پیر صاحب اور سانپ

ہمارے گاؤں میں آج تک کسی کو سانپ نے نہیں کاٹا-

نانا جی اسے پیر صاحب کی کرامت کہتے تھے- ہم نئے نئے وہابی ہوئے تو پیر کا لفظ سن کر پیٹ میں "پیڑ" اٹھنے لگتی- سو ایک دن پیٹ پکڑے نانا جی سے بحث کر بیٹھے جو پشت در پشت سنی تھے-

"سانپ نہیں کاٹتے تو کیا ہوا.....کتے تو کاٹتے ہیں ناں" ہم نے استدلال پیش کیا- " پیر صاحب نے کتوں کی نس بندی کیوں نہیں کی" -

ناناجی حقے کی چلم پر سنہری ڈور باندھتے ہوئے بولے " سائیاں دی مرضی...ہم نے سوال ای سپوں کا کیا تھا...کتوں کا کرتے تو شاید کتے بھی.........کھؤں...کھؤں...کھؤں..." نانا جی کو پھر کھانسی کا دورہ پڑ گیا-

حقہ نانا جی کا سب سے بڑا دشمن تھا اور وہ حقہ پرستی کی حد تک اس دشمن سے پیار کرتے تھے... پچھلے چھ ماہ سے وہ اس کی چلم پر کشیدہ کاری کر رہے تھے... نانا جی کے معمولات میں حقے کی دیکھ بھال کے علاوہ اس طوطیا نسل آم کی حفاظت بھی تھی جس پرانہوں نے ایک کنستر باندھ رکھا تھا اور اس سے بندھی رسی کو جھٹکے دیکر وہ سارا دن طوطے اڑایا کرتے تھے-

"جس دن پیر صاحب نے آنا تھا ....پورا گاؤں امڈ آیا تھا..." نانا جی ایک وقفے سے گویا ہوئے- میں ہمہ تن گوش ہوگیا-

"میں اس وقت تمہاری طرح کا بچہ تھا...اور اپنے بابا بھٹی خان کی انگلی تھامے ہجوم میں کھڑا تھا- سب لوگ ہاتھوں میں دودھ کی گڑویاں لئے پیر صاحب کی آمد کے منتظر تھے- کہیں دوپہر کو جاکر پیر صاحب کی چٹی گھوڑی آتی دکھائی دی....ان کے ساتھ دس بارہ مرید بھی تھے....واہ.... سبحان اللہ ...کیا نورانی مکھڑا تھا......سب لوگ دودھ کی گڑویاں لے کر آگے بڑھے....لیکن پیر صاحب مجمعے بھر کو چھوڑ کر میرے بابا پر ہی مہربان ہوئے ....خوشی سے بابا بھٹی کی ٹانگیں جواب دے گئیں...وہ گرتا پڑتا...بمشکل پیر صاحب تک پہنچا..."میں صدقےتھیواں ..." کہہ کر ڈبڈبائی آنکھوں سے دودھ کی گڑوی پیش کی....دودھ پی کر پیر صاحب نے دعا کےلیے ہاتھ اٹھائے تو بابا بھٹی بول اٹھا " سپاں واسطے وی کوئی دعا کرو....بوہت کاٹتے ہیں پیر جی...ہر طرف سپ ای سپ ہیں"

ساہیوال کا یہ گاؤں 1914 میں برٹش راج کی ایگریگیشن اسکیم کے تحت نیا نیا آباد ہو رہا تھا- یہاں ٹیلے اور ٹبوں میں سانپ بکثرت پائے جاتے تھے- جب سانپوں نے اپنا ہزار سالہ مسکن تباہ ہوتے دیکھا تو نو آباد کسانوں کو ڈنگ مارنے لگے- بھٹی خان نے ایک گڑوی دودھ پلا کر پیر صاحب کے سامنے گاؤں کا دیرینہ مسئلہ رکھ دیا -

دعا فرماکر پیر صاحب نے بشارت دی کہ آج کے بعد گاؤں کے سارے سانپ مینڈک بن جائیں گے....گاؤں والے فرط مسرت سے جھوم اٹھے..اور بابا بھٹی خان کا سر فخر سے اونچا ہو گیا -

نانا جی کے پاس قصے بہت تھے لیکن شاید وقت بہت کم - کچھ سالوں بعد وہ ہم سے بہت دور چلے گئے - ان کی وصیت کے مطابق انہیں اسی طوطیا آم کے نیچے دفن کیا گیا جس پر انہوں نے کنستر باندھ رکھا تھا-

