سوالیہ؟؟؟؟؟؟؟؟ از شزہ مغل

نور وجدان

لائبریرین
بالکل درست فرمایا بھیا۔
اصل بدبختی تو یہ ہے کہ والدین ہی دنیاداری کو اپنی اولاد پر ترجیح دیتے ہیں۔

بالکل درست۔
مسئلہ یہ ہے کہ والدین کو کون سمجھائے؟؟؟
اس مسئلے کا حل کیسے نکالا جائے؟؟؟

والدین دنیا داری سکھاتے ہوتے تو آپ فرق کیسے کر پاتی ہیں وہ دنیا داری سکھاتے ہیں ۔ درحقیقت وہ ہمیں بچپن میں اصول دین سکھاتے ہیں ۔ بڑے ہوکے ہم ان کو دنیا داری نبھاتے دیکھ کر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ وہ دنیا دار ہیں ۔ اور ہم ان پر اپنا رنگ چڑھانا چاہتے ہیں ۔ یہی ازلی حقیقت ہے ۔ جس طرح ہمیں بولنا سکھایا جاتا ہے اور بڑے ہونے پر جب بولتے ہیں تو کہتے ہیں کہ چپ رہو۔ یہ تربیت ہے کہ زندگی میں اعتدال اچھا ہے ۔

میری بات ہو رہی تھی اپنی کزن سے۔ میرا کہنا تھا کہ عورت خود اپنے ساتھ ظلم کرتی ہے کیونکہ ظالم کا ساتھ دینے والا بھی ظالم ہوتا ہے۔ اس کے سوال کا جواب نہ دے پائی۔ اگر عورت بیٹی ہو تو وہ اپنے والدین کے خلاف کیسے ڈٹ جائے؟؟؟؟


ایسا اکثر دیکھا گیا ہے ۔ عورت ظالم ہے ۔ کیونکہ اگر ماں کو ظالم کہا جارہا ہے تو بیٹی کو بھی اس سے زیادہ ظلم کرنا پڑے گا اپنے حق کے لیے ۔ تاکہ سیر کو سوا سیر ہوجائے ۔ظلم انسان کے ساتھ تب ہوتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ ظلم ہورہا ہے ۔ جب سمجھنے کے بجائے معاملات میں حکمت سے کام لے لیا جائے تو نہ والدین ظالم ہوتے ہیں اور نہ بیٹی
 

شزہ مغل

محفلین
آج جو والدین کے مقام پر کھڑے ہیں گزرے کل میں وہ بچے تھے ۔ آج کے بچے کل خود والدین کے مقام پر ہوں گے ۔
آج کی روشن سوچ جو والدین کو سمجھانے میں بچوں کو مشکل لگتی ہے ۔ کل خود اس مقام پر پہنچ اس پر عمل کریں گے تاکہ ان کے بچے اس بارے
بات کرنے کو مسلہ نہ بنائیں ۔

آج جو بیٹی ہے کل جب وہ ماں کے مقام پر کھڑی ہو گی ۔ اگر اس مقام پر کھڑے ہوتے اپنی بیٹی کے بارے مکمل آزادی کے ساتھ اس کی مرضی کو مقدم رکھتے اس کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی ۔
تو بیٹی ایثار قربانی کی بلی چڑھنے سے بچ سکے گی ۔
بہت دعائیں
بھیا آپ کہہ تو صحیح رہے ہیں مگر عملاً یہ سب سہنا بہت مشکل ہے۔
ماں اکیلی سب کچھ نہیں کر سکتی۔
باپ بھی اکیلا سب کچھ نہیں کر سکتا۔
سوچوں کا فرق دونوں کے درمیان فاصلے پیدا کر دے تو کیسے ممکن ہے کہ اولاد کی شخصیت مکمل ہو؟؟؟
 

شزہ مغل

محفلین
آپ کی بات بھی درست ہے لیکن کبھی اِس کے بر عکس بھی ہوتا ہے۔ آج کل تو اکثر یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ بیٹیاں غلط فیصلے کر رہی ہیں اور اُن فیصلوں پہ ڈٹ بھی جاتی ہیں۔
ہوتا ہے ایسا بھی مگر سبھی لڑکیاں ایسا نہیں کر رہیں۔ میڈیا تو ایسا ہی دکھا رہا ہے مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
بہت زیادہ بھی ہو تو 10 فیصد لڑکیاں ایسا کرتی ہیں۔
وجہ ہے کسی بھی چیز کی کمی یہ زیادتی۔
 

