وحشی دہشت گردوں کوپاکستان میں برداشت نہیں کیا جائےگا،رفیع عثمانی

پابندی جہاد پر نہیں لگا کرتی اس کی ضرورت کبھی بھی پڑ سکتی ہے ضرورت دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ہے۔
ہم بزعم خود بہت بڑے دانشور بننے کی کوشش کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ شاید ہم سے بہتر بال کی کھال کوئی نہیں اتار سکتا اور دنیا معاملات کو عمومی اور ظاہری نظر سے دیکھتی ہے اور بیوقوف بنتی ہے جبکہ ہم عقلمند اس کی تہہ تک کو پہنچتے ہیں اور سب سمجھتے ہیں۔ لیکن ہم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ اس قدر بزدلانہ کاروائی سے بظاہر کیا ہوا وہی جو یہ سب کرنے والے چاہ رہے ہیں اتنے عرصے سے کہ جہاد بدنام ہو، مجاہد بدنام ہوں، داڑھی بدنام ہو اور طالبان نام کے دہشت گردوں کو مجاہد اور ان کی دہشت گردی کو جہاد کا نام دے کر بے گناہ اور معصوم لوگوں کا قتلِ عام کر کے یہاں تک کے بچوں تک کو بے رحمی سے قتل کر کے وہ اپنے مقاصد میں پوری طرح کامیاب ہیں۔ تہہ تک پہنچنے والے اسی تہہ تک پہنچ رہے ہیں جہاں تک پہنچانے والے چاہتے تھے۔ جن لوگوں کو پچھلے تیس چالیس سال سے اس عظیم مقصد کی باگ دوڑ تھما دی گئی محض دین کے اس اہم ستون کو مسلمانوں کے ذہنوں سے کھرچنے کے لیے وہ کامیابی سے اپنا کام کر رہے ہیں اور آج حقیقتاََ ہر مسلمان جہاد اور مجاہد کو گالی دے رہا ہے کیوں کہ جعلی جہاد اور جعلی مجاہدوں سے وہ مقصد حاصل کر لیا گیا ہے۔ اب وہ یقیناََ بے فکر ہوں گے کہ اب جس ملک پر یلغار کی جائے گی تو اس وطن کی مائیں اپنے بچوں کو لحافوں میں چھپا کر رکھیں گی۔ اب کوئی سینوں سے بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے نہیں لیٹے گا کیوں کہ سینوں سے بم باندھ کر مرنے والوں کی موت کو آلریڈی حرام کی موت قرار دیا جا چکا ہو گا۔ اور پھر قادری صاحب جیسا ایک مولوی اٹھے گا اور فتویٰ دے گا کہ اس غاصب ملک کی افواج پاکستان میں امن قائم کرنے آئی ہوئی ہیں قبضہ کرنے اور حملہ کرنے نہیں اس لیے ان کے خلاف خود کش حملہ کرنا حرام ہے اور ان کے خلاف لڑنا بھی حرام جو لڑے گا اور مرے گا وہ شہید نہیں بلکہ حرام موت مارا ہوا کہلائے گا۔
امریکہ اور اسکے اتحادی اپنے دشمن کو "طالبان" کے نام سے جانتے ہیں اور اس دشمن سے اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ "طالبان" کا لفظ گالی بنا دیا جائے، طالبان کا ایک نہایت ڈراؤنا اور خوفناک تاثر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔
 
