کراچی کے قریب گہرے سمندرمیں ڈرلنگ کے دوران تیل و گیس کے ذخائر نہ مل سکے

جاسم محمد

محفلین
کراچی کے قریب گہرے سمندرمیں ڈرلنگ کے دوران تیل و گیس کے ذخائر نہ مل سکے
200082_926621_updates.jpg

ڈرلنگ کے منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 100 ملین ڈالر سے زیادہ کا رہا — فوٹو: فائل

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے پیٹرولیم ندیم بابر نے کراچی کے قریب گہرے سمندر میں ڈرلنگ کے دوران تیل و گیس کے ذخائر نہ ملنے کی تصدیق کردی۔

معاون خصوصی ندیم بابر کا کہنا تھا کہ کراچی کے قریب گہرے سمندرمیں ڈرلنگ کےدوران تیل و گیس کےذخائر نہیں مل سکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کیکڑا ون کے مقام پر 5500 میٹر سے زیادہ گہرائی تک ڈرلنگ کی گئی تاہم ذخائر نہ ملنے کے بعد اب ڈرلنگ کا کام ترک کردیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹیسٹنگ کے نتائج سے ڈی جی پیٹرولیم کنسیشنز کے آفس کو آگاہ کردیا گیا ہے۔

ندیم بابر کے مطابق کیکڑا ون کے مقام پر اٹلی کی کمپنی ای این آئی کی قیادت میں جوائنٹ وینچر نے ڈرلنگ کی جس میں امریکی کمپنی ایگزون موبل کے علاوہ او جی ڈی سی اور پی پی ایل شامل تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ ڈرلنگ کے منصوبے پر لاگت کا تخمینہ 10 کروڑ ڈالر سے زیادہ کا رہا۔

خیال رہے کہ آج ہی پشاور میں وزیراعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ایک ہفتے میں سمندر سے گیس کے ذخیرے کا پتا چل جائے گا۔

وزیراعظم عمران خان نے عوام سے دعا کی اپیل بھی کی تھی اور کہا کہ کراچی سے آگے سمندر میں گیس کا کنواں کھودا جارہا ہے، لگتا ہے کہ ایک ہفتے کے اندر پتا چل جائے گا ، ہوسکتا ہے وہاں سے گیس کا اتنا ذخیرہ ملے کہ پاکستان کو 50 سال گیس باہر سے منگوانی ہی نہ پڑے۔
 
جاسم ویرے خدا لگی کہیے گا۔ اگر کپتان نے کچھ عرصہ قبل کریڈٹ لینے کے لئے دعاؤں وغیرہ کا نہ کہا ہوتا تو آج کیا انصافی یہ نہ کہہ رہے ہوتے کہ پچھلی حکومتوں نے صرف کمیشن اور کک بیکس کے لئے یہ کھدائی شروع کی؟


وزیراعظم عمران خان نے عوام سے دعا کی اپیل بھی کی تھی
عوام کی دعاؤں نے عمران خان (یوٹرن) لے لیا۔ :(
 

احمد محمد

محفلین
بھائی! کوئی یہ بتائے گا کہ سمندر میں جو ڈرلنگ کی تھی وہ بعد میں بند تو کر دی تھی نا؟؟ یہ نہ ہو وہ ڈرلنگ ہمارے سمندر کا سارا پانی ہی نگل جائے۔ تیل اور گیس تو دور، ہم سمندر سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں۔ :p
 
2012 سے لیکر 2017 تک پاکستان میں تیل اور گیس کی تلاش کے لیے 445 کنوئیں کھودے گئے، جن میں سے 116 میں تلاش کامیاب رہی۔ کیا اپ نے کسی وزیر مشیر سے اس عرصے کے دوران اس بارے میں کوئی خبر سنی؟
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
اچھا،حوالہ دیکر ثابت کریں کہ ناروے کا تیل بغیر دعاؤں کے نکلا تھا۔
سفیر ناروے کا حوالہ قابل قبول ہے؟
جہاں قوم نے زرداریوں ،شریفوں، خاکیوں کو یکے بعد دیگرے 40 سال تک بڑے حوصلہ کے ساتھ برداشت کیا۔ وہیں تحریک انصاف کے پہلے 8 ماہ میں اتنی بے صبری کا مظاہرہ کیوں؟ تحریک انصاف والے بھی پاکستانی ہیں۔ مریخ سے نہیں آئے۔
 