شزہ مغل

محفلین
والدین دنیا داری سکھاتے ہوتے تو آپ فرق کیسے کر پاتی ہیں وہ دنیا داری سکھاتے ہیں ۔ درحقیقت وہ ہمیں بچپن میں اصول دین سکھاتے ہیں ۔ بڑے ہوکے ہم ان کو دنیا داری نبھاتے دیکھ کر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ وہ دنیا دار ہیں ۔ اور ہم ان پر اپنا رنگ چڑھانا چاہتے ہیں ۔ یہی ازلی حقیقت ہے ۔ جس طرح ہمیں بولنا سکھایا جاتا ہے اور بڑے ہونے پر جب بولتے ہیں تو کہتے ہیں کہ چپ رہو۔ یہ تربیت ہے کہ زندگی میں اعتدال اچھا ہے ۔
شاید میں بات سمجھا نہیں پائی۔
جب والدین دنیاداری کو اپنی اولاد کی تربیت پر ترجیح دیتے ہیں اس وقت بدبختی شروع ہوتی ہے
 

شزہ مغل

محفلین
ایسا اکثر دیکھا گیا ہے ۔ عورت ظالم ہے ۔ کیونکہ اگر ماں کو ظالم کہا جارہا ہے تو بیٹی کو بھی اس سے زیادہ ظلم کرنا پڑے گا اپنے حق کے لیے ۔ تاکہ سیر کو سوا سیر ہوجائے ۔ظلم انسان کے ساتھ تب ہوتا ہے جب وہ سمجھتا ہے کہ ظلم ہورہا ہے ۔ جب سمجھنے کے بجائے معاملات میں حکمت سے کام لے لیا جائے تو نہ والدین ظالم ہوتے ہیں اور نہ بیٹی
صرف عورت کو ظالم کہہ کر مردوں کو کیسے بھول سکتے ہیں آپ؟؟؟ عورت کے دوسری عورت پر ظلم کے پیچھے کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی مرد ضرور ہوتا ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
بھیا آپ کہہ تو صحیح رہے ہیں مگر عملاً یہ سب سہنا بہت مشکل ہے۔
ماں اکیلی سب کچھ نہیں کر سکتی۔
باپ بھی اکیلا سب کچھ نہیں کر سکتا۔
سوچوں کا فرق دونوں کے درمیان فاصلے پیدا کر دے تو کیسے ممکن ہے کہ اولاد کی شخصیت مکمل ہو؟؟؟
آپ نے بالکل درست کہا کہ نہ ماں نہ باپ کوئی بھی اکیلا کچھ نہیں کر سکتا ۔۔
اور اگر ماں باپ کی آپس کی سوچ اور نظریئے میں اختلاف ہو تو اولاد کو اپنی شخصیت متوازن رکھنا اک نا ممکن امر ہے ۔
ہمارے والدین نے ہمیں مکمل آزادی کے ساتھ اک دوستانہ ماحول فراہم کیا ۔ بیٹی بیٹے میں کبھی تفریق نہیں پائی ۔ ہاں بیٹی کو اکثر چھوٹ پاتے دیکھا ۔ ہم سب بہن بھائی ہر بات پوری آزادی کے ساتھ اک دوسرے کے ساتھ شئر کرتے آئے ۔ اور سوائے میرے سب بہن بھائی اپنی اپنی زندگی میں کامیاب و کامران ٹھہرے ۔۔۔ میں اپنی خوشی سے آوارگی کی راہ اختیار کر گیا ۔
میرے والد والدہ نے ہمیشہ ہمارے ساتھ دوستوں کی صورت بات کی ۔۔ سب کو کہا کہ اگر کسی کو کسی سے دوستی کرنا پسند ہے تو وہ آزادی سے دوستی کر سکتا ہے ۔ شرط صرف اتنی ہے کہ دوست ایسا ہو جسے گھر بلاتے کوئی جھجھک نہ ہو ۔ میری تمام بہنیں نرسنگ کرتے اعلی عہدوں پر پہنچیں ۔ اور سب کی شادی ارینج میرج کی صورت ہوئی ۔ کرم اللہ کا سب کی زندگی سکھی گزری ۔ اور اللہ سوہنا اپنا کرم فرماتے سب کو سکھی ہی رکھے آمین ۔ بھائی بھی والدہ کی پسند قبول کرتے سکھی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ میں نے حماقت کی اپنی پسند کی شادی کی اور پھر توبہ کر والدہ کا انتخاب قبول کیا ۔ اور الحمد للہ خوش و آباد ہوں ۔۔اب ہماری اولادیں زندگی شروع کرنے کو ہیں اور ہم سب ہی اپنے اپنے بچوں کے بہترین دوست ہیں ۔ ہمارے بچے ہم سے کچھ نہیں چھپاتے ۔ وہ ہمارے ساتھ ایسے ہی بات کرتے ہیں جیسے ہم عمر دوست ۔۔۔۔۔۔۔
بلاشک میاں بیوی میں اتفاق ہو تو اولاد متوازن سوچ کی حامل ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 

