نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ میں دو مساجد پر حملہ، متعدد افراد ہلاک

خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجَاہِلِیْنَ() وَاِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ اِنَّہٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ() (سورۃ اعراف -7آیات200-199)
’’اے نبیؐ،نرمی اور درگزر کا طریقہ اختیار کرو،معروف کی تلقین کئے جاؤ اور جاہلوں سے نہ الجھو۔اگر تمہیں شیطان اکسائے (کہ نرمی چھوڑ کر اینٹ کا جواب پتھر سے دو) تو اللہ کی پناہ مانگو۔‘‘
 
جوگروہ یاقوم مسلمان حکومت سے جنگ کررہی ہو، اور ان کی ساری ہمدردیاں اور مفادات اپنی قوم سے وابستہ ہوں۔ایسے لوگوں سے دوستی اور رازدارانہ تعلق رکھنا منع ہے، اور ایسا کرنا جرم ہے۔یہی وجہ ہے کہ حضورؐ کے زمانے میں ریاست مدینہ بننے کے بعد برسرِجنگ اقوام کے افراد سے تعلق کو ممنوع قرار دیا گیا۔اس زمانے میں تقریباً تمام مسلمانوں کے کچھ نہ کچھ رشتہ دار اسلام کے مخالف ہونے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کے ساتھ برسرِجنگ بھی تھے۔ان میں مشرکین،یہودی اور عیسائی سب شامل تھے۔بعض اوقات بے خیالی میں یا اپنے کافر رشتہ داروں کے بچاؤ کی خاطر بعض مسلمان اپنے جنگی راز،ان کے سامنے افشا کر دیتے۔یہ حرکت بعض مخلص مسلمانوں سے بھی تقاضائے بشر ی کے تحت سرزد ہوئی تھی۔چنانچہ قرآن مجید نے باربار اس سے منع کیا۔
ارشاد ہے:
لاَ یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکَافِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْْءٍ اِلاّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقَاۃً وَیُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ وَاِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ()(سورۃآل عمران -3آیت2
’’مومنین اہل ایمان کو چھوڑ کر ان منکرین حق کو اپنا رفیق ومددگار ہرگز نہ بنائیں۔جو شخص ایسا کرے گا، اُس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں۔ ہاں یہ معاف ہے کہ تم اُن کے ظلم سے بچنے کے لیے بظاہر ایسا طرزِعمل اختیار کرجاؤ‘‘۔
 
آخری تدوین:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ لاَ یَاْلُوْنَکُمْ خَبَالاً وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَآءُ مِنْ اَفْوَاہِہِمْ وَمَا تُخْفِیْ صُدُوْرُہُمْ اَ کْبَرُ قَدْ بَیَّنَّا لَکُمُ الْاٰیٰتِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ() (سورۃآل عمران -3آیت11
’’اے ایمان والو،اپنے سے باہر والوں کو اپنا رازدان مت بناؤ۔یہ تمھیں نقصان پہنچانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں گے۔یہ تمھارے لئے نقصان کے خواہاں ہیں۔ان کی دشمنی ان کے چہروں سے ابل پڑتی ہے اور جو کچھ یہ اپنے سینے میں چھپائے ہوئے ہیں،وہ اس سے بھی سخت تر ہے۔اگر تم عقل رکھتے ہو تو ہم نے اپنی تنبہیات تمھارے لئے واضح کر دی ہیں‘‘
 
آخری تدوین:
یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْکَافِرِیْنَ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ عَلَیْْکُمْ سُلْطَانًا مُّبِیْنًا()(سورۃنساء -4آیت144)
’’اے ایمان والو،ان اہلِ ایمان (یعنی صحابہ کرامؓ) کے بالمقابل میں ان منکرینِ حق(یعنی اسلام کے دشمنوں) کو اپنا دوست نہ بناؤ۔کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ کی صریح دلیل قائم کر لو‘‘
 
یہودیوں اور عیسائیوں یعنی اہل کتاب کے متعلق قرآن مجید کے بعض ارشادات سے یہ تاثر ملتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہئیے کہ انہیں توحید کی شراکت کی بناء پرکام کے تعلق(Working Relation)کی دعوت دیں،اور ان سے اچھے طریقے سے بحث کریں۔قرآن مجید یہ بیان کرتا ہے کہ اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں جو بہت اچھے،منصف مزاج اور راست باز ہیں۔کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں اسلام کا پیغام اپنی صحیح شکل پر پہنچ جائے تو وہ اسے قبول کرلیں گے۔اسی طرح قرآن مجید نے مسلمان مردوں کے لئے یہودی اور عیسائی عورتوں سے نکاح کو جائز قرار دیا ہے۔ظاہر بات ہے کہ ایسی شادی تبھی کامیاب ہوسکتی ہے جب مسلمان مرد اور یہودی یا عیسائی عورت میں محبت کا تعلق استوار ہو،اس کے اہل خاندان سے بھی محبت واحترام کا تعلق رکھا جائے اور ان کے ساتھ کھانے،گفتگو،سیر وتفریح اور غمی شادی کی تقریبات میں شرکت بھی کی جائے۔اسی طرح قرآن مجید یہود یوں اورعیسائیوں کے طعام کو بھی مسلمانوں کے لئے جائز قرار دیتا ہے۔اس ضمن میں قرآن مجید کے کچھ ارشادات درج ذیل ہیں:
قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتَابِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلَمَۃٍ سَوَآءٍ بَیْْنَنَا وَبَیْْنَکُمْ اَ لاَّ نَعْبُدَ اِلاَّ اللّٰہَ وَلاَ نُشْرِکَ بِہٖ شَیْْءًا وَّلاَ یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْہَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ()(سورۃ آل عمران -3آیت64)
’’کہہ دو اے اہل کتاب،اس چیز کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمھارے درمیان مشترک ہے،یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور نہ ان کے ساتھ کسی چیز کو شریک ٹھہرائیں اور نہ ہم سے کوئی ایک دوسرے کو اللہ کے سوا پروردگارٹھہرائے۔اگر وہ اس چیز سے منہ پھیریں ،تو کہہ دو کہ گواہ رہو کہ ہم تو مسلم ہیں‘‘
 
