیں۔
نظریہ علم، قانون سازی، معیشت و اقتصادیات، نظام حکومت، سماج و طرز معاشرت میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔
اسلام اور مغرب میں نظریات کا شدید ٹکراؤ بھی اسی وجہ سے ہے۔
اس لئے ان دو بالکل مختلف تہذیبوں کو آپس میں گڈمڈ کرنے کی بجائے کسی ایک تہذیب کا انتخاب کر کے اسی کے مطابق زندگی گزارنی چاہئے۔
 

محمد سعد

محفلین
اس کو تو آپ یہاں سے سمجھ سکتے ہیں۔ پریشان نہیں ہونا۔
یا شاید یہاں سے

عملی بنیادوں پر ہونے والے مشاہداتی اعتراضات کا مطلب معاشرے میں پھیلا دیسی لبرلوں اور غیرلبرلوں کا وہ جم غفیر ہے، جن کی تعلیم کا مقصد محض روزی روٹی اور عہدے و مراعات ہیں۔ اور جس کو آپ بھی تسلیم کرچکے ہیں۔ اس مقام پر آکر عاصم بخشی کو بجا طور پر شرمندہ ہونا چاہیے کہ جو طلبہ فیلڈ میں ہیں اُن کی حالت پر رحم کھانے کے بجائے ایسے نکتے پر واویلا مچانے کی اداکاری کررہاہےکہ جس کو وہ خود ہی سمجھ نہیں سکے ہیں۔
ایک تو مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آپ زبردستی لوگوں کو وہ باتیں کیوں تسلیم کروا رہے ہوتے ہیں جن کے متعلق انہوں نے ابھی اپنی رائے کا اظہار کیا بھی نہیں ہوتا۔
خیر، بات آپ کی کافی حد تک درست ہے کہ یہ مرض کافی عام پھیلا ہوا ہے۔ لیکن یہاں ایک بنیادی فرق ہے۔
جو لبرل روزی روٹی کے چکر تک محدود ہیں، وہ اس کی کوئی نظریاتی بنیاد رکھنے کا تکلف کرنے کے بجائے اپنی ازلی کاہلی اور ہڈحرامی پر اکتفاء کرتے ہیں۔
غیر لبرلوں میں اس حوالے سے کئی طبقات ہیں۔ کاہلی اور ہڈحرامی والا طبقہ یہاں بھی ہے، سائنس و فلسفہ کو سنجیدہ لینے والا طبقہ بھی یہاں موجود ہے، لیکن ایک طبقہ بہرحال ایسا موجود ہے کہ جس کے نظریات کے مطابق "غیر لغو" علوم بس دو طرح کے ہی ہیں۔ ایک براہ راست دینی اور دوسرا کسب معاش کی غرض سے سیکھے جانے والے۔ اس سے باہر کے علوم کو وہ لغو سمجھتے ہیں جس کے حصول پر صرف کیا گیا وقت ان کے نزدیک ضائع ہے۔
مضمون پر اگر آپ نے غور کیا ہو تو وہ اسی آخر الذکر طبقے کے حوالے سے ہے، نہ کہ ان کے حوالے سے جو مذہب کی جانب رجحان ہونے کے ساتھ ساتھ ان علوم کی اہمیت کو بھی سمجھتے ہیں۔ مضمون شروع ہی ان الفاظ سے ہوتا ہے کہ یہاں مذہب پسند کی تعریف کو کچھ خاص ذیلی طبقے تک محدود کیا جا رہا ہے۔

یہ گلہ آپ کا کہ صرف یہ نظریہ رکھنے والوں کے متعلق مضمون کیوں تحریر کیا گیا، ہڈحرامی والے طبقے کے متعلق کیوں نہیں تحریر کیا گیا، اس کو اب میں کیا کہوں۔ ایک شخص ایک وقت میں ایک ہی مضمون لکھ سکتا ہے۔ تو اسے کہیں نہ کہیں سے تو سرا پکڑنا ہی پڑے گا۔ کیا آپ کا بنیادی اعتراض یہ ہے کہ باقی ہر طبقے کے مسائل پر بات کر لی جائے لیکن جو مذہب کا نام اپنے نام کے ساتھ منسلک کرتے ہوں، انہیں کچھ بھی نہ کہا جائے، خواہ وہ مسائل کتنے ہی سنجیدہ ہوں؟ یہ تو عیسائیت کی طرز پر پاپائیت ہو جائے گی، اسلام تو کہیں دور رہ جائے گا۔

