امریکی صدر اوبامہ، دال قیمہ اوردہشتگردی

تاریخ: 25 جنوری ، 2015
امریکی صدر اوبامہ، دال قیمہ اوردہشتگردی
تحریر: سید انور محمود
کیا وجہ ہے کہ امریکی صدر براک اوبامہ بھارت کے سفر کے دوران پاکستان نہیں آینگے، اصل میں وہ تو آنا چاہتے ہیں کہ ایک مرتبہ پھر پاکستان جاوں اورجاکر دال اور قیمہ کھاکر آوں، لیکن اُنکی بیگم پاکستان سے بہت ناراض ہیں کیونکہ اکتوبر 2013ء میں اپنے دورہ امریکہ میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کی امریکی صدر براک اوبامہ سے ملاقات ویسے تو کئی حوالوں سے اہم تھی مگر اس ملاقات کے بعد پریس کانفرنس میں دونوں سربراہان کی پریس سے گفتگو میں کافی دلچسپ باتیں موجود تھیں۔ امریکی صدر اوبامہ نے اپنی ساری بات زبانی کہہ ڈالی جبکہ پاکستانی وزیراعظم نواز شریف ایک کاغذ پر اپنے نوٹس لکھ کر لائے تھے اور انہیں پڑھ کر ہی بات کرتے رہے اور ایک مقام پر کاغذ پلٹتے پلٹتے وہ مسز اوبامہ کو مسٹر اوبامہ کہہ گئے مگر جلد ہی انہوں نے اپنی غلطی درست کی، اور صدر اوبامہ کی مہمان نوازی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو اور مسز اوبامہ کو پاکستان میں خوش آمدید کہنے کا منتظر ہوں، قیمہ اور دال آپ کے منتظررہیں گے۔ مگر لگتا ہے کہ ابھی تک مسز اوبامہ پاکستان سے ناراض ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ امریکی صدر بھارت جاتے ہوئے یا واپس امریکہ جاتے ہوئے چند گھنٹوں کےلیے بھی پاکستان آنے کو تیار نہیں۔ خیر چلیں اس مذاق کی بات کو چھوڑ دیں تب بھی امریکہ کا پاکستان کے ساتھ گذشتہ سڑسٹھ سال سے یہ ہی رویہ رہا ہے کہ جب پاکستان کی ضرورت پڑی پاکستان کو ایک اچھا دوست کہہ دیا، مقصد پورا ہوا تو فورا ہم کون اور تم کون کا فارمولا لگادیا۔​

امریکہ نے ہندوستان کے خلاف کبھی بھی کھل کر پاکستان کی سفارتی حمایت نہیں کی۔ پاکستان کے حکمرانوں سے امریکہ نے ہمیشہ ایک مغرور آقا جیسا سلوک ہی روا رکھا۔ امریکی حکمرانوں کے مسلسل ہتک آمیز رویے کے باعث پاکستان نے چین سے تعلقات بڑھانے شروع کئے لیکن پاکستان پر امریکہ کا سیاسی اور معاشی اثرو رسوخ غالب رہا۔ ایوب خان سے لیکر آج نواز شریف تک ماسوائے ذوالفقار علی بھٹو کے کسی پاکستانی حکمران کی اتنی ہمت نہیں کہ امریکی پالیسی سے اختلاف کرسکیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کشیدہ ہوتے چلے گئے۔ بھٹو حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے ضیاء الحق کی زیر نگرانی شروع کئے گئے ’’آپریشن فئیر پلے‘‘ کو سی آئی اے کی آشیر آباد حاصل تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو راستے سے ہٹانے کےلیے ضیاء الحق سے کام لیا گیا اور پھر تھوڑئے عرصے بعد ہی سوویت یونین کے افغانستان میں داخل ہونے کے بعد امریکہ نے اس خطے میں بڑے پیمانے پر مداخلت کا آغاز کیا اور سی آئی اے کی تاریخ کا سب سے بڑا خفیہ آپریشن شروع کیا گیا۔ آج امریکہ جس دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر اس خطے کو برباد کر رہا ہے وہ اس کی اپنی کاشت کی ہوئی فصل ہے ۔ ضیاء الحق کے دور میں امریکن سی آئی اے اور آئی ایس آئی نے ملکردہشتگردوں کی تربیت اور مالی امداد کی اور روس کےخلاف ڈالر جہاد برپا کرنے کا عمل جولائی 1979ء میں شروع کیا گیا۔

