سورج نے اونگھنا شروع کر دیا۔۔۔!!!

ایک وضاحت کر دوں کہ لفظ زمانہ کافی الجھانے والا ہے کہ کائنات کے باہر نہ تو زمانہ ہے اور نہ ہی مکاں۔ یعنی نہ تو کوئی سپیس ہے اور نہ ہی کوئی وقت :)
اسی طرح ہمارے علوم و اصول محض ہماری کائنات کی حد تک ویلڈ ہیں۔ اس کے بعد کیا ہے اور کیا نہیں، کچھ نہیں علم :)
آپ کبھی ورچوئل ذرات کے بارے پڑھئے تو بہت لطف آتا ہے کہ ادھار کی توانائی پر ایک ذرہ پیدا ہوتا ہے اور ادھار چکتا کر کے مر جاتا ہے۔ بعض اوقات اسے اتنا ادھار مل جاتا ہے کہ وہ اپنا پیدائشی ادھار چکتا کرتا ہے اور پھر وجود قائم رکھتا ہے :)
کیا پتہ ہماری پوری کائنات بہت بڑے پیمانے پر یہی کچھ ہو؟ شاید 60 کی دہائی میں سائنس فکش کے مصنفین نے اس سے ملتے جلتے خیال یعنی جس طرح ایٹم کا مرکزہ اور اس کے گرد گھومتے الیکٹران ہوتے ہیں، عین ممکن ہے کہ ہماری کائنات میں ہمارا نظام شمسی دراصل کسی اور کائنات کے ایک ایٹم کے برابر ہو جس میں سورج مرکزہ ہو اور ہمارے سیارے الیکٹران، پر بہت کچھ لکھا :)

متفق۔ اسی لیے میں نے سمجھانے کی غرض سے اسے خلا لکھا دراصل تو وہ "ہونا" کی نفی ہے۔ ہم صرف کائنات کے اندر ہی کا حال جان سکتے ہیں۔ کیونکہ سائنس میں "ہے" کا لفظ کائنات تک محدود ہے۔

میر کا شعر ہے:
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر "جا" جہانِ دیگر تھا
اس شعر میں بہت وسیع مفہوم میں یہ بات واضح ہوتی ہے۔
 
پوچھ کہ کون ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق عطا کرتا ہے یا وہ کون ہے جو کانوں اور آنکھوں پر اختیار رکھتا ہے اور زندہ کو مُردہ سے نکالتا ہے اور مُردہ کو زندہ سے نکالتا ہے اور کون ہے جو نظامِ کائنات کو تدبیر سے چلاتا ہے۔ پس وہ کہیں گے کہ اللّٰہ ۔ تُو کہہ دے کہ پھر کیا تم تقویٰ اختیار نہیں کروگے؟
 
خدا کی موجودگی نظریہ نہیں، ہمارا ایمان ہے میرے بھائی، ہمارا ایمان ہے کہ اللہ ہے ،وہ اللہ ایک ہی ہے۔ اللہ بے احتیاج ہے۔نہ اُس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا۔اور اُس کا کبھی کوئی ہمسر نہیں ہوا۔

ایمان بھی ایک نظریہ ہے۔
 

نایاب

لائبریرین
سب ہی سورج کے اونگھنے کو " اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ " بنا کر کائنات ماہیت و حقیقت پر روشنی ڈال رہے ہیں ۔
سو مجھے بھی کچھ لکھنا چاہیئے ۔۔۔۔۔۔۔۔ سوچ تحریر کرنی چاہیئے ۔
میری کائنات تو میرے بچوں کا ماں ہے ۔ ہم دونوں کا پیار بھی " لا محدود " ہے ۔ کسی پیمانے میں تولا ناپا ہی نہیں جا سکتا ۔
اور یہ کائنات وقت کے ساتھ ساتھ خوب پھیل رہی ہے ۔ اللہ تعالی اس پھیلاؤ کو سدا قائم رکھے آمین
کبھی اکیلا تھا۔ پھر کائنات میں داخلہ ملا ۔ " زمانہ " اپنا اثر دکھانے لگا ۔ اک سے دو ۔۔ دو سے تین ۔ تین سے چار
چار سے پانچ " ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ستارے اور کہکشائیں عدم سے وجود میں لے آیا ۔ ابھی جانے کتنی سورج کتنے چاند کتنے ستارے کتنی کہکشائیں
زمانے کے پردے میں ہیں ۔۔۔۔
سو میں تو یہ ہی جانوں کہ کائنات لامحدود ہے ۔ اور ہر لمحہ " صدائے کن فیکون " گونج رہی ہے اس میں ۔
 