پابندی جہاد پر نہیں لگا کرتی اس کی ضرورت کبھی بھی پڑ سکتی ہے ضرورت دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی ہے۔
ہم بزعم خود بہت بڑے دانشور بننے کی کوشش کرتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ شاید ہم سے بہتر بال کی کھال کوئی نہیں اتار سکتا اور دنیا معاملات کو عمومی اور ظاہری نظر سے دیکھتی ہے اور بیوقوف بنتی ہے جبکہ ہم عقلمند اس کی تہہ تک کو پہنچتے ہیں اور سب سمجھتے ہیں۔ لیکن ہم یہ نہیں سمجھ سکتے کہ اس قدر بزدلانہ کاروائی سے بظاہر کیا ہوا وہی جو یہ سب کرنے والے چاہ رہے ہیں اتنے عرصے سے کہ جہاد بدنام ہو، مجاہد بدنام ہوں، داڑھی بدنام ہو اور طالبان نام کے دہشت گردوں کو مجاہد اور ان کی دہشت گردی کو جہاد کا نام دے کر بے گناہ اور معصوم لوگوں کا قتلِ عام کر کے یہاں تک کے بچوں تک کو بے رحمی سے قتل کر کے وہ اپنے مقاصد میں پوری طرح کامیاب ہیں۔ تہہ تک پہنچنے والے اسی تہہ تک پہنچ رہے ہیں جہاں تک پہنچانے والے چاہتے تھے۔ جن لوگوں کو پچھلے تیس چالیس سال سے اس عظیم مقصد کی باگ دوڑ تھما دی گئی محض دین کے اس اہم ستون کو مسلمانوں کے ذہنوں سے کھرچنے کے لیے وہ کامیابی سے اپنا کام کر رہے ہیں اور آج حقیقتاََ ہر مسلمان جہاد اور مجاہد کو گالی دے رہا ہے کیوں کہ جعلی جہاد اور جعلی مجاہدوں سے وہ مقصد حاصل کر لیا گیا ہے۔ اب وہ یقیناََ بے فکر ہوں گے کہ اب جس ملک پر یلغار کی جائے گی تو اس وطن کی مائیں اپنے بچوں کو لحافوں میں چھپا کر رکھیں گی۔ اب کوئی سینوں سے بم باندھ کر ٹینکوں کے نیچے نہیں لیٹے گا کیوں کہ سینوں سے بم باندھ کر مرنے والوں کی موت کو آلریڈی حرام کی موت قرار دیا جا چکا ہو گا۔ اور پھر قادری صاحب جیسا ایک مولوی اٹھے گا اور فتویٰ دے گا کہ اس غاصب ملک کی افواج پاکستان میں امن قائم کرنے آئی ہوئی ہیں قبضہ کرنے اور حملہ کرنے نہیں اس لیے ان کے خلاف خود کش حملہ کرنا حرام ہے اور ان کے خلاف لڑنا بھی حرام جو لڑے گا اور مرے گا وہ شہید نہیں بلکہ حرام موت مارا ہوا کہلائے گا۔
جی اوئے شیرا
یہ کڑوا سچ بول کر جہاد تو آپ نے بھی کردیا
 
امریکہ اور اسکے اتحادی اپنے دشمن کو "طالبان" کے نام سے جانتے ہیں اور اس دشمن سے اپنی شکست کا بدلہ لینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ "طالبان" کا لفظ گالی بنا دیا جائے، طالبان کا ایک نہایت ڈراؤنا اور خوفناک تاثر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے۔
30 اکتوبر 2006 کو باجوڑ کے ایک گاؤں می ایک امریکی میزائل حملے میں ایک مدرسے جو مقامی طالب علموں سے بھرا ہوا تھا 82 افراد مارے گئے۔
ایسے حملے ایسے دہشت گرد تیار کرنے میں معاون ثابت ہوئے جنہوں نے سانحہ پشاور جیسے دلخراش واقعے کی راہ ہموار کی۔
 

باباجی

محفلین
کیا طالبان کے لیئے بچوں کے بدلے بچے اور لوگوں کو مارنا جائز ہے ؟؟؟؟
کیا وہ ڈرون حملہ پاکستان نے کیا تھا 2006 والا ؟؟؟
طالبان نے کبھی احتجاج نہیں کیا بلکہ دھمکیاں دی اور خود کش بم حملے کیئے
کیا یہ ٹھیک کیا طالبان نے ؟؟؟
ڈرون حملہ تو امریکہ کرتا ہے تو طالبان امریکہ جا کر بدلہ کیوں نہیں لیتے ؟؟
طالبان کی کسی بھی حرکت کے لیئے کوئی بھی جواز جائر نہیں ہے سب لولے لنگڑے بہانے ہیں صاحب اور یہ مفتی صاحبان اور علماء صرف اپنی "چڈی" بچانے کے لیئے ایسے بیان دے رہے ہیں ورنہ پھانسی کی سزا سے پابندی ہٹ جانے کے بعد ان کی دھڑکنیں سست ہوگئی ہیں
 