اس کے لیے تو فی الحال آپ ابہام دور کرکے یہ بتائیں کہ:
کیا آپ کی مذکورہ سرگرمیاں اور تحقیقات ”مابعدالطبیعیاتی بنیادوں“ سے متعلق ہیں یا نہیں۔
اگر ہیں تو بلاواسطہ یا بالواسطہ؟
لنکس آپ کے پاس موجود ہیں۔ آپ چاہیں تو پڑھنے کا تکلف فرما سکتے ہیں۔
اگرچہ یہ بات میرے لیے ایک معمہ رہے گی کہ جن دو نکات کو آپ نے جوڑا ہے، ان کا آپس میں تعلق کیا بنتا ہے۔
شاید آپ کنفیوژن پیدا کر کے خود اس بات کا جواب دینے سے بچنا چاہتے ہیں کہ آیا آپ اپنے کسی ایسے کام کی جانب اشارہ کر سکتے ہیں یا نہیں۔

دیکھیں، ڈسکشن کا مقصد سیکھنا ہی ہوتا ہے۔ اگر آپ کو مابعد الطبیعیاتی بنیادوں کا تصور سمجھ نہیں آ رہا تو جتنا سمجھ آ رہا ہے، وہ بتا دیں، تاکہ بہتر سمجھ کے لیے آپ کی مدد کی جا سکے۔ یوں مسلسل سوال کے جواب سے گریز کر کے اور اپنی سمجھ واضح نہ کر کے آپ کیا سیکھ لیں گے؟

یہاں یہ سوال پوچھنا برمحل رہے گا کہ کیا سید عمران صاحب کے ساتھ کوئی بھی اسلام پسند یہاں ایسا موجود ہوسکتا ہے جو قرآن کے غور وفکر کی سینکڑوں آیات کی روشنی میں اشیاء کی حقیقت جاننے اور کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اُٹھانے کے لیے کی جانے والی سائنسی تحقیقات کا انکاری ہو؟
کافی دلچسپ سوال ہے۔ سروے کیا جا سکتا ہے۔ "کیا آپ سمجھتے ہیں کہ جس سائنس و فلسفہ کا تعلق براہ راست مذہب سے نہ ہو اور وہ معاشی ترقی میں بھی معاون نہ ہو، اس پر وقت لگانا چاہیے یا نہیں؟"
یہاں مسئلہ یہ ہے کہ اپنے تجربے کے حوالے سے تو میں جانتا ہوں کہ ایسی ایک بڑی تعداد سے مجھے ذاتی حیثیت میں واسطہ پڑا ہے جو ان دونوں زمروں کے علاوہ باقی کے علوم کو لغو جانتی ہے۔ سب سے زیادہ یہ بات غالباً تبلیغی جماعت کے ساتھ لگائے اپنے وقت میں سننے کو ملی۔ ایسے کچھ رسائل بھی مجھے یاد ہیں جن میں یہ بات بار بار پڑھنے کو ملی، خاص طور پر جب کسی اور ساتھی نے نہایت اصرار کر کے زبردستی پڑھوائی کہ میرا نیچرل سائنس کی جانب رجحان ایک لغو سرگرمی ہے۔ لیکن یہاں میرے ذاتی تجربے کی کوئی حیثیت نہیں اور ہمیں بہرحال ایسے ذرائع کی طرف رجوع کرنا پڑے گا جہاں میری طرف سے کوئی ممکنہ تعصب نتائج پر اثر انداز نہ ہو سکے۔
ایسی ایک مثال کہ جس کی طرف میں آپ کی توجہ دلا سکتا ہوں۔ یہ مسئلہ اتنا پرانا ہے کہ امام غزالی بھی "المنقذ من الضلال" میں ایسے لوگوں کا تذکرہ کر چکے ہیں۔ ریاضی کی تعلیم کے حوالے سے دو مسائل کا تذکرہ کرتے ہوئے دوسرے میں ان مسلمانوں کا تذکرہ کرتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ مذہب کے دفاع کا واحد راستہ یہی ہے کہ باقی کے "دنیاوی علوم" کو سرے سے رد کر دیا جائے۔ اگر آپ غور کریں تو یہ وہی طبقہ ہے کہ جس کا تذکرہ عاصم بخشی صاحب کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ یہ طبقہ صرف "دیسی لبرلوں" کے تخیل میں نہیں پایا جاتا بلکہ امام غزالی کے دور میں بھی وافر دستیاب تھا۔
اگر یہاں عاصم بخشی صاحب pathological lying کے قصوروار ٹھہرتے ہیں تو شاید پھر امام غزالی کے بارے میں بھی آپ یہی سوچتے ہوں گے؟