سب ہی سورج کے اونگھنے کو " اونگھتے کو ٹھیلتے کا بہانہ " بنا کر کائنات ماہیت و حقیقت پر روشنی ڈال رہے ہیں ۔
سو مجھے بھی کچھ لکھنا چاہیئے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ سوچ تحریر کرنی چاہیئے ۔
میری کائنات تو میرے بچوں کا ماں ہے ۔ ہم دونوں کا پیار بھی " لا محدود " ہے ۔ کسی پیمانے میں تولا ناپا ہی نہیں جا سکتا ۔
اور یہ کائنات وقت کے ساتھ ساتھ خوب پھیل رہی ہے ۔ اللہ تعالی اس پھیلاؤ کو سدا قائم رکھے آمین
کبھی اکیلا تھا۔ پھر کائنات میں داخلہ ملا ۔ " زمانہ " اپنا اثر دکھانے لگا ۔ اک سے دو ۔۔ دو سے تین ۔ تین سے چار
چار سے پانچ " ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ ستارے اور کہکشائیں عدم سے وجود میں لے آیا ۔ ابھی جانے کتنی سورج کتنے چاند کتنے ستارے کتنی کہکشائیں
زمانے کے پردے میں ہیں ۔۔۔ ۔
سو میں تو یہ ہی جانوں کہ کائنات لامحدود ہے ۔ اور ہر لمحہ " صدائے کن فیکون " گونج رہی ہے اس میں ۔

آمین۔
یقیناً ہم انسان جو جذبات کا مجموعہ ہیں ان کی کائنات حقیقت میں انکے جذبات کی تسکین ہی ہے۔
یہ کائنات لا محدود ہی ہے۔ کیونکہ سائنس اسے نہیں ناپ سکتی۔ ناپنا دور سائنس تو اسکا مشاہدہ ہی نہیں کر سکتی۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میں نے پہلے بھی لکھا کہ سائنس اور مذہب اسی چیز پر انتہائی مختلف انداز سے متفق ہوتے ہیں
مذہب کہتا ہے کہ خوب غور کرو، لیکن تمہاری عقل محدود ہے، تمہیں اس کا شعور نہیں ہو سکتا
سائنس کہتی ہے کہ اس کے سارے قوانین کی حدیں مخصوص ہیں۔ اس لئے آپ ان حدود سے باہر نہیں دیکھ سکتے یا ان سے باہر کی خبر نہیں لا سکتے :)
 
میں نے پہلے بھی لکھا کہ سائنس اور مذہب اسی چیز پر انتہائی مختلف انداز سے متفق ہوتے ہیں
مذہب کہتا ہے کہ خوب غور کرو، لیکن تمہاری عقل محدود ہے، تمہیں اس کا شعور نہیں ہو سکتا
سائنس کہتی ہے کہ اس کے سارے قوانین کی حدیں مخصوص ہیں۔ اس لئے آپ ان حدود سے باہر نہیں دیکھ سکتے یا ان سے باہر کی خبر نہیں لا سکتے :)

ایک قانون تو فکس ہے۔ یعنی:
تم جہاں کہیں بھی ہو، موت تمہیں آ گھیرے گی۔
القران۔

اس قانون سے کوئی نہیں بھاگ سکتا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
ایک قانون تو فکس ہے۔ یعنی:
تم جہاں کہیں بھی ہو، موت تمہیں آ گھیرے گی۔
القران۔

اس قانون سے کوئی نہیں بھاگ سکتا۔
موت کو سائنسی اعتبار سے دیکھا جائے تو بنیادی طور پر ہم بے جان ایٹموں سے مل کر بنے ہیں۔ یعنی اگر آپ ننھی سی چمٹی سے اپنے جسم کا ہر ایٹم الگ الگ کرتے جائیں تو آخر میں ہمارے پاس ڈھیر سارے ایٹم موجود ہوں گے جن میں سے ایک بھی زندہ نہیں ہوگا۔ ہماری زندگی کی حالت میں یہی سارے ایٹم مل کر ہمیں زندہ رکھنے کا جتن کرتے ہیں :)
باقی ہر جاندار مرنے کے بعد بکھرتا ہے اور دروغ برگردن راوی، ہمارے جسم میں لاکھوں ایٹم ہوں گے جو آج سے پچاس یا ساٹھ سال پہلے مرنے والے افراد کے جسم کا حصہ تھے :)
 