کیا طالبان کے لیئے بچوں کے بدلے بچے اور لوگوں کو مارنا جائز ہے ؟؟؟؟
کیا وہ ڈرون حملہ پاکستان نے کیا تھا 2006 والا ؟؟؟
طالبان نے کبھی احتجاج نہیں کیا بلکہ دھمکیاں دی اور خود کش بم حملے کیئے
کیا یہ ٹھیک کیا طالبان نے ؟؟؟
ڈرون حملہ تو امریکہ کرتا ہے تو طالبان امریکہ جا کر بدلہ کیوں نہیں لیتے ؟؟
طالبان کی کسی بھی حرکت کے لیئے کوئی بھی جواز جائر نہیں ہے سب لولے لنگڑے بہانے ہیں صاحب اور یہ مفتی صاحبان اور علماء صرف اپنی "چڈی" بچانے کے لیئے ایسے بیان دے رہے ہیں ورنہ پھانسی کی سزا سے پابندی ہٹ جانے کے بعد ان کی دھڑکنیں سست ہوگئی ہیں
آج طالبان جاہلانہ انتقام کی آگ میں جو کچھ بھی ظلم کر رہے ہیں وہ بالکل جائز نہیں ہے۔ مگر
ان کو انتقام کی اس اندھی آگ میں جھونکنے میں 2006 جیسے ظالمانہ حملوں کا کردار ہے اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔
اسے طرح کے ظلم کی وجہ سے یہ لوگ اب ہم پاکستانیوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگے ہیں پہلے تو 2006 کے واقعے کی ذمہ داری ہماری حکومت نے ہی قبول کی تھی۔
صرف طالبانوں کو دشمن سمجھنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا ۔ ہمارے ملک کو اس آگ میں دھکیلنے والے امریکہ کو بھی صحیح زاویے سے دیکھنا ہوگا۔
 
30 اکتوبر 2006 کو باجوڑ کے ایک گاؤں می ایک امریکی میزائل حملے میں ایک مدرسے جو مقامی طالب علموں سے بھرا ہوا تھا 82 افراد مارے گئے۔
ایسے حملے ایسے دہشت گرد تیار کرنے میں معاون ثابت ہوئے جنہوں نے سانحہ پشاور جیسے دلخراش واقعے کی راہ ہموار کی۔
اس حد تک متفق،کہ طالبان کو اس قسم کے المیوں سے مزید حمایت ملتی ہے اور یہ ان کے لیے ہمدری حاصل کرنے میں کارگر ہیں
 

عثمان

محفلین
30 اکتوبر 2006 کو باجوڑ کے ایک گاؤں می ایک امریکی میزائل حملے میں ایک مدرسے جو مقامی طالب علموں سے بھرا ہوا تھا 82 افراد مارے گئے۔
ایسے حملے ایسے دہشت گرد تیار کرنے میں معاون ثابت ہوئے جنہوں نے سانحہ پشاور جیسے دلخراش واقعے کی راہ ہموار کی۔
اور حسب دستور دہشت گردوں کی حمایت میں بھونڈی تاویلات شروع.
 
اور حسب دستور دہشت گردوں کی حمایت میں بھونڈی تاویلات شروع.
دہشت گردوں کی حمایت نہیں ہو رہی۔ جس وجہ سے دہشت گردوں کو تقویت ملتی ہے وہ وجہ بیان ہورہی ہے۔
اگر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایسے ظلم نا کئے ہوتے تو آج دہشت گردوں کے پاس اتنی مین پاور نا ہوتی جتنی اب ہے۔
 
کچھ لوگوں کا نظریہ یاد رکھا جائے کہ قبائیلیوں کے بچے نا انسان ہوتے ہیں نا معصوم بلکہ جانوروں سے بھی بدتر اسی لئے ان کو کسی میزائل یا کسی اور طریقے سے گاجر مولی کی طرح کاٹ پھینکا جائے تو افسوس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
خاص طور پر جب میزائل امریکی ہو۔
اور ویسے بھی جعلی طالبانوں نے دہشت گردی کر کر کے مندرجہ بالا نظریے پر مہر لگا دی ہے۔ :p
 

عثمان

محفلین
دہشت گردوں کی حمایت نہیں ہو رہی۔ جس وجہ سے دہشت گردوں کو تقویت ملتی ہے وہ وجہ بیان ہورہی ہے۔
اگر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایسے ظلم نا کئے ہوتے تو آج دہشت گردوں کے پاس اتنی مین پاور نا ہوتی جتنی اب ہے۔
آپ وجہ نہیں بلکہ اپنے تئیں دہشت گردوں کو مظلوم بنا کر پیش کر رہے ہیں۔
آپ کی اسی تاویل کی پیروی کی جائے تو انہی دہشت گردوں کے نظریاتی بھائی بندوں کی امریکہ میں کئی گئی دہشت گردی کی وجہ سے ہی امریکہ انہیں سبق سکھانے اس علاقے تک آیا ہے۔
 