وَمِنْ اَہْلِ الْکِتَابِ مَنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِقِنْطَارٍ یُّؤَدِّہٖٓ اِلَیْْکَ وَمِنْہُمْ مَّنْ اِنْ تَاْمَنْہُ بِدِیْنَارٍ لاَّ یُؤَدِّہٖٓ اِلَیْْکَ اِلاَّ مَا دُمْتَ عَلَیْْہِ قَآءِمًا ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوْا لَیْْسَ عَلَیْْنَا فِی الْاُمِّیّٖنَ سَبِیْلٌ وَیَقُوْلُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَہُمْ یَعْلَمُوْنَ()(سورۃ آل عمران -3آیت75)
’’اہل کتاب میں ایسے لوگ بھی ہیں کہ اگر ان کے پاس امانت کا ڈھیر بھی رکھو تو مانگنے پر ادا کریں گے اور ان میں سے ایسے بھی ہیں کہ اگر تم ان کے پاس بطور امانت ایک دینار بھی رکھو تو وہ اس وقت تک اس کو تمھیں لوٹانے والے نہیں ہیں جب تک تم ان کے سر پر سوار نہ ہوجاؤ۔یہ اس وجہ سے کہ وہ کہتے ہیں کہ ان امیوں کے معاملے میں ہم پر کوئی الزام نہیں۔یہ لوگ جانتے بوجھتے اللہ پر جھوٹ باندھتے ہیں‘‘
 
لَیْْسُوْا سَوَآءً مِّنْ اَہْلِ الْکِتَابِ اُمَّۃٌ قَآءِمَۃٌ یَّتْلُوْنَ اٰیَاتِ اللّٰہِ اٰنَآءَ الَّیْْلِ وَہُمْ یَسْجُدُوْنَ() یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَیُسَارِعُوْنَ فِی الْخَیْْرَاتِ وَاُولٰٓءِکَ مِنَ الصَّالِحِیْنَ() وَمَا یَفْعَلُوْا مِنْ خَیْْرٍ فَلَنْ یُّکْفَرُوْہُ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِالْمُتَّقِیْنَ()(سورۃ آل عمران -3آیات115.....113)
’’سارے اہل کتاب یکساں نہیں ہیں۔ان میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو راہ راست پر قائم ہیں،راتوں کو اللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور اس کے آگے سجدہ ریز ہوتے ہیں۔اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں۔نیکی کی تلقین کرتے ہیں،برائیوں سے روکتے ہیں اور بھلائی کے کام میں سرگرم رہتے ہیں۔یہ صالح لوگ ہیں اور جو نیکی بھی یہ کریں گے،اس کی ناقدری نہیں کی جائے گی۔اللہ پرہیزگار لوگوں کو خوب جانتا ہے‘‘
 
اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبَاتُ وَطَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتَابَ حِلٌّ لَّکُمْ وَطَعَامُکُمْ حِلُّ لَّہُمْ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُم....ْ (سورۃ مائدہ -5آیت5)
’’آج تمھارے لئے ساری پاک چیزیں حلال کردی گئی ہیں۔اہل کتاب کا کھانا تمھارے لئے حلال ہے اور تمھارا کھانا،ان کے لئے۔ اہل ایمان اور جن کو پہلے کتاب دی گئی تھی،کی شریف عورتیں بھی تمھارے لئے حلال ہیں‘‘
 
وَالَّذِیْنَ اٰتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ یَفْرَحُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْْکَ وَمِنَ الْاَحْزَابِ مَنْ یُّنْکِرُ بَعْضَہٗ ......ِ(سورۃ الرعد -13آیت36کا ایک حصہ)
’’اے نبی،جن لوگوں کو ہم نے پہلے کتاب دی تھی،وہ اس کتاب سے جو ہم نے تم پرنازل کی ہے،خوش ہیں۔تاہم مختلف گروہوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اس کی بعض باتوں کو نہیں مانتے‘‘
 
اَ لَّذِیْنَ اٰتَیْْنَاہُمُ الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِہٖ ہُمْ بِہٖ یُؤْمِنُوْنَ() وَاِذَا یُتْلٰی عَلَیْْہِمْ قَالُوْٓا اٰمَنَّا بِہٖٓ اِنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّنَآ اِنَّا کُنَّا مِنْ قَبْلِہٖ مُسْلِمِیْنَ() اُولٰٓءِکَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَہُمْ مَّرَّتَیْْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَیَدْرَءُ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّءَۃَ وَمِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنْفِقُوْنَ()(سورۃ قصص -28آیات54,52)
’’جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی،وہ اس قرآن پر ایمان لاتے ہیں۔جب یہ ان کو سنایا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ’’ہم اس پر ایمان لائے ۔یہ واقعی حق ہے ہمارے رب کی طرف سے۔ہم تو اس کے آنے سے پہلے سے اس کو ماننے والے ہیں‘‘۔یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دوبار دیا جائے گا۔اس لئے کہ وہ ثابت قدم رہے۔وہ برائی کو بھلائی سے رفع کرتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انہیں دیا ہے،اس میں سے خرچ کرتے ہیں‘‘
 