افغانستان سے سوویت یونین فوجوں کی واپسی اور خاص طور پر 1991ء میں سوویت یونین کے انہدام کے بعد اس خطے میں امریکہ کی دلچسپی کم ہوگئی تھی۔ امریکیوں نے اس طرف توجہ دینا ہی چھوڑ دی تھی اور نام نہادمجاہدین کی امداد بھی بندہوگئی تھی۔ امریکہ میں 9/11 کا واقعہ ہوا تو امریکہ کا سابق ایجنٹ اسامہ بن لادن افغانستان میں موجود تھا۔ اُس وقت افغانستان میں ملا عمر کی طالبانی حکومت تھی جسکو امریکہ کی رضا مندی سےصرف تین ممالک نے تسلیم کیا ہواتھا یعنی پاکستان، متحدہ عرب عمارات اور سعودی عرب۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ امریکہ جس نےکہا تھا کہ 9/11 کے واقعہ میں 17 سعودی عرب اور 2 متحدہ عرب عمارت کے باشندئے شامل ہیں سیدھا دوڑا افغانستان کیوں چلا آیا۔ اسکی وجہ اسامہ بن لادن تھا، یہ وہی ارب پتی سعودی اسامہ بن لادن تھا جو امریکہ کے ساتھ کندھے سے کندھا ملاکر سوویت یونین کے خلاف نام نہاد جہاد کرچکا تھا ، لیکن بقول امریکہ اسامہ اور اسکے ساتھی 9/11 کی دہشت گردی کے ماسٹر ماینڈ تھے اور امریکہ اپنے پالتوں کو کبھی نہیں چھوڑتا۔

نائن الیون کے بعد امریکہ واپس افغانستان پہنچ گیا، اور اپنے پرانے نمک خواروں سے وہی توقعہ کرلی کہ وہ پرانی تنخواہ پر ہی کام کرینگے، ایسا نہ ہوسکا۔ امریکہ کے ڈالر کھانے والے مجاہد اب دہشتگرد درندئے بن چکے ہیں، اب ان درندئےوں کو سی آئی اے کے علاوہ برطانیہ کی ایم آئی سکس، اسرائیل کی موساد اور انڈیا کی ایجنسی را استمال کررہے ہیں۔ گذشتہ تیرہ سال سے امریکہ نے صرف ایک سبق یاد کیا ہوا کہ‘پاکستان ڈو مور’ جس کا مطلب سیدھا سیدھا یہ ہوتا ہے کہ پاکستان امریکی مفادات کی مزید نگرانی کرئے، اس ‘ڈو مور’ کے بدلے میں امریکہ ہماری امداد کرتا ہے، اور ہمارئے میڈیا پر یہ ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے کہ پاکستان میں تعلیم، صحت، کے علاوہ ہر اُس کام میں جس میں عام آدمی کو کچھ فاہدہ ہو سب امریکی امداد کی مرہون منت ہے جبکہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس پرسکون ملک میں جہاں اب سکون کا نام و نشان بھی باقی نہ رہا ہے، دہشتگردی کی وجہ سے 56 ہزار سے زائد پاکستانی بےگناہ شہید ہوچکے ہیں، معاشی طور پر ابتک پاکستان 103 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان اٹھاچکا ہے، اور امریکہ کو پھر بھی شکوہ ہے کہ ہم وفادار نہیں۔

بھارت یاترا پرجانے والے امریکی صدر براک اوبامہ نے ایک بھارتی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے بھارت امریکہ تعلقات کے نئے دور اور پاکستان کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔اس بات چیت میں انہوں نے بھارت کو امریکہ کا حقیقی گلوبل پارٹنر قرار دیتے ہوئے اگرچہ یہ تسلیم کیا ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہا ہے لیکن ساتھ ساتھ پاکستان سے دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کا ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے انہیں ختم کرنے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ صدر اوبامہ اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہوسکتے کہ دہشتگردی کے خلاف پچھلے کئی ماہ سے پوری پاکستانی قوم کی حمایت سے کسی امتیاز کے بغیر تمام دہشتگرد تنظیموں کے خلاف پاکستانی فوج فیصلہ کن آپریشن کررہی ہے۔ جماعت الدعوہ اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھی اقدامات عمل میں لائے جاچکے ہیں ۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی ان تمام کوششوں کے باوجود ’’ڈو مور‘‘ والی امریکی رٹ ختم نہیں ہورہی ہے۔

