بھگت سنگھ کا قرض

یاز

محفلین
کچھ عرصہ قبل ایک لڑی میں مہاتما گاندھی کے بارے میں بات چیت ہوئی تھی۔ اسی میں بات کرتے ہوئے میں نے بھگت سنگھ کا ذکر کیا تھا اور سارہ خان بہن کے استفسار پہ وعدہ کیا تھا کہ 23 مارچ یا اس سے پہلے اس بارے میں الگ لڑی میں تفصیلات لکھوں گا۔ اس معاملے میں 23 مارچ کی اہمیت اس لئے ہے کہ 23 مارچ 1931 وہ تاریخ ہے جب بھگت سنگھ کو لاہور میں پھانسی پہ لٹکا دیا گیا تھا۔
سو آج کچھ کوشش کرتا ہوں کہ بھگت سنگھ سے متعلق کچھ معلومات اس لڑی میں شیئر کر سکوں۔ یہ عرض کرتا چلوں کہ میں نے خود بھی بھگت سنگھ کے متعلق زیادہ نہیں پڑھا ہے۔ زیادہ تر مواد مختلف ویب سائٹس سے دیکھا ہے، سو وہیں سے شیئر کر رہا ہوں۔ اس پہ اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے کہ اس میں کافی حد تک مبالغہ آرائی ہو۔ اس سے انکار نہیں کہ ہیروز کی گلوریفائی کرنے کے لئے زیبِ داستان کی خاطر واقعات کو بڑھا چڑھا کے پیش کیا جاتا ہے، لیکن اس سے بچنا کافی مشکل بلکہ کسی حد تک ناممکن سا ہے۔ کیا آپ کے خیال میں قائداعظم یا دیگر مشہور رہنماؤں کے متعلق جو کچھ ہمارے سامنے پیش کیا جاتا ہے، وہ سب کچھ سچ اور حقیقت پر مبنی ہی ہے۔ یقیناََ نہیں۔ اسی طرح بھگت سنگھ کو بھی اس مبینہ مبالغہ آرائی سے اسشتنا نہیں ہو گا۔

مقصد اس لڑی کا بھگت سنگھ کی زیادہ حمدوثنا نہیں ہے۔ بلکہ اس چیز کو ہائی لائٹ کرنا ہے کہ وہ بھی ہمارا ہی ہیرو تھا۔ اس نے بھی ہماری ہی خاطر جان دی تھی، اور وہ بھی صرف 23 سال کی عمر میں۔ لیکن بدقسمتی سے تاریخی حقائق کو تسلیم یا بیان کرنے میں ہماری سمت ایسی بگڑی کہ غیرمسلم ہونے کی وجہ سے اس کا ذکر تک آپ کو کہیں نہیں ملتا۔
رہِ آزادی کے بے شمار دیگر جانثاروں کی طرح بھگت سنگھ کا بھی اس مٹی پہ، ہم سب پہ ایک قرض ہے۔ میں اپنی سی کوشش کر رہا ہوں کہ اس قرض کو کسی حد تک چکایا جائے۔

پھانسی سے چند دن قبل جیل میں لی گئی بھگت سنگھ کی تصویر
Bhagat%20Singh.jpg
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
سب سے پہلے چند سال قبل روزنامہ جنگ میں چھپنے والا اسد مفتی کا کالم ملاحظہ کیجئے۔
کالم کچھ لمبا محسوس ہو گا پڑھنے میں، لیکن درخواست یہ ہے کہ ہمت کر کے اس کو پڑھ ہی لیں۔ اس سے بھگت سنگھ کے تعارف میں بہت کچھ ٹائپ کرنے سے بچت ہو جائے گی میری۔

RCmXYhI.jpg
 

یاز

محفلین
Bhagat-singh-Wallpaper-15073.jpg


بھگت سنگھ ۔۔۔۔۔ محمد بشیر صنوبر
ماخذ
دنیا میں وہی انسان عظیم ہوتے ہیں جن کی خدمات دوسرے لوگوں کے لئے وقف ہوتی ہیں۔ خاص کر مظلوم طبقات کے لئے جن کی زندگی کا مشن ظلم و زیادتی اور غیر انسانی طبقاتی سماج کو بدلنے کے لئے جدوجہدہوتا ہے وہ لوگ غیر طبقات سماج قائم کرنے کے لےے اپنی جان تک قربان کردیتے ہیں ۔ان کے نزدیک یہی عبادت ہوتی ہے، دنیا کے ایک فلاسفر کے نزدیک عبادت انسان کا وہ عمل ہے جو وہ اپنی ذات سے ہٹ کر دوسرے لوگوں کی بھلائی کے لئے کام کرتا ہے، برصغیر کی تاریخ کے عظیم انسان ہیرو اور انقلابی کا نام بھگت سنگھ شہید ہے عرصہ دراز سے میرے دل میں یہ خواہش موجزن تھی کہ اس گاﺅں کا درشن کروں جس میں بھگت سنگھ شہید جیسے انقلابی اور فریڈم فائٹرز نے جنم لیا۔ چنانچہ گرمیوں کی چھٹیوںسے ایک روز قبل میں اقبال بھٹی اور محمد صدیق کھرل کے ہمراہ تپتی دوپہر گاﺅں پہنچا، گاﺅں پہنچ کر مجھے خوشی بھی ہوئی اور مایوسی بھی خوشی اس بات کی کہ ہم اس مٹی پر چل رے تھے جسے عرصہ دراز تک بھگت سنگھ کی قدم بوسی کا شرف حاصل رہا اور مایوسی اس بات کی بھگت سنگھ سے وابستہ تمام یادیں نشانیاں اس کا گھر ڈیرہ پرائمری سکول اور دیگر تمام قابل ذکر جگہیں سب اس وطن کے لوگوں نے تباہ و برباد کردیں جس کی آزادی کے لئے اس نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر خوشی سے پھانسی کا پھندا چوم لیا تھا۔ افسوس اس بات کا ہے کہ برصغیر میں برطانوی سامراج کے گماشتوں کی تمام نشانیاں ان کے گھروں اور اشیا کو قومی ملکیت کا درجہ دیا گیا ہے لیکن اس سے کہیں عظیم انسان بھگت سنگھ کا تمام اثاثہ دفن ہوچکا ہے۔ شاید ہمارے حکمران اس بات سے خوفزہ ہوں کہ یہاں کے عوام میں ا س روح اور جذبہ بیدار نہ ہوجائے، سب سے پہلے ہم گاﺅں کے ہائی سکول میں اس خیال سے گئے کہ وہاں پڑھے لکھے لوگوں سے مل کر ہماری معلومات میں اضافہ ہوگا لیکن نتیجہ اس کے برعکس رہا۔ حیرانگی کا یہ عالم پایا کہ ملک کے تعلیم یافتہ طبقہ کے اساتذہ کو اپنی دھرتی کی تاریخ اور ہیرو کا علم نہ تھا۔ وہ بچوں اور آنے والی نسلوں کو کیادیں گے ۔شاید اس لےے کہ ہم اپنے ہیرو کا تعین مذہب کے حوالہ سے کرتے ہیں دھرتی کے حوالہ سے نہیں ۔ دھرتی ماں نے تو کبھی کسی کا مذہب اور دھرم نہ پوچھا۔اس نے تو ان سب ننگے بھوکے لوگوں کو پالا پوسا جو اس کی مہربان گود میں آئے۔ لہٰذا انسانوں کی کارگزاری کی بجائے کسی اور حوالہ سے عوامی اور ہیرو کا تعین کرنا نہ صرف جہالت اور تنگ نظری ہے، بلکہ دھرتی سے عدم محبت اور لا تعلقی کا ثبوت ہے۔
ناظر حسین ولد حکیم دین جٹ نے ہماری راہنمائی کی جو ہائی سکول 105 گ ب بنگے میں ملازم تھے۔ انہوں نے ہمیں بھگت سنگھ اور اس کے خاندان کی زمین دکھائی اڑھائی مربعے تھی جس میں 27ایکڑ پر آموں کا باغ تھا جسے آریاں باغ کہا جاتا تھا ۔اب یہ باغ اجڑ چکا تھا مگر ان کی زمین میں بھگت سنگھ کے ہاتھوںکا لگایا ہوا ایک آم کا درخت موجود ہے۔مالک زمین نے بتایا کہ اس کے پھل میٹھے ہوتے ہیں ۔ناظر حسین نے وہ جگہ دکھائی جہاں بھگت سنگھ کا ڈیرہ ہوتا تھا مکانات ہوتے تھے جن میں بیٹھ کر بھگت اپنے دوسرے انقلابی ساتھیوں سمیت ملک کو آزاد کروانے کے منصوبے تیار کرنا تھا ۔ مگر اب وہاں مٹی کے ڈھیرکے سوا کچھ نہیں ہے۔ بھگت سنگھ کے گاﺅں میں ہماری ملاقات ملک عبدالحق ولد مولا بخش سے ہوئی۔ اس نے خود کو بھگت سنگھ کے چھوٹے بھائی کا ہم جماعت بتایا ۔اس نے بتایا کہ بھگت سنگھ ہم سے دو سال اگلی جماعت میں تھا۔ اس کا خاندان بڑا انسان دوست تھا۔ دادا ،دادی ، والد، بھائی ، ماں جی اور چاچے سب عظیم تھے۔ غریبو ں کا خیال رکھتے تھے ۔نا صر ف ان کی ضروریات پوری کرتے تھے بلکہ بڑی محبت سے پیش آتے تھے۔بھگت سنگھ مربع نمبر83کیلہ نمبر11-12 میں عدالت لگاتا تھا ۔غریبوں پرزیادتی کرنے والوں سے باز پرس کرتا تھا۔ گورنمنٹ برطانیہ نے بھگت سنگھ کو تحریک ختم کرنے کے عوض راجباہ پاﺅلیانی کے تمام چکوک کی زمین دینے کی پیشکش کی تھی مگر اس نے یہ کہہ کر ٹھکرادیا کہ زمین ہماری ہے تم کون ہو جو ہمیں دیتے ہو۔تم برصغیر کو چھوڑ دو۔ میری جدوجہد لوگوں کے حقوق اور دھرتی کی آزادی کے لےے ہے اپنے مفاد کے لےے نہیں ۔ بھگت سنگھ نے گاﺅں کے لوگوں کے لےے پانی کا کنواں بنوایا تھا۔ شروع میں اس جگہ بھگت سنگھ کی برسی منائی جای تھی اب وہاں کسی کا دربار بنا ہوا ہے گور دوارہ کی جگہ مسلمانوں کی مسجد ہے۔ بھگت سنگھ جس گھر میں رہتے تھے وہاں آج ایک بیری کے درخت اور دوچار دروازوںکے سوا کچھ نہیں بچا۔ باقی تمام گھر تباہ ہوچکا ہے ۔یہ دیکھ کر رونا آتا ہے کہ آزادی کے ہیرو کو ہم نے کیا مقام دیا ۔گاﺅں کے جس پرائمری سکول میں بھگت سنگھ نے پہلی سے چوتھی تک تعلیم حاصل کی اس کی چھتیں غائب ہیں، صرف کمروں کی دیواریں باقی ہیں۔ وہاں سے یہ معلومات ملیں کہ کینیڈا سے آنے والے سکھوں نے سکول کی جگہ پر ایک ہسپتال بھگت سنگھ کے نام پر قائم کرنے کا پلان بنایا اور اس کے تمام اخراجات وہ خود ادا کریں گے لیکن ہماری حکومت نے اس کی اجازت نہ دی۔

