فیصلہ کن قوتوں کو نواز شریف اور زرداری قبول نہیں

جاسم محمد

محفلین
22 برس کی تاریخ پڑھیں اپنی جماعت کی اور دیکھیں کہ اس پارٹی کو کب لے پالک بنایا گیا تھا۔
تاریخ کے مطابق 1997 کے الیکشن میں تحریک ا نصاف کو 3 لاکھ۔ 2002 کے الیکشن میں 2 لاکھ۔ 2013 میں 75 لاکھ۔ جبکہ حالیہ 2018 کے الیکشن میں 1 کروڑ 69 لاکھ ووٹ ملے ہیں۔ یاد رہے کہ سلیکٹڈ وزیر اعظم کا الزام لگانے والی بڑی جماعتوں کے اپنے ووٹ سابقہ و حالیہ الیکشن میں بہت زیادہ کم نہیں ہوئے بلکہ ایک جماعت کے تومزید بڑھ گئے۔ 2013 میں ن لیگ کو 1 کروڑ 47 لاکھ اور پی پی پی کو 68 لاکھ ووٹ پڑے تھے۔ جبکہ 2018 میں ن لیگ کو 1 کروڑ 29 لاکھ اور پی پی پی کو 69 لاکھ ووٹ ملے ہیں۔
یہ جوبالکل نیا ووٹر عمران خان کی 22 سالہ جدو جہد کے بعد باہر نکلا ہے۔ اسے اسٹیبلشمنٹ کا برین چائلڈ کہنا نہ صرف زیادتی ہے بلکہ حقائق کے بھی سراسر منافی ہے۔ فوج نے شریفوں اور زرداریوں کی نااہل حکومتوں سے سبق سیکھ کر عمران خان کو "سلیکٹ" کیا ہے۔ مگر یہ سلیکشن اتنی کمزور تھی کہ مرکز اور پنجاب میں تحریک انصاف بغیر اتحادیوں کے اپنی حکومت تک نہ بنا سکی۔ پنجاب میں خاص طور پر ن لیگ نے تحریک انصاف سے زیادہ ووٹ حاصل کئے مگر حکومت نہ بن سکی۔ جبکہ سندھ میں بھٹو زندہ ہے والے جمہوریوں کی تعداد مزید بڑھ گئی ہے۔
ہم انصافی اتنی کمزور سلیکشن پر اسٹیبلشمنٹ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ اگر سلیکشن ہی کرنی تھی تو کم از کم 1997 کی طرح نواز شریف والی دو تہائی اکثریت ہی دے دیتے۔ یوں تحریک انصاف کو ملک میں ضروری آئینی و قانونی ریفارمز کے لئے فری ہینڈ مل جاتا۔ مگر ایسا ہوا نہیں۔ اس وقت حکومت اتحادیوں کی بیساکھیوں پر چل رہی ہے جو کسی بھی وقت غائب ہو سکتی ہے۔ اوپر سے میڈیا حکومتی لفافے نہ ملنے کی وجہ سے ایسا تنقیدی بنا ہوا ہے جیسے تحریک انصاف کے پہلے 5 سال گزر چکے ہیں اور نئے الیکشن سر پر ہیں۔
 
آخری تدوین:
آپ شاید بھول رہے ہیں کہ اس وقت سول حکومت، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ ایک پیج پر ہے۔ اگر فوج نواز شریف اور زرداری کو این آر او دے گی تو ریاست کے دیگر ستون شور مچائیں گے۔ یوں عمران خان کو اگلے پانچ سال حکومت کرنا مشکل ہوگا۔ اس لئے اسٹیبلشمنٹ نے اسی میں عافیت جانی کہ تحریک انصاف کے ایکشن وعدوں اور عدالت میں کرپشن کیسز کی روشنی میں ان دونوں سے جان چھڑائی جائے۔
یعنی آپ کہتے ہیں کہ حکومت اور عدلیہ فیصلہ کن قوتوں کے پیج پر ہی ہیں۔ یہ کون سا ویب پیج ہے؟
 

جاسم محمد

محفلین
شاہ محمود قریشی کا پیغام اور امپائر کے اشارے
27/01/2019 سید مجاہد علی


شاہ محمود قریشی جیسے سیاستدان پاکستانی سیاست میں باد نما کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کی حرکات و سکنات اور طرز گفتگو سے مستقبل کے سیاسی منظر نامہ کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ ان لوگوں نے روز اول سے اقتدار کو عوامی مفاد کے تحفظ کا بہترین راستہ سمجھ کر اس رسی کو مضبوطی سے پکڑا ہؤا ہے۔ یہ سلسلہ چونکہ نسل در نسل چلا آ رہا ہے اس لئے نہایت وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ایسے لیڈر نہ تو کوئی ایسا قدم اٹھاتے ہیں جس سے عوام کا وسیع تر مفاد یعنی زینہ اقتدار ان کی دسترس سے دور ہو جائے اور نہ ہی کوئی ایسا لفظ منہ سے ادا کرتے ہیں جس کی وجہ سے طاقت کے وہ مراکز ان سے بدگمان ہوجائیں جن کی سرپرستی ان خانوادوں کا سرمایہ افتخار اور مقصد حیات رہی ہے۔ اس لئے جب بھی یہ کچھ کریں یا کہیں تو مستقبل میں اقتدار کی تصویر کشی کے لئے اسے نظرانداز کرنا مناسب نہیں ہوتا۔