موت کو سائنسی اعتبار سے دیکھا جائے تو بنیادی طور پر ہم بے جان ایٹموں سے مل کر بنے ہیں۔ یعنی اگر آپ ننھی سی چمٹی سے اپنے جسم کا ہر ایٹم الگ الگ کرتے جائیں تو آخر میں ہمارے پاس ڈھیر سارے ایٹم موجود ہوں گے جن میں سے ایک بھی زندہ نہیں ہوگا۔ ہماری زندگی کی حالت میں یہی سارے ایٹم مل کر ہمیں زندہ رکھنے کا جتن کرتے ہیں :)
باقی ہر جاندار مرنے کے بعد بکھرتا ہے اور دروغ برگردن راوی، ہمارے جسم میں لاکھوں ایٹم ہوں گے جو آج سے پچاس یا ساٹھ سال پہلے مرنے والے افراد کے جسم کا حصہ تھے :)

درست ہے۔ کمیت سب کی سب موجود ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ بنائی بھی نہیں جاسکتی۔ اس پر طرہ یہ کہ زندگی ہی زندگی کی ابتدا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ایسا وقت بھی تھا کہ جب نہ تو ماس تھا نہ زندگی تھی۔ ان سب کو تخلیق کس نے کیا؟ یہ پہیلی آج تک پہیلی ہے۔
یہ بھی تو سچ ہے کہ تمام دنیا کی عقل مل کر بھی ایک بے جان ماس میں جان نہیں ڈال سکتی۔ یہ نکتہ زندگی میں ارتقاء کی بھی نفی کرتا ہے۔ کیونکہ جب تک ہم یہ معلوم نہ کرلیں کہ پہلی زندگی کہاں سے آئی جب تک کچھ کہنا ممکن نہیں۔
اور انسان ہی پر کیا موقوف! ممکن ہے کہ ہمارے جسم کا کوئی حصہ کبھی کسی گدھے یا خچر کا حصہ ہو۔ :laughing::laughing::laughing:
 

سعادت

تکنیکی معاون
[...]
یہ بھی تو سچ ہے کہ تمام دنیا کی عقل مل کر بھی ایک بے جان ماس میں جان نہیں ڈال سکتی۔ یہ نکتہ زندگی میں ارتقاء کی بھی نفی کرتا ہے۔ کیونکہ جب تک ہم یہ معلوم نہ کرلیں کہ پہلی زندگی کہاں سے آئی جب تک کچھ کہنا ممکن نہیں۔
[...]

زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی، یہ abiogenesis کا موضوع ہے، ارتقا کا نہیں۔ ارتقا کا دائرۂ عمل زندگی کے وجود میں آنے کے بعد شروع ہوتا ہے۔
 
زندگی کی ابتدا کیسے ہوئی، یہ abiogenesis کا موضوع ہے، ارتقا کا نہیں۔ ارتقا کا دائرۂ عمل زندگی کے وجود میں آنے کے بعد شروع ہوتا ہے۔

:):):)
محترم جناب سعادت صاحب۔ :)
آپ کا توجہ دلانے کا بہت شکریہ۔ لیکن میں اپنا مدعا بیان کرنے سے پہلے یہ جاننا چاہونگا کہ زندگی اصل میں کیا ہے؟ جیسا کہ میں نے کہا کہ بے جان ماس میں زندگی ڈالنا ممکن نہیں اس میں میرے خیال میں نے کچھ بھی غلط نہیں کہا۔ اور یہ نکتہ ارتقا کی نفی کرتا بھی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ "ارتقا کا دائرۂ عمل زندگی کے وجود میں آنے کے بعد شروع ہوتا ہے"۔ لیکن کیسے؟ تھوڑی وضاحت فرمائیں۔ :)
ماہی احمد آپ بیالوجی کی طالب علم ہیں اگر میں کہیں غلط ہوں تو مجھے ٹوکیے گا۔
 

سعادت

تکنیکی معاون
:):):)
محترم جناب سعادت صاحب۔ :)
آپ کا توجہ دلانے کا بہت شکریہ۔ لیکن میں اپنا مدعا بیان کرنے سے پہلے یہ جاننا چاہونگا کہ زندگی اصل میں کیا ہے؟ جیسا کہ میں نے کہا کہ بے جان ماس میں زندگی ڈالنا ممکن نہیں اس میں میرے خیال میں نے کچھ بھی غلط نہیں کہا۔ اور یہ نکتہ ارتقا کی نفی کرتا بھی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ "ارتقا کا دائرۂ عمل زندگی کے وجود میں آنے کے بعد شروع ہوتا ہے"۔ لیکن کیسے؟ تھوڑی وضاحت فرمائیں۔ :)
[...]

