بھونگ مسجد

28167835_1594186397284214_4187688377730962565_n.jpg


بھونگ مسجد تحصیل صادق آباد ضلع رحیم یار خان میں واقع ایک گاوں بھونگ میں موجود ہے۔ یہ مسجد رحیم یارخان سے تقریباً 55 کلومیٹر دور واقع ہے. اپنے عمدہ ڈیزائن، منفرد طرزِ تعمیر اور جاذبِ نظر خطاطی کی وجہ سے اس مسجد کو خاص شہرت حاصل ہے۔
سردار رئیس غازی محمد نے یہ مسجد 1932 میں تعمیر کروانا شروع کی, آپ کے جد امجد حضرت بہاوالدین زکریا رحمتہ اللہ علیہ کے خلفا میں سے تھے۔ رئیس محمد غازی اعزازی مجسٹریٹ اور بہاولپور اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ کثیر مال و دولت ہونے کے باوجود انہوں نے درویشانہ زندگی گزاری۔ دینی تعلیم کا حصول، عبادت و ریاضت، سماجی کاموں اور مختلف علاقوں میں مساجد کی تعمیر ان کی زندگی کا مشن رہا۔رئیس غازی محمد نے اپنے خاندانی محل نما گھرکے قریب 1932ءمیں بھونگ مسجد کی تعمیر کے لئے ہدایات دیں اور کثیر سرمایہ فراہم کیا۔ تعمیر کے ایک ایک مرحلے پر انہوں نے ذاتی دلچسپی لی۔ البتہ مسجد کی تعمیر کی نگرانی کے لئے ماسٹر عبدالحمید کو مقرر کیا جنہوں نے نہایت محنت اور توجہ سے مسجد کی تعمیر کی نگرانی کی۔ مسجد کی تعمیر کےلئے آسٹریا، ہنگری، اٹلی اور دیگر ممالک سے سنگِ سرخ، سنگِ مر مر، سنگِ خارا، سنگِ سرمئی اور سنگِ سیاہ منگوائے گئے۔ ان پتھروں کو کاٹنے اور تراشنے والے، ٹائلوں پر پھول بنانے والے، میناکاری و خطاطی کرنے والے، صندل کی لکڑی پر باریک اور نفیس کام کرنے والے، گلکاری کرنے والے، سونے کے پھول بنانے والے سیکڑوں کاریگروں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ یہ مسجد 1932ءسے 1982ءتک تقریباً پچاس سال میں مکمل ہوئی۔ ان پچاس سالوں میں ہزاروں کاریگروں نے مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا جن کا تعلق پاکستان اور انڈیا سے تھا۔ مسجد کی تعمیر کے دوران کئی کاریگر عمر رسیدہ ہو گئے، کئی انتقال کر گئے۔ ان کے بیٹوں اور بعض کے پوتوں نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔ یوں تین نسلوں نے اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا۔ تمام کاریگروں کو ان کی مہارت اور تجربے کی بنیاد پر اُجرت دی جاتی تھی۔ ماہر کاریگروں کا ہر طرح سے خیال رکھا جاتا بلکہ ان کے بچوں کی شادیوں کے اخراجات رئیس غازی محمد ادا کرتے تھے.
مسجد کی تعمیر میں مصروف کاریگروں کے قیام و طعام کا انتظام بھونگ میں ہی کیا گیا تھا۔ بہت سی مراعات بھی ان کاریگروں کو حاصل تھیں۔ تب صادق آباد سے بھونگ تک مناسب ذرائع نقل و حمل موجود نہ تھے۔ نہ ہی پختہ سڑک تھی۔ لہٰذا بھاری مشینری اور تعمیراتی سامان صادق آباد ریلوے اسٹیشن سے بھونگ تک تقریباً 20 کلومیٹر کچے راستوں پر بیل گاڑیوں اور اونٹوں پر لاد کر لایا جاتا تھا۔