یہی وجہ ہے کہ جب فروری 2011 میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزارت خارجہ کا قلمدان چھوڑ کر انہوں نے چند ماہ تجسس پیدا کرنے کے بعد اسی برس کے آخر میں تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی اور اس کے وائس چئیرمین بن گئے تو عامیوں کو تو حیرت ہوئی کہ اقتدار کے جھولنے سے اپوزیشن کے میدان خارزار میں آنے کی وجہ پیپلز پارٹی کے ساتھ کوئی اصولی اختلاف ہی ہوگا۔ پھر جب انہوں نے مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کے درمیان “ میں ادھر جاؤں کہ ادھر” کا کھیل کھیلا تو بھی مستقبل کے منظر نامہ پر صائب النظری سے محروم لوگ یہی سمجھے کہ لاڈلے کی منزل نواز شریف کا دربار ہی ہو گا کیوںکہ 2013 میں ان کی کامیابی کے اندازے قائم کئے جا رہے تھے۔ لیکن شاہ محمود قریشی نے کوٹری کے جلسہ عام میں جب عمران خان جیسے “اناڑی” کا ہم سفر بننے کا اعلان کیا تو نادانوں نے تو انگلیاں دانتوں میں دبائیں لیکن سیاسی منظر کو بڑی تصویر کے تناظر میں دیکھنے والے سر دھننے لگے کہ میدان کے شہسوار غلط گھوڑے کا انتخاب نہیں کرتے۔ تاہم کسی کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ شاہ محمود قریشی کی سواری نے وہاں پڑاؤ ڈالا ہے جسے مستقبل کی منزل بنانے کی تیاریوں کا آغاز ہو چکا تھا۔

اب ملتان میں اپنے حلقہ انتخاب کا دورہ کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے نواز شریف اور آصف زرداری کے بارے میں گوہر افشانی کی ہے۔ حالانکہ وہ نئی نویلی حکومت کے وزیر خارجہ ہیں اور ملتان کے اسی دورہ کے دوران میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے اپنی سفارتی مہارت اور پاکستان کو عالمی سفارتی نقشے پر نمایاں کرنے کے لئے اپنے کارناموں کا ذکر بھی کیا ہے لیکن اس دورے میں ان کا سب سے قابل غور جملہ نواز شریف اور آصف زرداری کے بارے میں تھا کہ طاقت کے مراکز یا فیصلہ کرنے والی قوتیں ان دونوں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

اس تبصرے کی وجہ تسمیہ کے بارے میں کسی بے خبر اور لیلی اقتدار کی زلف پیچدار کے خم میں چھپے رازوں سے ناآشنا تو کچھ کہنے سے قاصر رہیں گے۔ لیکن جہاں اور جس جگہ جو پیغام پہنچانا مقصود ہوگا وہ ضرور موصول ہو گیا ہوگا اور شاید درپردہ طریقہ مواصلت سے اس کا جواب بھی پہنچا دیا گیا ہو۔ یوں تو پیغام وصول ہونے کی رسید بھی (اگر مکتوب الیہ اس پیغام کو وصول کرنے میں دلچسپی رکھتا ہو یعنی اس کے مطابق حکمت عملی بلکہ طرز عمل اختیار کرنے پر رضامند ہو۔ اگرچہ پاکستان کی المناک سیاسی تاریخ میں سیاسی لیڈر اور سیاسی جماعتیں شاہ صاحب جیسے پیغامبروں کے اشاروں کنایوں کی منتظر رہتی ہیں۔ ان اشاروں کے انتظار میں عوام کے ووٹ کو عزت دو اور مجھے کیوں نکالا جیسے نعرے بھاپ کی طرح ہوا ہو جاتے ہیں) موصول ہو چکی ہو گی۔