عثمان

محفلین
کچھ لوگوں کا نظریہ یاد رکھا جائے کہ قبائیلیوں کے بچے نا انسان ہوتے ہیں نا معصوم بلکہ جانوروں سے بھی بدتر اسی لئے ان کو کسی میزائل یا کسی اور طریقے سے گاجر مولی کی طرح کاٹ پھینکا جائے تو افسوس کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ :p
میں تو اس بات کا قائل ہوں کہ مولوی، مدرسہ اور اس کا پیدا کردہ مذہبی جنونی کلچر سارے فساد کی جڑ ہے۔ مسئلے کا حل ہی یہ ہے کہ انہیں معاشرے سے اکھاڑ پھینکا جائے۔

اور ویسے بھی جعلی طالبانوں نے دہشت گردی کر کر کے مندرجہ بالا نظریے پر مہر لگا دی ہے۔ :p
اوپر آپ نے دہشت گردوں کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے ایک عدد تاویل تراشی۔ اب ان دہشت گردوں کو ہی جعلی ثابت کرنے کے درپے ہیں۔ آپ پہلے فیصلہ کر لیجیے کہ آپ کا موقف آخر ہے کیا ؟
 
آپ وجہ نہیں بلکہ اپنے تئیں دہشت گردوں کو مظلوم بنا کر پیش کر رہے ہیں۔
دہشت گرد مظللوم نہیں ہوتے۔ جن قبائلی بچوں کو مدرسے میں مارا گیا کیا وہ دہشت گرد تھے؟ یا وہ امریکہ کی اندھی جارحیت کا نشانہ بنے؟ انہی مظالم کا جواز بنا کر دہشت گرد لوگوں کی ہمدردیاں اکٹھی کرکے انہیں گمراہ کرتے ہیں۔ اور اپنی لڑاکا فوج کا حصہ بناتے ہیں۔
اوپر آپ نے دہشت گردوں کو مظلوم ثابت کرنے کے لیے ایک عدد تاویل تراشی۔ اب ان دہشت گردوں کو ہی جعلی ثابت کرنے کے درپے ہیں
نا۔ میں دہشت گردوں کو مظلوم ثابت نہیں کر رہا۔ میں امریکہ کا مظالم گنوا رہا ہوں۔ اگر آپ سب قبائلیوں کو دہشت گرد سمجھتے ہیں یا سب مدرسے میں پڑھنے والوں کو دہشت گرد سمجھتے ہیں تو یہ آپ کا قصور ہے بلکہ غلطی ہے۔
آپ پہلے فیصلہ کر لیجیے کہ آپ کا موقف آخر ہے کیا ؟
میں پاکستان میں طالبان کا نام اختیار کر کے کاروائیاں کرنے والوں کو جعلی طالبان سمجھتا ہوں۔ البتہ وہ دہشت گرد اصلی ہیں۔
اصلی طالبان افغانستان میں ہیں۔
میں جعلی طالبانوں، کے ہاتھوں اور امریکی اور ہر ایک پر کئے جانے والے ظلم کے خلاف ہوں۔
اور یہ مانتا ہوں ہوں کہ پاکستان میں رہنے والے سب پاکستانی انصاف کے حصول کے لئے برابر کا حق رکھتے ہیں۔ اور ہر ایک قانون کے آگے برابر کا جواب دہ ہے۔ چاہے وہ کوئی قبائیلی ہو یا فوجی جرنیل
 

