آئی ٹن ما شاء اللہ ہٹ، شفیق استاد اخترؔ عثمان صاحب کی بیٹھک۔ ۔ ۔

آئیٹن ما شاء اللہ ہٹ، شفیق استاد اخترؔ عثمان صاحب کی بیٹھک۔ ۔ ۔
میں ادیبوں کے جھرمٹ میں بیٹھا ہوا
چائے کا ایک کپ پی چکا تھا مگر
دوسری چائے کا منتظر میرا دل
چند یادوں کی رنگینیوں کی جگالی میں مصروف تھا
اک کڑی گفتگفو ان ادیبوں میں جاری رہی
اور سنی ان سنی مجھ پہ طاری رہی
حالتِ دل ادب سے گئی
بات نکلی ادب سے سیاست سے ہوتے ہوئے کچھ سروں اور نغموں تلک آ گئی
بادلوں کو بھی مستی لگی اور برسنے لگے
دوسری مرتبہ بھیگتا ہے دسمبر ادھر
آئی ٹن ایک کچا سا ہٹ موڑ پر خوبصورت location پہ واقع ہے جو
میکدہ لگ رہا تھا چراغاں کسی مغلیہ دور کا
ہو بھلا ساقیوں کا جومسکان ہونٹوں پہ رکھتے ہوئے جھومتے ہی رہے اور پلاتے رہے
تیز ٹھنڈی ہواؤں سے لمبے درختوں کو جھولے ملے
ایک بلّی بھی چپکے سے کچھ گنگناتی رہی
کتنے دردوں کو دل سے رہائی ملی
پاس گیلی سڑک پر رواں گاڑیوں کے شرابے سے جلتا تھا من
میں نے جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھوں کو ڈالا جو بارش بڑھی
اور سننے لگا شور بوندوں کا جو شامیانے کو اوپر برستی رہیں
ایک قطرہ بھی الفت سے خالی نہ تھا
دیر تک لوگ بیٹھے رہے مسکراتے رہے
کچھ ادیبوں کے سگرٹ سلگتے رہے اور دھواں در دھواں غم اگلتے رہے
دور چلتا رہا دلنشیں چائے کا
چائے کے دوسرے کپ سے راحت ملی
ایک استاد سے مجھکو چاہت ملی ۔ ۔
اسامہ جمشیدؔ
رات 9 بجے کے بعد، بروز منگل 11 دسمبر 2018
ما شاء اللہ ہٹ، آئی ٹن، اسلام آباد​
 
آخری تدوین:

فرقان احمد

محفلین
ٹن ما شاء اللہ ہٹ، شفیق استاد اخترؔ عثمان صاحب کی بیٹھک۔ ۔ ۔
میں ادیبوں کے جھرمٹ میں بیٹھا ہوا
چائے کا ایک کپ پی چکا تھا مگر
دوسری چائے کا منتظر میرا دل
چند یادوں کی رنگینیوں کی جگالی میں مصروف تھا
اک کڑی گفتگفو ان ادیبوں میں جاری رہی
اور سنی ان سنی مجھ پہ طاری رہی
حالتِ دل ادب سے گئی
بات نکلی ادب سے سیاست سے ہوتے ہوئے کچھ سروں اور نغموں تلک آ گئی
بادلوں کو بھی مستی لگی اور برسنے لگے
دوسری مرتبہ بھیگتا ہے دسمبر ادھر
آئی ٹن ایک کچا سا ہٹ موڑ پر خوبصورت location پہ واقع ہے جو
میکدہ لگ رہا تھا چراغاں کسی مغلیہ دور کا
ہو بھلا ساقیوں کا جومسکان ہونٹوں پہ رکھتے ہوئے جھومتے ہی رہے اور پلاتے رہے
تیز ٹھنڈی ہواؤں سے لمبے درختوں کو جھولے ملے
ایک بلّی بھی چپکے سے کچھ گنگناتی رہی
کتنے دردوں کو دل سے رہائی ملی
پاس گیلی سڑک پر رواں گاڑیوں کے شرابے سے جلتا تھا من
میں نے جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھوں کو ڈالا جو بارش بڑھی
اور سننے لگا شور بوندوں کا جو شامیانے کو اوپر برستی رہیں
ایک قطرہ بھی الفت سے خالی نہ تھا
دیر تک لوگ بیٹھے رہے مسکراتے رہے
کچھ ادیبوں کے سگرٹ سلگتے رہے اور دھواں در دھواں غم اگلتے رہے
دور چلتا رہا دلنشیں چائے کا
چائے کے دوسرے کپ سے راحت ملی
ایک استاد سے مجھکو چاہت ملی ۔ ۔
اسامہ جمشیدؔ
رات 9 بجے کے بعد، بروز منگل 11 دسمبر 2018
ما شاء اللہ ہٹ، آئی ٹن، اسلام آباد​
منظوم روداد پڑھ کر اچھا لگا۔ زبردست ۔۔۔!
 
Top