پہلی بات تو یہ کہ عاصم بخشی کے دعوے کے لحاظ سے تو یہ دلیل ہی غلط ہے۔ مضمون نگار کا اگلا پیراگراف کچھ یوں شروع ہوتاہے:
کیا آپ بتا سکتےہیں کہ محدث فورم پر یہ شخصی مضمون رقم کرنے والا فرد کسی پاکستانی جامعہ کے مذکورہ تین شعبہ جات کا حاضر یا سابقہ طالب علم ہے؟ اگر نہیں تو دلیل آپ کی ضائع ہوگئی ہے۔ اگر ہاں تو اس کا ثبوت عنایت فرمائیں۔
کیا آپ واقعی یہ جملہ لکھتے ہوئے سنجیدہ تھے؟ کیا مضمون میں کسی طرح کا اشارہ موجود ہے کہ یہ مسئلہ صرف جامعات میں ریاضی، طبیعیات اور انجنئیرنگ کے شعبوں تک محدود ہے؟ یہ تو آپ محض اعتراض برائے اعتراض کیے جا رہے ہیں تاکہ تعداد بڑھا کر خود کو تھوڑا بھاری دکھا سکیں۔

اگر بالفرض ہم اس غلط دلیل کو بھی لے کر رونا شروع کردیں تو بھی ہمیں آنسو بہانے سے پہلے ہی مطمئن ہونا پڑے گا کہ یہاں بھی مضمون نگار اس پہلو کی جانب اشارہ کررہا ہے کہ ایک ”جمِ غفیر“ ان ”علوم“ پر اپنا تن من دھن لٹانے کو تیار نظر آتا ہے۔ اور جب ہم اس جمِ غفیر کے حاصل کردہ ان علوم کے نتیجے پر غور کرتے ہیں تو اِن تمام علوم کا ماحصل صرف اور صرف دنیاوی زندگی کی جاہ وحشمت ہے۔ یا محض مادیت پرستی ہے کوئی علمی انقلاب نہیں۔
کیا آپ نے جملہ ٹھیک سے پڑھا؟
"اگر ان تمام علوم کے نتیجہ پر غور کریں تو ان سب علوم کا ماحاصل صرف اور صرف دنیاوی زندگی کی جاہ وحشمت ہے۔"
علوم کے حصول کے رجحان کی وجہ کا نہیں لکھا ہوا۔ ان علوم کے "ماحاصل" کی بات کی گئی ہے کہ ان کا ماحاصل محض دنیاوی جاہ و حشمت ہی ہے۔
جب کہ آپ کی قصداً گمراہ کن چشم پوشی سے پردہ بھی اسی مضمون کے اس پیراگراف میں اُٹھتا ہے، جس میں مضمون نگار نے واضح الفاظ میں اصل کی جانب اشارہ کیا ہے:
ْ [اس بات سے علم ہوا کہ دین اسلام دنیاوی فنون کے حصول کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ ان کو دین کے تابع رکھنے کا حکم دیتا ہے۔ آج امت مسلمہ اسی نقطہ پر دھوکے کا شکار ہوئی ہے کہ امت مسلمہ کا ایک طبقہ دنیا میں ایسا مگن ہوا کہ وہ دین سے بالکل فارغ رہا اور ایک گروہ دین میں ایسا گھسا کہ دنیاوی سیادت و قیادت سے نا آشنا۔ امت افراط و تفریط کا شکار ہو گئی جبکہ علم دین اس چیز کا قطعاً حکم نہیں دیتا بلکہ اس علم کے ذریعے تو دنیا و آخرت دونوں میں بلندیاں نصیب ہوتی ہیں۔
آپ کو لوگوں پر "قصداً گمراہ کن چشم پوشی" کا الزام لگانے کی کچھ زیادہ ہی جلدی ہوتی ہے۔ اتنی جلدی کہ آپ مضمون ٹھیک سے سمجھنے کا بھی تکلف نہیں کرتے ہوتے۔
مضمون نگار پہلے پیراگراف میں مرکزی خیال نہایت واضح الفاظ میں کہہ چکا ہے۔ اس سیاق و سباق میں صاف سمجھ آتی ہے کہ "دنیاوی" علوم کی اہمیت محض جاہ و حشمت اور سیاست و قیادت تک محدود سمجھی جا رہی ہے۔
نیز جو مثال یہ دیتے ہیں،
جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ذیشان ہے:
”ان اللہ یرفع بھذالکتاب اقواما و یضع بہ آخرین“
بیشک اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے سے قوموں کو بلندیاں عطاء فرماتا ہے اور اس کو ترک کرنے کہ وجہ سے ان کو رسواکرتا ہے اور اس کی کئی مثالیں تاریخ میں ملتی ہے۔“]
اس کی تشریح میں بیشتر علمائے دین کتاب سے قرآن مراد لیتے ہیں۔
خیر۔ معذرت کہ ایسے کنفیوز شخص کا مضمون پڑھوا کر آپ کے سر میں درد کیا۔ آپ چاہیں تو اس کو نظر انداز کر کے دیگر مثالوں (دار العلوم دیوبند، تبلیغی جماعت، امام غزالی کا دور، وغیرہ) کو ایک نظر دیکھ سکتے ہیں جن سے آپ خود "گمراہ کن چشم پوشی" فرماتے ہوئے صرف اس ایک مثال پر خصوصی توجہ دے کر "گمراہ کنی" کا نتیجہ اخذ کر رہے ہیں۔