وَلَا تُجَادِلُوْٓا اَہْلَ الْکِتَابِ اِلَّا بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْ۔۔۔۔ (سورۃ عنکبوت -29آیت46کا ایک حصہ)
’’اہل کتاب سے عمدہ طریقے سے بحث کرو،سوائے ان کے جو ظالم ہیں‘‘۔
 
درج بالا آیات سے بظاہر مختلف معنی کی ایک آیت سورۃ مائدہ5۔آیت51ہے جس میں یہود ونصاریٰ سے دوستی رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔
ارشاد ہے:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَالنَّصٰرآی اَوْلِیَآءَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ وَمَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ() (سورۃ مائدہ -5آیت51)
’’اے ایمان والو،تم ان یہود ونصاریٰ کو اپنا دوست نہ بناؤ۔وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔تم میں سے جو بھی انہیں اپنا دوست بنائے گا،وہ انہی میں سے ہے‘‘

درحقیقت اس آیت میں اور درج بالا آٹھ آیات میں آپس میں کوئی تضاد نہیں ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس آیت میں یہود ونصاریٰ کے نام سے پہلے’’ال‘‘کا لاحقہ آیا ہے یہ ’’عہد‘‘کا ال ہے۔ گویا اس سے مراد کچھ خاص یہود ونصاریٰ ہیں،نہ کہ سب کے سب۔اب سوال یہ ہے کہ وہ کون سے یہود ونصاریٰ ہیں جن سے دوستی ممنوع ہے۔پوری سورۃ مائدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وہ اہل کتاب ہیں جو مسلمانوں سے برسرجنگ تھے، مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے تھے، مسلمانوں کو ستاتے تھے ، ان کے دین کے خلاف پروپیگنڈے کرتے تھے اور معاہدہ کرنے کے بعد اس سے غداری کرتے تھے۔یقیناًایسے اہل کتاب سے دوستی ایک بڑا جرم تھا۔آج بھی یہود ونصاریٰ کے کسی گروہ کی طرف سے یہ رویہ سامنے آئے تو مسلمانوں کو ایسے گروہ سے تعلقات منقطع کرلینے چاہئیے۔
 
اسی آیت کی مزید تشریح آگے آیات نمبر57تا59میں آئی ہے، جہاں وضاحت سے بتایا گیا ہے کہ یہاں یہودونصاریٰ سے مراد صرف وہ خاص یہود ونصاریٰ ہیں جو اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں، نماز اور دوسرے اسلامی شعائر کے خلاف مسلسل باتیں کرتے ہیں، اور اسلام سے دشمنی کرتے ہیں۔فرمایا:
یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَکُمْ ہُزُوًا وَّلَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَالْکُفَّارَ اَوْلِیَآءَ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ() وَاِذَا نَادَیْْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ اتَّخَذُوْہَا ہُزُوًا وَّلَعِبًا ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ قَوْمٌ لاَّ یَعْقِلُوْنَ() قُلْ یٰٓاَہْلَ الْکِتَابِ ہَلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّآ اِلاّآ اَنْ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَیْْنَا وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ وَاَنَّ اَ کْثَرَکُمْ فَاسِقُوْنَ()(سورۃ مائدۃ -5 آیات57۔۔۔۔59)
’’اے مومنو، اُن اہلِ کتاب اور اُن حق کا انکار کرنے والوں کو اپنا دوست اور رفیق مت بناؤ جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اور کھیل بنادیا ہے۔ اللہ سے ڈرو اگر تم مومن ہو۔ جب تم نماز کے لیے منادی کرتے ہو تو وہ اُس کو مذاق اور کھیل بنالیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ بے عقل ہیں۔ ان سے کہو: ’’اے اہلِ کتاب، تم ہم پر اس بات کا غصہ نکال رہے ہو کہ ہم اللہ اور اُس تعلیم پر ایمان لائے جو ہماری طرف نازل ہوئی، اور ہم اُس تعلیم پر بھی ایمان لائے جو ہم سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ تم میں سے تو اکثر فاسق ہیں‘‘۔

اس تشریح سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ صرف اُن یہودونصاریٰ اوردوسرے غیر مسلموں کو اپنا دوست نہیں بنانا چاہیے جو علی الاعلان اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں اور مسلمانوں سے دشمنی کرتے ہیں۔ آیت نمبر51میں بھی یہی یہود ونصاریٰ مراد ہیں۔
 
قرآن مجید میں ایک جگہ یہ ارشاد ہے کہ یہود اور مشرکین عموماً مسلمانوں سے دشمنی رکھیں گے جب کہ مسیحی دوستی میں مسلمانوں سے قریب تر ہوں گے۔اس کی وجہ قرآن نے یہ بیان کی ہے کہ مسیحیوں کے اندر علماء اور درویشوں کی ایک جماعت ہمیشہ موجود رہتی ہے اور مسیحیوں میں تکبر نسبتاً کم ہے۔
ارشاد ہے:
لَتَجِدَنَّ اَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الْیَہُودَ وَالَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَہُمْ مَّوَدَّۃً لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّا نَصٰرٰی ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْہُمْ قِسِّیْسِیْنَ وَرُہْبَانًا وَّاَ نَّہُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُوْنَ()(سورۃ مائدہ -5آیت82)
’’تم اہل ایمان کی دشمنی میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاؤگے اور اہل ایمان کی دوستی سے قریب تر ان لوگوں کو پاؤگے جنہوں نے کہا کہ ہم نصٰریٰ ہیں۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ ان میں عبادت گزار عالم اور تارک الدنیا درویش پائے جاتے ہیں اور ان میں غرور نفس نہیں ہے‘‘

