اسلام آباد (انصار عباسی) حال ہی میں شمالی وزیرستان میں تحریک طالبان پاکستان کی شوریٰ سے ملاقات کرنے والے طالبان کمیٹی کے رکن پروفیسر ابراہیم نے مثبت اشارہ دیا ہے کہ حکومت اور طالبان کمیٹی کی آئندہ ملاقات میں دونوں فریقوں کی جانب سے جنگ بندی کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔ دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر نے کہا کہ طالبان شوریٰ جنگ بندی کی طرف مائل ہے جس کیلئے حکومت کی طرف سے مثبت اشارے کی ضرورت ہے، اگرچہ انہوں نے اس بات کی تفصیلات نہیں بتائیں کہ طالبان قیادت اور ان کے درمیان کیا بات چیت ہوئی لیکن ان کا کہنا تھا کہ طالبان شوریٰ مثبت رائے رکھتی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ معاملات مثبت سمت میں آگے بڑھیں گے اور جلد ہی قوم کو جنگ بندی کی خوشخبری ملے گی۔ پروفیسر ابراہیم مولانا یوسف کے ہمراہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے شمالی وزیرستان سے واپس آئے تھے۔ انہوں نے قبائلی علاقے میں تحریک طالبان پاکستان کی سیاسی شوریٰ سے مذاکرات کیے اور طالبان قیادت کو قیام امن کیلئے حکومتی مطالبات پیش کیے۔ طالبان کی کمیٹی کو ان معاملات کی فہرست بھی دی گئی جن کے حوالے سے طالبان حکومت کی وضاحت چاہتے ہیں۔ اسی دوران یہ معلوم ہوا ہے کہ طالبان نے آئین کے حوالے سے قرآن و سنت کی شقوں کے متعلق اپنے موقف میں نرمی پیدا کردی ہے۔ ایک ذریعے کے مطابق، طالبان کے مطالبات میں یہ بات شامل ہوسکتی ہے کہ آئین کی اسلامی شقوں پر عمل کیا جائے۔ اگرچہ حکومت اور پارلیمنٹ اس بات کی نشاندہی میں درست ہیں کہ پاکستان کا آئین اسلامی ہے اور شریعت کے نفاذ کی راہ ہموار کرتا ہے لیکن مسئلہ آئین میں موجود اسلامی شقوں کے نافذ نہ ہونے کا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ یکے بعد دیگرے آنے والے دور حکومت میں آئین کی بیشتر اسلامی شقوں کی خلاف ورزی ہوتی رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی قانون قرآن و سنت سے متصادم نہیں بنایا جا سکتا لیکن یہاں بھی ایسے قوانین مثلاً ملک کا بینکاری نظام سود کاری کا تحفظ کرتا ہے۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=171339
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=171339