اسی امریکی رویے کی وجہ سے بھارت اور پاکستان کے تعالقات میں بہتری نہیں ہورہی ہے۔ بھارتی کانگریس جماعت کے رکن پارلیمنٹ مانی شنکر آئیرکا کہنا ہے کہ پاکستان دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار ہے، پاکستانی ہر روز 26/11 کی صورتحال سے دوچار ہیں، پاکستانی گھر سے نکلتے ہوئے خوفزدہ ہیں کہ وہ زندہ واپس آئیں گے یا نہیں۔ انہوں نے ممبئی حملوں کا پاکستان میں دہشتگرد واقعات سے موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے 26 نومبر جیسا ایک واقعہ دیکھا جبکہ پاکستانی روزانہ ایسی صورتحال سے دوچار ہوتے ہیں۔ 24، 25 یا 26 سال کی کوئی بھی تاریخ پاکستانیوں کی زندگی کیلئے رسک ہے، پاکستانی مارکیٹ یا مسجد جاتے خوفزدہ ہوتے ہیں کہ نہیں جانتے کہ وہ زندہ واپس آئیں گے یا نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر پاکستان دہشتگردی کا ذریعہ ہے تو یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان ہی دہشتگردی کا سب سے بڑا شکار ہے۔ مانی شنکر آئیر نے امریکا پر الزام لگایا کہ پاک بھارت تعلقات خراب کرنے میں اس کا ہاتھ ہے اور وہی دہشتگردی کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔

امریکی صدربراک اوبامہ نے بھارتی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک لمحے کےلیے بھی نہیں سوچا کہ وہ بھارتی حکمرانوں کو کشمیر کی موجودہ صورتحال کی طرف توجہ دلاتے، وہ بھارت کے غیر منصفانہ رویے اور کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر آئے دن اشتعال انگیز کارروائیاں کرکے پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف جاری فیصلہ کن آپریشن کی راہ میں مشکلات پیدا کرنے پر اظہار کرتے۔ جنوبی ایشیائی امور کے بعض امریکی ماہرین بھارت کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ امریکہ کے تعلقات پر نظر ثانی کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔ان کا مشورہ ہے بھارت کو خطے کی بالادست طاقت بناکر پاکستان کو برابری کے مرتبے سے نیچے لانے کی حکمت عملی اگر کہیں زیر غور ہے تو یہ حقیقت پسندی کے سراسر منافی ہے۔ ابھی کچھ روز قبل ہی امریکی پاکستان کو یقین دلارہے تھے کہ امریکہ بھارت تعلقات پاکستان کے مفادات کی قیمت پر استوار نہیں کیے جارہے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن اور خوش حالی کے لیے تنازع کشمیر کو اقوام متحدہ کی قرارداروں کے مطابق حل کیا جانا ضروری ہے۔

کوئی ایک ماہ پیشتر امریکہ کے صدر براک اوبامہ نے پاکستان کے وزیراعظم نوازشریف کو ٹیلی فون کر کے انھیں اپنے مجوزہ دورۂ بھارت کے بارے میں بتایا، اس موقعہ پر وزیراعظم نواز شریف نے صدر اوبامہ کو پاکستان کے دورئے کی دعوت دی، مگر افسوس جواب میں صدر اوبامہ نے یہ یقین دہانی کروائی کے جیسے ہی ملک میں صورت حال معمول پر آئے گی وہ پاکستان کا دورہ بھی کریں گے۔ امریکہ کا ’گیارہ ستمبر‘ ہو، بھارت کا ’چھبیس نومبر‘ہویا پاکستان کا’ سولہ دسمبر ‘ ہو تمام واقعات ہی افسوسناک ہیں، اور ہم پاکستانی ان واقعات کی بھرپور طریقے سے مذمت کرتے ہیں لیکن سانحہ پشاور ایک ایسا واقعہ ہے جس کا سوچکر ہر صاحب اولاد کی آنکھوں میں آنسو آجاتے ہیں۔ امریکی صدر کو کم از کم اُن معصوم 132بچوں کی شہادت کاخیال رکھتے ہوئے اُن بچوں کی تعزیت کےلیے چند گھنٹوں کےلیے پاکستان آنا چاہیے تھا۔ افسوس نہ تو سیاست کے سینے میں دل ہوتا اور نہ ہی اس وقت امریکہ کو پاکستان سے کوئی فائدہ اٹھانا ہے، دورہ بھارت سے امریکہ کو ایک بڑی تجارتی منڈی ملنے کا امکان ہے، علاقے کی سیاست میں اثروروسوخ بڑھے گا، کم از کم ہمارئے سیاستدانوں کو اس سے سبق ضرور سیکھنا چاہیے۔ وزیراعظم نواز شریف اور صدر اوبامہ نے ٹیلیفون پر بات چیت کے دوران علاقے میں دہشتگردی پر قابو پانے، امن اور استحکام کو بڑھانےاور خطے میں امن اور سلامتی قائم کرنے پر اتفاق کیا۔ لیکن ایک بات امریکی صدر کو لازمی معلوم ہوگی کہ اس خطے میں دہشتگردی کا ذمہ دارخود امریکہ ہے۔
 