تارک الدنیا درویشوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے بغیر کسی دنیوی لالچ کے اپنے آپ کو انسانیت کی خدمت کے لئے وقف کیا ہوتا ہے۔
پچھلے چودہ سو برس کی تاریخ سے یہ بات واضح ہے کہ مسیحیوں نے بھی بارہا مسلمانوں پر سخت مظالم ڈھائے ہیں۔ جس کی مثال ہمیں صلیبی جنگوں اور سپین کے مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے گئے سلوک سے ملتی ہے۔ چنانچہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں قرآن مجید نے مسیحیوں کی تعریف کیوں کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان سب آیات میں قرآن مجیدنے حضورؐ کے زمانے کے یہودیوں، مسیحیوں اور مشرکین کا تجزیہ کیا ہے۔ اُس زمانے کے یہودیوں میں بھی کچھ اچھے لوگ موجود تھے۔ چنانچہ قرآن مجید نے اُن کی تعریف کی۔ اسی طرح مسیحیوں میں اچھے لوگ زیادہ تعداد میں تھے۔ چنانچہ قرآن نے اُن کی بھی تعریف کی۔ جو یہود ونصاریٰ مسلمانوں سے دشمنی رکھتے تھے، اُن پر قرآن مجید نے تنقید کی۔ جس طرح اُس زمانے کے یہودیوں اور مسیحیوں میں اچھے اور برے لوگ موجود تھے، اسی طرح آج بھی ایسا ہی ہے۔ چنانچہ اُن کے اچھے لوگوں سے ہم مودت ودوستی کا تعلق رکھ سکتے ہیں۔ اور اُن کے برے اور اسلام کے دشمن لوگوں سے ہم تعلق نہیں رکھیں گے۔ سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنا غلط ہے۔
 

فلسفی

محفلین
ذکر ہے اسی لئے تو سفید فام انتہا پسند کو پوری دنیا میں دہشت گرد قرار دیا گیا ہے۔ البتہ اس سانحہ کو محض سیاسی سکورنگ کیلئے اسلام اور ترکی پر حملے سے جوڑنا ان معصوم مسلم لاشوں پر سیاست کرنا ہے۔
اس دہشت گرد کو اپنے کئے کی قانونی سزا مل جائے گی۔ مگر جو جوابی نفرت کی آگ اب لگائی جا رہی ہے اسے کون بھجائے گا؟
ذاتی فائدے کی خاطر سیاست طیب اردگان چمکائے، ٹرمپ یا جاسنڈا سب غلط ہے۔

عام اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ مغرب میں مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھا جاتا ہے اس لئے وہاں بسنے والے یہود و نصاری فسادی و سازشی ہیں۔ حالانکہ یہ دونوں باتیں ہی غلط ہیں۔ نہ ہی تمام مسلمان دہشت گرد ہیں اور نہ ہی تمام یہود و نصاری فسادی اور سازشی۔ ہاں البتہ غلط لوگ ہر جگہ موجود ہوتے ہیں

عام انسان: 1+3 چار ہوتے ہیں۔
خاص انسان: نہیں 3+1 چار ہوتے ہیں۔
عام انسان: جی بالکل 1+3 ہوں یا 3+1 دونوں کا جواب چار ہوتا ہے۔
خاص انسان: نہیں 3+1 چار ہوتے ہیں۔
عام انسان: جی وہی عرض کیا ہے کہ 1+3 ہوں یا 3+1 دونوں کا جواب چار ہوتا ہے۔
خاص انسان: نہیں 3+1 چار ہوتے ہیں۔
:atwitsend::atwitsend::atwitsend::atwitsend:
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


Pence-statement-2.jpg


امريکی نائب صدر نے نيوزی لينڈ کے ساتھ امريکی صدر کے اظہار يکجہتی اور تمام ذمہ داران کو کيفر کردار تک پہنچانے کے ليے اپنے تعاون کا اعادہ کيا۔ ان نفرت انگيز کاروائيوں کی اس متنوع اور برداشت پر مبنی معاشرے ميں کوئ جگہ نہيں ہے جس کے ليے نيوزی لينڈ بجا طور پر جانا جاتا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
 

سید ذیشان

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


Pence-statement-2.jpg


امريکی نائب صدر نے نيوزی لينڈ کے ساتھ امريکی صدر کے اظہار يکجہتی اور تمام ذمہ داران کو کيفر کردار تک پہنچانے کے ليے اپنے تعاون کا اعادہ کيا۔ ان نفرت انگيز کاروائيوں کی اس متنوع اور برداشت پر مبنی معاشرے ميں کوئ جگہ نہيں ہے جس کے ليے نيوزی لينڈ بجا طور پر جانا جاتا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
ڈانلڈ ٹرمپ نے کیا فرمایا اس بابت؟
 

جاسم محمد

محفلین
دنیا دہشت گردی کو مسلمان یا اسلام سے آخر جوڑتی کیوں ہے
20/03/2019 فرنود عالم



دہشت گردی کو دنیا اسلام سے یا مسلمانوں سے کیوں جوڑتی ہے۔ کرائسٹ چرچ کی النور مسجد میں ہونے والے سانحے کے تناظر میں یہ سوال ترک وزیراعظم طیب اردگان نے بھی اٹھایا ہے۔ امتِ مرحومہ نے اس سوال کو سراہا اور خوب سراہا۔ دیکھ لیتے ہیں کہ آخر دنیا ایسا کیوں کرتی ہے!

