نظم کی کھوج مدد کرین احباب

زویا شیخ

محفلین
السلام علیکم احباب اگر کسی کے پاس مشہور شاعر عبدل الحمید کی نظم اک سارسوں کا قافلہ ہو تو پلیز للیز مجھے اس کا لنک یا وہ نظم ارسال کردیں مہر بانی ہوگی
 

فرقان احمد

محفلین
السلام علیکم احباب اگر کسی کے پاس مشہور شاعر عبدل الحمید کی نظم اک سارسوں کا قافلہ ہو تو پلیز للیز مجھے اس کا لنک یا وہ نظم ارسال کردیں مہر بانی ہوگی
اگر یہ شاعر عبدالحمید عدم ہیں تو اس ربط پر جا کر ان کی کتابوں میں یہ نظم تلاش فرمائیں۔
 

جان

محفلین
اک سارسوں کا قافلہ
شوق وطن دل میں لئے
آزاد سب افکار سے
اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے
واپس تھا گھر کو جا رہا
قسمت کا کرنا دیکھنا
کہ اک شکاری آ گیا
اس نے لیا گھوڑا چڑھا
اک گونج سی پیدا ہوئی
گویا کہیں بجلی گری
آواز تھی بندوق کی
سارس ہراساں ہو گئے
لیکن شکاری کے گلے
دو پر ہی قسمت سے لگے
سارس گئے پرواز کر

سردار نے ان سے کہا
اے سارسو یہ کیا ہوا
سب بچ گئے سب نے کہا
لیکن نہ دی اک نے صدا
وہ پر اسی کا تها گرا
سرتاج نے اس سے کہا
اے جان من آرام جاں
راحت کی دل عصمت کی جاں
کیا کر چلی بے خانماں
کچهہ تو بیان حال کر

فیسبک سے یہ ملی ہے۔ شاعر کا نام بھی معلوم نہیں اور مکمل بھی نہیں ہے۔
 

زویا شیخ

محفلین
اک سارسوں کا قافلہ
شوق وطن دل میں لئے
آزاد سب افکار سے
اٹھکھیلیاں کرتے ہوئے
واپس تھا گھر کو جا رہا
قسمت کا کرنا دیکھنا
کہ اک شکاری آ گیا
اس نے لیا گھوڑا چڑھا
اک گونج سی پیدا ہوئی
گویا کہیں بجلی گری
آواز تھی بندوق کی
سارس ہراساں ہو گئے
لیکن شکاری کے گلے
دو پر ہی قسمت سے لگے
سارس گئے پرواز کر

سردار نے ان سے کہا
اے سارسو یہ کیا ہوا
سب بچ گئے سب نے کہا
لیکن نہ دی اک نے صدا
وہ پر اسی کا تها گرا
سرتاج نے اس سے کہا
اے جان من آرام جاں
راحت کی دل عصمت کی جاں
کیا کر چلی بے خانماں
کچهہ تو بیان حال کر

فیسبک سے یہ ملی ہے۔ شاعر کا نام بھی معلوم نہیں اور مکمل بھی نہیں ہے۔
بہت شکریہ جناب بہت بہت شکریہ لیکن اتنا کچھ تو مجھے بھی یاد ہے بہت پہلے ناں سے سنتی تھی سنیں بھی نہیں پوری یاد میرے خیال سے عبدل الحمید عدم کی ہی ہے کیوں کہ سرچ میں ان کا ہی نام آتا ہے لیکن ان کی بکس میں کہیں مل ہی نہیں رہی
 

جان

محفلین
بہت شکریہ جناب بہت بہت شکریہ لیکن اتنا کچھ تو مجھے بھی یاد ہے بہت پہلے ناں سے سنتی تھی سنیں بھی نہیں پوری یاد میرے خیال سے عبدل الحمید عدم کی ہی ہے کیوں کہ سرچ میں ان کا ہی نام آتا ہے لیکن ان کی بکس میں کہیں مل ہی نہیں رہی
میں نے پہلی دفعہ ہی پڑھی اور دیکھی ہے۔ کوئی شاعری کا دیوانہ ہی بتا سکے گا کہ کس کتاب میں ہے یہ۔ انٹرنیٹ پہ صرف یہی میسر ہے جو پیش کر دی ہے۔
 