Fawad -

محفلین
امریکہ کا پاکستان کے ساتھ گذشتہ سڑسٹھ سال سے یہ ہی رویہ رہا ہے کہ جب پاکستان کی ضرورت پڑی پاکستان کو ایک اچھا دوست کہہ دیا، مقصد پورا ہوا تو فورا ہم کون اور تم کون کا فارمولا لگادیا۔
۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اس ميں کوئ شک نہيں کہ کسی بھی دوسرے ملک کی طرح امريکہ اور پاکستان کے مابين تعلقات بھی گزشتہ چند دہائيوں کے دوران متوقع نشيب وفراز اور تغير وتبدل کے عمل سے گزرے ہيں۔ ليکن يہ نہيں بھولنا چاہیے کہ امريکہ سميت کوئ بھی ملک اپنی مرضی اور زور بازو کی بنياد پر دوسرے فريق کی تائيد اور مرضی کے بغیر تعلقات کی نوعيت نہ تو مسلط کر سکتا ہے اور نہ ہی اس کی نوعيت کا تعين کر سکتا ہے۔ حقيقت يہ ہے کہ انتہائ برے حالات کے دوران بھی امريکہ نے کبھی بھی پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع نہيں کيے۔ اس ليے يہ الزام لگانا کہ امريکہ نے پاکستان کو محض ضرورت پڑے پر استعمال کيا ہے نا صرف يہ کہ غلط ہے بلکہ جذباتيت پر مبنی ايسی تکرار ہے جو کافی حد تک غير معقول ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
تاریخ: 25 جنوری ، 2015
امریکہ نے ہندوستان کے خلاف کبھی بھی کھل کر پاکستان کی سفارتی حمایت نہیں کی۔۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

جب آپ بھارت کے ليے امريکی تعاون کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہیں تو آپ کو اس پورے خطے ميں امريکہ کی جانب سے اپنے دوستوں اور اتحاديوں کو دی جانے والی امداد اور تعاون کا تقابلی جائزہ لينا ہو گا جو کہ غير جانب داری اور توازن کے اصولوں پر مبنی ہے۔

اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکہ بھارت کو ايک دوست اور ديرپا اتحادی سمجھتا ہے بالکل اسی طرح جيسے امريکہ اور پاکستان کے مابين تعلقات کئ دہائيوں سے موجود ہيں۔

عالمی سطح پر دو ممالک کے درميان تعلقات کی نوعيت کا تعين براہراست زمينی حقائق اور مشترکہ اقتصادی اور طويل المدت مفادات اور حکمت عملی کی بنياد پر ہوتا ہے۔ اس تناظر ميں امريکہ، بھارت اور پاکستان کے مابين کے تعلقات ميں کئ نشيب و فراز آئے ہيں۔

بھارت اور پاکستان دو مختلف ممالک ہيں جن کی ضروريات بالکل مختلف ہيں۔ امريکہ ان دونوں ايشيائ ممالک سے ان کے باہمی تنازعات سے قطع نظر مثبت اور دوررس تعلقات کا خواہاں ہے۔ امريکہ کے نزديک اس حوالے سے معاملہ يہ نہيں ہے کہ دونوں ميں سے کسی ايک کا انتخاب کرے۔

پاکستان کی حدود کے اندر کسی دہشت گروہ يا غير رياستی عناصر کی جانب سے بھارت سميت کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کی کوئ بھی کاروائ دونوں ممالک کے تعلقات پر منفی اثرات مرتب کرے گی جس کے نتيجے ميں سارے خطے ميں عدم استحکام کی فضا پيدا ہو گي۔ ايسے واقعات کسی بھی اعتبار سے پاکستان کے مفاد ميں نہیں ہیں۔ حکومت پاکستان اس حقيقت سے آگاہ ہے اور اس بات کی ضرورت کو تسليم کرتی ہے کہ مستقبل ميں ايسے واقعات کی روک تھام کے ليے ہر ممکن اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

