علم الحیوانیات کا مطالعہ ۔۔ زوالوجی (پہلی قسط)

علم الحیوانات میں سب سے پہلے ہم گفتگو کریں گے حیوانی رویوں اور ان پر کی جانے والی تحقیق پر۔

تمہید:

ہم جانداروں کو زندگی میں بہت سے کام کرتے ہوئے دیکھتے ہیں جیسا کہ وہ کھودتے ہیں، بھاگتے ہیں، پھلانگتے ہیں اور پرندے اور حشرات تو اڑتے بھی ہیں۔ اسی طرح جانور اپنے ہم جولیوں کی تلاش کے لئے جانور بہت سی پیچیدہ رسومات کا سہارا لیتے ہیں۔ خوراک کی تلاش، دشمنوں سے بچاوٗ اور اپنے بچوں کی پرورش کے لئے بہت سے عجیب و غریب طریقوں کا استعمال کرتے ہیں۔

اپنے اور اپنے دوستوں کی رہائش اور خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے جالے، چھتے، گھونسلے اور ڈیم جیسی پیچیدہ بناوٹیں بناتے ہیں۔ اور انہیں بنانے کے لئے کئی مختلف آلات کو بناتے اور اُن کا استعمال کرتے ہیں

اسی طرح انسان نے کھیت، شاہ راہیں، چوک، گھروندے بنا کرس دھرتی کے کئی حصوں کو یکسر شکل بدل دی۔ یہ تمام سر گرمیاں دیکھتے ہوئے، ایک متجسس ذہن تعجب میں پڑ جاتا ہے کہ جو کچھ یہ جاندار کر رہے ہیں یہ کیوں کر رہے ہیں ؟ مزید تامل اور فکر سے دو مختلف سے جانداروں کے روَیّوں کے حوالے سے اور بھی کئی سوالات اٹھتے ہیں۔

کیا اور کیوں؟

جب ہم حیوانی اعمال اور عوامل کا مشاہدہ کرتے ہیں تو دو مخصوص قسم کے رویوں سے آگاہ ہوتا ہے۔پہلی قسم ایسے اعمال پر مشتمل ہے ۔ جو ہر Species سے تعلق رکھنے والے افراد بغیر کسی باقاعدہ تجربے، رہنمائی یا تربیت کے کرسکتے ہیں۔ جیسے ایک مادہ چوہیا ہمیشہ اپنے بچوں کے لئے گھر بناتی اور تربیت کرتی ہے حتیٰ کہ اسے مکمل خلوت میں بڑا کیا ہے۔ اور اس نے کبھی کسی اور مادہ چوہیا کو ایسا کرتے نہیں دیکھا۔

رویوں کی دوسری قسم ایسے اعمال پر مشتمل ہے جو اس جانور کے اپنے ذاتی تجربے کا شاخسانہ ہیں۔اور یہی وہ وجہ ہے کہ ایک ہی صنف کے جانوروں کے رویوں میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ کسی سرکس میں ہونے والے مختلف کرتب ہمیں بتاتے ہیں کتے بلياں ، شیر، ریچھ، گھوڑے، چیتے اور ہاتھی کو اگر تربیت دی جائے اور خاص قسم کے تجربات سے گزارا جائے تو وہ کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ عام طور پر کتے کو پچھلی ٹانگوں پر سیدھے کھڑے ہوئے اور ریچھ کو جنگلوں میں سائیکل چلاتے ہوئے کسی نے نہیں دیکھا ہو گا۔ لیکن جب انہیں جانوروں کو کسی تربیت کار نےمختلف تجربات سے گزارا تو وہ یہ سب کرنے کے قابل ہو گئے۔

اسی طرح تمام نارمل صحت مند بچے بغیر کسی واضح رہنمائی کے یا بغیر کسی تربیت کے سانس لیتے ہیں، ہنستے ہیں روتے ہیں حتیٰ کہ بولنا بھی بغیر تربیت کے شروع کرتے ہیں جبکہ پڑھنے ،لکھنے اور حساب کتاب کے لئے یا ایسی ہی دوسری شعوری سرگرمیوں کو سرانجام دینے کے لئےایسا نہیں ہے ۔ ان تمام خصوصیات کو اپنے اندر لانے کے لئے انہیں واضح ہدایات درکار ہوتی ہیں اور کئی گھنٹے تک ان کی باقاعدہ مشق کرنا پڑتی ہے۔

اوپر بیان شدہ رویوں میں پہلی قسم کے رویوں کو جبلّی، فطری یا وراثتی کہا جاتا ہے جبکہ دوسری قسم کے رویوں کو سیکھے جانے والے یا حاصل شدہ روَیّے کہا جاتا ہے۔

مزید گفتگو اگلے دھاگے میں کی جائے گی۔
 
جانوروں کا انسانی زبانوں کو سمجھنا کس حد تک درست ہے؟
پچھلے کئی سال سے اسی بات پر تحقیق کی جا رہی ہے کہ کیا جانور انسانی زبانوں کو سمجھ سکتے ہیں یا نہیں؟
اسی تحقیق کا ایک شاخسانہ ایک گوریلا بندر ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انسانوں سے اشاروں میں باتیں کرنا سیکھ گیا ہے۔ اس بندر پر تحقیق کرنے والی سائنسدان پینی پیٹرسن کا دعوٰی ہے کہ وہ بندر ،جس کا نام کوکو ہے،کو 2000 سے زیادہ الفاظ کی سمجھ ہے اور اب وہ انسانوں سے باقاعدہ اشاروں میں گفتگو کرتا ہے۔
خیر اس تحقیق کے حق میں اور اختلاف میں سائندانوں کی ایک بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ یو ٹیوب پر کوکو نامی بندر کی پینی پیٹرسن کے ساتھ کھیلتے، اشاروں میں باتیں کرنے اور مختلف انٹرویوز کی وڈیوز موجود ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب۔
 
Top