والدہ مرحومہ کی یاد میں

اساتذہِ کرام جناب محمد یعقوب آسی صاحب، جناب الف عین صاحب اور دیگر اہلِ علم اور سخن شناس حضرات سے نظم پہ اصلاحی نظر فرمانے کی گزارش ہے۔ غلطیوں کوتاہیوں کی نشاندہی فرما کر شکریہ کا موقع عنائیت فرمائیں۔ والسلام

والدہ مرحومہ کی یاد میں

میں ترے جانے سے مفلس ہو گیا
تو مرا سرما یہِ جذبات تھی
پھر سے ممکن بات کب وہ ہو سکی
تیرے ہونے سے جو میری بات تھی
تیرے جاتے ہی یہ برہم ہو گئی
زندگی جو خوشیوں کی سوغات تھی
تیرے جانے سے قفس سا ہو گئی
تیرے ہونے سے جو کائنات تھی
چھوڑ کر گریاں مجھے تو چل بسی
باعثِ تسکین تیری ذات تھی
ہے مقرر وقت کوئی موت سا؟
کچھ نہیں تریاق اسکی چوٹ کا


لمس تیرا قابلِ احساس تھا
اُس پہ تیری مسکراہٹ بے رِیا
گود میں تیری تھا طفلِ شیر خوار
پال کر مجھ کو جواں تو نے کیا
کس قدر تیری محبت خاص تھی
تجھ سے میں نے جو بھی مانگا، وہ دیا
ساتھ تیرا ، اب نہ میرے ساتھ ہے
وقت نے کیسا دغا مجھ کو دیا
آج بھی مجھ کو ضرورت ہے تری
بن ترے گر میں جیا، تو کیا جیا
تیرے جانے کو نہ میں تیار تھا
کون میرا بن ترے غمخوار تھا


دیکھ کر مجھ کو پریشاں میرے ماں
کون اب دستِ دعا پھیلائے گا
ضد کرے گا کس سے اب بیٹا تِرا
کون مجھ کو پیار سے سمجھائے گا
جب کبھی مجھ کو نہ نیند آپائے گی
کون میرے بالوں کو سہلائے گا
جب کبھی میں دیر سے گھر آؤں گا
کون اپنی بانہوں کو پھیلائے گا
دستِ شفقت رکھ سکے گا کون اب
ہر کوئی مجھ سے تو اب کترائے گا
دل پہ کوہِ غم گرا تو سہہ گیا
لعل تیرا تنہا ہو کر رہ گیا


زندگی ہے تلخ تر، اے میری ماں
پر خطر ہے پر خطر، اے میری ماں
زیست کا حاصل ہے رنج و غم فقط
یا دلِ مضطر ،یا ڈر، اے میری ماں
چھن گئی پیروں کے نیچے سے زمیں
ہو گیا میں دربدر، اے میری ماں
ہو کے اپنے گھر میں بے گھر رہ گیا
کاٹتے ہیں بام و در، اے میری ماں
اب تو جا کے سو گئی زیرِ زمیں
چھوڑ کر سونا یہ گھر، اے میری ماں
ابر تھا سایہ دعاؤں کا تِری
ٹالتا تھا ہر گھڑی مشکل مِری


تیری مرقد پر جو میں حاضر ہوا
عجز میرا مجھ پہ پھر ظاہر ہوا
ہر کوئی پابند ہے تقدیر کا
کون اس سے بچنے پر قادر ہوا
جو بھی آیا زندگی کے بحر میں
موت سے وہ ہمکنار آخرہوا
حق اجازت دے تجھے تو کر دعا
دل مِرا آزردہِ خاطر ہوا
آئی مرقد سے صدا تو غم نہ کر
شکر ہے اُسکا کہ تو صابر ہوا
زندگی مہکے تِری جیسے کنول
ساتھ ہو تیرے خدائے لم یزل


رات ہے تنہائی اور میرا قلم
عقل میری سر بہ زانو آنکھ نم
قلزمِ خاموش تیری یاد ہے
جس طرح ہو رات کوئی صبح دم
جس طرح شب صبح کی امید ہے
اِس طرح ہے موت سب کے ہم قدم
اہلِ ایماں کو پیامِ عیش ہے
حکم کا پابند ہے لائے گا یم
تو بھی کر پابندیِ حکمِ خدا
اے تلون کیش! اب تو دم بہ دم
جنکو مقصد زندگی کا یاد ہے
یہ جہاں کیا وہ جہاں بھی شاد ہے