جاسم محمد

محفلین
تیل، گیس، سمندر، ڈرلنگ اور حقیقت
سالار سلیمان بدھ 17 اپريل 2019
1632466-oilandgas-1555399927-128-640x480.jpg

ایک عرصہ سے پاکستان کی کمپنیاں سمندر کی گہرائیوں میں تیل اور گیس تلاش کررہی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

کہتے تو بہت کچھ ہیں، اب کیا بتائیں اور کیا کیا لکھیں۔ لیکن یہ بات اصولی ہے کہ بڑے جو بھی کہتے ہیں وہ اپنے تجربے کی بنیاد پر ٹھیک کہتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ بڑی بڑی نہیں ہانکنی چاہیے، یا پہلے تولو پھر بولو، یا بولنے سے پہلے سوچ لو وغیرہ۔ لیکن شاید کچھ لوگوں کی فطرت ہوتی ہے کہ وہ ایسی باتوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ شاید یہی حال وزیراعظم پاکستان کا ہے۔ ایک معروف صحافی اپنے انٹرویو میں حکومت کو یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ وہ کام چاہے جیسے بھی کرے لیکن بولے کم۔ کیا اس مشورے پر عمل ہوا؟ نہیں۔ اس کی حالیہ مثال لیجیے۔ وزیراعظم پاکستان نے تیل اور گیس کے حوالے سے فرما دیا کہ ہم ایشیا کے سب سے بڑے ذخائر دریافت کرنے والے ہیں۔ کیا ایسا ہے؟ تکنیکی طور پر کہنا بہت مشکل ہے۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو آپ سعودی عرب سے بھی اوپر آجائیں گے؟ ایران کو کراس مار دیں گے؟ ایسا بظاہر ناممکن ہے۔

حقیقت کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ کئی سال یا ایک دہائی سے زائد عرصہ سے پاکستان کی کمپنیاں سمندر کی گہرائیوں میں تیل اور گیس تلاش کررہی ہیں۔ اس سارے عمل میں بین الاقوامی معیار کا سامان بھی استعمال ہوتا ہے اور ظاہر ہے کہ خرچہ ڈالروں میں آتا ہے۔ اس ضمن میں معروف ماہرِ ارضیات مسعود ابدالی صاحب سے معاونت لی گئی جو غالباً امریکا میں مقیم ہیں۔ آپ کا اس شعبے میں وسیع تجربہ ہے۔

کہتے ہیں کہ اب جس جگہ پر یہ کھدائیاں جاری ہیں (اسے کیکڑا 1 کہہ لیجیے)، تکنیکی طور پر اس جگہ چونے کا پتھر یعنی ’’لائم اسٹون‘‘ (Limestone) اور ریت کا ہونا ازحد ضروری ہے۔ ان دونوں کی موجودگی میں تیل اور گیس یہاں پر جمع رہیں گے۔ تیل، گیس اور پانی زیر زمین چٹانوں کے اندر کچھ ایسے جمع رہتے ہیں جیسے اسفنج یا فوم میں پانی ہوتا ہے۔ اس جگہ پر کھدائی جاری ہے۔ مسام دار چٹانوں سے اوپر بھی ایک پرت (layer) کا ہونا ضروری ہے جو اس جگہ پر کسی ڈھکنے کا کام کرے، اسے ’’کیپ راک‘‘ (cap rock) کہتے ہیں۔ یہ ایک غیر مسام دار چٹان ہوتی ہے۔ اس چٹان سے تیل یا گیس اندر موجود رہتے ہیں؛ اور اگر یہ نہ ہوتو رساؤ (لیکیج) کے امکانات بڑھتے جاتے ہیں۔ تیسری سب سے اہم چیز یہ ہے کہ اس جگہ کی بناوٹ (ساخت) ایسی ہو کہ ہر جگہ سے تیل اور گیس اُس مقام پر اکٹھے ہوتے ہوں۔ یعنی یہ اُس جگہ پر، جہاں پر کھدائی کی جارہی ہے، وہاں پر تیل و گیس سمٹ کر اکھٹے ہونے چاہئیں۔