دنیا جانتی ہے کہ جن حالات سے کبھی ہم گزرے تھے ٹھیک انہی حالات کا سامناکبھی مغرب کو رہا۔ ہم نے بھی شہروں کے شہر اجاڑے، انہوں نے بھی کھوپڑیوں کے مینار پر جھنڈے گاڑے۔ ہم نے مسلم سائنس دانوں کو قلعوں میں بند کر کے مارا، انہوں نے اٹلی کے چرچ میں کھڑا کرکے سزائے موت سنائی۔

ہم نے استنبول میں پبلشرز کے چھاپے خانے جلا کر دھواں کیے، انہوں نے پبلشرز کو برطانیہ میں سولی چڑھایا۔ انہوں نے مسلم عبادت خانوں میں اصطبل بنائے اور ہم نے کلیساوں میں قصاب خانے کھولے۔ آج دنیا دونوں میں ایک فرق دیکھ رہی ہے۔ فرق یہ ہے کہ آج اپنے ماضی پروہ شرمندہ ہیں، اپنے ماضی پرہمیں آج بھی فخر ہے۔ محض فخر ہوتا تو کچھ بات تھی، ہم تو اسی تاریخ سے استدلال کرتے ہوئے آج بھی تاریخ کو دہراتے ہیں۔

دنیا دیکھتی ہے کے ہمارے ہاں غیرمسلم شہریوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ انہیں صرف مسلم شہریوں کی تبلیغ گوارا کرنے کی اجازت ہے۔ بیرون ممالک سے غیرمسلموں کے تبلیغی قافلے پاکستان نہیں آسکتے۔ اسلامی تعلیمات میں دلچسپی ہو تو ضرور آسکتے ہیں۔ ہمارا آئین عقائد کے حوالے سے اپنی واضح رائے رکھتا ہے۔ ہمارا نصاب مذاہب پر تبصرے کرتا ہے۔ غیرمسلم اگر یکساں شہری حیثیت کے طلبگار ہوں تو محض پاکستان میں پیداہوناکافی نہیں ہوگا۔

برابری درکار ہے تو ریاست کے بالادست عقیدے کے آگے تسلیم بھی ہونا ہوگا۔ بصورت دیگر کسی خاص منصب پر ملک کی خدمت کے لیے ان کی صلاحیتوں پر اعتبار نہیں کیا جاسکے گا۔ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنواتے وقت اپنے پیدائشی کوائف دینا کافی نہیں ہوں گے۔ اپنے مذہبی عقیدے کی تفصیلات بتانا بھی ضروری ہیں۔ ووٹ دیتے اور لیتے وقت آپ کا محض شہری ہونا کافی نہیں ہے۔ مذہب کے تناظر میں کچھ اور سوالات ہیں جن کی جوابدہی ضروری ہے۔

سرکاری اسامیوں کے اشتہارات میں برتر نوکریاں کلمہ گو شہریوں کے لیے خاص ہوں گیں۔ خاکروبی کے خانے مسیحیوں اور ہندووں کے لیے مختص ہوں گے۔ ملک کا چیف جسٹس انتہائی ذمہ دار منصب سے کھڑے ہوکر ہندووں سے متعلق کہتا سنائی دے گا، ان کا تو میں نام بھی نہیں لینا چاہتا۔ دنیا کو حیرت چیف جسٹس کے کہے پر نہیں ہوتی۔ چیف جسٹس کے کہے پر قوم کے شعوری اطمینان پر ہوتی ہے۔

دنیا دیکھتی ہے کہ ہمارے پاس دو مسیحی شہریوں پر باندھے گئے بہتان کے لیے ثبوت ناکافی ہوجاتے ہیں تو ہم کیس کی سماعت کرنے والے جج جسٹس عارف اقبال بھٹی کو قتل کردیتے ہیں۔ کٹہرے میں ہماری ساری دلیلیں جب پٹِ جاتی ہیں تو ہم جنید حفیظ کے وکیل راشد رحمان ایڈوکیٹ کو قتل کردیتے ہیں۔

آسیہ مسیح کی درخواست سپریم کورٹ میں سماعت کے لیے منظور ہوتی ہے تو ہم صاف کہہ دیتے ہیں کہ انصاف وہی تصور ہوگا جو ہمارے حق میں ہوگا۔ ہماری منشا کے خلاف فیصلہ ہوا تو ہم حالات کے ذمہ دار نہ ہوں گے۔ ایک مکار مولوی رمشا مسیح پر توہین قرآن کا مقدمہ دائر کرتا ہے۔ مقدمے کی سماعت سے پہلے ہی سارا جہان مولوی کا طرف دار ہوجاتا ہے۔ دو گواہ عدالت میں بتاتے ہیں کہ قرآن کے اوراق اس مولوی نے خود جلائے تھے۔ دنیا دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے کہ یہ سوال کسی نے اٹھایا ہی نہیں کہ قرآن جلانے والے مولوی کا اب کیا کریں؟ سوال یہ اٹھایا جارہا ہے کہ ایک مفلس ناخواندہ مسیحی بچی موت کے منہ سے نکل کیسے گئی۔