آوازِ دوست

محفلین
محمود صاحب آداب ۔ میں جہاں تک امریکی بے اعتنائی اور مطلب براری پر مبنی تعلقات کی وجہ سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ بد قسمتی سے ہمارے اپنے سکےہی کھوٹے ہیں۔ جب امریکہ کا پاکستان میں موجود اپنے پاکستان سے زیادہ امریکہ کے وفاداروں سے حسبِ ضرورت ہڈی ڈال کرکام نکل آتا ہے تواُسے کیا ضرورت پڑی ہے پاکستانی عوام کے لیے خلوص پر مبنی تعلقات قائم کرنےکی۔ غالباً رچرڈ باوچر صاحب کا قولِ سیاہ ہے کہ پاکستانی پیسے کیلئے اپنی ماں بھی بیچ سکتے ہیں۔ سارے پاکستانی ایسے نہیں ہیں مگر جن سے اُن کا واسطہ رہا اُن کی بابت انہوں نے غلط نہیں کہا بلکہ محض اپنا تجربہ بیان کیا ہے۔ آپ لیفٹینینٹ جنرل (ریٹائرڈ) شاہد عزیز کی کتاب "یہ خاموشی کہاں تک پڑھ لیں"۔ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کی کتاب " ملٹری انکارپوریٹڈ" بھی کافی چشم کشا حقائق بیان کرتی ہے۔ آپ کو ریمنڈ ڈیوس کی با عزت امریکہ روانگی کا احوال ابھی نہیں بھولا ہو گا جب ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے تھے محمود و ایاز اور بندہ ریمنڈ ڈیوس تھا اورسب بندہ نواز۔ سنوڈن کے انکشافات نے دنیا کو حیران کیا ہو تو کیا ہویہاں تو سب پہلے ہی کہتے ہیں جوغلط کام کرواتا ہے امریکہ کرواتا ہے۔ مگر یاد رہے وہ یہ سب ہمارے درمیان بلکہ صحیح الفاظ میں ہمارے اوپر موجودکالی بھیڑوں سےہی کرواتا ہے۔ اُس ملک کا حشر آپ سمجھ سکتے ہیں جسے اُس کے متاثرہ پڑوسی ملک کا وزیرِ اعظم فون کر کے اطلاع دے کہ اُس کی فوج نے اُن کے ملک پر حملہ کر دیا ہے اور وزیرِ اعظم کی تو بساط کیا نیول اور ائرچیفس بھی بے خبر ہوں۔ اللہ بس باقی ہوس
 

x boy

محفلین
بہت شکریہ
امریکہ سے دوستی بھی مہنگی ، دشمنی بھی۔
بندر کب تک بے مزہ ادرگ کھاتا جائیگا۔
 
جہاں تک امریکی بے اعتنائی اور مطلب براری پر مبنی تعلقات کی وجہ سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ بد قسمتی سے ہمارے اپنے سکےہی کھوٹے ہیں۔ جب امریکہ کا پاکستان میں موجود اپنے پاکستان سے زیادہ امریکہ کے وفاداروں سے حسبِ ضرورت ہڈی ڈال کرکام نکل آتا ہے تواُسے کیا ضرورت پڑی ہے پاکستانی عوام کے لیے خلوص پر مبنی تعلقات قائم کرنےکی۔ غالباً رچرڈ باوچر صاحب کا قولِ سیاہ ہے کہ پاکستانی پیسے کیلئے اپنی ماں بھی بیچ سکتے ہیں۔ سارے پاکستانی ایسے نہیں ہیں مگر جن سے اُن کا واسطہ رہا اُن کی بابت انہوں نے غلط نہیں کہا بلکہ محض اپنا تجربہ بیان کیا ہے۔ آپ لیفٹینینٹ جنرل (ریٹائرڈ) شاہد عزیز کی کتاب "یہ خاموشی کہاں تک پڑھ لیں"۔ آپ کو ریمنڈ ڈیوس کی با عزت امریکہ روانگی کا احوال ابھی نہیں بھولا ہو گا۔