اب ان تینوں نکات کا کیسے علم ہوتا ہے کہ کہاں پر کیا ہے؟ اس کا علم کھدائی کے بعد ہوتا ہے۔ تاہم کھدائی بھی یوں ہی منہ اُٹھا کر نہیں شروع کی جاتی ہے بلکہ سب سے پہلے اُس جگہ کا ارضیاتی تجزیہ کیا جاتا ہے۔ یہ تجزیہ انتہائی اعلیٰ سائنسی بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ سمندر کے پانی، اُس جگہ کی ریت، پھر غالباً سو فٹ کی کھدائی اور اُس کی ریت، پھر کھدائی کی مٹی اور نہ جانے کیا کچھ کے مکمل تجزیے ہوتے ہیں۔ اِن کی رپورٹس تیار کی جاتی ہیں۔ اس کے بعد بڑی مشینری کی تنصیب اور باضابطہ کھدائی شروع ہوتی ہے۔ تاہم، کوئی بھی چیز یقینی اور حتمی نہیں ہوتی۔

تفصیلی پیمائش و آزمائش (logging and testing) کے بعد امید کا قائم ہونا ایک الگ بات ہے تاہم مکرر عرض ہے کہ امید قائم کرلینا مناسب نہیں۔

اس کے بعد ’’پریشر ککس‘‘ (pressure kicks) کی آوازیں بھی سننے میں آرہی ہیں۔ یہ کیا ہوتی ہیں؟ درحقیقت جب زیر زمین تیل و گیس کا غیر معمولی دباؤ سامنے آتا ہے تو ایک عمل ہوتا ہے۔ سمندر کی تہہ میں چار پانچ ہزار میٹر یعنی تیرہ سے سولہ ہزار فٹ کی گہرائی میں یہ مائعات اور گیسیں گویا پھنسے ہوتے ہیں۔ کھدائی کے دوران جیسے جیسے ڈرلنگ گہری ہوتی جاتی ہے، ویسے ویسے زمین کی پرتیں کھلتی جاتی ہیں۔ زمین کی اوپری پرتوں کا اپنا دباؤ ہوتا ہے جو بتدریج کم ہوتا جاتا ہے۔ اس دباؤ کو مناسب رکھنے کےلیے پانی میں مختلف کیمیکلز ملا کر اُسے نیچے کی طرف پمپ کیا جاتا ہے جسے ’’گاد‘‘ کہتے ہیں۔ اس گاد کو بھاری کرنے کےلیے اِس میں ایک اور کیمیکل ملایا جاتا ہے۔ کیچڑ سے زیر زمین پڑنے والے دباؤ کو ’’آب ساکن دباؤ‘‘ (hydrostatic pressure) کہا جاتا ہے جبکہ زیر زمین سے اوپر کی جانب پڑنے والا دباؤ ’’پرت کا دباؤ‘‘ (formation pressure) کہلاتا ہے۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہائیڈرو اسٹیٹک پریشر اتنا زیادہ نہ ہو کہ چٹانوں میں جو مائع ہے، وہ اوپر کی جانب سفر نہ کرسکے۔ اسی طرح سے یہ احتیاط بھی کی جاتی ہے کہ دباؤ (ہائیڈرو اسٹیٹک پریشر) اتنا زیادہ بھی نہ ہو کہ نیچے موجود چٹانیں ٹوٹ جائیں یا بکھر جائیں۔