شزہ مغل

محفلین
آپ نے بالکل درست کہا کہ نہ ماں نہ باپ کوئی بھی اکیلا کچھ نہیں کر سکتا ۔۔
اور اگر ماں باپ کی آپس کی سوچ اور نظریئے میں اختلاف ہو تو اولاد کو اپنی شخصیت متوازن رکھنا اک نا ممکن امر ہے ۔
ہمارے والدین نے ہمیں مکمل آزادی کے ساتھ اک دوستانہ ماحول فراہم کیا ۔ بیٹی بیٹے میں کبھی تفریق نہیں پائی ۔ ہاں بیٹی کو اکثر چھوٹ پاتے دیکھا ۔ ہم سب بہن بھائی ہر بات پوری آزادی کے ساتھ اک دوسرے کے ساتھ شئر کرتے آئے ۔ اور سوائے میرے سب بہن بھائی اپنی اپنی زندگی میں کامیاب و کامران ٹھہرے ۔۔۔ میں اپنی خوشی سے آوارگی کی راہ اختیار کر گیا ۔
میرے والد والدہ نے ہمیشہ ہمارے ساتھ دوستوں کی صورت بات کی ۔۔ سب کو کہا کہ اگر کسی کو کسی سے دوستی کرنا پسند ہے تو وہ آزادی سے دوستی کر سکتا ہے ۔ شرط صرف اتنی ہے کہ دوست ایسا ہو جسے گھر بلاتے کوئی جھجھک نہ ہو ۔ میری تمام بہنیں نرسنگ کرتے اعلی عہدوں پر پہنچیں ۔ اور سب کی شادی ارینج میرج کی صورت ہوئی ۔ کرم اللہ کا سب کی زندگی سکھی گزری ۔ اور اللہ سوہنا اپنا کرم فرماتے سب کو سکھی ہی رکھے آمین ۔ بھائی بھی والدہ کی پسند قبول کرتے سکھی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ میں نے حماقت کی اپنی پسند کی شادی کی اور پھر توبہ کر والدہ کا انتخاب قبول کیا ۔ اور الحمد للہ خوش و آباد ہوں ۔۔اب ہماری اولادیں زندگی شروع کرنے کو ہیں اور ہم سب ہی اپنے اپنے بچوں کے بہترین دوست ہیں ۔ ہمارے بچے ہم سے کچھ نہیں چھپاتے ۔ وہ ہمارے ساتھ ایسے ہی بات کرتے ہیں جیسے ہم عمر دوست ۔۔۔۔۔۔۔
بلاشک میاں بیوی میں اتفاق ہو تو اولاد متوازن سوچ کی حامل ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
اب آپ یہ بتائیے کہ اتفاق کوئی تیسرا کیسے پیدا کر سکتا ہے؟؟؟
 