مسجد کی تعمیر کے لئے کوئی باقاعدہ نقشہ نہیں بنایا گیا تھا۔ ایک خاکہ رئیس غازی محمد کے ذہن میں تھا جس کے مطابق تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ رئیس غازی محمد مختلف ممالک میں جاتے، وہاں کی مساجد دیکھتے اور جو چیز پسند آ جاتی اُس کے مطابق مسجد کی تعمیر میں تبدیلی کرواتے رہتے۔ اس طرح مسجد کے ڈیزائن میں کئی بار تبدیلی کی گئی ۔کئی حصوں کو دوبارہ بلکہ سہ بارہ بھی نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔ 1950ءمیں ایک نئے مسئلے کی نشاندہی ہوئی کہ سیم کی وجہ سے مسجد کی عمارت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا۔ اس خطرے کے پیش نظر تب تک بننے والی تمام عمارت کو گرا دیا گیا اور 20 فٹ بلند ایک چبوترہ بنا کر اُس پر نئے سرے سے مسجد کی عمارت تعمیر کی گئی۔ اس سے مسجد کی پائیداری کے ساتھ خوبصورتی اور جلال و عظمت میں بھی اضافہ ہو گیا۔
مسجد کی تعمیر کے دوران ہی 1975ءمیں رئیس غازی محمد کا انتقال ہو گیا۔ اُن کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے رئیس شبیر محمد نے مسجد کا کام کو آگے بڑھایا جو خود بھی درویش صفت انسان تھے۔ 1982ءمیں مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی تو اسے بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔ دنیا بھر سے سیاح اس مسجد کو دیکھنے آنے لگے۔ اس کی خوبصورتی اور انفرادیت کی وجہ سے 1986ءمیں اسے تعمیرات کے شعبے میں آغا خان ایوارڈ بھی دیا گیا۔ 12 مئی 2004ءکو حکومت پاکستان نے اس مسجد کی تصویر والا ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔
بھونگ مسجد میں ایک وسیع دارالمطالعہ، مدرسہ اور وہ حجرہ بھی موجود ہے جہاں رئیس غازی محمد عبادت کیا کرتے تھے۔ مسجد میں داخل ہونے والا مرکزی دروازہ مشہد میں حضرت امام رضا کے مزار کے صدر دروازے جیسا ہے۔ اندر کئی ایکڑ پر مشتمل فواروں سے مزین وسیع لان ہے۔ راہداری سے گزر کر سیڑھیاں چڑھنے کے بعد مسجد کا صحن ہے جو سنگِ مرمر اور سنگِ سیاہ سے آراستہ ہے۔ یہاں بیک وقت دو ہزار نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ ایک بڑے گنبد کے نیچے خواتین کے لئے نماز پڑھنے کی جگہ مخصوص ہے جو خواتین کی جمعہ مسجد کہلاتی ہے۔ مسجد کے تمام دروازے ہاتھی دانت کے نفیس اور باریک کام سے مزین ہیں۔ مسجد کے برآمدے میں تقریباً 500 نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ یہ برآمدہ اٹھارہ ستونوں پر مشتمل ہے۔ ہر ستون ایک ہی جیسے قدرتی رنگ پر مشتمل آٹھ فٹ بلند ہے۔ مرکزی محراب کی تزئین و آرائش میں خالص سونا‘ چاندی اور قیمتی پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ صندل کی لکڑی کا نہایت نفیس اور دیدہ زیب کام کیا گیا ہے۔ دلکش نقش و نگار‘ خوبصورت گلکاری اور منفرد ڈیزائن پر مشتمل یہ مسجد سیاحوں کو حیرت زدہ کر دیتی ہے.
منقول..
10583902_1594186510617536_7421178385800058724_n.jpg
28167968_1594186470617540_6638596953261425467_n.jpg
28168786_1594186440617543_776895397018612859_n.jpg
 