مدتوں بعد تاریخ کی زنبیل کھنگالتے ہوئے کل میری ملاقات ان پیر صاحب سے ہو ہی گئی، جنہیں گڑوی دودھ پیش کرکے بابا بھٹی نے سانپوں کی نس بندی کروائی تھی-

نانا جی زندگی بھر یہی سمجھتے رہے کہ پیر صاحب نے محض ان کے گاؤں کے سانپوں کو ہی مینڈک بنایا - وہ نہیں جانتے تھے کہ اس درویش نے اس پھنیئر ناگ کو بھی "ڈڈو" بنا کر رکھ دیا جو بے شمار انسانوں کو ڈس چکا تھا-

یہ ناگ اتناخطرناک تھا کہ شکار کو پہلے اپنی مقناطیسی آنکھوں سے ہپناٹائز کرتا.....جب وہ دم بخود ہو جاتا تو آہستہ آہستہ ....پیار سے اسے دبوچتا.....پھر اس کی کھوپڑی کھول کر اس کا مغز کھا جاتا....اور اپنا تھوک اس کی کھوپڑی میں ڈال دیتا....مارگزیدہ مرنے کے بعد یکدم آنکھیں کھول لیتا....اور بالاخر خود بھی ایک سانپ بن جاتا-

شہر کے شہر ان سانپوں سے بھرے چلے جاتے تھے - یہ پیر صاحب کی ہی کرامت تھی کہ انہوں نے اللہ تعالی کی نصرت سے اس شیش ناگ کو مینڈک بنا دیا ورنہ بڑے بڑے سپیرے اس سے توبہ تائب ہوچکے تھے....یہاں تک کہ انگریز سپیرے بھی اپنی بین چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے -

اس شیش ناگ کو دنیا مرزا غلام احمد قادیانی کہتی ہے- اور اسے "ڈڈو" بنانے والی ہستی پیر مہرعلی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ تھے !!!
 
ہندوستانی قوم کی بدقسمتی ہے کہ دوگز لٹھا خریدنے کےلیے پچاس دکانوں کے تھان کھلوائیں گے....دو کلو آلو لینے کےلیے دو کوس دور سستے بازار کا رخ کریں گے....لیکن معاملہ مذہب کا ہو تو وجدنا اباءنا کذلک یفعلون یا پھر جو مولوی صاحب نے فرما دیا.... سبحان اللہ .... ماشاءاللہ !!!!

ہمیں یا تو اسلام کا درس جمعہ کے خطبے سے ملتا ہے ... یا پھر کسی مذہبی جلسے میں جاکر ہم ایمان تازہ کر آتے ہیں- جلسے کے بعد اگر تبرک یا شیرینی بھی میسر ہو جائے تو ایمان کے ساتھ ساتھ منہ کا ذائقہ بھی تازہ ہو جاتا ہے- ہم تحقیق کے معجون مرکب سے اپنے منہ کا ذائقہ کیوں خراب کریں .... قران کا ترجمہ، احادیث کی شرع، فقہ کی تعلیم .... یہ سب مولوی کے کام ہیں .... ہماری بلا جانے .... ہم تو صرف یہ جانتے ہیں کہ ڈسپرین سردرد کی دوا ہے اور فلیجل ۔۔۔۔ کی ....باقی طفیلے کی بلا میاں کے سر !!!

مرزا غلام احمد قادیانی نے ہندوستانی مسلمانوں کی اسی روائتی کمزوری سے فائدہ اٹھایا ... 1870ء کے عشرے میں وہ بظاہر ایک مصلح ، مناظر اور پرجوش مذہبی لیڈر کے طور پر سامنے آیا ... 1880ء کے بعد کا زمانہ اس کے عروج کا دور تھا - ہندوؤں اور مسیحیوں سے مناظروں نے اس کی شہرت کو دوام بخشا ..... لاہور کے ایک جلسے میں ملکہء برطانیہ کو اسلام کی دعوت.. اور .. 1893 میں شاتم رسول (ص) ڈپٹی عبداللہ آتھم کے ساتھ پنجہ آزمائی سے اس نے سادہ لوح مسلمانوں کے دل میں جگہ پیدا کی ... وہ ہر مذہبی جلسے میں آن دھمکتا ... اور اپنی پراثر خطابت سے جلسہ لُوٹ کے چلا جاتا .... 1880ء میں ہی اس نے ڈھکے چھپے الفاظ میں "صاحبِ الہام " ہونے کا دعوی کردیا ..... اپنی پہلی کتاب براہین احمدیہ میں اس نے خود کو (ملہم) صاحبِ الہام ہی لکھا- یہ عہدہ مرزا نے خود تخلیق کیا یا اس کے پیچھے کوئی منجھا ہوا سکرپٹ رائٹر تھا .... اس کا تعیّن تو نہیں ہو سکا .... لیکن جس نے بھی یہ ڈور الجھائی خوب سوچ سمجھ کے الجھائی-

رعایا بادشاہ جنتی ہے.....مرید پیر تخلیق کرتے ہیں....اور بت پرست بت تراشتے ہیں.....محل ، آستانے اور استھان بعد میں وہ خود بنا لیتے ہیں....

