تیس نومبر کو کیا ہو گا؟

arifkarim

معطل
Wasal-Mohammad-Khan.jpg
اس وقت وطن عزیزمیں سیاسی درجہ حرارت اپنے انتہاکوچھورہاہے اپوزیشن کے راہنماخصوصاً عمران خان اورشیخ رشیداپنے کارکنوں کے جذبات آسمان پرپہنچانے کیلئے پوری توانائیاں صرف کرنے میں لگے ہوئے ہیں جس کے دوران یہ دونوں راہنمااخلاقیات سے عاری زبان بھی استعمال کررہے ہیں اورملک کے کسی بھی شخص پرالزامات کی بوچھاڑبھی بلاتوقف جاری رکھے ہوئے ہیں اعلی ٰحضرت شیخ رشیدنے اندرون پنجاب دوجلسوں کے دوران جوزبان استعمال کی اورجس طرح پنجابی فلموں کے مولاجٹ طرزپہ انہوں نے اوئے کہہ کراورناسور،کمی کمین اورچورڈاکوکہہ کرحکمرانوں کوپکاراہے اس طرح کی سیاست پاکستان میں پہلے ناپیدتھی اب چونکہ پاکستانی سیاست میں ان حضرات کاطوطی بول رہاہے لہذااب عام پاکستانی کواس طرزتکلم کابھی عادی ہوناچاہئے بہرحال جس قسم کی زبان جلسوں میں استعمال کی جارہی ہے اورجس طرح اپنے کارکنوں کوجلاؤ،گھیراؤ اورآگ لگادوپہ اکسایاجارہاہے اس سے صاف محسوس ہورہاہے کہ 30نومبرکواسلام آبادکیلئے ان راہنماؤں کے ارادے نیک نہیں ہیں اس سے پہلے بھی اگرچہ یہ اسی طرح اشتعال انگیزی کی سیاست کرتے رہے تھے مگراب کے انکے لہجوں میں کچھ شدیدقسم کی سختی درآئی ہے اب لگتاایساہے کہ یہ لوگ مارواورمرجاؤوالی صورتحال کی جانب بڑھناچاہتے ہیں عمران خان کاحکومت کیساتھ جومسئلہ ہے ابھی تک اسکے حل کیلئے ان کی جانب سے کوئی قابلِ عمل تجویزسامنے نہیں آئی وہ جب سے احتجاجی سیاست کوپیارے ہوئے ہیں اس وقت سے یہی ایک راگ الاپ رہے ہیں کہ ہمیں انصاف نہیں ملااس لئے ہم سڑکوں پہ آگئے حالانکہ یہ بات قرینِ قیاس نہیں انصاف کے حصول کیلئے انہوں نے ابھی تک کسی سنجیدگی کامظاہرہ ہی نہیں کیاچارحلقوں کی بات لیکرپہلے انہوں نے اسلام آبادپرچڑھائی کی ،اپنے احتجاج کوپرامن پرامن کہہ کر انکے کارکنوں نے پارلیمنٹ ہاؤس کے تقدس کوپامال کیا پرامن احتجاج میں اپنے ساتھ کرین ،کٹر،پلاس،غلیلیں اوربنٹے لائے گئے اورپھرساری دنیانے ان اشیاء کااستعمال بھی ملاحظہ کیا،ایک نجی ٹی وی کی عمارت پراس دوران چودہ حملے کئے گئے سرکاری ٹی وی پرقبضہ کیاگیا، کھلے عام اعلی ٰپولیس افسران کودھمکیاں دی گئیں تھانوں سے کارکن بزورِ بازوچھڑائے گئے،جس نوجوان پولیس افسرنے انہیں قانون کاسبق پڑھانے کی کوشش کی انہیں سرِ عام تشددکانشانہ بناکراس کے سرپہ شدیدضربیں لگائی گئیں الغرض لاقانونیت کی تمام حدودپھلانگی گئیں مگراسکے ساتھ پرامن احتجاج کاراگ بھی تسلسل کے ساتھ جاری رہاحکومت اورسیکیورٹی اداروں نے مصلحت پسندی سے کام لیااورپوری دنیامیں کم سے کم تسلیم شدہ طاقت آنسوگیس کے استعمال پراکتفاکیاگیاخداکالاکھ لاکھ شکرہے کہ اس پورے احتجاجی دھماچوپڑی میں کوئی بڑاحادثہ رونمانہ ہو ا حالانکہ ان سب کے وقوع پذیرہونے سے پہلے ملک میں پارلیمنٹ موجودتھی اس میں عمران خان کے پاس اچھے خاصے اراکین بھی تھے یہ اپنااحتجاج پارلیمنٹ کے فلورپہ ریکارڈکراسکتے تھے جوکچھ ہوناہے اسی پارلیمنٹ کے اندرسے ہوناہے دھاندلی تحقیقات ہوں ،حکومت کی تبدیلی ہویاکوئی قانون سازی یہ سب پارلیمنٹ کے اندرسے ہی ممکن ہے مگرخان صاحب نے پارلیمنٹ پہ لعنت بھیج کرسڑکوں پرمسائل حل کرنے کی کوشش کی جوکہ ناکام ثابت ہوئی ،رہے شیخ رشیدتویہ صاحب مشرف کے جانے کے بعد’’بیروزگار‘‘ ہوچکے ہیں آصف زرداری اورانکی بیگم کویہ اپنی جوانی میں اتنی گالیاں دے چکے ہیں کہ انہوں نے اسے منہ لگانامناسب نہیں سمجھاجبکہ نوازشریف کی پگڑی بھی انہوں نے مشرف کی خوشامدمیں