بچپن اور تعلیم:
بھگت سنگھ ایک سندھو جٹ سردار ہرکشن سنگھ کے گھر27 ستمبر1907 ءکو پیدا ہوئے۔ ان دنوں یہ علاقہ کسان بغاوتوں کامرکز تھا اپنے دیس سے محبت اور پیار کا عشق سمندر اس کی رگ رگ میں رچ بس چکا تھا۔ جب وہ پیدا ہوا تو اس کا باپ انگریزوں کی قید میں تھا۔ اس کے دادا نے بھی آزادی کی جنگ لڑی تھی۔ غلامی سے نفرت اور آزادی سے محبت ان کے خاندان کا ورثہ تھا۔ بھگت سنگھ کا چچا اجیت سنگھ، پگڑی سنبھال جٹا، تحریک کا لیڈر تھا جس کو انگریز سرکار نے تحریک کا حصہ بننے پر کالا پانی کی سزادی۔ اجیت سنگھ نے حیدر رضا کے ساتھ مل کر ایک تنظیم آرگنائز کی تھی۔ بھگت سنگھ نے ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جس میں دھرتی ماں کے عشق میں قربان ہوجانا ریت اور رواج کا درجہ رکھتا تھا ۔ چوتھی جماعت بنگے سے پاس کرنے کے بعد بھگت سنگھ مڈل سکول پاﺅلیانی سکول میں بھی گیا۔سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بھگت سنگھ کی تاریخ پیدائش کا ریکارڈ موجود نہیں ہے ۔ اس کے بعد بھگت سنگھ کو ویا نندا نگلو درک سکول لاہور داخل کروایا گیا۔ جب گاندھی نے برطانیہ سرکار کے اداروں کا بائیکاٹ کیا تو ان کو دوسرے سکول داخل کروایا گیا ۔ بھگت سنگھ نے ہوش سنبھالا تو ایسے واقعات رونما ہوئے جس سے اس کے دل و دماغ آتش فشاں بن گئے۔ کرار سنگھ سرابھا جس کو صرف 19 سال کی عمر میں پھانسی پر چڑھادیا گیا جو بھگت سنگھ کا آئیڈل تھا۔ کہا جاتا ہے کہ جب بھگت سنگھ پہلی بار گرفتا ر ہوئے تو ان کی جیب سے اس کی تصویر برآمد ہوئی جو وہ ہر وقت اپنے ساتھ رکھتا تھا۔ وہ بھگت سنگھ کا ہیرو بن گیا۔ 13اپریل1919 کا سانحہ جلیانوالہ باغ اس کو امرتسر لے گیا۔ انگریز سرکار نے حریت پسند وں کی جدوجہد کو کچلنے کے لئے Rowolt Actبنایا ۔یہ قانون اسی جسٹس کے نام پر تھے ۔اس کے تحت پکڑے جانے والوں کو اپیل کا حق نہ تھا ۔ جلیانوالہ باغ امرتسر میں گولڈ ن ٹمپل سے کچھ ہی دور ہے۔ لگ بھگ 5 ہزار راﺅنڈ فائر کےے گئے جس کے نتیجے میں500 سے زائد انسان مارے گئے ۔ان میں476 کی لاشوں کی شناخت ہوگئی، 15 کے چہرے فائرنگ کے بعد شناخت نہ ہوسکے جب عوام نے کنوﺅں میں چھلانگ لگائی تو ان ڈوبتے لوگوں پر بھی فائر کےے گئے۔ جلیانوالہ باغ کا واقعہ برصغیر میں بسنے والے انسانوں کے لےے مشعل راہ ثابت ہوا کہ ان کی منزل صرف آزادی ہے اور اس کی قیمت موت ہے ۔ بھگت سنگھ جلیانوالہ باغ پہنچا تو اس نے حریت پسندوںکے خون سے رنگین مٹی کو چومتے ہوئے قسم کھائی کہ وہ یہ فرض ضرور اتارے گا۔ وہ وہاں سے لوٹا تو یہ مٹی اس کے ساتھ تھی۔ سکول سے بھگت سنگھ کالج پڑھنے لگا۔ لوگوں میں بہتے باغی خون اور ماحول میں رچی بسی بے انصافی نے اسے سچا انقلابی بنا دیا تھا۔ انقلاب کے رستے پر چلتے ہوئے اس کی دوستی سکھ دیو اور راج گرو سے ہوئی ۔پھر تینوں چندر شیکر آزاد سے ملے ۔ان ملاقاتوں کے بعد بھگت کے دل و دماغ میں طوفان آگیا ۔بس پھر اس نے اپنی منزل کا راستہ اپنا لیا۔ بنگے میں اس کی والدہ اپنے پتر کے سر پر سہرے سجانے کی تیاریاں کررہی تھی اور مانوالہ میں اس کی منگنی جیتو نامی لڑکی سے کررکھی تھی ۔لیکن بھگت نے انقلاب کا سہرا سجانے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ اس دوران بھگت گھر سے بھاگ گیا اور انڈیا کے انقلابیوں سے اس کا میل ملاپ بڑھتا گیا ۔وہاں اس نے پراتاب پریس میں ملازمت کرلی تھی ۔دن بھر کام کرنے کے بعد رات کو بھگت مطالعہ کرتا ۔وہاں اس نے ریڈیکل گروپ ہندوستان ری پبلکن ایسوسی ایشن جوائین کرلی جس کا مقصد بھارت کو آزاد کروانا تھا۔ 1925 میں جیتو کے مقام بھگت نے مہاراجہ ایپودامن سنگھ آف نابھہ کی تقسیم کے خلاف احتجاجی جتھوں کی قیادت کی ۔اس جرم میں بھگت کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے لیکن وہ پولیس کی گرفتاری سے بچا رہا اور دہلی چلا گیا ۔یہاں اس نے بلونت سنگھ کے نام سے روزنامہ ویرارجن میں آرٹیکل لکھنے شروع کےے۔ اس دوران سوشلسٹ ری پبلکن پارٹی سے رابطہ رہا۔ مارچ1926 میں اس نے نوجوان بھارت سبھا قائم کی اور اسے اس کا سیکرٹری چنا گیا ۔انڈیا ایکٹ 1919میں وعدہ کیا گیا تھاکہ 10 سال کے بعد کمیشن جائزہ لے گا کہ ہندوستان حکومت نے خود اختیاری کی کس حد تک صلاحیت حاصل کرلی ہے۔ کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں انہیں مزید حقوق دئیے جانے وعدہ کیا گیا ۔1927میں حکومت نے برطانیہ کے قائم کردہ کمیشن جس میں ہندوﺅں اور مسلمانوں کی نمائندگی نہیں تھی اس لےے مسلم لیگ اور کانگریس دونوں نے اس کی مخالفت کی۔30اکتوبر1928 کو سائمن نے ریلوے سٹیشن پہنچنا تھا ۔تمام سیاسی جماعتوں نے احتجاج کرنا تھا جس میں بھگت سنگھ بھی شامل تھا ۔لالہ اجیت رائے اس کی قیادت کررہے تھے ۔پولیس نے احتجاج کرنے والوں پر شدید لاٹھی چارج کیا جس کے نتیجے میں لالہ جی کا سر پھٹ گیا اور وہ زخموں کی تاب نہ لا کر چل بسے۔ بھگت نے یہ سارا کھیل نزدیک سے دیکھا ۔پنجاب میں ہر طرف غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی۔27 دسمبر1928 کو سانڈرس کو لاہور پولیس ہیڈ کوارٹر کے سامنے سر عام قتل کردیا گیا ۔