یہ بات نوٹ کرنے کی ضرورت ہے کہ شاہ محمود قریشی نے اس بیان میں نواز شریف اور آصف زرداری کا نام لیا ہے۔ مسلم لیگ نون یا پیپلز پارٹی کا ذکر نہیں کیا۔ گویا طاقت کے جن مراکز نے نواز شریف اور زرداری کو ناقابل قبول ہونے کا پیغام پہنچانے کے لئے شاہ صاحب کی خدمات حاصل کی ہیں، وہ بین السطور یہ پیغام دے رہے ہیں کہ اگر یہ دونوں پارٹیاں اپنے ان دونوں رہنماؤں سے “نجات” حاصل کر لیں تو مستقبل میں ان پارٹیوں کے “قابل قبول” لیڈروں کے لئے امکانات پیدا ہوسکتے ہیں۔ اگرچہ یہی پیغام تجزیہ نگاری کے نام پر مستقبل کی سیاسی فال نکالنے والے مبصرین بھی کسی نہ کسی طرح پہنچاتے رہے ہیں لیکن جب شاہ محمود قریشی جیسا “معتبر” ایلچی ایسا پیغام لاتا ہے تو اس کی اہمیت اور ساکھ مستند سمجھی جا سکتی ہے۔

سیاست کو کسی امیر زادے کی حویلی کی میز پر سجی شطرنج کی بساط بنانے اور ماننے والوں کے لئے یہ پیغام رسانی اہم ہوسکتی ہے کیونکہ انہی پیغامات کی روشنی میں پاکستانی سیاست کےشاہ و وزیر مستقبل کی چالوں کا تعین کرتے ہیں۔ لیکن جب یہ پیغام برسر اقتدار پارٹی کے وائس چئیرمین اور حکومت کے ایک اعلی عہدیدار پہنچاتے ہیں تو اس کے دو پہلوؤں کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے:

الف) ملک میں جمہوریت کے نام پر پیادوں کا میلہ سجانے والے، اب نئے میلے کی تیاری کر رہے ہیں کیوں کہ قافلہ تو چلتا رہتا ہے اور زندگی کو قرار نہیں ہے۔ (قرار تو بس بساط کے شاہوں اور وزیروں کو ہی ہے جو کینچلی اور گھروندے بدلتے دیر نہیں کرتے)

ب) جمہوریت جس صنف کا نام ہے پاکستان کے سیاست دان اس کی ابجد سے بھی آگاہ نہیں ہونا چاہتے۔ یا وہ اس آگہی کو راستے کا پتھر سمجھ کر نظرانداز کرنا ہی مصلحت سمجھتے ہیں۔ سب مانتے ہیں کہ فیصلے جہاں ہوتے ہیں، وہیں ہوتے رہیں لیکن گلہ یا آہ و بکا اس وقت سننے کو ملتی ہے جب جمہوریت کے ڈھونگ میں چہرے تبدیل کر لئے جاتے ہیں۔

اپویشن لیڈر شہباز شریف نے گزشتہ دنوں قومی اسمبلی میں بیرونی امداد لانے میں حکومت کی کامیابی کو آرمی چیف کا کارنامہ قرار دیا تھا۔ حکومت یا فوج نے اس دعوی کی تردید کرنا ضروری نہیں سمجھا کیوںکہ ایک پیج کے جس نظریہ کی بنیاد پر کاروبار مملکت انجام دیا جارہا ہے، اس میں یہ تعاون لازمہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ شہباز شریف کو اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ آرمی چیف ملک کی خارجہ و مالی پالیسی کیوں چلا رہے ہیں۔ ان کا تاسف تو صرف یہ ہے کہ اس پیج پر وہ خود کیوں موجود نہیں جس پر عمران خان براجمان ہیں اور اس سرپرستی کو اپنے “ویژن” کی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ بلاوا ہو تو شہباز شریف بھی سر کے بل حاضر ہونے پر تیار ہیں۔

ملک کے سیاست دان اسی کھیل کو جمہوریت بنا کر بیچتے رہے ہیں۔ عوام سے ملنے والے ووٹوں کو طاقت کے مراکز میں اپنی باری لگوانے کا ذریعہ اور سیاسی مخالفین پر دشنام طرازی کا لائسنس سمجھا جاتا ہے۔ باری البتہ اس وقت لگتی ہے جب کھلاڑی آؤٹ ہوجائے یا اسکور کرنے میں ناکام رہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ ایمپائر کے ایما پر اشارے کروانے والے شاہ محمود قریشی اپنی ٹیم کی ناقص کارکردگی کا اعتراف کر رہے ہیں یا کھیل کا یہ اصول بیان کر رہے ہیں کہ مقابلے کے لئے مدمقابل ٹیموں کی ہمہ وقت ضرورت رہتی ہے۔ ورنہ کھیل کا لطف بھی ختم ہوجاتا ہے اور ایمپائر بھی غیر ضروری ہو سکتا ہے۔