" صاحبِ الہام " کا عہدہ مرزا کے مشن کو آگے بڑھانے کےلیے کافی تھا- نپولین کی طرح باقی میڈل اس نے خود ہی سجانے شروع کر دیے ... وہ خود کو عہدے پہ عہدہ دیتا گیا .... اور اس کے معتقدین اس پر تصدیق کی مہر لگاتے گئے ... وہ ملہم سے ترقی پاتا پاتا پہلے مجّدد بنا ... پھر امام زماں اور محدث ... پھر مثیل مسیح (مسیح جیسا) پھر مسیح ابن مریم .... پھرمہدی اور امام آخرالزمان .... یہاں سے کلانچ بھر کے وہ سیدھا نبوت کے منصب پر جا بیٹھا .. اور اس کے پیروکار دیکھتے ہی رہ گئے .... کسی نے سوال کرنے کی ہمت نہیں کی کہ نبّوت کا درجہ تو یک بارگی ملتا ہے آپ کو قسطوں میں کیوں مل رہا ہے .... اس کے بجائے وہ ظلی اور بزوری کی تاویلیں گھڑ گھڑ کر اسے دیتے رہے- اور اس بلیک ہول کو قطبی تارا بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرتے رہے...

علماء حق کی تنقید اور عوامی ردعمّل سے ماوراء وہ خود پسندی کی شراب پئے خوش فہمیوں کی سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا-

اندھی تقلید اور شخصیت پرستی ہمیشہ ایک بانجھ سوسائٹی پیدا کرتی ہے ....جس میں آنکھیں تو سب کے پاس ہوتی ہیں....بینائی کسی کے پاس نہیں-

بحیثیت ایک مناظر مرزا قادیانی ایک چکنا گھڑا تھا....وہ کبڈی کے کھلاڑی کی طرح جسم پر تاویلات کا تیل مل کر آتا اور مد مقابل کے ہاتھوں سے ہمیشہ پھسل کر نکل جاتا- وہ ماسٹر آف یو ٹرن تھا -جو کچھ وہ کتابوں میں لکھتا اکثر مناظروں میں مکر جاتا- اکثر وہ نبوّت کے دعوے سے بھی مکر جاتا .... اس نے اپنی کتابوں میں بھی بار بار ترامیم کیں .... لیکن ملہم کے مورچے پر وہ آخر دم تک قابض رہا کہ اس پٹاری سے وہ من چاہا سانپ نکال سکتا تھا ....

اس دور میں ، جبکہ آخری نبی تشریف لاچکے ..... جو شخص اپنے پیروکاروں کو یہ باور کرانا شروع کردے کہ اسے الہام ہوتا ہے یا عالم رویا سے بشارتیں آتی ہیں تو سمجھ لیں کہ کسی ایک رتبے پر اس کی ضرور نظر ہے ....نبوّت، مہدیت، ولایت یا حکومت !!!!!
1486709_1550078348583565_7457840426923992764_n.jpg

تلک امت قد خلت......اس تصویر میں دکھائی دینے والے حضرات میں اس وقت کوئی بھی دنیا میں موجود نہیں....یہاں تک کہ وہ بچہ بھی جو معصومیت کی تصویر بنے کیمرے کی آنکھ میں جھانک رہا ہے- عقیدت اور اندھی تقلید کا کالا چشمہ پہنے یہ لوگ تاریخی غلط فہمی کا شکار ہوئے اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے کیا ہوا پیمان توڑ بیٹھے - یقیناً قیامت کے روز یہ بھی مرزا کے ساتھ ہی اٹھائے جائیں گے تاآنکہ ان میں سے کوئی تائب ہو کر مرا ہو-
علماء حق سے محبت بجا ہے اور ملی حمیت کا تقاضا بھی....لیکن تحقیق کیجیے....سوال کیجیے....اختلاف کیجیے.... ان کے پیچھے سفید چھڑی پکڑ کر مت چلیے.....کہ اللہ نے آپ کو بھی حواس خمسہ اور عقل سلیم سے نواز رکھا ہے....