بھگت اور راج گرو دیر تک سانڈرس کی لاش پر گولیاں چلاتے رہے۔ اس کے بعد دونوں ڈی اے وی کالج گراﺅنڈ راستے فرار ہوگئے۔ وہ سےدھے درگا دیوی کے گھر گئے۔ پہلے تو وہ ان کو پہچان نہ سکی کیونکہ بھگت نے کوٹ پینٹ پہن رکھا تھا پھر بھگت نے اس کو تیار ہونے کا کیا اور وہ تانگے پر بیٹھ کر سیدھے لاہور سٹیشن گئے۔درگا دیوی کا بچہ بھگت نے اٹھا لیا۔ راج گرونو کر بنا ہوا تھا ۔ یہ ٹرین میں بیٹھ کر لاہور سے لکھنو اور کلکتے کی طرف نکل گئے۔ چندر شیکر آزاد متحرا کے سادھوﺅں کا روپ دھار کر اس کے لیڈر بن گئے اور ہاتھ میں گیتا لے کر گاڑی میں سوار ہوگئے ۔اس طرح بچ نکلے ۔کلکتہ سے بنگال اور یو پی کے انقلابی دوروں کے بعد بھگت 29کو دہلی آگئے۔ پھر آگرہ پہنچ کر انہوں نے بنانے کی فیکٹری قائم کی مختلف صوبوں کے کارکنوں کو تربیت دیتے رہے۔ لاہور سہارن پور میں سکھ دیو اور یشو درما نے مختلف جگہوں پر اسی طرح کا کام کیا۔ ملک میں آزادی اور انقلاب کے لےے کام کرنے والوں کو گرفتار کیا جارہا تھا ۔انہی دنوں بیس مارچ1929 کو ہندوستان کے سرکردہ 23 کمیونسٹ رہنماﺅں کو گرفتار کرلیا گیا ،میرٹھ کے مشہور سازش کیس میں ہندوستانی انقلابیوں کے ساتھ تین انگریز بھی تھے ، آگرہ میں ایسوسی ایشن نے فیصلہ کیا کہ دہلی اسمبلی میں سیفٹی بل اور صنعتی تنازعوں کا بل پیش ہونے والا ہے اس موقع پر اسمبلی میں بم پھینک کر انگریزوں پر ثابت کیا کہ عوام ا ن کی رخصتی چاہتے ہیں۔ اس کے لےے بھگت سنگھ اور بی کے دت کا نام آیا لیکن چندر شیکھر آزاد نے اس کی مخالفت کی کہ بھگت پہلے ہی سانڈرس کیس میں مطلوب ہے۔ لیکن اکثریتی فیصلے کے مطابق بھگت سنگت اور بی کے دت ہی کے سپرد یہ کام کیا۔ انہوں نے آگروہ اور دہلی کے کئی چکر لگائے اور آخروہ اسمبلی ہال میں پاس لے کر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔ اجلاس جاری تھا جب فیصلہ سنایا جانے لگا تو بھگت سنگھ اٹھے انہوں نے سرکاری پنجوں کی طرف احتیاط سے بم پھینکا کہ لوگ زخمی نہ ہوں۔ بم کم طاقت کا تھا کہ جانی نقصان نہ ہو۔ ممبر ان اسمبلی میں بھگدڑ مچ گئی کئی زخمی ہوئے کچھ خوف سے بے ہوش ہوگئے ۔ بھگت اور دت بارود کے دھوئیں میں انقلاب زندہ باد کے نعرے لگارہے تھے ۔ان کے ہاتھوں میں پستول تھے وہ آسانی فرار ہوسکتے تھے لیکن فیصلہ کے مطابق گرفتاری دینی تھی ۔اس لےے گرفتار ہوئے۔ انہوں نے ایسوسی ایشن کے اعلان نامے کی کاپیاں تقسیم کیں جس میں یہ بات درج تھی کہ بہرے کو بات سنانے کے لےے اونچی آواز کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھگت اور دت کو سول لائن پولیس سٹیشن لایا گیا۔ بعدمیں دہلی بھیج دیا گیا ، دہلی اسمبلی میں بم گرانے کے جرم میں بھگت سنگھ اور بی کے دت کو 2جون1929 کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ۔ان انقلابیوں نے عدالت میں خوشی سے انقلاب زندہ باد کے نعرے لگائے اور آزادی کے گیت گاتے ہوئے عوام زندہ باد کے نعرے لگائے ۔اور آخری سانس تک حوصلہ نہ چھوڑا۔ ان فلک شگاف نعروں نے اسی دن سے زور پکڑا اور عوام نے جلسے جلوسوںمیں یہ نعرے لگانے شروع کردےے ۔چونکہ اسمبلی پر بم پھینکنے سے قبل سانڈرس کا قتل ہوچکا تھا ادھر اسمبلی بم کیس میں سزا ہوئی دوسری طرف پولیس ان دونوں کو سانڈرس قتل میں رکھ کر ہمیشہ کے لےے ختم کرنا چاہتی تھی ۔لاہور میں دسمبر کے موقع پر دو بم چلے جن میں عام آدمی مرے تھے، نوجوان بھارت سبھا کے کام میں دلچسپی لینے والے باجو سنگھ کو گرفتار کرکے ایک سال تک پریشان کیا لیکن اس نے کوئی بات نہ بتائی۔ اس کو رہا کردیا گیا لیکن اس کی باتوں سے شبہ ہوگیا کہ قلعہ گوجر سنگھ کی بلڈنگ میں کوئی شخص بم بناتا ہے ، جہاں آج کل لاہور ہوٹل ہے۔ پولیس نے چھاپہ مارا کچھ لوگ گرفتار کرلےے یہ مکان چِرن بھگوتی کا تھا کامریڈ چرن مفرور ہوگئے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ بم ہاتھ میں پھٹنے سے شہید ہوگئے تھے ۔بھگت سنگھ اور بی کے دت کو دہلی سے لاہور لایا گیا۔ مشہور مقدمہ لاہور سازش کیس نمبر دو شروع ہوگیا۔ مقدمہ کی کاروائی 1929 میں شروع ہوئی ۔پہلے دن انقلابی گیت گاتے اور نعرے لگاتے آئے۔ بعد ازاں نہوں نے مقدمہ کی کسی کاروائی میں شرکت سے انکار کیا ۔ابھی مقدمہ چل رہا تھا کہ سوشلسٹ آرمی نے اپنی سرگرمیاں تیز کردیں، بھگت سنگھ کو چھڑانے کا منصوبہ بنایا گیا ۔یہ کام چندر شیکر آزاد نے اپنے ذمے لیا ۔اس مقصد کے لےے بم بنا لےے گئے اٹھائیس مئی کو بم چرن بھگوتی کے ہاتھوں میں پھٹ گیا۔ سات اکتوبر1930 کو سپیشل ٹربیونل نے بھگت سنگھ‘ سکھ دیو،راج گرو کو سزائے موت کا حکم سنایا، تیرہ فروری1930 کو آلہ آباد پولیس کے ساتھ مقابلہ میں چندر شیکھر آزاد مارے گئے ، فیصلہ کے وقت بھگت سنگھ عدالت میں حاضر نہیں تھے ۔سرکاری وکیل نے ان کو آخر پھانسی کی کوٹھری نمبر چودہ میں فیصلہ سے آگاہ کیا ۔بھگت نے اپنے بچ جانے والے ساتھیوں سے کہا کہ دوستو ملنا اور بچھڑنا تو زندگی کا حصہ ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہم پھر نہ ملیں جب تمہاری سزا پوری ہواور گھر جاﺅ تو دنیا کے کاموں نہ پھنس جانا ، جب تک انگریزوں کو ہندوستان سے نکال کر سوشلسٹ اقتدار قائم نہ کرلو آرام سے نہ بیٹھنا ۔