پاکستان کی سیاست میں ایمپائر کی سلامتی کے لئے ایک سے زیادہ ٹیموں کی مانگ ہمیشہ رہے گی۔ شاید شاہ محمود قریشی مایوس اپوزیشن کو یہی حوصلہ دینے کا پیغام لائے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
لندن جانے کا پلان تیار کیے ہوئے ہیں۔ اب جو بھی نیا آئے گا کیا وہ بھی اسی پیج پر ہے ؟
عمران خان لندن کی عالی شان زندگی چھوڑ کر پاکستان ٹھیک کرنے واپس آیا۔ یہ وہاں بھاگ رہا ہے۔ ہر کوئی عمران خان نہیں ہوتا۔
نئے چیف جسٹس کے آئندہ ہونے والے عدالتی فیصلہ طے کر یں گے کہ وہ کس کے ساتھ ہیں۔ ویسے وہ پانامہ فیصلہ میں نواز شریف کو گاڈ فادر کہہ چکے ہیں۔
 

جان

محفلین
جب تک آپ یہ تسلیم نہیں کر لیتے کہ فیصلے کرنے کا اصل حقدار خدا کے بعد اس کی عوام کو ہے، آپ جمہوریت کی ج کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔ لہذا شور مچانے سے اور چڑھتے سورج کو پوجنے سے تبدیلی کی توقع رکھنا ایسے ہی ہے جیسے کسی مرد سے بچہ جنم دینے کی توقع کرنا۔
 

جاسم محمد

محفلین
جب تک آپ یہ تسلیم نہیں کر لیتے کہ فیصلے کرنے کا اصل حقدار خدا کے بعد اس کی عوام کو ہے، آپ جمہوریت کی ج کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔ لہذا شور مچانے سے اور چڑھتے سورج کو پوجنے سے تبدیلی کی توقع رکھنا ایسے ہی ہے جیسے کسی مرد سے بچہ جنم دینے کی توقع کرنا۔
بھٹو ، نواز کو ڈکٹیٹر لائے : عمران خان
عوام نے1964 میں ایوب خان کو ووٹ دیا تھا۔ اپوزیشن نے نتائج مسترد کر دئے
1970 میں عوامی لیگ کو ووٹ پڑا۔ بھٹو اور فوج نے حکومت دینے سے انکار کر دیا
1988 میں پی پی پی جیتی تھی۔ نواز شریف نے فوج کے ساتھ مل کر حکومت گرا دی
او ر یوں چل سو چل۔ عوام کو فیصلہ کا اختیار یقینا ہے مگر وہ پہلے الیکشن نتائج تسلیم کرنا تو سیکھ لیں۔ اور فوج کے ساتھ مل کر منتخب حکومتوں کو گرانا بند کریں۔ جیسا کہ ماضی میں بھٹو اور نواز شریف کرتے آئے ہیں۔
2018 میں تحریک انصاف اکثریتی ووٹ لے کر کامیاب رہی۔ جسےاپوزیشن نے تا حال تسلیم نہیں کیاہے۔ پارلیمان میں اور ہر جگہ سلیکٹڈ سلیکٹڈ کہتے ہیں۔ ایسے چلے گی جمہوریت؟
 

جاسم محمد

محفلین
عوام نے ریفرنڈم میں ضیا الحق کو 97 فی صد ووٹ۔ دیا تھا!
آمریت میں ہونے والے انتخابات کی کوئی حیثیت نہیں۔ مگر پچھلے دس سالوں سے انتخابات جمہوری طور پر منتخب حکومتیں کروا رہی ہیں۔ پھر کیوں ہارنے والی جماعتیں نتائج تسلیم نہیں کرتی؟
 

جاسم محمد

محفلین
یعنی آپ کہتے ہیں کہ حکومت اور عدلیہ فیصلہ کن قوتوں کے پیج پر ہی ہیں۔ یہ کون سا ویب پیج ہے؟
عمران خان کی کامیاب خارجہ پالیسی پر ایک نظر:
Second, the civil-military being on the same page and not cutting each other out allows for a smooth shift in policies. PM Imran Khan rightly recognises the security establishment as a key voice in the foreign and security policy. Instead of cutting it down to size and engaging in petty games, PM Khan has risen himself in stature to be able to dictate the foreign policy terms. The speed with which India, Afghanistan and the US account is being managed is reflective of this change.

Lastly, Imran Khan is able to utilise the capability of the military bureaucracy and Foreign Office – both highly functioning departments. Their core competence allows a civilian PM to get the necessary plans into action, something that the PM is struggling in other sectors. A seasoned foreign minister and a military-Foreign Office bureaucracy that is well organised can demonstrate how effectively policies can be implemented and results achieved.
Master of the game | The Express Tribune
عمران خان نے ماضی کی حکومتوں کی طرح اسٹیبلشمنٹ سے لڑائی جھگڑا کرنے کی بجائے ان کو پارٹنر بنایا اور محض چند ماہ کے عرصہ میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ اسے کہتے ہیں لیڈرشپ۔ ماضی کی حکومتوں میں تو ڈان لیکس اور میمو گیٹ سکینڈل نکل رہے تھے۔
 
Top