دنیا دیکھتی ہے کہ غازی علم دین کوہم نے نصاب کا حصہ بنایا ہوا ہے۔ کم سن بچوں کو ہم پڑھاتے ہیں کہ مولانا عطا اللہ شاہ بخاری نے عشق و محبت میں ڈوبی تقریر کی تھی تو یہ دیدہ ور پیدا ہوا تھا۔ اس کی عظمت کی دلیل یہ ہے کہ قائد اعظم نے اس کا مقدمہ لڑا تھا۔ اس کی فضیلت کے لیے کافی ہے کہ علامہ اقبال نے اس سے متعلق کہا تھا، ترکھان کا لونڈا بازی لے گیا ہم دیکھتے رہ گئے۔ اس کی سچائی کا ثبوت یہ ہے کہ علامہ نے غازی علم دین کا جسد خاکی قبر میں اتار تھا۔

اس کے برحق ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ایم ڈی تاثیر نے غسل کے لیے چارپائی مہیا کی تھی۔ دنیا اس نصاب کے نتائج ممتاز قادری کی صورت میں دیکھتی ہے۔ ممتاز قادری ایک خونِ ناحق کرتا ہے تو اس کا ماتھا چومنے کے لیے محمود و ایاز ایک ہی صف میں نظر آتے ہیں۔ وظیفہ خوارانِ شہر اعلان کردیتے ہیں کہ ہم اس کا جنازہ نہیں پڑھائیں گے۔ سلمان تاثیر کے کچھ نمک خوار اگر کندھا دینے کے لیے حامی بھرنے کا سوچ بھی لیتے ہیں تو انتڑیوں میں بل پڑ جاتے ہیں۔

دنیا دیکھتی ہے کہ ہم سلمان تاثیر کے قتل کی خبر سنتے ہیں تو ایک دوسرے کو مبارکباد کے پیغامات بھجواتے ہیں۔ ممتاز قادری کو ہم کاندھوں پر اٹھا لیتے ہیں۔ اول ممتاز قادری کے ارتکاب کی جانچ کے لیے میزان قائم ہونے نہیں دیتے۔ میزان قائم ہوجائے تو ممتاز قادری کی حمایت میں ہم ملک بھر میں ریلیاں نکالتے ہیں۔ انسداد دہشت گردی کے جج پرویز شاہ کا اس قدر گھیراؤ کرتے ہیں کہ وہ اہل خانہ کو بیرون ملک منتقل کردیتے ہیں۔ علما میں سب سے معتدل اور معتبر عالم ہم مفتی تقی عثمانی کو سمجھتے ہیں۔

شیخ الاسلام کے منصب پر بیٹھے حضرت مفتی تقی عثمانی فرماتے ہیں، سلمان تاثیر اگر قصوروار نہیں تھے تواس صورت میں بھی اس بات کا یقین رکھنا چاہیے کہ خوش نیتی کے سبب ممتاز قادری کی بخشش ہوجائے گی۔ کیونکہ اس نے جو قتل کیا ہے وہ نبی کی محبت میں سرشار ہوکر کیا ہے۔ دنیا حیران ہوجاتی ہے جب اسے پتہ چلتا ہے کہ یہ صاحب جج بھی رہ چکے ہیں۔ حیرت کا ٹھکانہ نہیں رہتا جب دیکھتے ہیں کہ ایک اور جج جسٹس میاں نذیراختر اجتماعِ عام میں کہتے ہیں، ممتاز قادری کوشرعا اور قانونا سزا نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ اس نے سلمان تاثیر کا خون کرکے وہ ذمہ داری نبھائی ہے جو دراصل عدالت کو نبھانی چاہیے تھی۔

دنیا دیکھتی ہے کہ ہم مشال (سچے سرخ پوش کا عظیم بیٹا) کو توہینِ مذہب کے مقدمے میں گھیرتے ہیں اور پھرتکبیر کے نعروں میں اسے سنگسار کر دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس قتل کو ہم سراہتے ہیں۔ قاتلوں کی حمایت میں ہم جتھے کی صورت نکل آتے ہیں۔ عدالت میں جب ثبوت وشواہد ناکافی ہوجاتے ہیں تو ہم عدالت کا گھیراؤ کر لیتے ہیں۔ دھمکی دیتے ہیں کہ اگر مشال کے قاتلوں کو سزا ہوئی تو ہم نظام بٹھا دیں گے۔ مردان کے چوک پر علمائے دین مشترکہ فتوی جاری کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں، مشال نے اگر مذہب کی توہین نہ کی ہو، تو بھی قاتلوں کو سزا اس لیے نہیں دی جاسکتی کہ انہوں نے یہ قتل حضورؐ کی محبت میں کیا ہے۔ قاتل رہا ہوتے ہیں تو ہم استقبال کرتے ہیں۔ قاتل صوابی انٹرچینج پر فخریہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہاں ہم نے قتل کیا تھا اور آئندہ بھی مشالوں کو اسی انجام سے دوچار کریں گے۔ دنیا حیرت زدہ رہ جاتی ہے کہ اعتراف کے باوجود عدالت ان قاتلوں کو قانون کے آگے جوابدہ نہیں کر سکتی۔

دنیا دیکھتی ہے کہ ملالہ یوسفزئی دہشت گردوں کے خلاف آتی ہے تو ہم موقف کی تائید کرنے کی بجائے شک کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ آرٹیکل لکھتی ہے تو ہم پوچھتے ہیں سچ بتاؤ کس نے لکھ کر دیا۔ کسی ٹاک شو میں بیٹھ کر اعتماد سے سوال کا جواب دیتی ہے تو ہم کہتے ہیں اسے پیشگی سوال بتا دیے گئے تھے۔ تیاری کر کے جوابات دے رہی تھی۔ ملالہ پر فائرنگ ہوتی ہے توہم مذمت کی بجائے ثبوت مانگتے ہیں کہ بتاؤ کہاں گولی لگی۔ ملالہ مدت بعد پاکستان آتی ہے تو ہم استقبال نہیں کرتے، سوال کرتے ہیں۔ خیریت تو ہے کیوں آ رہی ہے؟ ۔ ملالہ نوبل انعام کے لیے نامزد ہوتی ہے تو ہم سوال کرتے ہیں کہ عبدالستار ایدھی کو کیوں نہیں دیا گیا۔