زیر زمین موجود تخمینے میں بعض اوقات غلطی بھی ہوجاتی ہے، اس کے بعد پریشر ککس کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ کیکڑا1 میں جن ککس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ہوسکتا ہے کہ وہ پانی کی ککس ہو۔

یہ سب کچھ کہنے کا مقصد مایوسی پھیلانا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ ہمیں کس حد تک کام کرنا ہے اور اِس کے بعد ہی کوئی دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔ اللہ کرے کہ پاکستان کو ایسے ذخائر ملیں، اللہ کرے کہ ہم اُن سے فائدہ لے سکیں۔ اللہ کرے کہ اِن کا حال ریکوڈک، ساہیوال، چنیوٹ اور تھر کے ذخائر جیسا نہ ہو۔

مجھے معلوم نہیں کہ وزیراعظم کو بریفنگ کون دے رہا ہے، لیکن جو بھی بریفنگ دے رہا ہے وہ غلط دے رہا ہے۔ وزیراعظم پہلے بھی ایک تقریر میں یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ ہم گہرے سمندر میں ڈرلنگ کرنا چاہ رہے ہیں لیکن خطرہ ہے کہ کہیں گیس لیک نہ ہوجائے۔ گہرائی میں دیکھیں تو وزیراعظم کی بات درست ہے، لیکن سوشل میڈیا پر اس بیان کا ٹھیک ٹھاک تمسخر اڑایا گیا۔ کیوں؟ کیونکہ یہ باتیں عام لوگوں کے سامنے کرنے کی ہیں ہی نہیں۔ یہ گہری باتیں ہیں جو وقت آنے پر الفاظ تبدیل کرکے کی جاتی ہیں۔ ایسے تو پھر مذاق ہی بنے گا۔ اس بارے میں بھی سوچ لیجیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
 
کل سے سوشل میڈیا پر قوم یوتھ کےتبصرے پڑھ رہا ہوں، حیرت اس بات پر ہے کہ ان یوتھیوں خصوصاً بارلوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ تیل نکلا یا نہیں نکلا۔ لیکن اس کا شدید غصہ ضرور ہے کہ نا نکلنے کی خبر دعا کی اپیل کے کچھ ہی دیر بعد بریک کر کے مشیر پٹرولیم اور میڈیا نے ہمارے ڈبہ پیر کی بے ادبی کردی ہے۔

ڈِگیا کھوتے توں تے دکھ کمھار تے۔
 

جاسم محمد

محفلین
کل سے سوشل میڈیا پر قوم یوتھ کےتبصرے پڑھ رہا ہوں، حیرت اس بات پر ہے کہ ان یوتھیوں خصوصاً بارلوں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ تیل نکلا یا نہیں نکلا۔ لیکن اس کا شدید غصہ ضرور ہے کہ نا نکلنے کی خبر دعا کی اپیل کے کچھ ہی دیر بعد بریک کر کے مشیر پٹرولیم اور میڈیا نے ہمارے ڈبہ پیر کی بے ادبی کردی ہے۔
ڈِگیا کھوتے توں تے دکھ کمھار تے۔
کل سے پٹوار خانے کے تبصرے پڑھ کر بھی یہ تاثر ملا جیسے سمندر سے تیل و گیس نہ نکلنے پر عمران خان کا کوئی ذاتی نقصان ہوا ہو۔ ہاں اگر نکل آتی تو یہ معاہدہ ن لیگی دور میں ہوا تھا :)
 

فاخر

محفلین
میں بھی یہ خبر’’ ڈان ‘‘ میں پڑھ کر ششد رہ گیا خیر! چلیئے ’’کھودا پہاڑ نکلاچوہا ‘‘ کا محاورہ آج سمجھ میں آیا ۔ یوتھیوں بروزن ’بھکتوں‘ کی ’’جےَ ‘‘ ہو۔:LOL::LOL::LOL:
 