عثمان

محفلین
دہشت گرد مظللوم نہیں ہوتے۔ جن قبائلی بچوں کو مدرسے میں مارا گیا کیا وہ دہشت گرد تھے؟ یا وہ امریکہ کی اندھی جارحیت کا نشانہ بنے؟ انہی مظالم کا جواز بنا کر دہشت گرد لوگوں کی ہمدردیاں اکٹھی کرکے انہیں گمراہ کرتے ہیں۔ اور اپنی لڑاکا فوج کا حصہ بناتے ہیں۔
طویلے کی بلا بندر کے سر ؟
نا۔ میں دہشت گردوں کو مظلوم ثابت نہیں کر رہا۔ میں امریکہ کا مظالم گنوا رہا ہوں۔ اگر آپ سب قبائلیوں کو دہشت گرد سمجھتے ہیں یا سب مدرسے میں پڑھنے والوں کو دہشت گرد سمجھتے ہیں تو یہ آپ کا قصور ہے بلکہ غلطی ہے۔
پاکستان کا مذہبی جنونی طبقہ بشمول اہل مدرسہ طالبان دہشت گردوں کا ہمدرد اور سپورٹر ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے۔

میں پاکستان میں طالبان کا نام اختیار کر کے کاروائیاں کرنے والوں کو جعلی طالبان سمجھتا ہوں۔ البتہ وہ دہشت گرد اصلی ہیں۔
اصلی طالبان افغانستان میں ہیں۔
میں جعلی طالبانوں، کے ہاتھوں اور امریکی اور ہر ایک پر کئے جانے والے ظلم کے خلاف ہوں۔
اور یہ مانتا ہوں ہوں کہ پاکستان میں رہنے والے سب پاکستانی انصاف کے حصول کے لئے برابر کا حق رکھتے ہیں۔ اور ہر ایک قانون کے آگے برابر کا جواب دہ ہے۔ چاہے وہ کوئی قبائیلی ہو یا فوجی جرنیل
آپ اپنے ہاں کے دہشت گردوں سے نفرت کرتے ہیں لیکن دوسروں کے ہاں دہشت گردی مچانے والوں سے ہمدردی۔۔ایسے تضاد پر اور کیا کہا جائے۔
ظالم ظالم ہے۔ چاہے وہ آپ کے ساتھ ظلم کرے یا دوسرے کے ساتھ۔
 
افغان طالبان کو دہشت گرد کہنے کا آپ کے پاس کیا جواز ہے؟ سوائے اس کے کہ وہ امریکی افواج کے دشمن ہیں؟
آپ کی باتوں سے ظاہر ہے کہ آپ مذہبی رجحانات رکھنے والوں کے بارے میں علم کی شدید کمی کا شکار ہیں :)
 

عثمان

محفلین
افغان طالبان کو دہشت گرد کہنے کا آپ کے پاس کیا جواز ہے؟ سوائے اس کے کہ وہ امریکی افواج کے دشمن ہیں؟
افغانستان کی پچھلی دو دہائیوں کی تاریخ اور موجودہ منتخب حکومت کی موجودگی میں بھی افغان طالبان کی دہشت گردی آپ کو نظر نہ آسکی تو میرے دو تبصرے کیا تبدیلی لے آئیں گے۔
مجھے بھی یہ کہنے دیجیے کہ افغان طالبان سے آپ کی ہمدردی محض امریکہ دشمنی کی بنیاد پر ہے۔

آپ کی باتوں سے ظاہر ہے کہ آپ مذہبی رجحانات رکھنے والوں کے بارے میں علم کی شدید کمی کا شکار ہیں :)
مذہبی جنونیوں کے کارنامے تو روز مرہ کی خبریں ہیں۔ مزید معلومات سے مجھے معاف ہی رکھیے۔
 