یاد رکھیے انسانوں میں آئیڈیل صرف ایک ہی ذات ہے جس کے بارے میں رب کریم نے ہمیشہ ہمیشہ کےلیے فرما دیا ہے...​

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَٰكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
 
آخری تدوین:

نعمان خالد

محفلین
بجا فرمایا آپ نے۔ اب تو خیر سے جہالت پر فخر کرنے والے بھی آگئے ہیں۔ یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ جہالت کوئی معذوری نہیں۔۔۔
بندہ ایتھے کی کرے؟؟؟
 
بجا فرمایا آپ نے۔ اب تو خیر سے جہالت پر فخر کرنے والے بھی آگئے ہیں۔ یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ جہالت کوئی معذوری نہیں۔۔۔
بندہ ایتھے کی کرے؟؟؟
اپنے بدن پر سانپ بچھو لٹک رہے ہیں اور ہمیں دوسروں کے جسموں پر بھنبھناتی مکھیاں اڑانے کی فکر ہے ۔
(بابا اشفاق احمد مرحوم و مغفور)
آداب آداب۔
صاحب تحریر کا ذکر تحریر مکمل ہونے پر ہو گا۔
 
مرزا کا مقابلہ فقہاء اور صوفیاء دونوں سے تھا.....

یہ حقیقت ہے کہ برصغیر میں اسلام کی شمع صوفیائے کرام نے روشن کی- صوفیاء نے لاکھوں کفار کو کفر کی اندھیری رات سے نکال کر ہدایت کی روشن شاہراہ پر گامزن کر دیا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ، حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ ، حضرات مشائخ چشت اور دیگر اولیائے کرام کے ہاتھ پر لاکھوں غیر مسلموں نے کلمہء توحید پڑھا اور آج تک برصغیر کے لوگ ان کے نام کا احترام کرتے ہیں -

اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ علماء و فقہاء کا دامن خدا نخواستہ خالی ہے- علماء دین کا ستون ہیں- صوفیاء اگر دلوں کے قلعے فتح کرتے ہیں تو فقہا ان قلعوں کی حفاظت کرتے ہیں- برصغیر میں اگر اسلام صوفیاء کے دم بدم پھیلا تو علماء نے خون دیکر اس پودے کی آبیاری بھی کی-

برصغیر کے عوام فطرتاً صوفیاء کی طرف زیادہ مائل ہیں- اس کی وجہ صوفیاء کا نرم رویہ ، درد آشنائی اور انسانیت سے محبت ہے- صوفیاء سے عقیدت کی دوسری بڑی وجہ عوام کا کشف و کرامات کی طرف زیادہ مائل بہ ہونا ہے- اس بنا پر لوگ صوفیاء کو روحانی اعتبار سے مولوی سے زیادہ طاقتور سمجھتے ہیں - علماء کے ساتھ صرف مذہبی طور پر باشعور اقلیّت جڑی ہوتی ہے ، جبکہ اس کے مقابلے میں صوفیاء کے ساتھ عوام کی اکثریت محبت کرتی ہے-

جب تلک مرزا قادیانی نے مسیحت کا دعوی نہیں کیا طبقہء علماء نے اس سے درگزر ہی کیا- دعوی مسیحت اور مہدویت کے بعد علماء اس طرف متوجہ ہوئے- مولانا ثناءاللہ امرتسری ، مولانا محمد حسین بٹالوی ، مولانا عبدالحق غزنوی، اور مولانا غلام دستگیر قصوری وغیرہ نے مرزا کے ساتھ خوب مناظرے کیے- مرزا عربی اور فارسی پر اچھی قدرت رکھتا تھا....وہ مناظر ہونے کی وجہ سے مد مقابل کو الجھانا جانتا تھا- چنانچہ گھیر گھار کر اپنے من پسند موضوع پر لے جاتا-

ایک اور سبقت جو مرزا قادیانی کو حاصل تھی وہ اس کا شاطر میڈیا تھا- نجانے اس کے پاس سائیکلوسٹیل مشین تھی یا کاتبوں کی فوج....ادھر مناظرہ ختم ہوتا ...ادھر دھڑا دھڑا مرزا کی کامیابی کے اشتہار لگنا شروع ہو جاتے- علماء اس دور میں چھاپہ خانے کو حرام سمجھتے تھے اس لیے میڈیا سیل میں بھی انہیں خاطر خواہ برتری حاصل نہ تھی....اور یہ صورتحال آج تک قائم ہے....مجھے یاد ہے کہ جب ہم اپنے علماء کے فتووں سے متاثر ہوکر ٹی وی توڑ ہفتہ منا رہے تھے قادیانیوں کا ٹی وی چینل دھڑلے سے چل رہا تھا-