جاسم محمد

محفلین
میں بھی یہ خبر’’ ڈان ‘‘ میں پڑھ کر ششد رہ گیا خیر! چلیئے ’’کھودا پہاڑ نکلاچوہا ‘‘ کا محاورہ آج سمجھ میں آیا ۔ یوتھیوں بروزن ’بھکتوں‘ کی ’’جےَ ‘‘ ہو۔:LOL::LOL::LOL:
ملکی معاملات یوتھیوں سے بہت سے خراب چل رہے ہیں :(
تہتر برس سے امید کی زمین میں ڈرلنگ کرنے والی قوم
19/05/2019 وسعت اللہ خان

والد مرحوم کہتے تھے ’بیٹا کوئی اچانک آکر تم سے کہے کہ وسعت میاں کتا تمہارا کان لے گیا ہے تو کتے کے پیچھے بھاگنے سے پہلے اپنے کان ہاتھ لگا کے چیک ضرور کر لو‘۔

کل بروز ہفتہ اٹھارہ مئی وزیرِ اعظم عمران خان نے پشاور میں شوکت خانم ہسپتال کے لیے فنڈ جمع کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا ’آج آپ نے دو نفل ضرور پڑھنے ہیں۔ کیونکہ کراچی کے قریب سمندر میں گیس کا کنواں کھودا جا رہا ہے۔ ایک ہفتے میں پتہ چل جائے گا۔ ہو سکتا ہے اتنا بڑا زخیرہ مل جائے کہ اگلے پچاس سال تک گیس باہر سے منگوانے کی ضرورت نہ پڑے‘۔

جس وقت وزیرِ اعظم پشاور میں حاضرین سے شکرانے کے نفل منوا رہے تھے، اسلام آباد میں انہی کے خصوصی معاون برائے پیٹرولیم ندیم بابر بتا رہے تھے کہ کراچی سے دو سو اسی کلو میٹر جنوب مغرب میں سمندر کی تہہ میں تیل کی تلاش کے لیے جو کھدائی ہو رہی تھی وہ ساڑھے پانچ ہزار میٹر ڈرلنگ کے بعد بند کر دی گئی ہے کیونکہ وہاں سے تیل یا گیس ملنے کی اب کوئی امید نہیں‘۔

لگتا ہے یہ مایوس کن خبر یا تو ندیم بابر اپنے وزیرِ اعظم کو بروقت پہنچانے میں کامیاب نہ ہو سکے یا صحافیوں کو یہ خبر دینے سے پہلے وزیرِ اعظم کو ضرور بتایا گیا ہو مگر وزیرِ اعظم نے کہا ہو کہ نہیں نہیں ایسا نہیں ہو سکتا، تم سب جھوٹے ہو۔

جنوری سے بحیرہ عرب کے انڈس بیسن میں تیل و گیس کی تلاش کی کھدائی کے لیے ’کیکٹرا ون‘ نامی ڈرلنگ سائٹ پر ایکسون، موبل، ای این آئی کنسورشیم کام کر رہا تھا۔ پچھلے چار ماہ کے دوران اس کنسورشیم کی جانب سے ایک بھی ایسا دعویٰ سامنے نہیں آیا کہ کھدائی سو فیصد کامیاب ہو گی۔ کیونکہ تیل اور گیس کی ڈرلنگ دنیا بھر میں بیس فیصد امکانات کی بنیاد پر کی جاتی ہے اور بحیرہ عرب میں ڈرلنگ پندرہ فیصد تک کے امکان کی بنیاد پر ہو رہی تھی۔