فرقان احمد

محفلین
ہمیں بھی تصویری شکل میں مل گئی۔

image.jpg
 

فرقان احمد

محفلین
کہتے ہیں وہ خزاں کے موسم کو نکلا کرتے تھے
بہار کی تلاش میں وہ دور تک نکلا کرتے تھے
کہتے ہیں سارسوں کا جوڑا جو آسماں کی وسعتوں میں نکلا
زمیں نے سر اٹھا کر ان کی محبت کو بڑھتے دیکھا
کسی گلشن میں اتر کے وہ بیٹھے جو ذرا سستانے کو
پاس ہی کہیں خاموش بیٹھے شکاری کو بھی آہٹ ہوئی
ہوا کے دوش اڑنے والے وہ لمبے خوبصورت پرندے
ذرا سے احساس سے پرواز کو ہوئے وہ تیار پرندے
تیر باز نے جو باندھ کے نشانہ چھوڑی کمان
سارسوں کے جھنڈ میں ہوئی ہلکی سی ہلچل
مادہ لڑکھڑا کے گری جو زخم سے چکرا کر
دیکھا ذراسے قصائی کی ہی دوکان ہی تھی گری وہ
نایاب سا حوبصورت سا پرندہ جو پایا اس نے
زحموں کو صاف کیا اسے پانی دیا اس نے
کہتے ہیں وہ جھنڈ سے دور زحموں سے چور
ادھر نر کا حال بھی عجب اداس بلبل کی مانند
کہتے ہیں حزاں گزار کے وہ جھنڈ لو لوٹ چکے تھے
انہیں میں وہ اکیلا منتظر تھا پھر سے پتوں کے جھڑنے کا
خزاں رسیدہ وہ بہار کی قیدی سارس
تو بہار میں وہ حزاں کا منتظر سارس
دن اسی میں گزرے شب یادوں کے بسیرے میں
سوکھے کے موسم نے گھیرا پھر سے جھنڈ کو
ہر سال کی طرح وہ جھنڈ پھر سے پرواز کو نکلا
پہرے پہ اس کے وہ سارس بھی کسی امید پہ نکلا
کہتے ہیں ادھر قصائی کی وہ روتی مادہ
آسماں کو دیکھتی ہو خاموش بیٹھی مادہ
ادھر قافلہ وادی وادی اڑتا بہار کے دامن میں جا اترا
ادھر قیدی نے بھی ہوا میں بدلاو سا پایا
من مائل دل مائل روح مائل وہ سبب سبھی یکجا ہوئے
قصائی نے جو دیکھا آسماں کی طرف خاموش کھڑا سارس
کہتے ہیں وہ خاموشی بھی ظاہر میں تھی
چلا کر مگر وہ آسماں کو ہلا رہی تھی
کہتے ہیں ادھر سارس نے بچوں کو پاس بلاکر کہا
سفر کو نکلنے لگا ہوں لوٹا تو ماں کو لیتا آؤں گا
کہتے ہیں اس نے پرواز کو جو اڑان بھری
الودا ع کرنے کو جھنڈ موجود تھا سارے کا سارا
ہوا میں بدلتی خوشبو نے بدلی تھی وہیں مادہ بھی
وہیں لذیذ پکوان نے للچا دیا تھا قصائی بھی
کہتے ہیں ایک دن سارس کی وہ مادہ آسمان کو پکار رہی تھی
کہ عرش گل نے اگل دیا وہ جنموں کا ساتھی اس کا
کہتے ہیں قصائی ورطہ حیرت تھا کہ سارس ہر چھوڑے آگرا
چند لمحوں کو وہ دنیا سے کٹ کر خود میں کھو کر رہ گئے
ہوش آیا تھا شکاری ایک اور دیکھا سر پہ کھڑا ہوا
دو تین قدموں کا سفر اور پھر سے دوری کا سفر
ایک پر سے معذور وہ مادہ لیکن سر پہ کھڑی موت
اڑنے کو بیتاب وہ سارس لیکن نشانے لیتی موت
کہتے ہیں پھر آسماں نے عجب نظارہ دیکھا
ایک پر سارس کے مادہ کے ساتھ ملا کر اڑان بھری
کہتے ہیں ایک پر اس کا تھا ایک پر اس کا تھا
حیران سا پریشان سا شکاری بھی دیکھتا رہ گیا
وہ ازل کے ساتھی وہ ابد کے ساتھی
آسماں کی وسعتوں کو نکلے وہ پرانے ساتھی ۔۔۔!
 