آوازِ دوست

محفلین
آپ نے بالکل درست کہا کہ نہ ماں نہ باپ کوئی بھی اکیلا کچھ نہیں کر سکتا ۔۔
اور اگر ماں باپ کی آپس کی سوچ اور نظریئے میں اختلاف ہو تو اولاد کو اپنی شخصیت متوازن رکھنا اک نا ممکن امر ہے ۔
ہمارے والدین نے ہمیں مکمل آزادی کے ساتھ اک دوستانہ ماحول فراہم کیا ۔ بیٹی بیٹے میں کبھی تفریق نہیں پائی ۔ ہاں بیٹی کو اکثر چھوٹ پاتے دیکھا ۔ ہم سب بہن بھائی ہر بات پوری آزادی کے ساتھ اک دوسرے کے ساتھ شئر کرتے آئے ۔ اور سوائے میرے سب بہن بھائی اپنی اپنی زندگی میں کامیاب و کامران ٹھہرے ۔۔۔ میں اپنی خوشی سے آوارگی کی راہ اختیار کر گیا ۔
میرے والد والدہ نے ہمیشہ ہمارے ساتھ دوستوں کی صورت بات کی ۔۔ سب کو کہا کہ اگر کسی کو کسی سے دوستی کرنا پسند ہے تو وہ آزادی سے دوستی کر سکتا ہے ۔ شرط صرف اتنی ہے کہ دوست ایسا ہو جسے گھر بلاتے کوئی جھجھک نہ ہو ۔ میری تمام بہنیں نرسنگ کرتے اعلی عہدوں پر پہنچیں ۔ اور سب کی شادی ارینج میرج کی صورت ہوئی ۔ کرم اللہ کا سب کی زندگی سکھی گزری ۔ اور اللہ سوہنا اپنا کرم فرماتے سب کو سکھی ہی رکھے آمین ۔ بھائی بھی والدہ کی پسند قبول کرتے سکھی زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ میں نے حماقت کی اپنی پسند کی شادی کی اور پھر توبہ کر والدہ کا انتخاب قبول کیا ۔ اور الحمد للہ خوش و آباد ہوں ۔۔اب ہماری اولادیں زندگی شروع کرنے کو ہیں اور ہم سب ہی اپنے اپنے بچوں کے بہترین دوست ہیں ۔ ہمارے بچے ہم سے کچھ نہیں چھپاتے ۔ وہ ہمارے ساتھ ایسے ہی بات کرتے ہیں جیسے ہم عمر دوست ۔۔۔۔۔۔۔
بلاشک میاں بیوی میں اتفاق ہو تو اولاد متوازن سوچ کی حامل ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
ہائے نایاب جی یہ کیا کیا! جب حماقت کر ہی لی تھی تو پھر قیمت بھی ادا کر دیتے نا۔ ایک زندگی ہی کی تو بات تھی اپنے کیے فیصلے پر وار دیتے۔ پسند کی شادی مرد کے لیے تو سارے کا سارا خسارہ نہیں بنتا مگر جوکم نصیب مرد کے عہد و پیمان پر سب رشتے ناتے سیکنڈ کر کے چلی آتی ہے وہ پھر کہاں جائے اور کیسے جائے. وجہ جو بھی ہو یہ جان کر بہت دُکھ ہوا اللّہ کریم ہماری چاہتوں کے بھرم قائم رکھے.
 

آوازِ دوست

محفلین
اب آپ یہ بتائیے کہ اتفاق کوئی تیسرا کیسے پیدا کر سکتا ہے؟؟؟
اولاد اتنی بڑی ذمہ داری ہے کہ بچوں کے بعد والدین کی ہر ترجیح اُن پر قربان ہو جاتی ہے اور جہاں ایسا نہیں ہوتا وہاں ہم بلاجھجک والدین کو غیر ذمہ دار قرار دے سکتے ہیں اور فرمانبردار اولاد کے لیے زندگی کی سب سے بڑی آزمائش ایسے بے پرواہ والدین ہی ہوتے ہیں
 

آوازِ دوست

محفلین
اس حماقت بارے تفصیل میرے انٹرویو میں موجود ہے ۔۔۔۔
قیمت کیا ادا کی یہ میں جانوں میرا رب جانے ۔۔
اللہ سوہنا اسے اپنے صاحب کے سنگ سدا خوش و شاد وآباد رکھے آمین
بہت دعائیں
اگر آپ نے شئیر کیا ہے تو میں ضرور جاننے کی کوشش کروں گا. اللّہ کریم ہمیں آزمائشوں سے بچائے.
 