البتہ وزیرِ اعظم اور ان کی ٹیم کو مکمل یقین تھا کہ بس چند ہفتے کی بات ہے سمندر سے تیل کی دھار یا گیس کے فوارے نکلنے ہی والے ہیں۔ یہ وزیراعظم ہی تھے جنہوں نے اکیس مارچ کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے پہلی بار خوش خبری دی کہ چند ہفتے میں جیک پاٹ نکلنے والا ہے اور ملک کے معاشی دلدر دور ہونے والے ہیں۔ چار روز بعد (پچیس مارچ) اس وقت کے وزیرِ پٹرولیم غلام سرور اعوان نے کہا کہ اگلے ماہ خوشخبری ملنے والی ہے۔

اپریل کے پہلے ہفتے میں آبی وسائل کے وفاقی وزیر فیصل واڈا نے قومی ٹی وی چینلز پر سینہ ٹھونک کر کہا کہ ’میں وثوق سے کہہ رہا ہوں دس دن سے لے کر پانچ ہفتے کے دوران بہت بڑی خوشخبری ملنے والی ہے۔ اس کے بعد اتنی نوکریاں ہوں گی کہ بندے نہیں ملیں گے۔ ٹھیلے والے اور پان والے خود آ کر کہیں گے بھائی ہم سے ٹیکس لے لو۔ اگر میں غلط ثابت ہوا تو پانچ ہفتے بعد میری تکہ بوٹی کر دیجیے گا۔‘

کاش یہ خوشخبری سابق وزیرِ خزانہ اسد عمر اور موجودہ مشیرِ خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ تک بھی پہنچا دی جاتی جو مسلسل کہہ رہے ہیں کہ قوم کڑے معاشی امتحان کے لیے تیار رہے۔

مگر صرف عمران خان اور ان کے خوش نئیتوں کو دوش دینا ٹھیک نہیں۔ پہلے والوں نے بھی خوشخبریوں پر ہی وقت گزارا۔

بارہ فروری دو ہزار پندرہ کو اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف نے چنیوٹ کے علاقے رجوا سادات میں لوہے، تانبے اور سونے کے ذخائر کی دریافت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ دو ہزار مربع کلو میٹر پر پھیلا یہ اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ پاکستان کے معاشی جھمیلے دور ہو جائیں گے۔ چنیوٹ بین الاقوامی سرمایہ کاری کا مرکز بن جائے گا۔ ایک لاکھ نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔

خادمِ اعلیٰ شہباز شریف نے فرمایا چنیوٹ کے معدنی ذخائر گیم چینجر ثابت ہوں گے۔

دونوں بھائیوں نے یہ خوش خبر نتیجہ پنجاب منرل کمپنی کے سربراہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند، میٹالرجیکل کارپوریشن آف چائنا اور کچھ نامعلوم جرمن ماہرین کی بریفنگ سے اخذ کیا تھا۔ اس کے بعد سے آج تک کسی کو نہیں معلوم کہ چنیٹوٹی گیم چنیجر کہاں سے آیا کدھر گیا وہ۔ حتیٰ کہ سرمایہ کاری کے لیے ماری ماری گھومنے والی موجودہ حکومت کو بھی چنیٹوٹ کا راستہ نہیں پتہ۔

دسمبر انیس سو چھہتر میں وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو قومی اسمبلی میں تشریف لائے۔ ان کے ہاتھ میں ایک بوتل تھی۔ انھوں نے قائدِ حزبِ اختلاف مولانا مفتی محمود کو بوتل سنگھاتے ہوئے کہا ’مولانا صاحب مبارک ہو، ڈھوڈک ڈیرہ غازی خان میں تیل دریافت ہوگیا ہے ۔یہ اس کا سیمپل ہے‘۔

ڈھوڈک کے ثمرات دیکھنے سے پہلے ہی بھٹو صاحب کو پھانسی ہوگئی۔ نواز شریف کو جیل میں چنیوٹ کا خیال آتا تو ہوگا۔ دعا ہے عمران خان تیل اور گیس کا خزانہ نکلنے تک اقتدار میں رہیں۔