تبصرہ کا شکریہ۔ میں آپکی اس بات سے بلکل متفق ہوں کہ ہمارئے اپنے سکے ہی کھوٹے ہیں لیکن اُن کو کھوٹا کرنے میں بھی امریکہ اور اُسکے حواری ہیں، یہ ایک مخصوص ٹولہ ہوتا ہے لیکن بربادی پوری قوم کی ہوتی ہے ۔ جہاں تک رچرڈباوچر کی بات ہے یہ بات میں پہلے بھی سن چکا ہوں، ہم اپنی ماں کا سودا کرتے ہیں یا نہیں لیکن رچرڈباوچر کو شاید نہ اپنے باپ کا پتہ ہوگا کیونکہ یہ بات شاید اُسکی ماں کو بھی یقین سے معلوم نہ ہو۔آدھا بنکاک رچرڈباوچر کے کزن سے بھرا ہوا ہے، یہ سارئے باسٹرڈ ویتنام کی جنگ کے دوران پیدا ہوئے تھے، باقی ریمنڈڈیوس کا کیس ہماری ایک بدترین حکومت نے ڈیل کیا، ظاہرہے ایسا ہی ہونا تھا۔ لیفٹینینٹ جنرل (ریٹائرڈ) شاہد عزیز کی کتاب "یہ خاموشی کہاں تک" کا آپنے ذکر کیا ہے اس سلسلے عرض ہے کہ اس کتاب کے شایع ہونے اور شاہد عزیز کے ایک ٹی وی انٹرویو کے بعد بھارتی میڈیا نےپاکستان کے خلاف کافی شور مچایا تھا، دوسرں نے بھی شاہد عزیز کی اس کتاب کے بارئے میں لکھا ہے لیکن پاکستان کے تین صحافی حامد میر، انصار عباسی اوراوریا مقبول جان کو جب بھی مشرف یا فوج کے خلاف کچھ لکھنا ہوتا ہے یہ شاہد عزیز کی کتاب "یہ خاموشی کہاں تک" حوالہ لازمی دیتے ہیں۔ حامد میرتو سیدھا سیدھا فوج کے خلاف ہے لیکن اوریا اور انصار عباسی دونوں نہ صرف فوجی ادارئے کے خلاف ہیں بلکہ طالبان دہشتگردوں کے ہمدرد اور ترجمان بھی ہیں۔ شاہد عزیز کی کتاب "یہ خاموشی کہاں تک" اور سیاچن کارگل کے حوالے سے میں نے دو سال قبل مضامین تحریر کیے تھے جنکے نام اورلنک نیچے موجود ہیں پڑھ لیں، شاید آپ مجھ سے متفق ہوجایں۔ ایک مرتبہ آپکا پھر شکریہ۔

نواز شریف صاحب اصل کہانی سیاچن سے شروع ہوتی ہے
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=29339

جنرل شاہد عزیز کا ضمیر بہت دیر سے جاگا
http://www.hamariweb.com/articles/article.aspx?id=29420
 
آخری تدوین:

آوازِ دوست

محفلین
محمود صاحب مجھے خوشی ہے کہ لیفٹینینٹ جنرل (ریٹائرڈ) شاہد عزیزکا ضمیر دیر سے ہی سہی مگر جاگ تو گیا اور اِ س تاخیر کی وجہ بھی فوج کے ڈسپلن اورسنئیر کے آگے یس سر کے علاوہ کچھ نہ کہنے کے ضوابط ہیں۔ شاہدعزیز صاحب نے جوبھیانک صورتِ حال واضح کی ہےوہ ہمارے ابتر حالات کی بنیاد ہے ہم اُس پر کسی بھی جوازکا پردہ ڈالیں گے تو آگے اور بھی زیادہ نقصان ہو گا۔ سیاستدان، فوج، عدلیہ، بیوروکریسی اور زرد صحافت سب وطن کی بربادی کے حصہ دار ہیں اور بے لگام طاقت چونکہ متواتر مارشل لاوں کے طفیل فوج کے پاس رہی سو اُس کے کرپٹ جرنیلوں پرہرمحبِ وطن انگلی اُٹھائےگا۔ ڈوگر کورٹس کو ہر پاکستانی تحقیر کی نظر سے دیکھے گا۔ ناجائز اثاثے کسی بھی سیاستدان کے ہوں قابلِ گرفت اوروطن دشمن حرکت ہی ہوں گے۔ انڈیا ہمیں کیا کہتا ہےہمیں کیا پرواہ لیکن اگر وہ درست کہتا ہے تو اُس کی بات بھی محترم ہے۔ بیوروکریسی کو ایک کالم میں نذیر لغاری صاحب نے پاکستان کی تباہی میں اکیاون فیصد کا حصہ دار قراردیا جو قطعاً غلط نہیں ہے۔ بیوروکریسی نہ چاہے تو سیاستدان ایک روپے کی کرپشن نہیں کر سکتے مگر یہاں سارے سیاسی عمل سے لے کراِن کوآدابِ حکومت سے روشناس کرانے تک اور اِن کی حکومتیں بنانے اور گِرانے تک ہر قدم میں اِسی پردہ نشیں کا موثر ہاتھ ہے۔ جسٹس (ریٹائرڈ) افتخار محمد چوہدری پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔اُنہوں نے انسانی جرات اور استقلال کا نہائت روشن باب رقم کیا ہے۔ اُن کے ناقدین اپنی تنقید میں محض یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کو وہ فرشتہ نہیں ہیں بے شک ایسا ہی ہے مگرجو وہ انسان کر گیا کوئی دوسرا اُس کا نصف بھی کر سکے تو بڑی بات ہو گی۔ جن تین صحافیوں کا آپ ذِکر کرتے ہیں اُن کی صحافت کا معیارتیسیوں صحافیوں سے بہتر ہے کیوں کہ محمود صاحب صرف باکردار اور صاحبِ ہمت لوگ ہی وقت کے بہاو کے مخالف تیرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں ورنہ دوسروں کی تقلید کر کےاپنا حال اور مستقبل سنوارنا بہت آسان ہے۔ صرف اچھی اچھی باتیں کر کے کوئی بھی سب کے لیے اچھا بن سکتا ہے۔ مگر آنے والی نسلیں دانش فروش قبیلےسے سب سے زیادہ نفرت کا اظہارکریں گی۔ اُمید ہےآپ میرے دلائل کو علمی حوالے سے چانچیں گے۔
 

Fawad -

محفلین
میں جہاں تک امریکی بے اعتنائی اور مطلب براری پر مبنی تعلقات کی وجہ سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ بد قسمتی سے ہمارے اپنے سکےہی کھوٹے ہیں۔ جب امریکہ کا پاکستان میں موجود اپنے پاکستان سے زیادہ امریکہ کے وفاداروں سے حسبِ ضرورت ہڈی ڈال کرکام نکل آتا ہے تواُسے کیا ضرورت پڑی ہے پاکستانی عوام کے لیے خلوص پر مبنی تعلقات قائم کرنےکی۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

محترم آواز دوست

آپ نے امريکہ کی پاکستان کی عوام کے ساتھ بے اعتنائ کے حوالے سے جو رائے دی ہے، اس ضمن ميں صدر اوبامہ کا ايک بيان پيش ہے جو انھوں نے اپنی صدرات کے آغاز ميں پاکستان کے حوالے سے ديا تھا۔

ماضی میں ہم نے اکثر پاکستان کے ساتھ اپنے تعلق کو ایک تنگ زاویے سے دیکھا ہے ۔ وہ دِن ختم ہو چکے ہیں۔ آگے کی طرف بڑھتے ہوئے، ہم نے پاکستان کے ساتھ ایسی شراکت داری کا عہد کیا ہے جس کی بنیاد ایک دوسرے کے مفاد، باہم احترام اور باہم اعتماد پر قائم ہے"

کيا ايک اردو فورم پر آپ ہی کی زبان ميں امريکی وزارت خارجہ کے ترجمان کی حيثيت سے مختلف موضوعات پر آپ لوگوں کی آراء تک براہراست رسائ اور امريکی حکومت کے موقف کی وضاحت اس بات کی غمازی نہيں کرتی کہ امريکی حکومت پاکستان کے لوگوں کے ساتھ بہتر اور مثبت تعلقات کی نا صرف خواہش رکھتی ہے بلکہ اس ضمن ميں مختلف انداز ميں کوششيں بھی کی جاتی ہيں؟

ضروری نہيں ہے کہ فورم پر زير بحث مختلف ايشوز کے حوالے سے کسی بھی درجے ميں ہماری آراء ميں ہم آہنگی يا اتفاق رائے موجود ہو، تاہم آپ يہ دعوی نہيں کر سکتے کہ امريکی حکومت کے پاليسی ساز ادارے دونوں ممالک کے دوران اسٹريجک تعلقات کی نوعيت کے ضمن ميں پاکستانی عوام ميں پائے جانے والے عمومی تاثرات سے بالکل بے خبر ہيں يا انھيں کوئ اہميت ہی نہيں ديتے۔