علمائے حق کے پاس آج بھی اپنا کوئی میڈیا نہیں ماسوائے لاؤڈ سپیکر کے-

ایک اور کمزوری جس سے مرزا قادیانی نے فائدہ اٹھایا وہ علماء کے درمیان فرقہ ورانہ اختلاف تھا- بلاد عرب میں وہابی انقلاب کے بعد ہندوستان میں فقہ حنفی واضح طور پر دو حصوں میں منقسم ہو چکا تھا- ایک گروہ اسی دین کو اصل سمجھتا تھا جو ہندوستان میں صدیوں سے رائج تھا جبکہ دوسرا گروہ وہابی طرز اسلام کا اثر قبول کر چکا تھا- دونوں مکتب ہائے فکر عرب سے ایک دوسرے کے خلاف فتوے منگوا منگوا کر ہندوستان کے درودیوار پر چپکا رہے تھے - ان حالات میں مرزا قادیانی کے خلاف کفر کے فتووں کو عوام میں وہ پزیرائی نہ مل سکی جس کا وہ مستحق تھا-

مرزا جانتا تھا کہ عوام کی اکثریت علماء سے زیادہ صوفیاء سے متاثر ہے چناچہ اس نے صوفیاء پر اپنا جادو چلانے کا فیصلہ کیا-

اس وقت ہندوستان میں دو آستانے ایسے تھے جہاں سے تصوف کی کچھ کرنیں پھوٹ رہی تھی...ان میں حضرت خواجہ غلام فرید آف چاچڑاں شریف اور پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑہ شریف کا آستانہ تھا-

مرزا قادیانی نے 1894 میں خواجہ غلام فرید (رح) سے رسمی خط و کتابت کا آغاز کیا- ان خطوط میں نہ صرف وہ خواجہ صاحب کی شاعری کی تعریف کرتا بلکہ خود کو ان کا عقیدت مند اور اسلام کا سچا خیر خواہ بھی ثابت کرتا رہا - خواجہ غلام فرید (رح) ایک درویش صفت صوفی شاعر تھے سو محبت کا جواب محبت سے دیتے رہے- مرزا نے خواجہ صاحب کی طرف سے موصولہ جوابی خطوط کو اشتہار بازی اور رسائل کے ذریعے اپنے حق میں استعمال کرنا شروع کردیا-

علماء کا ایک وفد صورتحال کی سنگینی کا ادراک کر کے مولانا محمد حسین بٹالوی کی قیادت میں 1897 میں خواجہ غلام فرید (رح) سے ملنے چاچڑاں شریف گیا- اور مرزا کے خلاف دستاویزی ثبوت دکھاکر خواجہ صاحب سے کفر کا فتوی طلب کیا- خواجہ غلام فرید صاحب اپنی نرم خوئی اور صوفیانہ مزاج کے باعث اتنی عجلت میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے تھے سو وفد ناکام واپس لوٹا-

وقت نے خواجہ غلام فرید (رح) کو زیادہ مہلت نہ دی اور 1900 میں آپ نے رحلت فرمائی- اگر چند سال اور زندہ رہتے تو مرزا کے دعوی نبوّت کو دیکھ کر ضرور اس کے خلاف فتوی دیتے-

اب ایک ہی صوفی باصفا باقی تھے ، جن کی طرف پورے ہندوستان کی نگاہیں اٹھ رہی تھیں....حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ آف گولڑہ شریف !!!
 
خوبصورت چمکدار روشن پیشانی.....گھنی سیاہ داڑھی....کشادہ آنکھیں....گھنیری سیاہ زلفیں.....عمر 42 سال .... فارغ التحصیل ہوئے 22 واں برس....خلافت ارشاد کا اٹھارواں سال..... یہ تھے فخر السادات علامہ دوراں، پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمۃ اللہ علیہ !!!

علمائے حق نے آپ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور فتنہء قادیانیت کی سرکوبی کےلئے مدد اور رہنمائی کے طالب ہوئے- ہندوستان کی تاریخ میں پہلی بار بریلوی ، دیوبندی ، اہلحدیث اور شیعہ علمائے کرام اتفاق باہمی کی تصویر بنے ایک صوفیء باعمل سے قیادت کی استدعا کر رہے تھے-

صادق اور امین نانا ﷺ کے سچے دین پر مرزا جیسا ناگ پھنکار رہا ہو .... مسلمان دن کے اجالے میں ڈسے جا رہے ہوں.... اور پیر صاحبؒ خاموش بیٹھے رہتے....بھلا کیسے ممکن تھا....وہ منتظر تھے تو علماء کے اتفاق و اتحاد کے ... ورنہ مرزا تو کب سے آپ کی آنکھوں میں کھٹک رہا تھا-