رہی قوم، تو وہ پچھلے تہتر برس سے ہی امید کی زمین میں ڈرلنگ کر رہی ہے۔ کبھی تو کسی کنوئیں سے بیدار مغز حکمرانی کا فوارہ پھوٹے گا۔ کبھی تو کسی کان سے ذہین رہنمائی کا سونا نکلے گا۔

مگر شاید ایسا نہ ہو، کیونکہ اڑنے والے قالین، الہ دین کے چراغ، سند باد جہازی، الف لیلہ اور کوہ قاف کی داستانیں ہم سب کی گھٹی میں پڑی ہیں۔ ہم سب ہاتھ پیر ہلانے، خود پر یقین کرنے اور اپنی دنیا آپ تعمیر کرنے کے بجائے صدیوں سے کسی نجات دہندہ، کسی معجزے کے منتظر ہیں۔

آپ ایک اور نیند لے لیجے
قافلہ کوچ کر گیا کب کا
(جون ایلیا)
 

آصف اثر

معطل
اپریل کے پہلے ہفتے میں آبی وسائل کے وفاقی وزیر فیصل واڈا نے قومی ٹی وی چینلز پر سینہ ٹھونک کر کہا کہ ’میں وثوق سے کہہ رہا ہوں دس دن سے لے کر پانچ ہفتے کے دوران بہت بڑی خوشخبری ملنے والی ہے۔ اس کے بعد اتنی نوکریاں ہوں گی کہ بندے نہیں ملیں گے۔ ٹھیلے والے اور پان والے خود آ کر کہیں گے بھائی ہم سے ٹیکس لے لو۔ اگر میں غلط ثابت ہوا تو پانچ ہفتے بعد میری تکہ بوٹی کر دیجیے گا۔‘
یار حد کردی ہے اس کابینہ نے۔
 
جہاں قوم نے زرداریوں ،شریفوں، خاکیوں کو یکے بعد دیگرے 40 سال تک بڑے حوصلہ کے ساتھ برداشت کیا۔ وہیں تحریک انصاف کے پہلے 8 ماہ میں اتنی بے صبری کا مظاہرہ کیوں؟ تحریک انصاف والے بھی پاکستانی ہیں۔ مریخ سے نہیں آئے۔

ساری بات یہی ہے جاسم محمد بھائی کہ اس مرتبہ تاثر یہ دیا گیا تھا کہ اب تک تو کرپٹ سیاستدان لوٹتے رہے اب انصاف کی حکمرانی ہوگی۔ پھر سیلیکٹڈ حکومت کے آتے ہی نااہلی اور کرپٹ پارٹی لیڈرز نے اقربا پروری اور کرپشن کی انتہا کردی۔
معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔ اب بھی قوم کی چیخیں نہ نکلیں تو اور کیا امید کرسکتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔ اب بھی قوم کی چیخیں نہ نکلیں تو اور کیا امید کرسکتے ہیں۔
روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر کنٹرول کرنے سے ملک کے معاشی مسائل مستقل بنیادوں پر حل نہیں ہو سکتے ۔ یہ تجربہ سابقہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار 4 سال لگاتار کر چکے ہیں۔
اس پالیسی سے عارضی طور پر مہنگائی کنٹرول میں آ گئی تھی۔ شرح نمود بڑھ گئی تھی۔ اور اسٹاک مارکیٹ بھی ایشیا میں سب سے تیز فتاری سے اوپر گئی تھی۔
اور پھر اسی پالیسی سے طویل پیرائے میں ملک کے زرمبادلہ کو اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا تھا۔اور جس کی وجہ سے ملک میں حالیہ مالی بحران چل رہا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ گئی۔ اب بھی قوم کی چیخیں نہ نکلیں تو اور کیا امید کرسکتے ہیں۔
صرف یہ اقتصادی گراف سمجھ لیں تو پاکستانی معیشت کے ساتھ ہوئی کھلواڑ سمجھ میں آجاتی ہے۔ پاکستانی زرمبادلہ کے ذخائر بمقابلہ ہمسایہ بھارت اور بنگلہ دیش