یہ میرا آخری پیغام ۔یہ کہہ کر بھگت سنگھ راج گرو اور سکھ دیو کوٹھری میں آگئے ۔پھانسی ملنے تک بھگت سنگھ کمیونسٹ مینی فیسٹو اور لینن کی سوانح حیات اور دوسری کتابوں کا مطالعہ کرتا رہا۔ بھگت سنگھ کا باپ ہرکشن سنگھ اپنے بیٹے سے ملاقات کے لےے آتا رہا۔ کشن سنگھ :بیٹا شاید یہ آخری ملاقات ہو ۔بھگت سنگھ آپ نے کچھ سنا ہے کشن سنگھ ہاں بھگت سنگھ کیا ؟ کشن سنگھ تمہاری سکھ دیو ار راج گرو کی سزا کم نہیں ہوئی۔ گاندھی اردنی سمجھوتے کے تحت صرف کانگریسی قیدی رہا ہوئے ہیں ، کسی بھی انقلابی قیدی کو رہا نہیں کیا گیا ۔وائسرائے اپنے اختیارات استعمال کرکے موت کی سزا تبدیل کرسکتا تھا لیکن ایسا نہ ہوا کیونکہ گاندھی بھگت سنگھ کو رہا کروانے میں سنجیدہ نہ تھا۔ بھگت سنگھ شروع سے کہہ رہا ہوں کہ سرکار ہماری سزا کم نہیں کرے گی ۔کشن سنگھ: میں نے کچھ اور بھی سنا ہے۔ بھگت وہ کیا ؟ کشن سنگھ :گاندھی نے کہا کہ اگر تینوں چھوکروں کو پھانسی دینا ہی ہے تو یہ کام کانگریس کے کراچی سیشن سے پہلے ہونا چاہےے۔ بھگت: کراچی سیشن کب ہورہا ہے ؟کشن سنگھ: مارچ کے آخری ہفتہ تک ۔بھگت :تب یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ گرمیوں سے جان چھوٹ جائے گی ۔میں ہندوستان میں ایک بار پھر پیدا ہوں گا ہوسکتا ہے ایک بار پھر انگریزوں سے ٹکر لینی پڑے۔ میرا ہندوستان ضرور آزاد ہوگا ۔ آزاد ہندو فوج کے جنرل موہن سنگھ نے لکھا کہ گاندھی جی بھگت سنگھ کی پھانسی رکوا سکتے تھے لیکن انہو ں نے اپنی ضد نہ چھوڑی۔ آخر کار 23مارچ1931 کو شام سات بجے گرو سکھ دیو کو پھانسی پر چڑھا کر سب اچھا کی رپورٹ۔ ان کی نعشیں راتوں رات فیروز پور کے قریب دریائے ستلج کے کنارے لے جا کر جلا دی گئی اور جلی نعشوں کو دریا میں بہا دیا گیا۔ یہ تمام کاروائی جیل اور پھانسی کے عام قواعد کے خلاف کیا گیا۔ بھگت سنگھ شہید ہوکر امر ہوگیا ا س نے شہادت بھی ڈھولے ماےے گاتے دی۔ بڑے بڑے بورژوا لیڈرز کے مناظر میں بتایا جاتا ہے کہ کوئی سہارا لے کر پھانسی گھاٹ گیا کسی کو سٹریچر پر ڈال کر لایا گیا لیکن یہ تینوں جان نثار نعرے لگاتے ناچتے گاتے شہادت کے مقام پر پہنچے کیونکہ وہ ایک آدرش کے لےے کام کررہے تھے۔ جب انسان کے سامنے ایک عظیم مقصد ہو تو حوصلے خود بخود بلند ہوجاتے ہیں ۔
یہ ان شیر دل شہیدوں کی داستان ہے جنہوں نے آزادی اور سوشلزم کے پرچم کو بلند رکھنے کے لےے اپنے خون سے سرخ کیا ۔ یہ ان مجاہدوں کا تذکرہ ہے جنہوں نے آج سے تقریباً75 سال قبل تشدد کی پرخارراہوں سے گزر کر اس سماج کو تبدیل کرنے کی جدوجہد کا آغاز کیا تھا ، خطر پسند ی ان کے قدم چومتی تھی اور خوف و ہراس ان کے سائے سے بھی گریز کرتا تھا ۔اپنی قربانیوں سے ہمارے قومی وجود کو نیا شعور عطا کیا اور اپنے سوز یقین سے لاکھوں محبان وطن کے سینے درشن کےے۔ انقلابیوں کے اس قافلے کا راہبر بھگت سنگھ شہید تھا جس نے اپنے شہید سردار کی روایت کو زندہ رکھا۔ اس کا نام اجے کمار گھوش تھا ۔ لیکن رونا اس بات کا آتا ہے کہ 23مارچ کو جب پاکستان میں ہر سال یوم جمہوریہ کا جشن برپا ہوتا ہے شاید بہت سے لوگوں کو یہ بھی معلوم نہ ہوکہ یہی وہ دن ہے جب برصغیر کے مایہ ناز فرزند سردار بھگت سنگھ اور ان کے دو ساتھیوں راج گرو اور سکھ دیو نے لاہور سینٹرل جیل میں تختہ دار پر چڑھ کر انقلاب زندہ باد کے نعرے بلند کےے اور صد سالہ برطانوی اقتدار کو لرزہ براقدام کردیا تھا۔ آج ہمارے ملک میں بیرونی امداد پر برطانیہ کے ان لوگوں کے بارے معلومات لے کر مال کمایا جارہا ہے ۔کچھ دنوں پہلے مجھے ایک دوست شہزاد عالم نے بتایا کہ محکمہ تعلیم کے ڈی ی او سیکنڈری چوہدری ذوالفقار بھگت سنگھ بارے معلومات تلاش کررہے ہیں ان سے مل کر حیرانی ہوئی کہ وہ بھگت سنگھ بارے تحقیقات کرکے مال کمانے کے چکر میں ہیں اور انہوں نے بتایا کہ حکومت کی طرف سے ڈی سی او آفس میں ایک سیل پی پی آئی قائم ہے جو برصغیر کے ان بہادروں کے بارے معلومات اکٹھی کررہاہے ۔ انڈیا میں تو قدرے ان جان نثاروں کی عزت کی جاتی ہے لیکن ہمارے حکمران چونکہ سامراجی گماشتے ہیں اس لےے انہوں نے آج تک ایسے لوگوں کے گھروں اور دیگر اشیاءکو قومی تحویل میں نہیں لیا ۔ہم کتنے احسان فراموش ہیں جن کی جدوجہد کے نتیجے میں آج ہم آزاد ملک میں رہتے ہیں ۔کاش اس پر بھی توجہ دیں ۔
برصغیر کی آزادی کے اس عظیم ہیرو نے 24 سال کی عمر میں آزادی کی جدوجہد میں تختہ دار پرجھول کر ایک روشن مثال قائم کردی لیکن ہمارے ملک کا المیہ دیکھےے کہ بھگت سنگھ شہید کی یاد میں شادمان کا نام بھگت سنگھ چوک نہیں رکھ سکے۔ میں بھگت سنگھ شہید کا دن بڑے احترام سے منایا جاتا ہے ۔انڈیا میں ورلڈ کبڈی ٹورنامنٹ کا افتتاح بھگت کے گانے ”مائے نی میرا بسنتی چولہ رنگ دے“ سے ہوا۔ اس سال بھی بھگت سنگھ کی سالگرہ پر ایک میلہ منعقد کیا جارہا ہے جس میں دنیا بھر سے سول سوسائٹی اور صحافت سے وابستہ لوگ شریک ہورہے ہےں ۔دنیا کی خاتون اول مشعل او با مہ نے بھی بھگت سنگھ کے اسی گانا پر ڈانس کیا تھا ۔کاش ہم بھی مذہبی تعصب سے نکل سکیں۔
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
ایک تحریر اس ربط سے