حوصلہ میرا نہیں میں کیا کروں
عرض کیسے مدعا اپنا کروں
عجز میرا ہے مکمل بات پر
بند کیسے کوزے میں دریا کروں
قادرِ مطلق تَو ہے سب جانتا
عرض پھر بھی اپنا میں دکھڑا کروں
ہاتھ اٹھاؤں میں دعا کرنے کو اب
سر کو بھی اپنے میں کچھ نیچا کروں
لفظ مجھ سے ہوں ادا اتنا کہوں
لب کو اپنے پھر میں یوں گویا کروں
تیری مرقد پر خدا رحمت کرے
اور تیرا گھر خدا جنت کرے

فاروق احمد
 
اپنے لکھے کو ایک "نقاص" کی آنکھ سے دیکھئے۔ ذرا سی فروگزاشت کو بھی نظر انداز نہ کیجئے، بلکہ وہ جسے کیڑے نکالنا کہتے ہیں، وہ کیجئے۔
 
میں ترے جانے سے مفلس ہو گیا
تو مرا سرما یہِ جذبات تھی
پھر سے ممکن بات کب وہ ہو سکی
تیرے ہونے سے جو میری بات تھی
تیرے جاتے ہی یہ برہم ہو گئی
زندگی جو خوشیوں کی سوغات تھی
تیرے جانے سے قفس سا ہو گئی
تیرے ہونے سے جو کائنات تھی
چھوڑ کر گریاں مجھے تو چل بسی
باعثِ تسکین تیری ذات تھی
ہے مقرر وقت کوئی موت سا؟
کچھ نہیں تریاق اسکی چوٹ کا

اس پہلے بند پر ہی بات کئے لیتے ہیں۔ میں نے عنوان نقل نہیں کیا تو یہاں لگتا ہی نہیں کہ یہ اشعار ماں کے لئے کہے گئے ہیں۔
 
بیان کے حوالے سے ایک بات کی طرف پہلے اشارہ کیا گیا تھا۔ غزل کی ضرورت ہے کہ بات دو مصرعوں میں مکمل ہو؛ نظم میں مضمون تسلسل کے ساتھ چلتا ہے۔

یہاں آپ نے پانچ ابیات جو ہم قافیہ رکھے ہیں، دو سطروں میں ایک مضمون پورا کرنے کی پابندی آپ خود اپنا رہے ہیں، اس سے نکلئے، اپنے مضمون کے حصے بنا کر ان کو منطقی اور معنوی تسلسل کے ساتھ لائیے، اور بند کا آخری بیت جس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہیں، اسے اس پورے بند کا اختتامیہ ہونا چاہئے، اور قوت بیان بھی یہاں مرکوز ہو سکے تو خاصے کی چیز بن سکتی ہے۔
 
کچھ زبان و بیان کی باتیں ۔۔۔۔

میں ترے جانے سے مفلس ہو گیا
تو مرا سرما یہِ جذبات تھی
پھر سے ممکن بات کب وہ ہو سکی
تیرے ہونے سے جو میری بات تھی
تیرے جاتے ہی یہ برہم ہو گئی
زندگی جو خوشیوں کی سوغات تھی
تیرے جانے سے قفس سا ہو گئی
تیرے ہونے سے جو کائنات تھی
چھوڑ کر گریاں مجھے تو چل بسی
باعثِ تسکین تیری ذات تھی
ہے مقرر وقت کوئی موت سا؟
کچھ نہیں تریاق اسکی چوٹ کا