محبوب الحق

محفلین
38612424_671685213207533_7523908341739814912_n.jpg

بھونگ مسجد تحصیل صادق آباد ضلع رحیم یار خان میں واقع ایک گاؤں بھونگ میں موجود ہے۔ یہ مسجد بہاولپور سے240 کلومیٹرزاور رحیم یارخان سے تقریباً 55 کلومیٹر دور واقع ہے. اپنے عمدہ ڈیزائن، منفرد طرزِ تعمیر اور جاذبِ نظر خطاطی کی وجہ سے اس مسجد کو خاص شہرت حاصل ہے۔ سردار رئیس غازی محمد نے یہ مسجد 1932 میں تعمیر کروانا شروع کی, آپ کے جد امجد حضرت بہاوالدین زکریا رحمتہ اللہ علیہ کے خلفا میں سے تھے۔ رئیس محمد غازی اعزازی مجسٹریٹ اور بہاولپور اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ کثیر مال و دولت ہونے کے باوجود انہوں نے درویشانہ زندگی گزاری۔ دینی تعلیم کا حصول، عبادت و ریاضت، سماجی کاموں اور مختلف علاقوں میں مساجد کی تعمیر ان کی زندگی کا مشن رہا۔رئیس غازی محمد نے اپنے خاندانی محل نما گھرکے قریب 1932ءمیں بھونگ مسجد کی تعمیر کے لئے ہدایات دیں اور کثیر سرمایہ فراہم کیا۔ تعمیر کے ایک ایک مرحلے پر انہوں نے ذاتی دلچسپی لی۔ البتہ مسجد کی تعمیر کی نگرانی کے لئے ماسٹر عبدالحمید کو مقرر کیا جنہوں نے نہایت محنت اور توجہ سے مسجد کی تعمیر کی نگرانی کی۔ مسجد کی تعمیر کےلئے آسٹریا، ہنگری، اٹلی اور دیگر ممالک سے سنگِ سرخ، سنگِ مر مر، سنگِ خارا، سنگِ سرمئی اور سنگِ سیاہ منگوائے گئے۔ ان پتھروں کو کاٹنے اور تراشنے والے، ٹائلوں پر پھول بنانے والے، میناکاری و خطاطی کرنے والے، صندل کی لکڑی پر باریک اور نفیس کام کرنے والے، گلکاری کرنے والے، سونے کے پھول بنانے والے سیکڑوں کاریگروں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ یہ مسجد 1932ءسے 1982ءتک تقریباً پچاس سال میں مکمل ہوئی۔ ان پچاس سالوں میں ہزاروں کاریگروں نے مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا جن کا تعلق پاکستان اور انڈیا سے تھا۔ مسجد کی تعمیر کے دوران کئی کاریگر عمر رسیدہ ہو گئے، کئی انتقال کر گئے۔ ان کے بیٹوں اور بعض کے پوتوں نے یہ ذمہ داری سنبھالی۔ یوں تین نسلوں نے اس مسجد کی تعمیر میں حصہ لیا۔ تمام کاریگروں کو ان کی مہارت اور تجربے کی بنیاد پر اُجرت دی جاتی تھی۔ ماہر کاریگروں کا ہر طرح سے خیال رکھا جاتا بلکہ ان کے بچوں کی شادیوں کے اخراجات رئیس غازی محمد ادا کرتے تھے
38733836_671685283207526_5304502210783084544_n.jpg

مسجد کی تعمیر میں مصروف کاریگروں کے قیام و طعام کا انتظام بھونگ میں ہی کیا گیا تھا۔ بہت سی مراعات بھی ان کاریگروں کو حاصل تھیں۔ تب صادق آباد سے بھونگ تک مناسب ذرائع نقل و حمل موجود نہ تھے۔ نہ ہی پختہ سڑک تھی۔ لہٰذا بھاری مشینری اور تعمیراتی سامان صادق آباد ریلوے اسٹیشن سے بھونگ تک تقریباً 20 کلومیٹر کچے راستوں پر بیل گاڑیوں اور اونٹوں پر لاد کر لایا جاتا تھا۔ مسجد کی تعمیر کے لئے کوئی باقاعدہ نقشہ نہیں بنایا گیا تھا۔ ایک خاکہ رئیس غازی محمد کے ذہن میں تھا جس کے مطابق تعمیر کا آغاز کیا گیا۔ رئیس غازی محمد مختلف ممالک میں جاتے، وہاں کی مساجد دیکھتے اور جو چیز پسند آ جاتی اُس کے مطابق مسجد کی تعمیر میں تبدیلی کرواتے رہتے۔ اس طرح مسجد کے ڈیزائن میں کئی بار تبدیلی کی گئی ۔کئی حصوں کو دوبارہ بلکہ سہ بارہ بھی نئے سرے سے تعمیر کیا گیا۔ 1950ءمیں ایک نئے مسئلے کی نشاندہی ہوئی کہ سیم کی وجہ سے مسجد کی عمارت کو نقصان پہنچنے کا خطرہ تھا۔ اس خطرے کے پیش نظر تب تک بننے والی تمام عمارت کو گرا دیا گیا اور 20 فٹ بلند ایک چبوترہ بنا کر اُس پر نئے سرے سے مسجد کی عمارت تعمیر کی گئی۔ اس سے مسجد کی پائیداری کے ساتھ خوبصورتی اور جلال و عظمت میں بھی اضافہ ہو گیا۔
38759335_671685309874190_2431092510492196864_n.jpg