دنیا پھر یہ دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے کہ وہی عبدالستار ایدھی وفات پا جاتے ہیں تو ہم پوچھتے ہیں انہوں نے اپنی آنکھیں کیوں دان کر دیں؟ دعوی داغ دیتے ہیں کہ وہ تو ملحد ہیں ان کے جنازہ کیسے پڑھایا جا سکتا ہے؟ یہاں تک کہ روتھ فاؤ کا انتقال ہوجائے تو یہ ملک سوگوار نہیں ہوتا بلکہ فکرمند ہوجاتا ہے۔ فکرمند اس بات کے لیے کہ کہیں کوئی اس کے لیے مغفرت کی دعا تو نہیں کر رہا؟ خدانخواستہ کوئی اس کے جنت مکانی ہونے کی خوش گمانی تو نہیں پال رہا؟

دنیا دیکھتی ہے کہ یہاں احمدیوں کی عبادت گاہوں پر حملے ہوتے ہیں تو تعزیت کے لیے صرف دو لوگ میسر آتے ہیں۔ جو دو میسر آتے ہیں ان کو بھی جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ ہم اپنے فون بند کردیتے ہیں کہ کہیں مذمت ہی نہ کرنی پڑجائے۔ ہم دو دن بعد فون کھولتے ہیں تو علمائے دین کا ایک اہم اجلاس اسلام آباد میں طلب کرلیتے ہیں۔ دنیا کو لگتا ہے کہ یہ پچھلے دنوں ہونے والی سفاکیت پر دہشت گردوں کی مذمت کریں گے۔ مگر دنیا کوپتہ چلتا ہے کہ ہمیں اس بات کا قطعاً دکھ نہیں ہے کہ کچھ شہری بے دردی سے قتل کردیے گئے ہیں۔

دکھ اس بات کا ہے کہ میاں نواز شریف نے قتل کیے جانے والے احمدی شہریوں کو اپنا بھائی کیوں کہہ دیا ہے۔ ہم دنیا کو اطلاع دیتے ہیں کہ میاں صاحب کا ایمان تو زائل ہوا ہی ہے ان کا نکاح بھی ڈی ایکٹیویٹ ہوگیا ہے۔ ہم اجلاس میں قرار داد پاس کرتے ہیں کہ مارے جانے والے قادیانیوں کو بھائی کہنے پر میاں نواز شریف تجدیدِ ایمان کریں، تجدیدِ نکاح کریں اور دل آزاری پر پوری قوم سے معافی مانگیں۔

دنیا دیکھتی ہے کہ ہم طالبان شوری کو خط لکھ کر اصرار کرتے ہیں کہ بامیان میں ایستادہ بدھا کے مجسموں کو بموں سے اڑا دیں۔ طالبان جب مجسموں کو اڑا دیتے ہیں تو ہم پاکستان میں شادیانے بجاتے ہیں۔ نمائندہ اخبارات میں اس واقعے پر خصوصی صفحات شائع کرتے ہیں۔ بدھا کے شکستہ مجسموں کی تصاویر بناکر ہم کلینڈر شائع کرواتے ہیں۔ دنیا دیکھتی ہے کہ اس ملک کے پڑھے لکھے کاروباریوں، اساتذہ، وکلا اور علما کے دفاتر میں شکستہ مجسموں والے کلینڈر لٹکے ہوئے ہیں۔ سال گزرچکا ہوتا ہے مگرہم کیلینڈر نہیں اتارتے۔ اس عمل کی مخالفت کرنے والوں کو ہم بتاتے ہیں کہ جو کچھ افغانستان میں ہوا ہے، یہ مدت بعد محمود غزنوی، رسالتِ مآب اور حضرتِ ابراہیم کی تاریخ دہرائی گئی ہے۔

دنیا دیکھتی ہے کہ پاکستان میں کسی جرنیل کو آرمی چیف بننے سے روکنا ہو تو ہم اس کے متعلق قادیانی ہونے کی ہوا چھوڑ دیتے ہیں۔ انتخابات میں کسی کا رستہ کاٹنا ہو تو اس کے کھاتے میں ہم مندر وکلیسا ڈال دیتے ہیں۔ وزیر اعظم معاشی مشاورت کے لیے میاں عاطف کی خدمات لینا چاہیں توہم انہیں قیامت کے نامے بھیجتے ہیں۔ میاں عاطف کے نام سے اس لیے دستبردار ہونا پڑتا ہے کہ اس کے عقیدے سے ریاست کو اتفاق نہیں ہے۔ یہاں ریاستی کارندے ایک وفاقی وزیر کو فرقہ پرور ملا کی بارگاہ میں ایمان کی تصدیق کے لیے پیش کرتے ہیں۔ ملا کے کارندے وفاقی وزیر سے سوال کرتے ہیں۔ مولوی جواب سے مطمئن نہیں ہوتے تو ریاستی کارندے وفاقی وزیر سے استعفی لے کر ہنستے کھیلتے مولوی کو پکڑا دیتے ہیں۔