پھر سے ممکن بات کب وہ ہو سکی
تیرے ہونے سے جو میری بات تھی
تیرے جاتے ہی یہ برہم ہو گئی
بات کا برہم ہونا؟ ۔۔۔ اور وہ بات ہے کیا؟ یا تھی کیا؟ وہ تو بیان ہی نہیں ہوئی!
قفس سا؟ ۔۔ آپ غالباً ’’قفس جیسی‘‘ کہنا چاہ رہے ہیں، مگر اس کی کوئی رعایت، کوئی تلازمہ پورے بند میں نہیں ہے۔ کھلے اور تنگ ہونے کی بات؟ کائنات ایک حوالے سے ایک ذرے میں مقید ہو سکتی ہے تو ایک حوالے سے ہفت آسمان پر محیط ہو سکتی ہے۔ یہاں اس کائنات کا تعین نہیں ہو رہا۔
مصرعے بہت ڈھیلے ہیں اور جیسا میں نے کہا یہاں اظہاریے میں ماں کا حوالہ لگتا ہی نہیں۔
غیرشعوری طور پر آپ غزل کی ریزہ خیالی میں مقید ہیں، اور چاہتے ہیں کہ دو دو مصرعوں پر مشتمل کچھ آزاد اظہاریے ہوں جو مل کر ایک نظم بن جائیں؛ ایسا بالکل ممکن ہے مگر ابھی نہیں۔ ابھی آپ ان دس مصرعوں کی ایک اکائی بنائیں اور اپنی بات کا اختتام انہی آخری دو (ہم قافیہ) مصرعوں پر کریں۔ ایک بند مکمل ہوا، دوسرے بند میں دوسری معنوی اکائی لائیں۔
کچھ منقولہ رعایات جو جچ نہیں رہیں:
۔۱۔ تریاق چوٹ کا نہیں ہوتا، زہر کا ہوتا ہے؛ چوٹ کا مرہم ہوتا ہے۔ یہاں میڈیکل سائنس کے مباحث میں نہ الجھئے گا کہ چوٹ سے زہر پھیلتا ہے اور مرہم بھی تو تریاق ہی ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ ہم یہاں شاعری پڑھنے آئے ہیں بائیو کیمسٹری اور میڈیکل سائنس کلاس میں جا کر پڑھیں گے۔
۔۲۔ گریاں اور تسکین؛ صنعتِ تضاد نہیں بن سکی۔ بے قراری اور تسکین؛ گریاں اور خندان، مسرور اور ملول، وغیرہ کو دیکھئے۔
۔۳۔ مفلس والی بات اگر یہاں لانی لازم ہے تو اس کو پالش کرکے لانا ہو گا اور افلاس کی اس نوعیت کا مضبوط اظہار لانا ہو گا کہ اس کے جانے سے کون سا سرمایہ نہ رہا۔

و علیٰ ہٰذالقیاس
 
والدہ مرحومہ کی یاد میں

نمونے کے طور پر اقبال کی اسی عنوان کی نظم کو سامنے رکھئے اور اس کے مختلف عناصر پر توجہ فرمائیے۔
بیانیہ کیا ہے، ابتدا کیسے ہو رہی ہے، واقعاتی، فکری اور جذباتی واردات کا تسلسل کیسا ہے، ہر بند میں وہ کیا چیز ہے جو اسے کسی بھی دوسرے بند سے ممتاز کر رہی ہے؛ وغیرہ

کوشش کیجئے کہ لفظیات اپنی لائیے۔ لفظیات بھی اقبال کے اسلوب کے تحت آ گئیں تو آپ تو کہیں بھی نہ رہے! لفظیات تبدیل ہو گی تو شعر کے اہم عناصر (قوافی و ردائف) بھی تبدیل ہوں گے، مضامین کی ترتیب میں قوافی کا کردار بنیادی ہوتا ہے؛ قوافی آپ کی اپنی استعداد کے مطابق ہوں گے تو اسلوب بھی آپ کا بنے گا۔ نہیں تو وہی چبائے ہوئے نوالے چبانے والی بات ہو گی۔
 
ذرّہ ذرّہ دہر کا زندانیٔ تقدیر ہے ۔۔
۔۔ پھر اسی کھوئے ہوئے فردوس میں آباد ہیں
اتنا حصہ ایک انداز میں تمہید ہے۔
 
اس کے بعد

کس کو اب ہوگا وطن میں آہ! میرا انتظار؟
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بے قرار؟
خاکِ مرقد پر تری لیکر یہ فریاد آوں گا
اب دعائے نیم شب میں کس کو میں یاد آوں گا؟

یہ مصرعے اتنی بلند آواز میں ماں! ماں! پکار رہے ہیں کہ قاری کی سوچ کسی اور طرف جا ہی نہیں سکتی۔
 
