فارسی شاعری اگر آن ترک شیرازی به دست آرد دل ما را - حافظ شیرازی

اگر آن ترک شیرازی به دست آرد دل ما را
به خال هندویش بخشم سمرقند و بخارا را
اگر وہ شیرازی معشوق ہمارا دل تھام لے
تو اس کے دل فریب تل کے عوض میں سمر قند و بخارا بخش دوں


بده ساقی می باقی که در جنت نخواهی یافت
کنار آب رکن آباد و گلگشت مصلا را
اے ساقی! باقی شراب بھی دیدئے اس لئے کہ تو جنت میں نہ پاسکے گا
رکنا باد کی نہر کا کنارا اور مصلی کی سیرگاہ


فغان کاین لولیان شوخ شیرین کار شهرآشوب
چنان بردند صبر از دل که ترکان خوان یغما را
فریاد کے یہ شریر ، شریں کارا شہرکو فتنہ میں مبتلا کرنے والے معشوق
دل سے صبر کو اس طرح لوٹ لے گئے جیسے کہ مالِ عنیمت کے خوان ڈاکو


ز عشق ناتمام ما جمال یار مستغنی است
به آب و رنگ و خال و خط چه حاجت روی زیبا را
ہمارے ناقص عشق سے یار کا حسن بے نیاز ہے
حسیں چہرے کو آب و رنگ اور خال و خط کی کیا ضرورت؟


من از آن حسن روزافزون که یوسف داشت دانستم
که عشق از پرده عصمت برون آرد زلیخا را
میں اس روز بہ روز بڑھنے والے حُسن سے جو کہ یوسف رکھتے تھے جان گیا تھا
کہ عشق زلیخا کو پاکی کے پردے سے باہر نکال لائے گا


اگر دشنام فرمایی و گر نفرین دعا گویم
جواب تلخ می‌زیبد لب لعل شکرخا را
اگر تو دشنام دے اور اگر بددعا کرے، میں دعا دوں گا
لعل جیسے شکر چانے والے ہونٹوں کو کڑوا جواب زیب دیتا ہے


نصیحت گوش کن جانا که از جان دوست‌تر دارند
جوانان سعادتمند پند پیر دانا را
ہماری نصیت سن لے اس لئے کہ جان سے زیادہ چارا رکھتے ہیں
سعادت مند نوجوان اور بوڑھے سمجھ دار کی نصیت کو


حدیث از مطرب و می گو و راز دهر کمتر جو
که کس نگشود و نگشاید به حکمت این معما را
گوئے اور شراب کی بات کر اور زمانہ کا راز کم تلاش کر
اس لیے کہ دانائی سے کسی نے یہ معمہ کھولا ہے نہ وہ کھولے


غزل گفتی و در سفتی بیا و خوش بخوان حافظؔ
که بر نظم تو افشاند فلک عقد ثریا را
اے حافظ تو نے غزل کہی اور مقتی پروئے اور خوش الحانی سے پڑھ
اس لیے کہ آسمان تیری نظم پر ثریا کے ہار نچھاور کرے گا
حافظؔ شیرازی​
 
آخری تدوین:
"بدم گفتی و خرسندم، عفاک اللہ نکو گفتی" دراصل شیخ سعدی شیرازی کا مصرعہ ہے۔۔۔۔"اگر دشنام فرمایی و گر نفرین دعا گویم" دیوانِ حافظ کے ایرانی نسخوں میں موجود ہے۔۔۔برصغیر کے نسخے بسیار غلطیوں کے حامل ہوتے ہیں۔انہی میں یہ سعدی کا اول الذکر مصرعہ دیوانِ حافظ کے ہندوستانی نسخوں میں در آیا ہوگا
 
"بدم گفتی و خرسندم، عفاک اللہ نکو گفتی" دراصل شیخ سعدی شیرازی کا مصرعہ ہے۔۔۔۔"اگر دشنام فرمایی و گر نفرین دعا گویم" دیوانِ حافظ کے ایرانی نسخوں میں موجود ہے۔۔۔برصغیر کے نسخے بسیار غلطیوں کے حامل ہوتے ہیں۔انہی میں یہ سعدی کا اول الذکر مصرعہ دیوانِ حافظ کے ہندوستانی نسخوں میں در آیا ہوگا
اس "اگر دشنام فرمایی و گر نفرین دعا گویم" کا ترجمہ کیا ہو گا ؟
 
Top