یہی وہ مقام ہے جہاں سے ہمیں اس دیسی لبرل طبقے کو آؤٹ آف توجہ کرنا پڑے گا کہ یہ نفسیاتی مریضوں کا وہ ٹولہ ہے جسے اصل مسائل کا ادراک ہی نہیں ہوسکتا۔ جو مذہب مذہب کی چیخ وپکار کرکے سعی لاحاصل میں اپنا اور دوسروں کا وقت ضائع کررہے ہیں۔
یار اگر آپ کے کان محض اس وقت کھڑے ہوتے ہیں جب آپ کی پسندیدہ پاپائیت کے حوالے سے کوئی لفظ کسی کے منہ سے نکلے تو اس میں لکھنے والوں کا کیا قصور؟
خیر، آپ کی سلیکٹیو سٹڈی کے تو کیا کہنے۔ ابھی تک تو آپ کا میرے متعلق بھی یہ خیال تھا کہ
جہاں تک قحط کا تعلق ہے تو آپ اور آپ کی کمیونٹی کمر کس لیں۔ کب تک ”مذہب پسندوں“ کے پیچھے چھپ چھپ کر اپنا وقت ضائع کرتے رہیں گے۔
جب ہر پوسٹ کے نیچے دستخط میں فورم کا لنک نہیں دیکھ سکے تو یہ کوئی عجیب بات نہیں کہ آپ کو لگتا ہے کہ لبرل لکھاری محض آپ کے پیچھے ہی لٹھ لے کر پڑا ہوا ہے۔

اس پر میں صرف اتنا ہی کہوں گا کہ ذرا یہ بتائیں جب پہلے نکتے میں کہہ بھی دیا گیا کہ جو علوم براہِ راست قرآن کریم، حدیث شریف اور دینی احکام سے جُڑے ہوئے ہیں، وہ علم ہے اور جن امور کا ”اِصالۃً تعلق“ کسبِ معاش ہے وہ فن وہنر ہے۔ تو پھر اس پر اعتراض کیا ہے؟
اعتراض یہ ہے کہ کیا آپ کے نزدیک علم کے زمرے بس یہی دو ہیں؟
اعتراض یہ بھی ہے کہ ایسی بہت تحاریر نظر سے گزر چکی ہیں اور کئی بار مبلغین سے بھی سن چکا ہوں کہ ان دونوں زمروں کے علاوہ باقی سب لغو ہے لہٰذا مسلمان کے لیے ان پر وقت لگانا گناہ ہے۔
اعترض یہ بھی ہے کہ امام غزالی کے دور سے آج تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوا اور بہانے بہانے سے سائنس و فلسفہ جیسے "دنیاوی علوم" کو شودر ذات والی کیٹیگرائزیشن کی جانب دھکیلا ہی جاتا رہا ہے۔