جہاں تک پاکستان حکومت اور سياست ميں مبينہ امريکی کٹھ پتليوں کے حوالے سے آپ کی بيان کردہ رائے ہے تو اس ضمن ميں آپ سے سوال کرنا چاہوں گا کہ پاکستان ميں سياسی قائدين کے انتخاب کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ کون انھيں وہ مقام دلاتا ہے جہاں وہ ايک عالمی طور پر تسليم شدہ جمہوری طريقہ کار کے عين مطابق پورے ملک کے عوام کی اجتماعی رائے کی ترجمانی کرنے کی پوزيشن ميں ہوتے ہيں؟

يہ امريکہ نہيں بلکہ پاکستان کی عوام ہے جو خود اپنی ليڈرشپ کے ليے ذمہ دار ہيں۔

کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ دو ممالک کے درميان تعلقات بہتر ہو سکتے ہيں اگر ہم اس قياس اور تاثر کی بنياد پر پاکستان کے منتخب جمہوری قائدين کے ساتھ تعلقات منقطع کر ليں کہ ان کے فيصلے اور پاليسياں پاکستان کے عوام کی اکثريت کی ترجمانی نہيں کرتيں؟

اس قسم کی سوچ پاکستان ميں رائے عامہ کے جمہوری عمل کی توہين اور عوامی شعور کی تضحيک کے زمرے ميں آتی ہے کيونکہ پاکستانی عوام کے ووٹوں سے منتخب جمہوری قوتوں کو بغير کسی ثبوت اور فہم کے غير ملکی ايجنٹ قرار ديا جاتا ہے۔

پاکستان کے سياست دانوں اور سياسی جماعتوں پر امريکی تسلط کی فرضی کہانيوں کی بجائے ان کالم نگاروں اور رائے دہندگان کو چاہيے کہ اپنی توجہ مختلف سياسی قوتوں کے سياسی منشوروں اور ان کی سابقہ کارکردگی پر مرکوز کريں تا کہ عوام کی رائے کو درست سمت ميں ڈالنے کے ليے اپنا مثبت کردار ادا کرسکيں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ووٹر کو اپنے جمہوری حق کی قوت سے آگاہی دلائ جائے نا کہ ان بے تکی سازشی کہانيوں کا پرچار کيا جائے کہ کوئ ان ديکھی مرئ قوت پاکستان ميں پيش آنے والے ہر سياسی واقعے کے پيچھے کارفرما ہے۔

آخر ميں اس بات کی نشاندہی کرنا چاہوں گا کہ پاکستان ميں يو ايس ايڈ کے تعاون سے کسی بھی تعميری اور ترقياتی منصوبے پر بعض رائے دہندگان کی جانب سے لامحالہ شکوک وشہبات کے اظہار پر صرف حيرت کا اظہار ہی کيا جا سکتا ہے کيونکہ حقيقت يہ ہے کہ امريکی امداد، ترقياتی منصوبوں اور مختلف حوالوں سے ديے جانے والے فنڈز کے ضمن ميں بارہا ميں نے امريکی موقف واضح کيا ہے کہ ايسے کسی بھی قسم کے منصوبے يا امداد کی ترسيل کے عمل ميں پيش رفت کے ليے متعلقہ پاکستانی حکام کی جانب سے تعاون، رضامندی اور باہم اشتراک لازم و ملزوم ہے

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

آوازِ دوست

محفلین
فواد صاحب یو ایس ایڈ ایک مثبت کاوش ہے۔ پاک امریکہ روابط میں ساری باتیں منفی نہیں ہیں۔ اگرآپ غور کریں تو میں بغیر ووٹ کے حکمرانوں کو پاکستانی مصائب کا زیادہ ذمہ دارسمجھتا ہوں جنہیں ہمیشہ امریکہ کی سپورٹ رہی ہے۔ آپ کا مکالمہ امریکہ کی پاکستانی عوام کی رائے میں دلچسپی ظاہر کرتا ہے۔ یہ ایک نیک شگون ہےمگر ٹھوس عملی اقدامات کیے بغیر پاکستانی رائے عامہ میں بہتری بہت مشکل ہو گی۔ میرا خیال ہے آپ یہ بات مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں
 
Top