بھگت سنگھ: وہ تاریخ جو مٹ نہیں سکتی
23 مارچ کا دن برطانوی سامراج کے خلاف آزادی کی جدوجہد کے کئی حوالوں سے مشہور ہے۔ تاہم اس دن سے وابستہ ایک اہم تاریخی واقعے کو حکمران طبقے کے تاریخ دان دانستہ طور پر چھپاتے یا مسخ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ اس معاملے میں ہندوستان اور پاکستان، دونوں ریاستوں کے سرکاری تاریخ دانوں کا کردار ایک دوسرے سے مختلف نہیں ہے۔ 23 مارچ ’’ہندوستان سوشلسٹ ری پبلکن ایسوسی ایشن‘‘ (HSRA) کے پرچم تلے برطانوی سامراج اور اس کے استحصالی سامراجی نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والے 23 سالہ انقلابی نوجوان بھگت سنگھ اور اس کے جرات مند ساتھیوں سکھ دیو اور راج گرو کی شہادت کا دن ہے۔ علم بغاوت بلند کرنے والے ان تینوں انقلابیوں کو برطانوی سامراج نے 23 مارچ 1931ء کی تاریک رات میں لاہور جیل کے پھانسی گھاٹ کے تختہ دار پر لٹکا دیا تھا۔
آج ہندوستان سوشلسٹ ری پبلکن ایسوسی ایشن (HSRA) سے وابستہ نوجوانوں کی جدوجہد کو پاکستان اور بھارت کا کارپوریٹ میڈیا اور حکمران طبقے کے مختلف دھڑے اپنے اپنے سیاسی اور مالی مفادات کے تحت مختلف انداز میں پیش کرتے ہیں۔ پاکستان کا مذہبی دایاں بازو بھگت سنگھ کو کافر اور ’’دہشت گرد‘‘ قرار دیتا ہے۔ بھگت سنگھ کے حقیقی نظریات کو بگاڑنے کے لئے اس کے سکھ پس منظر کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے۔ دائیں بازو کے سیاست دان تحریک آزادی میں بھگت سنگھ کے کردار کو اس لئے بھی مسترد کرتے ہیں کیونکہ اس کی جدوجہد اور نظریات آج بھی برصغیر کے محنت کش عوام کو اس غیر انسانی استحصالی نظام کے خلاف طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہوکر لڑنے کا پیغام دیتے ہیں۔ سیاسی دایاں بازو اور مذہبی بنیاد پرست اس گلے سڑے سرمایہ دارانہ نظام کے سب سے بڑے حمایتی اور خیر خواہ ہیں۔ HSRA کے انقلابیوں نے برطانوی راج کی برصغیر پر براہ راست حکمرانی کے ساتھ ساتھ اس سامراجی نظام کے خلاف بھی جدوجہد کا پیغام دیا تھا جو ’’آزادی‘‘ کی چھ دہائیوں بعد بھی سرحد کے دونوں اطراف عوام کو معاشی غلامی اور استحصال کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ یہ وہ جرم ہے جسے سامراجی آقا اور ان کے مقامی دلال کبھی معاف نہیں کرسکتے۔
بھارتی حکمران طبقے کی جانب سے بھگت سنگھ کی بالواسطہ کردار کشی یہاں کی نسبت زیادہ افسوسناک ہے۔ یہ تاریخ کا المیہ ہے کہ کچھ مہینے پہلے درندہ صفت ہندو بنیاد پرست اور بھارتی سرمایہ داروں کے محبوب سیاستدان نریندرامودی کو بھگت سنگھ کی آپ بیتیوں پر مبنی ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں خصوصی مہمان کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اپنی شہادت کی سات دہائیوں بعد بھی بھگت سنگھ نوجوانوں میں مقبول ہے اور دایاں بازو اسی مقبولیت کو کیش کروانے کی کوشش کررہا ہے۔ دائیں بازو کی طرح کانگریس اور اصلاح پسند بایاں بازو بھی ’’تبدیلی‘‘ کی لفاظی اور سیاسی شعبدے بازی کے لئے بھگت سنگھ کے نام کا سہارا لیتا ہے۔ لیکن حکمران طبقے کے مختلف حصوں کی یہ بیہودہ چالبازیاں بھگت کے حقیقی نظریاتی ارتقا پر پردہ نہیں ڈال سکتی ہیں۔ موت کے وقت وہ اپنی سیاسی زندگی کے اس نظریاتی نچوڑ اور نتیجے پر چٹان کی طرح قائم تھا کہ برصغیر کے عوام کی نجات کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب ہے۔
اپنی تحریروں میں بھگت سنگھ واضح طور پر طبقاتی مصالحت اور موقع پرستی کو مسترد کرتا ہے۔ ’’انقلابی پرگرام کا بنیادی خاکہ: نوجوان سیاسی کارکنان کے نام ایک خط‘‘ میں وہ واضح طور پر لکھتا ہے کہ ’’آپ لوگ ’’انقلاب زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔ میں توقع کرتا ہوں کہ آپ کو اندازہ ہو گا کہ اس نعرے کا مطلب کیا ہے۔ ہماری تعریف کے مطابق انقلاب کا مطلب اس سماجی نظام کو اکھاڑ کر ایک سوشلسٹ نظام قائم کرنا ہے۔ ۔ ۔ اگر آپ کسانوں اور مزدوروں کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو یہ جان لیجیے کہ وہ جذباتی باتوں سے بیوقوف بننے والے نہیں۔ وہ آپ سے پوچھتے ہیں کہ : جس انقلاب کے لئے آپ ان سے قربانی مانگ رہے ہیں وہ انہیں کیا دے سکتا ہے؟ آپ کو انہیں یقین دلانا پڑے گاکہ انقلاب ان کا ہے اور انہی کے فائدے کے لئے ہے۔ پرولتاریہ کے لئے پرولتاری انقلاب۔ ۔ ۔ اگر لارڈ ریڈنگ کی جگہ سر پرشوتم داس ٹھاکر حکومت کا نمائندہ بن جائے تو عوام کی زندگیوں میں کیا فرق پڑے گا؟ اگر لارڈ ارون کی جگہ سر تیج بہادر سپارو لے لے تو ایک کسان کی زندگی میں کیا تبدیلی آئے گی؟ قوم پرست سراسر ڈھونگ رچا رہے ہیں۔ آپ کو ان سے کوئی فائدہ نہیں ملنے والا۔‘‘ (2 فروری 1931ء)
بھگت سنگھ اخباری مضامین اور سیاسی اشتہاروں میں مہاتما گاندھی کی عیاری اور جھوٹ کو بھی بے نقاب کرتا ہے: ’’وہ (گاندھی) اچھی طرح جانتا تھا یہ تحریک کسی نہ کسی طرح مصالحت پر ہی منتج ہوگی۔ ہمیں سیاسی ذمہ داری کے اس فقدان سے نفرت ہے۔ ‘‘کانگریس کے بارے میں وہ لکھتا ہے: ’’کانگریس کا مقصد کیا ہے؟ میں نے پہلے کہا ہے کہ موجودہ تحریک کسی مصالحت یا مکمل ناکامی پر ختم ہوگی۔ میں نے ایسا اس لئے کہا تھا کہ حقیقی انقلابی قوتوں کو تحریک میں شامل ہونے کی دعوت ہی نہیں دی گئی۔ اس تحریک کی بنیاد چند ایک مڈل کلاس دکاندار اور کچھ سرمایہ دار ہیں۔ یہ دونوں طبقات اپنی جائیداد کو خطرے میں نہیں ڈال سکتے۔ انقلاب کی حقیقی افواج دیہاتوں اور فیکٹریوں کے کسان اور مزدور ہیں۔ یہ سوتے ہوئے شیراگر جاگ گئے تو ہمارے سیاسی رہنماؤں کا فوری مقصد پورا ہونے کے بعد بھی رکیں گے نہیں۔ ‘‘بھگت سنگھ کے یہ الفاظ اس وقت سو فیصد درست ثابت ہوئے جب بمبئی میں کپڑے کی صنعت کے محنت کشوں کی جرات مندانہ تحریک کے بعد گاندھی نے انقلاب کا خطرہ ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ’’سیاسی مقاصد کے لئے پرولتاریہ (مزدوروں) کا استعمال بہت خطرناک ہوسکتا ہے۔ ‘‘یہ ایک بیان گاندھی جیسے مقامی حکمران طبقے کے سیاسی نمائندوں کی برصغیر کے محنت کش طبقے سے نفرت اور خوف کی خوب غمازی کرتا ہے۔
یہ درست ہے کہ ایک وقت میں بھگت سنگھ ’’غدر تحریک‘‘ سے بہت متاثر تھا اور کرتار سنگھ سرابھا کو اپنا ہیرو سمجھتا تھا۔ غدر تحریک کے اندرونی حالات پر مبنی سچندرا ناتھ سنیال کی کتاب ’’بندی جیون‘‘ کو بھگت سنگھ اور اس کے ساتھی لاہور کے نیشنل سکول میں طالب علمی کے عہد میں پڑھتے تھے۔ یہ نوجوان غدر تحریک پر 1918ء میں برطانوی حکومت کی ’’رولٹ کمیٹی‘‘ کی جانب سے شائع ہونے والی رپورٹ پر بھی تبصرے کرتے تھے۔ بھگت سنگھ غدر پارٹی کے کئی اہم رہنماؤں سے ذاتی طور پر ملا بھی تھا۔ غدر پارٹی کا سیکولر نظریہ بھگت سنگھ کی نظر میں مذہبی اورصوفیانہ طرز فکر سے بہتر تھا۔ تاہم بعد ازاں بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں نے غدر تحریک کی ناکامی کے پیچھے کارفرما سیاسی اور نظریاتی کمزوریوں کا جائزہ لیتے ہوئے نیا لائحہ عمل مرتب کیا۔ ستمبر 1928ء میں ’’ہندوستان ری پبلکن ایسوسی ایشن ‘‘ کے نام میں ’’سوشلسٹ‘‘ کا اضافہ بنیادی نظریاتی تبدیلی کا اظہار تھا۔ ایسوسی ایشن کے کانپور میں ہونے والے اجلاس میں بھگت سنگھ نے اپنے ساتھیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ہمارا بنیادی فریضہ عوام سے جڑنا اور انہیں منظم کرنا ہے۔‘‘
پنجاب سٹوڈنٹ کانفرنس کے نام بھگت سنگھ اور بی کے دت کا پیغام انتہائی اہم ہے۔ اس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’’ہم نوجوانوں کو پستول اور بم چلانے کا نہیں کہہ سکتے۔ نوجوانوں کو دیہاتوں اور صنعتی مراکز کی جھونپڑ پٹیوں میں رہنے والے لاکھوں کروڑوں انسانوں کو بیدار کرنے کا تاریخی فریضہ سرانجام دینا ہے۔‘‘ 2 فروری 1931ء کے خط میں ہی بھگت سنگھ لکھتا ہے کہ ’’میں نے اپنے سابقہ نظریات اور عقائد کا ازسر نو جائزہ لے کر کئی اہم تبدیلیاں کی ہیں۔ پرتشدد طریقوں کے رومانس کی جگہ اب سنجیدہ نظریات نے لے لی ہے۔ تصوف اور اندھے یقین کو ختم کرنا ہوگا۔ انقلابی اچھی طرح جانتے ہیں کہ سوشلسٹ سماج انسانی نجات کی واحد ضمانت ہے۔‘‘
اس نام نہاد آزادی کے 67 سال بعد برصغیر میں آباد نسل انسانی کے بیس فیصد حصے کی حالت 1947ء سے بھی بدتر ہے۔ اس ذلت اور محرومی سے رہائی کا راستہ بھگت سنگھ اور اس کے کامریڈ بہت پہلے ہی دکھا چکے ہیں!
(تحریر: لال خان)۔​
 