صحت مند معیشتوں میں زرمبادلہ کے ذخائر یا تو بڑھتے ہیں یا اسٹیبل رہتے ہیں۔ جبکہ ادھر پاکستان میں نئی حکومتوں کے آتے ساتھ یہ بیرونی قرضوں کے ذریعہ تیزی سے بڑھتے ہیں اور پھر حکومتوں کے اختتام پر خزانہ اتنی ہی تیزی سے خالی چھوڑ کر سارا بوجھ اگلی حکومت پر منتقل کر کے مہنگائی ہونے کا رونا دھونا شروع کر دیتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
کیکڑا ون گیس منصوبے پر وزیراعظم کو غلط بریفنگ دی گئی، ایم ڈی پی پی ایل کا انکشاف
بزنس رپورٹر پير 28 اکتوبر 2019
1859363-kakraonedrillingprojectpercentunsuccessfulfromstart-1572282804-297-640x480.jpg

سمندر میں گیس کی تلاش کے منصوبے پر 124 ارب روپے خرچ ہوئے، ایم ڈی پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (فوٹو: فائل)


کراچی: پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) کے ایم ڈی اور سی ای او معین رضا خان نے انکشاف کیا ہے کہ کیکڑا ون میں گیس کے ذخائر کے حوالے سے وزیر اعظم کو بڑھا چڑھا کر بتایا گیا شروع سے ہی اس منصوبے کی ناکامی کا امکان 86 فیصد تک تھا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق کمپنی کے 68 ویں سالانہ اجلاس سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ کراچی کے ساحل کے قریب سمندر میں کیکڑا ون کے نام سے گیس کی تلاش کے منصوبے پر وزیر اعظم کو بڑھا چڑھا کر بتایا گیا، سمندر میں کھدائی کے بعد کنویں سے گیس نہیں پانی ہی دریافت ہوا۔

ایم ڈی نے کہا کہ شروع سے ہی اس منصوبے میں ناکامی کا خدشہ 86 فیصد اور کامیابی کا امکان محض 12 فیصد تھا، اس منصوبے پر 124 ارب روپے خرچ ہوئے اور یہ اخراجات ای این آئی، ایگزون موبل، او جی ڈی سی ایل اور پی پی ایل مساوی طور پر برداشت کریں گے۔

معین رضا خان نے کہا کہ سمندر میں کھدائی سے حاصل ہونے والی معلومات آگے چل کر کارآمد ثابت ہوں گی اب گہرے پانی سے قبل کم گہرے پانی میں کھدائی کریں گے جہاں کامیابی کا تناسب زیادہ اور اخراجات بھی کم ہوں گے۔

ایم ڈی نے کہا کہ معاہدے کے باوجود جینکوز پی پی ایل سے 250 ایم ایم سی ایف ڈی کے بجائے 159 ایم ایم سی ایف ڈی گیس خرید رہی ہے، گردشی قرضوں کے باعث کمپنی کو شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے جس کے باعث تیل و گیس کی تلاش کی سرگرمیاں بھی متاثر ہورہی ہیں، اس وقت پی پی ایل کے قابل وصول واجبات 227 ارب روپے کی سطح تک پہنچ گئے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ سعودی کمپنی کے ساتھ مائننگ آپریشن کو توسیع دینے پر بات چیت جاری ہے جبکہ عراق میں پہلی قومی کمپنی کی حیثیت سے عراق میں اپنے آپریٹڈ بلاک 8 میں سب سے پہلے بین الاقوامی دریافتی کنویں مدائن 1- کی کھدائی کی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہماری توجہ موجودہ فیلڈز سے پیداوار میں اضافے اور نئے ذخائر کی تلاش پر ہے، حب سے ٹائٹ گیس کے ذخائر ملے ہیں تاہم ان کی کمرشل نیچر سے متعلق کام جاری ہے۔
 
Top