مسجد کی تعمیر کے دوران ہی 1975ءمیں رئیس غازی محمد کا انتقال ہو گیا۔ اُن کی وفات کے بعد ان کے بڑے بیٹے رئیس شبیر محمد نے مسجد کا کام کو آگے بڑھایا جو خود بھی درویش صفت انسان تھے۔ 1982ءمیں مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی تو اسے بین الاقوامی شہرت حاصل ہوئی۔ دنیا بھر سے سیاح اس مسجد کو دیکھنے آنے لگے۔ اس کی خوبصورتی اور انفرادیت کی وجہ سے 1986ءمیں اسے تعمیرات کے شعبے میں آغا خان ایوارڈ بھی دیا گیا۔ 12 مئی 2004ءکو حکومت پاکستان نے اس مسجد کی تصویر والا ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا۔ بھونگ مسجد میں ایک وسیع دارالمطالعہ، مدرسہ اور وہ حجرہ بھی موجود ہے جہاں رئیس غازی محمد عبادت کیا کرتے تھے۔ مسجد میں داخل ہونے والا مرکزی دروازہ مشہد میں حضرت امام رضا کے مزار کے صدر دروازے جیسا ہے۔ اندر کئی ایکڑ پر مشتمل فواروں سے مزین وسیع لان ہے۔ راہداری سے گزر کر سیڑھیاں چڑھنے کے بعد مسجد کا صحن ہے جو سنگِ مرمر اور سنگِ سیاہ سے آراستہ ہے۔ یہاں بیک وقت دو ہزار نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ ایک بڑے گنبد کے نیچے خواتین کے لئے نماز پڑھنے کی جگہ مخصوص ہے جو خواتین کی جمعہ مسجد کہلاتی ہے۔ مسجد کے تمام دروازے ہاتھی دانت کے نفیس اور باریک کام سے مزین ہیں۔ مسجد کے برآمدے میں تقریباً 500 نمازی نماز ادا کر سکتے ہیں۔ یہ برآمدہ اٹھارہ ستونوں پر مشتمل ہے۔ ہر ستون ایک ہی جیسے قدرتی رنگ پر مشتمل آٹھ فٹ بلند ہے۔ مرکزی محراب کی تزئین و آرائش میں خالص سونا‘ چاندی اور قیمتی پتھر استعمال کیا گیا ہے۔ صندل کی لکڑی کا نہایت نفیس اور دیدہ زیب کام کیا گیا ہے۔ دلکش نقش و نگار‘ خوبصورت گلکاری اور منفرد ڈیزائن پر مشتمل یہ مسجد سیاحوں کو حیرت زدہ کر دیتی ہے.
جیوے پاکستان
 

محبوب الحق

محفلین
محمد تابش صدیقی بھائی پوسٹ یا جواب ڈیلیٹ کرنے کا طریقہ بتا دیں گے مہربانی
پوسٹ یا جواب ڈیلیٹ نہیں کر سکتے۔ البتہ ایک دن تک اپڈیٹ کر سکتے ہیں۔
اگر کچھ ڈیلیٹ کروانا مقصود ہو تو رپورٹ کی آپشن استعمال کرتے ہوئے درضواست کر دیں۔ اگر مدیران سمجھیں گے کہ ڈیلیٹ ہو جانا چاہیے تو ڈیلیٹ کر دیں گے۔ :)
 

محبوب الحق

محفلین
پوسٹ یا جواب ڈیلیٹ نہیں کر سکتے۔ البتہ ایک دن تک اپڈیٹ کر سکتے ہیں۔
اگر کچھ ڈیلیٹ کروانا مقصود ہو تو رپورٹ کی آپشن استعمال کرتے ہوئے درضواست کر دیں۔ اگر مدیران سمجھیں گے کہ ڈیلیٹ ہو جانا چاہیے تو ڈیلیٹ کر دیں گے۔ :)
بہت شکریہ تابش بھائی
 
Top