ایسے ٹوٹا ہے محبت کا بھرم ، آج نہ پوچھ

ایسے ٹوٹا ہے محبت کا بھرم ، آج نہ پوچھ
جھوٹے لگتے ہیں وفاؤں کے دھرم ، آج نہ پوچھ

اپنی اوقات سے بڑھ کر تری خواہش کی تھی
خود سے آنے لگی آنکھوں کو شرم ، آج نہ پوچھ

میں نے ہر باب میں لکھی تھی وفائیں تیری
آخری حرف پہ روتا ہے قلم ، آج نہ پوچھ

سر پہ سایا نہ زمین پاؤں میں چھوڑی تو نے
کیسے بھولوں گا تمہارے یہ کرم آج نہ پوچھ

میرے ہونٹوں پہ یہ خاموش سسکتے نوحے
اور آنکھوں میں ہیں اشکوں کے علم ، آج نہ پوچھ

جس نے انمول دعاؤں کے گہر رول دیے
کیسے روتا ہے وہ پتھر کا صنم ، آج نہ پوچھ

ڈھانپ رکھا تھا دعاؤں کی ردا سے میں نے
کیسے میلا ہوا چاہت کا حرم ، آج نہ پوچھ
 
آخری تدوین:
Top