یہ مصرعے دیکھئے

آہ! یہ دنیا، یہ ماتم خانۂ بر نا و پیر!
آدمی ہے کس طلسمِ دوش و فردا میں اسیر
کتنی مشکل زندگی ہے! کس قدر آساں ہے موت
گلشنِ ہستی میں مانندِ نسیم ارزاں ہے موت

اقبال کی فکر ماں سے ہوتی ہوئی پورے عالمِ انسانیت بلکہ موت و حیات کے فسلفے تک پہنچتی ہے
 
کیفیات کو بیان کرنے بلکہ قاری پر وارد کرنے کا اسلوب ملاحظہ ہو:

کہتے ہیں اہل جہاں دردِ اجل ہے لادوا
زخمِ فرقت وقت کے مرہم سے پاتا ہے شفا
دل مگر غم مرنے والوں کا جہاں آباد ہے
حلقۂ زنجیرِ صبح و شام سے آزاد ہے
وقت کے افسوں سے تھمتا نالۂ ماتم نہیں
وقت زخمِ تیغ فرقت کا کوئی مرہم نہیں

میں آپ سے یہ مطالبہ بالکل نہیں کر رہا کہ آپ بھی ایسا ہی لکھیں، میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ فکری اور محسوساتی بہاؤ اور اس پر اظہاریے کو دیکھیں۔
 
نظم کا آخری بند خاص طور پر قابلِ توجہ ہے

دامِ سیمینِ تخیّل ہے مرا آفاق گیر! ۔۔
۔۔ نور سے معمور یہ خاکی شبستاں ہو ترا!
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

یہاں پوری نظم کو سمیٹ کر اس کا عطر پیش کر دیا گیا ہے۔
 
ہر بند کے اختتامی ابیات ۔۔۔۔۔۔۔

نغمۂ بلبل ہویا آوازِ خاموشِ ضمیر
ہے اسی زنجیرِ عالمگیر میں ہر شے اسیر

پرتری تصویر قاصد گریۂ پیہم کی ہے
آہ! یہ تردید میرے حکمتِ محکم کی ہے

تخم جس کا تو ہماری کشتِ جاں میں بوگئی
شرکتِ غم سے وہ الفت اور محَکم ہوگئی

قافلے میں غیر فریادِ درا کچھ بھی نہیں
اک متاعِ دیدۂ تر کے سوا کچھ بھی نہیں

زندگی کی آگ کی انجام خاکستر نہیں
ٹوٹنا جس کا مقدّر ہو، یہ وہ گوھر نہیں

شعلہ یہ کمتر ہے گردوں کی شراروں سے بھی کیا؟
کم بہا ہے آفتاب اپنا ستاروں سے بھی کیا ؟
خوگرِ پرواز کو پرواز میں ڈر کچھ نہیں
موت اس گلشن میں جز سنجیدنِ پر کچھ نہیں

آہ ! یہ ضبطِ فغاں غفلت کی خاموشی نہیں
آگہی ہے یہ دلاسائی، فراموشی نہیں

یہ اگر آئینِ ہستی ہے کہ ہو ہر شام صبح
مرقدِ انساں کی شب کا کیوں نہ ہوا انجام صبح؟

آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزۂ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرا نہیں خیال کہ یہاں کچھ کہنے کی ضرورت ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
ظاہر هے که هم ماهر نہیں جو مین میخ نکالیں گے.
یه جس کا کام هے اسی کو ساجهے. البتہ ان جزبات کو محسوس کر سکتے هیں.
 
فاروق احمد بھٹی بھائی ، سب سے پہلے تو مبارک باد قبول کیجیئے ! کہ غزل کے علاوہ بھی کچھ کہا اور ایک انتہائی حساس موضوع پر قلم اٹھایا ۔ بہت مبارک ہو۔
آج پوری نظم پڑھی ہے ۔ استادِ محترم کا شفقت نامہ بھی پڑھنے کو ملا ۔ پڑھنے کو کم اور سیکھنے کو زیادہ۔
میں دوست ہونے کے ناطے دوستانہ انداز میں بات کروں گا۔
بھائی فاروق یہ جذبات نگاری پڑھی کلیجہ کٹ کہ رہ گیا ۔ ایک بھٹی سی اندر سینے کہ دہک اٹھی۔ جو زبان کی غلطی استاد نے بتائی اس پر تب ہی توجہ کی جب استاد نے توجہ دلائی۔ میاں خدا لگتی کہوں تو میں زبان اور محاورے کی غلطی سے بے مزہ نہ ہوا ، بلکہ یوں محسوس ہوا کہ کوئی لڑکا اپنی والدہ کی یاد میں نوحہ کرتا ہے اور شدتِ جذبات میں ، کہیں زبان سے جاتا ہے ، کہیں ہچکیوں کے تسلسل میں الفاظ دب جاتے ہیں۔ الغرض جتنی باتیں نامکمل اور ادھوری رہ جاتی ہیں وہ سینے میں کسک کو دو چند کرتی ہیں ۔