مرزا جس لکڑی کے گھوڑے پر سوار تھا وہ اس کا "نظریہء حیات مسیح " تھا- احادیث نزول عیسی علیہ السلام کی من چاہی تاویل کرتے ہوئے وہ قادیان کو دمشق قرار دے چکا تھا- اور لدھیانہ کو "لد"....اس اعتراض پر کہ حضرت عیسی علیہ السلام مینارہ سے اتریں گے.... اس نے راج گیروں کو بلا کر قادیان میں ایک مینارہ بھی بنوا لیا تھا-

پیر صاحب نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ 1899ءمیں ”شمس الہدایت“ کے نام سے ایک رسالہ تحریر کیا- جس میں انتہائی علمی اور مدلل انداز میں حیات مسیح علیہ السلام اور قرب قیامت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دوبارہ نزول کے موضوع پر روشنی ڈالی۔اور واضح دلائل سے ثابت کیا کہ مرزا غلام احمد قادیانی کا مسیح موعود ہونے کا دعویٰ غلط، باطل اور جھوٹا ہے-

مرزا قادیانی ”شمس الہدایہء“ کا کیا جواب لکھتا.... فوراً مجلس ابلیس بیٹھائی - مصاحبین کے مشورے سے اس نے دھوکا دہی کا منصوبہ بنایا اور پیر صاحب کو مباہلہ کا چیلنج کر دیا گیا- ساتھ ہی ہندوستان بھر میں اشتہار لگا دیے گئے کہ بیمار لنگڑے اندھے بہرے اور لاچار لوگ آ جائیں- 25 اگست....بادشاہی مسجد لاہور...اور دیکھیں... مسیحائے زمان کا مباہلہ پیرمہرعلی شاہ سے !!!!
پیر صاحب نے جواب دیا " مرزا کو بولو....اگر مردے بھی زندہ کرانے ہیں تو آجاؤ "۔

مباہلہ کی خبر سن کر اہلحدیث عالم ثناءاللہ امرتسری نے فرمایا کہ میری طرف سے پیر صاحب کو عرض کردینا کہ مولوی عبدالکریم نابینا کو ضرور بلوائیں وہ اس کرامت سے فیض یاب ہونے کے صحیح حقدار ہیں سبحان اللہ.... اتنا یقین تھا ایک غیر مقلد وہابی کو بھی مباہلہ میں پیر صاحب کی کامیابی کا !!!

مرزا کو مباہلہ میں اپنی کامیابی صفر نظر آئی تو اس نے فوراً پینترا بدلا اور پیر صاحبؒ کو عربی میں تفسیر نویسی کے مقابلے کا چیلنج دے دیا۔ مد مقابل کو تاویلات میں الجھا کر تھکانا مرزا کا پرانا ہتھیار تھا-

پیر صاحبؒ نے جواباً لکھ بھیجا "مجھے چیلنج قبول ہے، ہم فخر نہیں کرتے .... لیکن امت محمدی میں ابھی ایسے لوگ موجود ہیں.... کہ قلم پر توجہ کریں ....تو وہ قران کی تفسیر لکھنا شروع کردے.... پہلے اپنے دعویٰ مسیحیت پر مجھ سے تقریری بحث تو کرو....پھر تفسیر بھی لکھ لیں گے"

25 اگست 1900ء کو حضرت قبلہ پیر صاحب علما و مشائخ کی معیت میں لاہور تشریف فرما ہوئے تو علما و مشایخ کے ساتھ ساتھ عوام کے سمندر نے آپ کا فقید المثال استقبال کیا۔ اس تاریخی مناظرے کو دیکھنے کےلیے بے شمار قادیانی بھی موجود تھے-
یہ علمی مباحث کا دور تھا جب تشدد کی بجائے دلائل اور منطق سب سے بڑا ہتھیار سمجھا جاتا تھا-

25 اور 26 اگست کو دونوں اطراف سے نمائندے اور عوام شاہی مسجد میں آکر سارا دن مرزا قادیانی کا انتظار کرتے رہے۔ لیکن مرزا کو نہ آنا تھا نہ آیا- بلکہ قتل ہو جانے اور بے عزتی کا خطرہ ظاہر کر کے قادیان میں ہی دبکا رہا-