یاز

محفلین
بھگت سنگھ کی پھانسی کے بعد اس وقت کے اخبارات میں چھپی خبروں کے دو عکس جو انٹرنیٹ پہ گوگل سرچ سے لئے گئے ہیں۔

bhagat_singh_executed.jpg


India_deeply_moved_The_Tribune.jpg
 

یاز

محفلین
اب کچھ بات اس چیز پہ کہ بھگت سنگھ کا قرض کیا ہے، چکانے کی کیا کوشش ہوئی اور کیوں اور کیسے ناکام ہوئی۔

بھگت سنگھ کو لاہور سینٹرل جیل میں پھانسی دی گئی تھی جو کہ آج کی جیل روڈ کے پاس واقع ہے۔ کچھ حلقوں کے مطالبہ کرنے اور توجہ دلانے پہ پنجاب حکومت نے اس کے قریبی شادمان چوک کا نام بھگت سنگھ چوک رکھنے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان ہونا تھا کہ بے شمار نام نہاد ملک و مذہب و نظریے کے ٹھیکیدار اس کے خلاف سڑکوں پہ نکل آئے۔

Bhagat-Singh-660x330.jpg

اسی سے متعلق کچھ ہرزہ سرائی اس ربط پہ بھی پڑھی جا سکتی ہے۔ ایسے بے شمار بیانات اور مضمون آپ کو مل جائیں گے جہاں مفکرین نے عقل و دانش کے موتی بکھیرے ہوں گے۔