بات ادھوری مگر اثر دونا
اچھی لکنت زبان میں آئی

دیکھ کر مجھ کو پریشاں میرے ماں
کون اب دستِ دعا پھیلائے گا
ضد کرے گا کس سے اب بیٹا تِرا
کون مجھ کو پیار سے سمجھائے گا
جب کبھی مجھ کو نہ نیند آپائے گی
کون میرے بالوں کو سہلائے گا
جب کبھی میں دیر سے گھر آؤں گا
کون اپنی بانہوں کو پھیلائے گا
دستِ شفقت رکھ سکے گا کون اب
ہر کوئی مجھ سے تو اب کترائے گا
دل پہ کوہِ غم گرا تو سہہ گیا
لعل تیرا تنہا ہو کر رہ گیا

اچھا ہوا تم ماہر نہ ہوئے، ورنہ ایسی سادگی سے بات سنے کو نہ ملتی۔ ایک ایک مصرعے میں تیر کی تیزی ہے ۔

زندگی ہے تلخ تر، اے میری ماں
پر خطر ہے پر خطر، اے میری ماں
زیست کا حاصل ہے رنج و غم فقط
یا دلِ مضطر ،یا ڈر، اے میری ماں
چھن گئی پیروں کے نیچے سے زمیں
ہو گیا میں دربدر، اے میری ماں
ہو کے اپنے گھر میں بے گھر رہ گیا
کاٹتے ہیں بام و در، اے میری ماں
اب تو جا کے سو گئی زیرِ زمیں
چھوڑ کر سونا یہ گھر، اے میری ماں
ابر تھا سایہ دعاؤں کا تِری
ٹالتا تھا ہر گھڑی مشکل مِری

دیکھو یار ! یہاں بھی کسی طرح تصنع نہیں برتا سیدھی بات کی سادگی سے اور سچے جذبات سینے سے نکل کر ہاتھوں کے زریعے کاغذ پر آگئے

تیری مرقد پر جو میں حاضر ہوا
عجز میرا مجھ پہ پھر ظاہر ہوا
ہر کوئی پابند ہے تقدیر کا
کون اس سے بچنے پر قادر ہوا
جو بھی آیا زندگی کے بحر میں
موت سے وہ ہمکنار آخرہوا
حق اجازت دے تجھے تو کر دعا
دل مِرا آزردہِ خاطر ہوا
آئی مرقد سے صدا تو غم نہ کر
شکر ہے اُسکا کہ تو صابر ہوا
زندگی مہکے تِری جیسے کنول
ساتھ ہو تیرے خدائے لم یزل

بہت خوب فاروق بھائی

رات ہے تنہائی اور میرا قلم
عقل میری سر بہ زانو آنکھ نم
قلزمِ خاموش تیری یاد ہے
جس طرح ہو رات کوئی صبح دم
جس طرح شب صبح کی امید ہے
اِس طرح ہے موت سب کے ہم قدم
اہلِ ایماں کو پیامِ عیش ہے
حکم کا پابند ہے لائے گا یم
تو بھی کر پابندیِ حکمِ خدا
اے تلون کیش! اب تو دم بہ دم
جنکو مقصد زندگی کا یاد ہے
یہ جہاں کیا وہ جہاں بھی شاد ہے