27 اگست کو شاہی مسجد میں مسلمانوں کا عظیم الشان جلسہ منعقد ہوا جس میں تمام مسالک کے علمائے کرام نے شرکت فرمائی- علمائے کرام نے ولولہ انگیز تقاریر کر کے اس دعوتِ مناظرہ کی مکمل داستان بیان فرمائی اور برصغیر کے بھولے عوام کے ذہنوں سے کھینچ کھینچ کر قادیانی وائرس نکالا- اس دن بے شمار قادیانی تائب ہوکر دائرہء اسلام میں دوبارہ داخل ہوگئے-

اسی دن ملت اسلامیہ کے 60 جید علماء کرام نے عقیدہء ختمِ نبوت کی دوبارہ توثیق فرمائی - اور اس بات پر کلی اتفاق کیا گیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری نبی ہیں اور آپ کے بعد کوئی نبی پیدا نہ ہوگا اور جو اس عقیدہ کا منکر ہے بلاشبہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔

اس کامیاب مناظرے کے بعد مرزائیت کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے سامنے پہلا بند تو باندھ دیا گیا.....لیکن دوسری طرف قادیان میں ایک اہم اجلاس میں مستقبل کی نئی پیش بندیوں پر غور جاری تھا-
 
لاہور کا ناکام مناظرہ ، مرزا اور اس کی جماعت کےلیے بہت بڑا صدمہ ثابت ہوا- پیر مہر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کامیابی نے تحریک احمدیہ کو قادیان تک محدود کر دیا....اور یوں احمدیت محض قادیانیت بن کر رہ گئی-

لاہور جو کہ 1900ء تک مرزائیت کا گڑھ بنتا جا رہا تھا اب اس بخار سے روبہء صحت ہونا شروع ہوگیا تھا- پیر مہرعلی شاہ رحمتہ اللہ علیہ کی اس ضرب یداللہ کے بعد علمائے حق کھل کر فتنہء قادیانیت کی سرکوبی کیلئے نکلے- ان میں مولانا محمد حسین بٹالوی اور مولانا ثناءاللہ امرتسری پیش پیش تھے-

1901ء میں مرزا نے نبوت کا دعویٰ بھی کر دیا- مرزا کا استدلال تھا کہ وہ ایک ظلّی اور بزوری نبی ہے - وہ گھنٹوں ختم نبوّت کے حق میں دلائل دیتا اور آخر میں یہ کہ کر دودھ میں مینگنیاں ڈال دیتا کہ اس کے دعوی نبوت سے حضور ﷺ کی ختم نبوّت پر کوئی فرق نہیں پڑتا- اور نہ ہی اس کےلئے کسی نئے کلمے کی ضرورت ہے- اس نے قرانی آیات کو اپنے حق میں مسخ کرنا شروع کر دیا نیز اپنی کتابوں میں انتہائی بودے اور گھٹیا افکار بھی پیش کرنے شروع کر دیے- اس کی جماعت کے غالی شعراء نے اس کا مرتبہ نبی کریم ﷺ سے بھی بڑھانا شروع کر دیا اور یوں مرزا توہین رسالت کا ارتکاب بھی کرنے لگا-

مرزا کی ان نئی شرانگیزیوں کے آگے بند باندھنے کےلیے مولانا محمد حسین بٹالوی نے مرزا قادیانی کی تکفیر پر فتویٰ حاصل کر کے شائع کرایا - اس فتویٰ پر برصغیر کے دوسو جیّد علمائے کرام کے دستخط تھے، جن میں سید نذیرحسین محدث دہلوی بھی شامل تھے۔

1907 میں مولانا ثناء اللہ امرتسری نے آخری بار قادیان جاکرمرزا کو مباحثے کےلیے للکارا، لیکن مرزا اس بار بھی مقابلے کےلیے نہ نکلا- اور مولانا امرتسری فاتح قادیان بن کر لوٹے-

مرزا ان پے درپے حملوں سے اگرچہ دفاعی پوزیشن میں آ گیا- لیکن اس کا انداز مزید جارحانہ ہو گیا- اس نے عدم تشدد کی پالیسی ترک کر کے اپنے منکرین کو نہ صرف بدترین مخلوق قرار دے دیا، بلکہ مولانا بٹالوی کو ابولہب اور مولانا امرتسری کو ابوجہل کا لقب دے دیا..... سانپ گھیرے میں آ چکا تھا اور آخری بار پھنکار رہا تھا-

اگرچہ مرزا کو کامل یقین تھا کہ اس پر الہام کا نزول ہوتا ہے لیکن وہ ان الہامات کے پیچھے چھپے رانگ نمبر کو نہ پہچان سکا- اسی غلط فہمی میں 1907 میں وہ اپنا کیس سچے رب کی عدالت میں لے گیا-