2۔ دوسرا ماتم آپ کے تفہیم کی صلاحیت پر۔ جب اس فن و ہنر کے لیے ”اِصالۃً تعلق“ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، پھر بھی اسے عمومی اور سطحی طور پر سمجھنے کی کوشش کسی بھی صاحب الرائے کا مزاج ہو ہی نہیں سکتا۔ کسی امر کا اصل ہی جب کسبِ معاش ہو اور اس کا فلسفے سے کوئی تعلق نہ ہو، تو پھر آپ کے ڈسکارٹے اورمیکینکل انجنئیر میں کیا فرق رہ جاتاہے، اس کی وضاحت آپ ہی فرمائیے۔
کیا سائنس، فلسفے، سوشل سائنسز، اس طرز کے علوم کا اصل محض کسب معاش ہے؟
خود ہی ایسی باتیں کر کے پھر خود ہی پوچھتے بھی ہیں کہ کس نے ایسا کچھ دعویٰ کیا۔ اعلیٰ!

سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ آپ ڈاکٹر عبدالسلام کو کافر مانتے ہیں یا نہیں؟
جواب ہاں یا نہیں میں دیں۔ اگر بالفرض آپ کا جواب ”ہاں“ میں ہو، تو کیا وہ اس فیصلے کو تسلیم کرتے تھے یا نہیں؟
یہ پوچھنا کیوں ضروری ہے، یہ آپ کے جواب کے بعد۔
یہ بھی اچھی کہی۔ دو بار یہ سوال پوچھنے کے بعد کہ آپ کی اپنی ڈاکٹر عبدالسلام کی تحقیق کے حوالے سے کیا رائے ہے کہ وہ نوبیل انعام کی مستحق تھی یا نہیں، جواب یہ ملتا ہے کہ بتاؤ عبد السلام کافر تھا یا نہیں؟
کسی کے کافر ہونے، یا اس کے اس لیبل کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے، سے اس بات کو کیا فرق پڑتا ہے کہ جو تحقیق اس نے کی تھی، اس کا معیار کیا تھا؟
کیا لیول ہے یار آپ کا! چھا گئے ہو!
 

محمد سعد

محفلین
مرکزی پوائنٹس میں سے ایک کےمتعلق۔ اسی کی جانب ہم بڑھ رہے تھے۔ فی الحال بوجوہ اس پر کچھ کہنا نہیں چاہتا۔
کہیں وہ وجوہ یہ تو نہیں کہ آپ اس کو تاش کے کھیل کی طرح دیکھ رہے ہیں جس میں آپ نے داؤ کھیلنے ہیں، پتے چھپانے ہیں اور "جیتنا" ہے، نہ کہ ایک ڈسکشن کے طور پر کہ جس سے کچھ سیکھنا ہے؟ اب تک آپ جس انداز میں سیدھے سیدھے سوالوں کے جواب دینے سے کتراتے ہوئے بات کو مسلسل گھما کر ابہام پیدا کیے جا رہے ہیں، ان سے تو یہی معلوم ہوتا ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
1- معاشرتی ڈھانچے کے سیاسی و سماجی خدوخال مرتب کرنے میں سیاسی و سماجی علوم کا کردار ہوتا ہے یا سائنسی علوم کا۔
موصوف کالم نگار نے سیاسی و سماجی معاملات میں مسلمانوں کے نظریات کو سائنسی علوم کی مخالفت ٹھہرا دیا۔
میرا نہیں خیال کہ مضمون بحیثیت مجموعی سائنسی علوم تک ہی محدود ہے۔ آخری حصہ سائنس کو بطور خاص توجہ دیتا ہے لیکن موضوع مجموعی طور پر علم کے حوالے سے پائے جانے والی "دینی و دنیاوی" کی تقسیم ہے۔
 