سچی بات ہے فاروق بھائی ، ایسے میں دل کو اس کے سوا کوئی تسلی نہیں ہے ۔

حوصلہ میرا نہیں میں کیا کروں
عرض کیسے مدعا اپنا کروں
عجز میرا ہے مکمل بات پر
بند کیسے کوزے میں دریا کروں
قادرِ مطلق تَو ہے سب جانتا
عرض پھر بھی اپنا میں دکھڑا کروں
ہاتھ اٹھاؤں میں دعا کرنے کو اب
سر کو بھی اپنے میں کچھ نیچا کروں
لفظ مجھ سے ہوں ادا اتنا کہوں
لب کو اپنے پھر میں یوں گویا کروں
تیری مرقد پر خدا رحمت کرے
اور تیرا گھر خدا جنت کرے

آمین ثمہ آمین
بھائی فاروق شاعری پر داد دی جاتی ہے مگر میں نے یہ بند شاعری سمجھ کر نہیں پڑھا اس لیے دعا میں تمھارے ساتھ ہوں ۔
اور جہاں تک شاعری کی بات ہے تو اس میں ہم دونوں ہم عقیدہ ہیں کہ اساتذہِ کرام کی باتوں کو گرہ سے باندھ کر رکھیں گے جو کچھ آپ حضرات فرماتے ہیں اس میں سر تا سر ہمارا فائدہ مقصود ہوتا ہے ۔ تو جو کچھ استادِ ذی وقار نے فرمایا ہے اس پر خوب خوب توجہ کرو، محفل سے اگلی نظم کا وعدہ ، پھر کوئی بات کرنا ۔
 
فاروق احمد بھٹی بھائی ، سب سے پہلے تو مبارک باد قبول کیجیئے ! کہ غزل کے علاوہ بھی کچھ کہا اور ایک انتہائی حساس موضوع پر قلم اٹھایا ۔ بہت مبارک ہو۔
آج پوری نظم پڑھی ہے ۔ استادِ محترم کا شفقت نامہ بھی پڑھنے کو ملا ۔ پڑھنے کو کم اور سیکھنے کو زیادہ۔
میں دوست ہونے کے ناطے دوستانہ انداز میں بات کروں گا۔
بھائی فاروق یہ جذبات نگاری پڑھی کلیجہ کٹ کہ رہ گیا ۔ ایک بھٹی سی اندر سینے کہ دہک اٹھی۔ جو زبان کی غلطی استاد نے بتائی اس پر تب ہی توجہ کی جب استاد نے توجہ دلائی۔ میاں خدا لگتی کہوں تو میں زبان اور محاورے کی غلطی سے بے مزہ نہ ہوا ، بلکہ یوں محسوس ہوا کہ کوئی لڑکا اپنی والدہ کی یاد میں نوحہ کرتا ہے اور شدتِ جذبات میں ، کہیں زبان سے جاتا ہے ، کہیں ہچکیوں کے تسلسل میں الفاظ دب جاتے ہیں۔ الغرض جتنی باتیں نامکمل اور ادھوری رہ جاتی ہیں وہ سینے میں کسک کو دو چند کرتی ہیں ۔
بات ادھوری مگر اثر دونا
اچھی لکنت زبان میں آئی
بہت بہت شکریہ نزیر بھائی ایک نہایت ہی دوستانہ انداز میں حوصلہ افزائی کے لیے، اور استادِ گرامی کی باتیں یقینا محفوظ کیں ہیں ان کو توجہ میں رکھتے ہوئے ہی آگے بڑھنے کی کوشش ہے۔
آمین ثمہ آمین
بھائی فاروق شاعری پر داد دی جاتی ہے مگر میں نے یہ بند شاعری سمجھ کر نہیں پڑھا اس لیے دعا میں تمھارے ساتھ ہوں ۔
اور جہاں تک شاعری کی بات ہے تو اس میں ہم دونوں ہم عقیدہ ہیں کہ اساتذہِ کرام کی باتوں کو گرہ سے باندھ کر رکھیں گے جو کچھ آپ حضرات فرماتے ہیں اس میں سر تا سر ہمارا فائدہ مقصود ہوتا ہے ۔ تو جو کچھ استادِ ذی وقار نے فرمایا ہے اس پر خوب خوب توجہ کرو، محفل سے اگلی نظم کا وعدہ ، پھر کوئی بات کرنا ۔
آمین
بشرطِ زندگی اگلی نظم کا وعدہ رہا آپ سے۔
اور آخر میں ایک بار پھر سے شکریہ آپ کے توجہ فرمانے پر
اللہ آپ کو خوش رکھے اور آسانیاں عطا فرمائے۔ آمین
 
Top