اس طرح اچھالی کہ اب ان کے پاس بھی شیخ صاحب کیلئے کوئی جگہ نہیں اب شیخ صاحب تحریک انصاف کے کارکنوں کواشتعال دلاکر خونی کھیل کھیلناچاہتے ہیں کبھی انہوں نے راولپنڈی (آرمی ہیڈکوارٹر)میں نوازشریف کی تصویرپر’’کاٹے (235)‘‘ کے نشان کی خوشخبری دی اورکبھی قربانی سے پہلے قربانی سے دل بہلانے کی کوشش کی مگرجب انکی ایک نہیں چلی توانہوں نے عمران خان کے جوشیلے کارکنوں کواشتعال دلانے کی کوشش شروع کردی اپنی جوشِ خطابت میں وہ یہ بھی بھول گئے کہ جنہیں وہ کمی کمین کہہ کرپکاررہے ہیں کبھی یہ بھی انکے ’’باس ‘‘ تھے کبھی انہیں بھی شیخ صاحب نے قبلے کادرجہ دیاتھااورکبھی ان ’’کمی کمینوں‘‘ کے درپربھی شیخ صاحب دن میں کئی مرتبہ ماتھاٹیکتے تھے اورقدم بوسی سے شرف یاب ہوتے تھے مگروہ جوکہتے ہیں کہ سیاست کادل نہیں ہوتا،سیاست کی آنکھیں نہیں ہوتیں اسکی عملی تصویرآج ہم پاکستان میں ملاحظہ کررہے ہیں یہاں آج کل سیاست کے پاس صرف زبان ہوتی ہے جس کی زبان زیادہ الزامات لگائے ،جوزبان زیادہ لوگوں کی پگڑیاں ،دوپٹے اورعزتیں اچھالے وہی کامیاب ترین سیاستدان گرداناجاتاہے اسی زبانی لعن طعن اوردھمکی دھماکوں سے اس ملک کوسنگین خطرات لاحق ہوچکے ہیں احتجاج آپکاحق ہے، خالی خولی الزامات کوبھی ہم نے حق مان لیا ،صحافی اورکالم نگاربھی بکاؤمال ہیں مان لیتے ہیں ،وکلاء بھی بکے ہوئے ہیں ،جج بھی خریدلئے گئے ہیں مان لیااب ان سب کاحل کیاہے؟ یہی کہ30نومبرکوپورے اسلام آبادکوآگ لگادی جائے؟پارلیمنٹ ،ملکی ایوانوں اورحکومتی وریاستی اداروں پردھاوابول کراس ملک کی کونسی خدمت سرانجام دی جاسکتی ہے؟جلاؤگھیراؤکرکے عوام کوکونساحق دلایاجاسکتاہے؟ ان سب سے توملک کی جگ ہنسائی ،بے گناہ اورمعصوم عوام کے جانی ومالی نقصان کے علاوہ بہتری کاکوئی کام انجام نہیں دلایاجاسکتااب بھی وقت ہے خداراہوش کے ناخن لیجئے یہ بات سب کومعلوم ہے کہ دھاندلی کاشورمحض اقتدارپرقبضے کی خواہش کی تکمیل کیلئے مچایاگیاہے عوام کی خدمت یہ ہوگی کہ پارلیمنٹ کے اندرسے آئندہ الیکشن کیلئے اصلاحات کی جائیں ،بلدیاتی الیکشن کروانے کیلئے دباؤڈالاجائے اورمستقبل کے الیکشنزکوسب کیلئے قابلِ قبول بنایاجائے 30نومبرکوآخری احتجاج ریکارڈکرواکردھرنے سمیٹ لئے جائیں لوگوں کوتشددپراکساکرانکی زندگیوں کیساتھ کھلواڑنہ کیاجائے تشدداورجلاؤگھیراؤسے کب مسائل حل ہوئے ہیں اس سے تومسائل بڑھتے ہیں تشددسے مسائل حل ہوتے تودنیاکی ہرجنگ کاخاتمہ مذاکرات کی میزپرنہ ہوتا30نومبرکوبھی حقیقی پرامن احتجاج ،جلسے ،نعروں اورتقریروں کے علاوہ کچھ نہیں ہوناچاہئے ۔
قیصرانی ایچ اے خان لئیق احمد ناصر علی مرزا نایاب کاشفی حسینی انیس الرحمن محمود احمد غزنوی زرقا مفتی صائمہ شاہ عبدالقیوم چوہدری عباس اعوان محمداحمد ابن رضا عمار ابن ضیا منقب سید سید ذیشان خالد محمود چوہدری
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
یہ
دانشوران وطن
پڑھا رہے ہیں وہ سبق
جس سے قائم رہے
چپ چاپ ظلم سہے جانے کی روایت
ان کی جیبیں یونہی زرومال سے بھری رہیں
یہ ڈراتے رہیں بے بس عوام کو
بے بنیاد اندیشوں سےمنظر نامہ سجاتے رہیں
گم نام افواہوں کو پھیلاتے رہیں ۔
تیس نومبر بھی آئے گی سکون سے گزرجائے گی (ان شاءاللہ )
ہم مجبوروں محکوموں مقہوروں کو خواب کچھ نئے دکھلا جائے گی ۔
زرد صحافت گل اپنے کھلا جائے گی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھ سمیت ہم سب پاکستانی بلا تفریق " جیہڑا کپو اوہی لال "
تو کیسے بدل پائے ہم اور ہمارے وطن کی حالت "
بہت دعائیں
 
Top