دنیا دیکھتی ہے کہ یہاں وفاقی وزیر کو جان بچانی ہو تو اسے عمرے کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ آرمی چیف کو اپنے ایمان کا یقین دلانا ہو تو تشہیر کے ساتھ اوپر تلے میلاد کی محفلیں کروانی پڑتی ہیں۔ آسیہ مسیح کا فیصلہ نمٹا کرقاضیوں کو روضہ رسول کی جالیوں سے چمٹ کر فوٹو شوٹ کروانا پڑتا ہے۔ یہاں تک کہ سپہ سالار کوفرزند ارجمند کی نکاح کی تقریب کو میلاد کی محفل میں بدلنا پڑتا ہے۔ وزیر پہ دنیا تنگ ہوجائے تومولانا ثاقب رضا سے بغلگیر ہوکر ”کھینچ میری فوٹو“ کی آاواز لگانی پڑتی ہے۔ سیاست دان کو تصدیق درکار ہو تو مولانا طارق جمیل کے ساتھ اسے سیلفی لینی پڑتی ہے۔

دنیا ہمارا ایک اور کمال دیکھ رہی ہے۔ یہ کمال ہٹ دھرمی اور نرگسیت کا کمال ہے۔ یوں کہیے کہ حُسنِ تضاد کا کمال ہے۔ یعنی ہم غیر مسلموں کو دعوت کی اجازت نہیں دیتے، اجازت نہ دینا ہمارا حق۔ ہمیں غیرمسلم ممالک میں دعوت کی آزادی چاہیے، یہ چاہنا بھی ہمارا حق۔ بلاول بھٹو نے ماتھے پہ تلک کا نشان لگا کر ہندوبرادری سے محبت کا اظہار کیا، وہ کافر ہو گئے۔ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے دوپٹہ لیا مسجد گئیں اور اجلاس کا آغاز تلاتِ کلامِ پاک سے کروایا، وہ مسلمان نہیں ہوئیں۔

پاکستان میں غیرمسلموں کے ساتھ کھڑے ہونے والوں کا ہم نے گھیراؤ کیا، یہ ہمارا حق ہے۔ کرائسٹ چرچ یونیورسٹی کے غیرمسلم طلبا نے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لیے کھڑے ہوکر اذان سنی، یہ اسلام کی حقانیت ہے۔ عاصمہ جہانگیر نے ازراہِ یکجہتی مندر میں ماتھا ٹیکا، وہ جہنم کی آگ میں جلیں گیں۔ نیویارک میں ٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف مسیحیوں نے علامتی سجدے کیے، وہ حورانِ بہشت سے خوش فعلی نہیں کرسکیں گے۔

غیر مسلم ممالک میں فارغ ہونے والے چرچ قادیانیوں کے حوالے کیے گئے، یہ عالمی سازش ہے۔ لندن کے چرچ سنیوں کے حوالے ہوئے، یہ اللہ کی نصرت ہے۔ پاکستان میں لبرل اور سیکولرز کا گھیراؤ کرو، یہ اقامتِ دین کی ضرورت ہے۔ کینیڈا، آسٹریلیا، انڈیا اور فرانس میں لبرل پارٹیوں کو ووٹ کرو، یہ اقامتِ دین کی طرف پیش قدمی ہے۔ کسی غیر مسلم نے اپنا مذہب چھوڑدیا، کوئی اسے ہاتھ نہ لگائے۔ مسلمان نے اپنا مذہب چھوڑدیا، پکڑلو بچ کے نہ جائے!

دنیا یہ بھی دیکھ رہی ہے کہ جب نیوزی لینڈ کے سانحے کو دو دن گزرے تو پاکستان میں دو احمدی ڈاکٹروں کو قتل کرکے فتح جنگ کی سڑک پر پھینک دیا گیا۔ اب دنیا فرض کرنا چاہتی ہے کہ پاکستان میں ایک سینیٹر اگر اخبار نویسوں کے سامنے کھڑے ہوکر احمدیوں کے قتل کی مذمت سے گریز کرے، تو کیا کوئی نوجوان اس کی ٹنڈ پر انڈہ پھوڑے گا؟ اور اگر کسی سینیٹر نے احمدیوں کے قتل کی مذمت کردی، احمدی شہریوں کو گلے لگالیا، ان کے لیے پارلیمان میں تعزیتی کلمات کہہ دیے تو کیا وہ سینیٹر مملکتِ اللہ داد پاکستان میں دل وجاں سلامت رہ پائے گا؟ دنیا اس بات کو خوب سمجھ رہی ہے کہ انڈہ پھوڑنے والے نوجوان کو سراہنے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ نوجوان مسلک و مذہب اور رنگ ونسل سے بالاتر سوچتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اس کے ہاتھوں ایک ایسے شخص کی تحقیر ہوئی ہے جو اگر مگر والے پاکستانی اسلوب میں سانحے کی مذمت کررہا تھا۔

دنیا دہشتگردی کو اسلام سے کیوں جوڑتی ہے؟ کیونکہ دنیا دیکھتی ہے کہ ہم آئینی جبر، جمہوری استبداد، نصابی ناہمواریوں، عقیدے کی اجارہ داری، جنسی تفریق، مذہبی امتیاز، جنگجووں کی حمایت، مظلوم کی مخالفت، غیر ریاستی عناصر کی ریاستی پشت پناہی، الزام دشنام بہتان غرضیکہ ہرغیر منصافانہ ریے کا جواز اسلام سے ہی پیش کرتے ہیں۔ اگر کج رو ہیں انجم آسماں تیرا ہے یا میرا؟
 
Top