محمد سعد

محفلین
درست اور صحیح کا فیصلہ پڑھنے والے پر چھوڑتا ہوں۔
بنیادی نکتہ یہ ہے کہ اسلامی اور مغربی تہذیب مختلف ہے۔ ان میں بہت کم قدریں مشترک ہیں۔
نظریہ علم، قانون سازی، معیشت و اقتصادیات، نظام حکومت، سماج و طرز معاشرت میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔
اسلام اور مغرب میں نظریات کا شدید ٹکراؤ بھی اسی وجہ سے ہے۔
اس لئے ان دو بالکل مختلف تہذیبوں کو آپس میں گڈمڈ کرنے کی بجائے کسی ایک تہذیب کا انتخاب کر کے اسی کے مطابق زندگی گزارنی چاہئے۔
وقت کے ساتھ ساتھ بڑی بڑی تبدیلیاں آ جاتی ہیں۔ مختلف تہذیبوں کے مفید خواص ایک سے دوسری اور دوسری سے تیسری تہذیب تک پھیلتے ہیں۔ یوں بھی اسلام میں گنجائش تو ہے کہ "حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے، جہاں سے ملے لے لینی چاہیے۔" کہیں کہیں دیگر تہذیبوں نے بھی اسلامی تہذیب کے عناصر سے استفادہ کیا ہے۔ یہ تو ایک اجتماعی انسانی ورثہ ہے۔
 
آخری تدوین:

محمد سعد

محفلین
یوں تو "مغربی تہذیب" کی بھی کوئی ٹھوس شبیہ سازی کرنا مشکل ہے۔ خود مغرب میں ایک خطے کی تہذیب دوسرے خطے سے قدرے مختلف ہوتی ہے۔
غالباً اس جملے میں بھی یہی مراد ہے۔
اور ’جدید مغربی تہذیب‘ نامی کسی ایک ٹھوس اکائی کو نظریاتی طور پراپنے مقابل فرض کر کے اس کے خلاف جہاد کا فریضہ انجام دے رہے ہیں
 

جاسم محمد

محفلین
خود مغرب میں ایک خطے کی تہذیب دوسرے خطے سے قدرے مختلف ہوتی ہے۔
جی۔ مشرقی و مغربی یورپ میں کافی فرق ہے۔ اسی طرح آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، امریکہ، کینیڈا گو مغرب ہی کہلاتا ہے لیکن ا ن ممالک میں بھی کافی چیزیں مختلف ہیں۔
Clash_of_Civilizations_mapn2.png
 

محمد سعد

محفلین
حیران کن بات یہ ہے کہ اس طبقے کے نزدیک سوال کا ذہن میں پیدا ہونا تفلسف کی علت نہیں بلکہ فلسفیانہ ذہن کی تربیت ’بے جا‘ سوال اٹھانے کے مرض کی علت ہے۔
مجھے یاد ہے کہ ایک بار فیسبک پر رویت ہلال کے مسئلے پر بات ہو رہی تھی۔ وہاں کچھ قابل اعتماد پیرامیٹرز متعین کرنے کی نیت سے میں نے کچھ سوالات رکھے، تو مجھے ٹوک دیا گیا اور بنی اسرائیل کا قصہ سنایا گیا کہ کیسے بے جا سوالات کرنے کی عادت سے انہوں نے خدا کو ناراض کیا اور خود کو مشکل میں ڈالا۔ اب اس کا میں کیا مطلب لوں؟ کیسے اس طرح کے نکات کو محض پراپیگنڈا قرار دے کر ہاتھ جھاڑ لوں؟
 

جاسم محمد

محفلین
مجھے یاد ہے کہ ایک بار فیسبک پر رویت ہلال کے مسئلے پر بات ہو رہی تھی۔ وہاں کچھ قابل اعتماد پیرامیٹرز متعین کرنے کی نیت سے میں نے کچھ سوالات رکھے، تو مجھے ٹوک دیا گیا اور بنی اسرائیل کا قصہ سنایا گیا کہ کیسے بے جا سوالات کرنے کی عادت سے انہوں نے خدا کو ناراض کیا اور خود کو مشکل میں ڈالا۔ اب اس کا میں کیا مطلب لوں؟ کیسے اس طرح کے نکات کو محض پراپیگنڈا قرار دے کر ہاتھ جھاڑ لوں؟
بس بھائی کیا سنائیں زمانہ کے غم ۔ ابھی ایک "یوتھیا" گروپ میں آسمانی کتب میں تحریف کے حوالہ سے ثبوت مانگنے پر باقی مومنین سے وہ جھڑکیں پڑی کہ خدا کی پناہ۔ بڑی مشکل سےدوبارہ کلمہ پڑھ کر ، ختنے چیک کروا کر، مسلمانی کا سرٹیفکیٹ لےکر وہاں سے نکلا ہوں :)
 