شادمان چوک کا بھگت سنگھ چوک رکھنے کی حمایت میں حسن نثار کا اظہارِ خیال جیو ٹی وی کے پروگرام میرے مطابق میں۔حسن نثار کے کچھ خیالات سے میں بھی اختلاف رکھتا ہوں، تاہم اس ویڈیو میں وہ جو کہہ رہے ہیں وہ سننے کے قابل ہے۔ اسی ویڈیو کے آخر میں راجکمار سنتوشی کی فلم "دی لیجنڈ آف بھگت سنگھ" کا ایک سین بھی ہے۔
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
بھگت سنگھ کا آبائی گھر
بھگت سنگھ کا آبائی گھر فیصل آباد کے نزدیک بنگا نامی گاؤں میں ہے جس کا پرانا نام چک 66 یا چک 105گ ب تھا۔
موٹروے کی تعمیر سے قبل لاہور سے فیصل آباد جانے کے دو راستے تھے۔ ایک براستہ شاہدرہ، شیخوپورہ، شاہکوٹ، کھرڑیانوالا اور دوسرا راستہ براستہ فیض پور، موڑ کھنڈا، جڑانوالا، مکوآنہ ہے۔ بنگا نامی گاؤں فیصل آباد کے کافی نزدیک انہی دونوں راستوں کے درمیان میں واقع ہے یعنی اس تک مکوآنہ، کھرڑیانوالا یا جڑانوالا سے پہنچا جا سکتا ہے۔
میں نے اس گاؤں کی لوکیشن کو گوگل ارتھ میں نشان زد کیا ہے۔

HgWJGp2.jpg
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
بھگت سنگھ کے گاؤں اور اس کے گھر کی حالتِ زار کے متعلق کچھ مواد


بی بی سی اردو کا درج ذیل صفحہ ملاحظہ ہو
پاکستان میں بھگت سنگھ اور گنگارام کے گاؤں آج بھی نازاں

ایکسپریس ٹریبیون کی انگریزی زبان میں ایک رپورٹ
Bhagat Singh: The birthplace of a revolutionary

لاہور نامہ نامی ایک بلاگ سے
A visit to Bhagat Singh’s village

فیصل آباد سجاگ نامی ویب سائٹ سے
بھگت سنگھ کون تھا؟

اسی سے متعلق دنیا نیوز کے ایک پروگرام کی ویڈیو
 

یاز

محفلین
بھگت سنگھ کے مکان اور گاؤں کی حالت میں بہتری کے لئے پنجاب حکومت نے کچھ اقدامات کا آغاز کیا، ان کے بارے میں بی بی سی اردو کی ایک مختصر یوٹیوب ویڈیو

 

یاز

محفلین
اور اب وہ بات جس نے مجھے یہ سارا واویلا کرنے پہ مجبور کیا۔
جیسا کے اوپر کے مراسلوں میں بیان کیا جا چکا ہے کہ بھگت سنگھ کے آبائی گھر میں اب اس گاؤں کا نمبردار رہتا ہے۔ گھر کی حالت کسی حد تک ناگفتہ بہ ہے۔ اس گھر میں بھگت سنگھ کا لگایا آم یا بیری کا درخت بھی موجود ہے۔ اس کے نزدیک مالک مکان نے بھگت سنگھ کے نام کا بورڈ بھی لگا رکھا ہے۔ بورڈ کی حالت درج ذیل تصاویر سے اندازہ کیجئے۔

b7UqFxF.jpg


کلوزاپ
wzXpi8u.jpg
 

یاز

محفلین
جیسا کہ حسن نثار بھی کہہ رہے تھے، ذرا اندازہ کیجئے کہ ہم نے کس کس کے نام چوکوں، سڑکوں، شہروں کالونیوں کے نام نہیں لگا رکھے۔
جنہوں نے اس ملک کے ٹکڑے کئے، انہیں ہم نے توپوں کی سلامیاں دے کے دفن کیا
جنہوں نے اس ملک کو تفرقوں اور رنگوں نسلوں میں تقسیم کیا، ان کے ہم نے عظیم الشان مزار بنائے۔
جنہوں نے اس ملک کے وسائل کو شیرِ مادر کی طرح ہضم کیا، ان کے نام پہ جماعتیں کھڑی کیں۔
جنہوں نے اس ملک کی عزت کا سرِ عام کھلواڑ کیا، ان کو ہم نے گارڈ آف آنر دیئے، ان کے نام کی یادگاریں کھڑی کیں۔

جبکہ بھگت سنگھ جس نے اس سرزمین کی آزادی کی خاطر 23 سال کی عمر میں پھانسی کو چوما، جو یہ ثابت کر گیا کہ انسان نہیں، نظریے بڑے ہوتے ہیں۔ موت انسان کی ہو سکتی ہے، نظریے کی نہیں۔
اس کا قرض ہم نے اس کالک زدہ بورڈ سے چکایا۔ شاید یہ اس سے کچھ زیادہ کا مستحق تھا۔

(تمام شد)​
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
یاز بھائی آ جائیں پھر میدان میں اور سب سے پہلے روشنی ڈالیں کہ بھگت سنگھ ،رنجیت سنگھ اور راجہ پورس کے علاوہ کوئی مقامی ہیرو ہے۔

جی ہم تو ادھر ہی ہیں میدان میں۔ لیکن سوال مشکل ڈال دیا ہے آپ نے۔
سب سے پہلے تو ہیرو کی تعریف ہی طے کرنی ہو گی۔
جیسے میرے سے پوچھیں تو میں بلھے شاہ، وارث شاہ، خواجہ غلام فرید ، علامہ اقبال ، حبیب جالب کو بھی مقامی ہیرو تسلیم کروں گا۔
اسی طرح کچھ لوگ دُلا بھٹی کو بھی مقامی ہیرو قرار دے سکتے ہیں۔
جبکہ اس کے برعکس بھگت سنگھ کو بھی ہیرو یا مقامی ہیرو ماننے سے انکار کرنے والے بھی بے شمار مل جائیں گے۔
 
جی ہم تو ادھر ہی ہیں میدان میں۔ لیکن سوال مشکل ڈال دیا ہے آپ نے۔
سب سے پہلے تو ہیرو کی تعریف ہی طے کرنی ہو گی۔
جیسے میرے سے پوچھیں تو میں بلھے شاہ، وارث شاہ، خواجہ غلام فرید ، علامہ اقبال ، حبیب جالب کو بھی مقامی ہیرو تسلیم کروں گا۔
اسی طرح کچھ لوگ دُلا بھٹی کو بھی مقامی ہیرو قرار دے سکتے ہیں۔
جبکہ اس کے برعکس بھگت سنگھ کو بھی ہیرو یا مقامی ہیرو ماننے سے انکار کرنے والے بھی بے شمار مل جائیں گے۔

جی بلکل جب بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی۔ اب یہ تعین کرتے ہیں ہیرو کا تعین کس بنیاد پر کرنا ہے۔ مذہب،علاقے یا قوم مثلاََ غوری ،غزنوی ہیرو ہونگے یا جیلانی ،گیلانی وغیرہ پھر سردار و رام داس ٹائپ ہیرو ہو سکتے اور پھر کہ سردار،جٹ،آرئیں،راجپوت کے ہیروز کی تخصیص کیسے ہو؟؟
 

یاز

محفلین
جی بلکل جب بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی۔ اب یہ تعین کرتے ہیں ہیرو کا تعین کس بنیاد پر کرنا ہے۔ مذہب،علاقے یا قوم مثلاََ غوری ،غزنوی ہیرو ہونگے یا جیلانی ،گیلانی وغیرہ پھر سردار و رام داس ٹائپ ہیرو ہو سکتے اور پھر کہ سردار،جٹ،آرئیں،راجپوت کے ہیروز کی تخصیص کیسے ہو؟؟