زویا شیخ

محفلین
بہت
کہتے ہیں وہ خزاں کے موسم کو نکلا کرتے تھے
بہار کی تلاش میں وہ دور تک نکلا کرتے تھے
کہتے ہیں سارسوں کا جوڑا جو آسماں کی وسعتوں میں نکلا
زمیں نے سر اٹھا کر ان کی محبت کو بڑھتے دیکھا
کسی گلشن میں اتر کے وہ بیٹھے جو ذرا سستانے کو
پاس ہی کہیں خاموش بیٹھے شکاری کو بھی آہٹ ہوئی
ہوا کے دوش اڑنے والے وہ لمبے خوبصورت پرندے
ذرا سے احساس سے پرواز کو ہوئے وہ تیار پرندے
تیر باز نے جو باندھ کے نشانہ چھوڑی کمان
سارسوں کے جھنڈ میں ہوئی ہلکی سی ہلچل
مادہ لڑکھڑا کے گری جو زخم سے چکرا کر
دیکھا ذراسے قصائی کی ہی دوکان ہی تھی گری وہ
نایاب سا حوبصورت سا پرندہ جو پایا اس نے
زحموں کو صاف کیا اسے پانی دیا اس نے
کہتے ہیں وہ جھنڈ سے دور زحموں سے چور
ادھر نر کا حال بھی عجب اداس بلبل کی مانند
کہتے ہیں حزاں گزار کے وہ جھنڈ لو لوٹ چکے تھے
انہیں میں وہ اکیلا منتظر تھا پھر سے پتوں کے جھڑنے کا
خزاں رسیدہ وہ بہار کی قیدی سارس
تو بہار میں وہ حزاں کا منتظر سارس
دن اسی میں گزرے شب یادوں کے بسیرے میں
سوکھے کے موسم نے گھیرا پھر سے جھنڈ کو
ہر سال کی طرح وہ جھنڈ پھر سے پرواز کو نکلا
پہرے پہ اس کے وہ سارس بھی کسی امید پہ نکلا
کہتے ہیں ادھر قصائی کی وہ روتی مادہ
آسماں کو دیکھتی ہو خاموش بیٹھی مادہ
ادھر قافلہ وادی وادی اڑتا بہار کے دامن میں جا اترا
ادھر قیدی نے بھی ہوا میں بدلاو سا پایا
من مائل دل مائل روح مائل وہ سبب سبھی یکجا ہوئے
قصائی نے جو دیکھا آسماں کی طرف خاموش کھڑا سارس
کہتے ہیں وہ خاموشی بھی ظاہر میں تھی
چلا کر مگر وہ آسماں کو ہلا رہی تھی
کہتے ہیں ادھر سارس نے بچوں کو پاس بلاکر کہا
سفر کو نکلنے لگا ہوں لوٹا تو ماں کو لیتا آؤں گا
کہتے ہیں اس نے پرواز کو جو اڑان بھری
الودا ع کرنے کو جھنڈ موجود تھا سارے کا سارا
ہوا میں بدلتی خوشبو نے بدلی تھی وہیں مادہ بھی
وہیں لذیذ پکوان نے للچا دیا تھا قصائی بھی
کہتے ہیں ایک دن سارس کی وہ مادہ آسمان کو پکار رہی تھی
کہ عرش گل نے اگل دیا وہ جنموں کا ساتھی اس کا
کہتے ہیں قصائی ورطہ حیرت تھا کہ سارس ہر چھوڑے آگرا
چند لمحوں کو وہ دنیا سے کٹ کر خود میں کھو کر رہ گئے
ہوش آیا تھا شکاری ایک اور دیکھا سر پہ کھڑا ہوا
دو تین قدموں کا سفر اور پھر سے دوری کا سفر
ایک پر سے معذور وہ مادہ لیکن سر پہ کھڑی موت
اڑنے کو بیتاب وہ سارس لیکن نشانے لیتی موت
کہتے ہیں پھر آسماں نے عجب نظارہ دیکھا
ایک پر سارس کے مادہ کے ساتھ ملا کر اڑان بھری
کہتے ہیں ایک پر اس کا تھا ایک پر اس کا تھا
حیران سا پریشان سا شکاری بھی دیکھتا رہ گیا
وہ ازل کے ساتھی وہ ابد کے ساتھی
آسماں کی وسعتوں کو نکلے وہ پرانے ساتھی ۔۔۔!
بہت خوب داستاں بلکہ ایک ہے لیکن نظم میں کافی فرق ہے
 
Top