پاکستان کا مذہبی جنونی طبقہ بشمول اہل مدرسہ طالبان دہشت گردوں کا ہمدرد اور سپورٹر ہے۔ یہ ایک واضح حقیقت ہے۔
جب آپ 'بشمول اہل مدرسہ' کہتے ہیں تو شاید آپ کی نظر میں پاکستان میں موجود مسلکی تفریق نہیں ہوتی۔ پاکستان میں مسلکی تفریق ایک محتاط اندازے کے مطابق کچھ یوں ہے :-
  1. اہل سنت و جماعت (حنفی سنی) یا بریلوی مکتبہ فکر تقریباً 50 فیصد آبادی اور اسی طرح ان کے مدرسوں کی تعداد کم و بیش 6 سے 8 ہزار کے درمیان۔ اس مکتبہ فکر کی صرف ایک تنظیم 'سنی تحریک' (سیاسی جماعت) پر یہ الزامات لگتے آ رہے ہیں کہ وہ مقامی سطح (کراچی) پر کسی نہ کسی طور شدت پسندی کی طرف مائل ہے، لیکن ریاست کے خلاف کوئی شدت پسند کارروائی نہیں۔
  2. اہل تشیع (فقہ جعفریہ) مکتبہ فکر تقریباً 20 فیصد آبادی، ماسوائے سپاہ محمد نامی تنظیم کے، جس کی تمام کارروائیاں سپاہ صحابہ کے خلاف ہیں۔ کسی بھی سطح پر ریاست کے خلاف کوئی شدت پسندی نہیں ۔ ان کے مدارس کی تعداد نامعلوم
  3. اہل سنت والجماعت (حنفی سنی) دیوبندی مکتبہ فکر تقریباً 20 فیصد۔ طالبان، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی نامی تین بڑی شدت پسند تنظیمیں۔ مدرسوں کی تعداد اندازاً 8 سے 10 ہزار کے درمیان۔ اہل تشیع اور ریاست کے خلاف سرگرمیاں
  4. اہل حدیث مکتبہ فکر تقریباً 5 فیصد، جیش محمد اور لشکر طیبہ نامی دو بڑی شدت پسند تنظیمیں۔ کارروائیوں کا ہدف کشمیر اور بھارت۔ ریاست پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں۔ مدرسوں کی تعداد اندزاً 8 سو سے 1 ہزار
اب اگر آپ تمام اہل مدرسہ کو طالبان دہشت گردوں کا ہمدرد اور سپورٹر سمجھتے ہیں تو یقیناً باعث حیرت ہے۔ جبکہ پاکستان کے سب سے بڑے مسلکی فرقے اور ان کے مدرسوں میں کوئی ایک بھی طالبان کا حامی نہیں ملے گا۔
 

عثمان

محفلین
جب آپ 'بشمول اہل مدرسہ' کہتے ہیں تو شاید آپ کی نظر میں پاکستان میں موجود مسلکی تفریق نہیں ہوتی۔ پاکستان میں مسلکی تفریق ایک محتاط اندازے کے مطابق کچھ یوں ہے :-
  1. اہل سنت و جماعت (حنفی سنی) یا بریلوی مکتبہ فکر تقریباً 50 فیصد آبادی اور اسی طرح ان کے مدرسوں کی تعداد کم و بیش 6 سے 8 ہزار کے درمیان۔ اس مکتبہ فکر کی صرف ایک تنظیم 'سنی تحریک' (سیاسی جماعت) پر یہ الزامات لگتے آ رہے ہیں کہ وہ مقامی سطح (کراچی) پر کسی نہ کسی طور شدت پسندی کی طرف مائل ہے، لیکن ریاست کے خلاف کوئی شدت پسند کارروائی نہیں۔
  2. اہل تشیع (فقہ جعفریہ) مکتبہ فکر تقریباً 20 فیصد آبادی، ماسوائے سپاہ محمد نامی تنظیم کے، جس کی تمام کارروائیاں سپاہ صحابہ کے خلاف ہیں۔ کسی بھی سطح پر ریاست کے خلاف کوئی شدت پسندی نہیں ۔ ان کے مدارس کی تعداد نامعلوم
  3. اہل سنت والجماعت (حنفی سنی) دیوبندی مکتبہ فکر تقریباً 20 فیصد۔ طالبان، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی نامی تین بڑی شدت پسند تنظیمیں۔ مدرسوں کی تعداد اندازاً 8 سے 10 ہزار کے درمیان۔ اہل تشیع اور ریاست کے خلاف سرگرمیاں
  4. اہل حدیث مکتبہ فکر تقریباً 5 فیصد، جیش محمد اور لشکر طیبہ نامی دو بڑی شدت پسند تنظیمیں۔ کارروائیوں کا ہدف کشمیر اور بھارت۔ ریاست پاکستان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں۔ مدرسوں کی تعداد اندزاً 8 سو سے 1 ہزار
اب اگر آپ تمام اہل مدرسہ کو طالبان دہشت گردوں کا ہمدرد اور سپورٹر سمجھتے ہیں تو یقیناً باعث حیرت ہے۔ جبکہ پاکستان کے سب سے بڑے مسلکی فرقے اور ان کے مدرسوں میں کوئی ایک بھی طالبان کا حامی نہیں ملے گا۔
بہت خوب! آپ نے خود ہی تمام فرقوں کی دہشت گردی نقطہ بہ نقطہ گنوا دی !
 
Top