نور وجدان

لائبریرین
شاید میں بات سمجھا نہیں پائی۔
جب والدین دنیاداری کو اپنی اولاد کی تربیت پر ترجیح دیتے ہیں اس وقت بدبختی شروع ہوتی ہے

پاکستان کی اکثریت فیوڈل لارڈذ پر مشتمل ہے ۔ urban areas کے لوگوں اس قسم کی شکایات کم ہوتی ہیں کہ یہاں اولاد والدین کا حق مارتی ہے ۔ دیہاتی علاقوں میں والدین کی ترجیح دنیاداری ہوتی ہے اور شہری علاقوں میں اولاد کی ترجیح دنیا داری ہے ۔ اس لیے شہری اور sub urban لوگوں میں اولاد کی نافرمانی کی تشہیر میڈیا کرتا ہے اور دیہاتی علاقوں میں والدین کی ۔۔۔

ہمارے معاشرے میں social pressure کی ہوا نکل چکی ہے ۔ یہ دباؤ ہمیں اخلاقیات کی طرف مائل کرتا ہے یا رسومات کی طرف چاہے وہ غلط ہوں یا درست ۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کے social pressure میں زیادہ تر باتیں مذہب سے گڑھ کر ظلم کی طرف لے جاتی ہے ۔ اس معاشرے میں باغیوں کی جگہ نہیں ہے ۔ آپ کو وہ کرنا ہوتا ہے جو معاشرہ مانگتا ہے ۔ ہمارے والدین معاشرے کو لے کر نہیں چلتے ان پر معاشرہ اپنی راہیں تنگ کر دیتا ہے اور ان سے قطع تعلق کردیا جاتا ہے ۔ اب اگر ہم والدین کی جگہ پر کھڑے ہو کر اپنے جذبات بحثیت بیٹی کے ساتھ لے کر موازنہ کریں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ والدین کبھی غلط نہیں ہوتے ہیں ۔ میری نظر میں بدبختی شروع ہوتی ہے مگر اس میں صرف اولاد کی بدبختی نہیں ہوتی ہے ۔ والدین کی بھی ہوتی ہے ۔

صرف عورت کو ظالم کہہ کر مردوں کو کیسے بھول سکتے ہیں آپ؟؟؟ عورت کے دوسری عورت پر ظلم کے پیچھے کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی مرد ضرور ہوتا ہے۔

اتنے مشکل سوالات ہیں ۔ جن کے جواب سوچ سوچ کے دماغ کی کلفی بن رہی ہے ۔ اس پر افسانے ناولز لکھے جاسکتے ہیں ۔ جب خاندان کا سربراہ impotent ہوتا ہے تو وہ خاندانی نظام میں توازن نہیں رکھ سکتا ہے ۔ اس وجہ سے دو عورتوں میں چپقلش ہوجاتی ہے ۔ خاندانی نظام ہمارے معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہے ۔ جتنا یہ کمزور ہوتا جائے گا اتنا توازن جاتا جائے گا۔
 

شزہ مغل

محفلین
اس پر افسانے ناولز لکھے جاسکتے ہیں ۔ جب خاندان کا سربراہ impotent ہوتا ہے تو وہ خاندانی نظام میں توازن نہیں رکھ سکتا ہے ۔ اس وجہ سے دو عورتوں میں چپقلش ہوجاتی ہے ۔ خاندانی نظام ہمارے معاشرے کی ریڑھ کی ہڈی ہے ۔ جتنا یہ کمزور ہوتا جائے گا اتنا توازن جاتا جائے گا۔
خاندان کا سربراہ ایک ہو تو اتنا بگاڑ پیدا نہیں ہوتا۔ جب سربراہ اپنی ذمہ داریاں ہی پوری نہ کرے تو ہر فرد سربراہ بن جاتا ہے اور پھر مجھ جیسے کیڑے مکوڑے بھی زبان کھولنے لگتے ہیں۔
 
Top