یہ سوال واقعی بہت مشکل ہے بھائی۔ اس پہ کوئی صاحبِ علم ہی روشنی ڈال سکتا ہے۔
 
چلیں یاز بھائی آپ اپنی روشنی محفوظ رکھیں۔لیکن یاد رکھیں جہاں شمع ہو گی پتنگے آتے رہینگے خیر بات کو آگے بڑھاتے ہیں تو
بھگت سنگھ کو کچھ دیر کے لئے ایک طرف رکھیں۔
ملک عزیز کے جو غیر مسلم ہیروز ہیں ان کی بات کرنے پر زبان کنگ کیوں ہو جاتی ہے۔ مثلاََ ایم ایم عالم صاحب کا کارنامہ تو بڑھا چڑھا کر بتایا جاتا لیکن سیسل چوہدری صاب کا ذکر کرتے دندن پڑ جاتی۔
جہاں ڈوگر و چوہدری جیسے چیف جسٹس کی تعریف و توصیف میں لمبی تمہیدیں باندھی جاتی ہیں۔وہاں بھگوان داس (اور ایک دوسرے غیر مسلم چیف جسٹس کا نام بھول رہا) کی دفعہ آوازیں بند کیوں ہو جاتیں؟
 

سارہ خان

محفلین
چلیں یاز بھائی آپ اپنی روشنی محفوظ رکھیں۔لیکن یاد رکھیں جہاں شمع ہو گی پتنگے آتے رہینگے خیر بات کو آگے بڑھاتے ہیں تو
بھگت سنگھ کو کچھ دیر کے لئے ایک طرف رکھیں۔
ملک عزیز کے جو غیر مسلم ہیروز ہیں ان کی بات کرنے پر زبان کنگ کیوں ہو جاتی ہے۔ مثلاََ ایم ایم عالم صاحب کا کارنامہ تو بڑھا چڑھا کر بتایا جاتا لیکن سیسل چوہدری صاب کا ذکر کرتے دندن پڑ جاتی۔
جہاں ڈوگر و چوہدری جیسے چیف جسٹس کی تعریف و توصیف میں لمبی تمہیدیں باندھی جاتی ہیں۔وہاں بھگوان داس (اور ایک دوسرے غیر مسلم چیف جسٹس کا نام بھول رہا) کی دفعہ آوازیں بند کیوں ہو جاتیں؟
ہمیں تو ہماری نصابی کتابوں نے بہت پہلے ہی مار ڈالا۔ کتنے بچے جانتے ہیں کہ پاکستان بنانے والے محمد علی جناح شیعہ تھے۔ کس اسکول میں یہ پڑھایا جاتا ہے کہ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کا پہلا اسپیکر اور پہلا وزیرِ قانون و انصاف ایک نچلی ذات کا بنگالی ہندو جوگندر ناتھ منڈل تھا۔ تین سال تک لیاقت کابینہ میں شامل رہا اور پھر دل برداشتہ ہو کر پاکستان سے ہی چلا گیا۔
کتنے بچوں کو آج بتایا جاتا ہے کہ پاکستان کا پہلا وزیرِ خارجہ ایک احمدی سر ظفر اللہ خان تھا جس نے سات برس تک قرار دادِ مقاصد کے معمار سنی العقیدہ نوابزادہ لیاقت علی خان سے محمد علی بوگرا تک تین حکومتوں میں پاکستانی خارجہ پالیسی کو پائلٹ کیا اور پھر عالمی عدالتِ انصاف کا پہلا پاکستانی جج بن گیا۔
کیا ہماری نصابی کتابوں میں جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلئیس کا ذکر ہے جو ایک دیسی کرسچن تھا اور آٹھ برس تک اسلامی جمہوریہ پاکستان کا چیف جسٹسرہا۔ اور اس نے کیسے کیسے اہم فیصلے کیے؟ اور وہ کس قدر درویش طبیعت تھا جس نے زندگی لاہور کے فلیٹیز ہوٹل کے ایک کمرے میں گذار دی۔
کیا کسی آٹھ دس سال کے بچے نے اس ہزارہ جنرل محمد موسیٰ کا نام سنا ہے جس نے سن پینسٹھ کی جنگ میں پاکستانی بری فوج کی کمان کی؟ اور اسی جنگ میں ایک کرسچن فلائٹ لیفٹننٹ سیسل چوہدری کو بھارتی فضائیہ کو چنے چبوانے کے اعتراف میں ستارہِ جرات ملا۔ اور کتنی عزت تھی ہم بچوں کے دلوں میں فاتحِ چونڈہ میجر جنرل عبدالعلی ملک اور فاتحِ چھمب جوڑیاں میجر جنرل افتخار جنجوعہ شہید کی۔ معاشرتی علوم کے پینسٹھ کی جنگ کے باب میں ان دونوں جنرلوں کی چکنے کاغذ پر بلیک اینڈ وائٹ تصاویر ہوتی تھیں جن میں ایوب خان دونوں کے سینے پر ہلالِ جرات ٹانک رہے ہیں۔ جب ایک روز پتہ چلا کہ یہ تواحمدی ہیں تو فوراً اسکولی نصاب اور ہم سب کے دلوں سے اتر گئے۔ پھر اس کے بعد باقی مشکوک شخصیات کا بھی اسکول کی کتابوں میں داخلہ مرحلہ وار بند ہوتا چلا گیا اور آج الحمداللہ تعلیمی نصاب ہر طرح کی تاریخی آلائشوں سے پاک ہے۔ (وسعت اللہ خان، ۲۳ ستمبر ۲۰۱۳، روزنامہ ایکسپریس)
 

یاز

محفلین
آپکی لالٹین کیا کہتی ہے باقی میں چاچے تارڑ سے پوچھ لونگا اگر کبھی ملے تو۔

جناب میری لالٹین بس اتنا ہی کہتی ہے کہ ہر وہ شخص جس نے بلاتخصیصِ رنگ و نسل و عقیدہ انسانوں کی آزادی کے لئے کوشش کی ہے، وہ ہمارا ہیرو ہونا چاہئے۔
خیال رہے کہ آزادی سے مراد صرف جسمانی آزادی ہی نہیں، بلکہ خیال و فکر کی آزادی بھی ہے، دل و دماغ کی آزادی بھی ہے۔
اس تعریف کی رو سے دیکھا جائے تو بے شمار مفکر، شاعر، ادیب، فنکار وغیرہ بھی ہیرو کہلا سکتے ہیں۔ ساغر صدیقی جیسا فٹ پاتھ پہ رہنے والا بھی ہیرو ہو سکتا ہے اور بڑھاپے میں پولیس کے ڈنڈے کھانے والا حبیب جالب بھی ہیرو ہو سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
چلیں یاز بھائی آپ اپنی روشنی محفوظ رکھیں۔لیکن یاد رکھیں جہاں شمع ہو گی پتنگے آتے رہینگے خیر بات کو آگے بڑھاتے ہیں تو
بھگت سنگھ کو کچھ دیر کے لئے ایک طرف رکھیں۔
ملک عزیز کے جو غیر مسلم ہیروز ہیں ان کی بات کرنے پر زبان کنگ کیوں ہو جاتی ہے۔ مثلاََ ایم ایم عالم صاحب کا کارنامہ تو بڑھا چڑھا کر بتایا جاتا لیکن سیسل چوہدری صاب کا ذکر کرتے دندن پڑ جاتی۔
جہاں ڈوگر و چوہدری جیسے چیف جسٹس کی تعریف و توصیف میں لمبی تمہیدیں باندھی جاتی ہیں۔وہاں بھگوان داس (اور ایک دوسرے غیر مسلم چیف جسٹس کا نام بھول رہا) کی دفعہ آوازیں بند کیوں ہو جاتیں؟

یہ تو ایک طویل داستانِ غم ہے بھائی۔
فی الحال اس کو سمجھنے کے لئے جاوید چودھری کے کسی کالم کا ایک جملہ کوٹ کرنا چاہوں گا جو شاید ساری بات کا احاطہ کرتا ہے۔
"ہمارا بس نہیں چلتا کہ ہم قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال کی تصویروں پہ داڑھیاں لگا دیں اور پھر ان کو اپنی تاریخ میں اسی طرح سے پیش کرنا شروع کر دیں"۔
 
Top