مولانا امرتسری کے مباہلہ چیلنج کے جواب میں مرزا نے ایک دعائیہ اشتہار شائع کرا دیا- وہ سچے رب کے دربار سے اپنے اور مولانا کےلیے انصاف کا طالب ہوا- اس نے استدعا کی کہ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہو وہ مخالف کی زندگی میں ہی طاعون یا ہیضہ سے ہلاک ہوجائے... ساتھ ہی اس نے یہ پشین گوئی بھی شائع کرادی کہ 1908ء میں "ہند کا ابوجہل " ثناءاللہ امرتسری ضرور فوت ہوجائے گا-

اس کے معتقدین نے یہ اشتہارات بھی شائع کرا دیے کہ پیر مہر علی شاہ رحمتہ اللہ علیہ 1908ء میں جیٹھ کے مہینے میں فوت ہو جائیں گے-

پیر صاحب کو ان پشین گویوں کی اطلاع ملی تو انہوں نے فرمایا " زندگی موت تو اللہ کے اختیار میں ہے...لیکن یاد رکھنا مرزا اپنی ہی گندگی میں گر کر مرے گا"-

مرزا قادیانی کو اپنی دعا اور پشین گوئی پر اتنا یقین تھا کہ وہ مئی 1908 میں لاہور پہنچ گیا- بظاہر وہ یہاں ایک مصلح کے روپ میں آیا ....لیکن مقصد لاہور میں قادیانیت کی گرتی ہوئی ساکھ کو سہارا دینا تھا- مرزا کی عمر اس وقت تقریباً 73 سال تھی اور وہ بالکل چاک و چوبند صحت مند تھا- وہ سارا دن مصروف رہتا اور ھندوؤں اور مقامی پیروکاروں کے وفود سے ملاقاتیں کرتا رہتا-

مئی 1908ء میں ہی اللہ پاک کی عدالت سے فیصلہ آگیا...قدرت نے مرزا کےلیے طاعون کی بجائے ہیضہ پسند کیا -

25 مئی 1908ء کی رات مرزا کی طبیعت شدید خراب ہوئی- پیٹ میں درد کے ساتھ ساتھ دست اور الٹیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا- اس نے فوراً اپنے دست راست حکیم نورلدین کو طلب کیا- لیکن مرض حکیم صاحب کی دوائی سے آگے نکل چکا تھا- اس دور میں ڈرپ کا تصور تو تھا نہیں البتہ انجیکشن خال خال مل جاتے تھے- فوراً ایک مستند ڈاکٹر کو بلایا گیا جس نے وبائی ہیضہ کی تشخیص کی اور دردکا انجیکشن لگایا- جس سے وقتی طور پر تشفی ہو گئی اور نیند آگئی- اگلے دن پھر موشن اور الٹیاں شروع ہوگئیں...نقاہت اتنی بڑھ گئی کہ بیت الخلا تک جانا بھی دوبھر ہو گیا-
26 مئی 1908، دن کے دس بجے مرزا نے بے ہوشی کے عالم میں دم توڑ دیا-

مرزا کی موت کی خبر محض نصف گھنٹے میں پورے لاہور میں پھیل گئی- ایک طرف جماعت احمدیہ کے پیروکار غم و الم کی تصویر بنے سڑکوں پر نکلے تو دوسری طرف مسلمان اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے اس مکان کے سامنے جمع ہو گئے جہاں مرزا کذاب کی لاش عبرت کی تصویر بنی پڑی تھی- برداشت کا دور تھا اس لیے کوئ ہنگامہ یا فساد نہ ہوا-

27 مئی کو مرزا کی لاش قادیان لے جائی گئی...جہاں آخری رسومات کے بعد اسے دفن کر دیا گیا- یوں برصغیر کی تاریخ کا سب سے بڑا فتنہ گر اور کذاب..... اللہ تعالی کے عذاب کا شکار ہو کر زمین برد ہوا-

پیر مہر علی شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ اس کے بعد 29 برس تک تصوف کی کرنیں بکھیرتے رہے... اور ثناءاللہ امرتسری 40 سال تک اسلام کی خدمت پر کمر بستہ رہے-

تاریخ اگر ڈھونڈے گی ثانیءِ محمد ﷺ
ثانی تو بڑی چیز ہے سایہ نہ ملے گا

مضمون کے ماخذ
پیر مہر علی شاہ اور قادیانیت .... فاروق درویش
محاسبہء قادیانیت ................... محمد آصف بھلی
کلمہ فصل .................... مرزا قادیانی
روحانی خزائن ................. مرزا قادیانی

تحریر
ظفر اعوان- دوہا قطر
 
Top