جاسم محمد

محفلین
وہاں کچھ قابل اعتماد پیرامیٹرز متعین کرنے کی نیت سے میں نے کچھ سوالات رکھے، تو مجھے ٹوک دیا گیا اور بنی اسرائیل کا قصہ سنایا گیا کہ کیسے بے جا سوالات کرنے کی عادت سے انہوں نے خدا کو ناراض کیا اور خود کو مشکل میں ڈالا۔
3000 سال بعد بھی اسرائیلیوں کا وہی حال ہے۔ آج بھی یہ بلا خوف و خطرہ سوالات کرنے والی قوم مشہور ہے۔
جو قومیں سوال نہیں کرتی وہ بہت پیچھے رہ جاتی ہیں۔
Conflict in Israeli Culture: The Social Function and Cultural Place of Arguments
 

الف نظامی

لائبریرین
میرا نہیں خیال کہ مضمون بحیثیت مجموعی سائنسی علوم تک ہی محدود ہے۔ آخری حصہ سائنس کو بطور خاص توجہ دیتا ہے لیکن موضوع مجموعی طور پر علم کے حوالے سے پائے جانے والی "دینی و دنیاوی" کی تقسیم ہے۔
مسلم ذہن میں دوئی کی بات کرنے والے کالم نگار سے یہ سوال پوچھنا تو بنتا ہے کہ:
why there is duality of Ethical and non ethical hacking in western mind?

علوم میں صرف ایتھکس ہی کو لے کر ڈویلیٹی قائم ہو جاتی ہیں اور مسلم ذہن میں علم نافع و غیر نافع کی ثنویت موجود ہے۔
لہذا اس کا ہونا کوئی بڑا مسئلہ نہیں یہ محض کالم نگار کی یک طرفہ تشویشِ محض ہے
 
آخری تدوین:

محمد سعد

محفلین
مسلم ذہن میں دوئی کی بات کرنے والے کالم نگار سے یہ سوال پوچھنا تو بنتا ہے کہ:
why there is duality of Ethical and non ethical hacking in western mind?

علوم میں صرف ایتھکس ہی کو لے کر ڈویلیٹی قائم ہو جاتی ہیں اور مسلم ذہن میں علم نافع و غیر نافع کی ثنویت موجود ہے۔
لہذا اس کا ہونا کوئی بڑا مسئلہ نہیں یہ محض کالم نگار کی یک طرفہ تشویشِ محض ہے

اس حد تک تو آپ اتفاق کریں گے کہ نافع علوم کی، خالص دینی اور معاش میں معاون کے علاوہ بھی، دیگر صورتیں ہو سکتی ہیں؟
 

سید ذیشان

محفلین
اگر دینی علم صرف آخرت کے لئے ہی ہے تو پھر کھالوں کے لئے مذہبی حلقوں میں لڑائیاں کیوں ہوتی ہیں اور ہر ایک مسجد میں چندہ باکس کیوں رکھے ہوتے ہیں؟

شائد وہ حدیثیں احباب بھول جاتے ہیں جس کا مفہوم ہے کہ علم مومن کی گمشدہ میراث ہے جہاں بھی ملے اس کو لے لو۔
اس کے علاوہ ایک حدیث علم حاصل کرنے کے لئے چین جانے کی بھی ہے گویا۔

یہاں تک کہ مسلمانوں میں جیومٹری وغیرہ کا علم اس لئے بھی پروان چڑھا کہ مسلمانوں کی ریاستیں بہت زیادہ وسیع و عریض ہو گئی تھیں اور قبلہ کے رخ کا تعین جیومیٹری کے علم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

ہر ایک بات سیاہ و سفید نہیں ہوتی جسطرح یہاں چند ایک کی طرف سے بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
 
Top