دیکھیے، ارتقا جانداروں کی آبادیوں میں جینیاتی تبدیلیوں کا نام ہے۔ یہ تبدیلیاں جانداروں کی نسلوں کے درمیان مختلف ذرائع سے پیدا ہوتی ہیں (مثلاً نیچرل سیلیکشن)، اور وقت کے ساتھ ساتھ ان جانداروں میں قابلِ ذکر تغیر پیدا کرتی ہیں۔ نظریۂ ارتقا کہتا ہے کہ زمین پر موجود تمام جانداروں کا مورثِ اعلٰی ایک تھا۔ خود زندگی کی شروعات زمین پر کیسے ہوئی، اس سے ارتقا کو کوئی سروکار نہیں، کیونکہ ارتقا صرف اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ایک مورثِ اعلٰی سے پیدا ہونے والے وارثین اور پھر اُن میں ہونے والی جینیاتی تبدیلیوں نے کس طرح جانداروں کی مختلف النوع فیمیلیز کو جنم دیا۔

زندگی کی ابتدا abiogenesis کا میدان ہے، جہاں سائنسدانوں نے کئی پیچیدہ hypotheses پیش کیے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی ایسا hypothesis سامنے نہیں آیا جس کے حق میں فیصلہ کُن ثبوت موجود ہوں۔ البتہ سائنسی شواہد کے مطابق زمین پر زندگی کا آغاز کم از کم 3.5 بلین سال قبل ہوا تھا۔ آپ نےفرمایا کہ ”بے جان ماس میں زندگی ڈالنا ممکن نہیں“؛ میں اس بات پر سائنسی اعتبار سے روشنی ڈالنے کے قابل ہرگز نہیں ہوں، لیکن شاید آپ کے لیے یہ بات دلچسپی کا باعث ہو گی کہ abiogenesis اُس قدرتی عمل کو کہا جاتا ہے جس کے نتیجے میں بے جان مادے (مثلاً سادہ نامیاتی کمپاؤنڈز) میں زندگی کی پیدائش ہوئی، اور جس میں 3.5 بلین سال قبل کی زمین کی حالت کا بھی اہم حصہ ہے۔

سو جب میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ”ارتقا کا دائرۂ عمل زندگی کے وجود میں آنے کے بعد شروع ہوتا ہے“، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کی ابتدا، اور زندگی کا ارتقا، یہ دونوں سائنسی اعتبار سے مختلف چیزیں ہیں اور ایک دوسرے کی نفی نہیں کرتیں۔

[...]
ماہی احمد آپ بیالوجی کی طالب علم ہیں اگر میں کہیں غلط ہوں تو مجھے ٹوکیے گا۔

یہی گزارش میری بھی ہے۔ :)
 

قیصرانی

لائبریرین
درست ہے۔ کمیت سب کی سب موجود ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ بنائی بھی نہیں جاسکتی۔ اس پر طرہ یہ کہ زندگی ہی زندگی کی ابتدا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ایسا وقت بھی تھا کہ جب نہ تو ماس تھا نہ زندگی تھی۔ ان سب کو تخلیق کس نے کیا؟ یہ پہیلی آج تک پہیلی ہے۔
یہ بھی تو سچ ہے کہ تمام دنیا کی عقل مل کر بھی ایک بے جان ماس میں جان نہیں ڈال سکتی۔ یہ نکتہ زندگی میں ارتقاء کی بھی نفی کرتا ہے۔ کیونکہ جب تک ہم یہ معلوم نہ کرلیں کہ پہلی زندگی کہاں سے آئی جب تک کچھ کہنا ممکن نہیں۔
اور انسان ہی پر کیا موقوف! ممکن ہے کہ ہمارے جسم کا کوئی حصہ کبھی کسی گدھے یا خچر کا حصہ ہو۔ :laughing::laughing::laughing:
اجی حضرت، ابھی تو زندگی کی متفقہ تعریف نہیں ہو پائی :)
 

قیصرانی

لائبریرین
دیکھیے، ارتقا جانداروں کی آبادیوں میں جینیاتی تبدیلیوں کا نام ہے۔ یہ تبدیلیاں جانداروں کی نسلوں کے درمیان مختلف ذرائع سے پیدا ہوتی ہیں (مثلاً نیچرل سیلیکشن)، اور وقت کے ساتھ ساتھ ان جانداروں میں قابلِ ذکر تغیر پیدا کرتی ہیں۔ نظریۂ ارتقا کہتا ہے کہ زمین پر موجود تمام جانداروں کا مورثِ اعلٰی ایک تھا۔ خود زندگی کی شروعات زمین پر کیسے ہوئی، اس سے ارتقا کو کوئی سروکار نہیں، کیونکہ ارتقا صرف اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ایک مورثِ اعلٰی سے پیدا ہونے والے وارثین اور پھر اُن میں ہونے والی جینیاتی تبدیلیوں نے کس طرح جانداروں کی مختلف النوع فیمیلیز کو جنم دیا۔

زندگی کی ابتدا abiogenesis کا میدان ہے، جہاں سائنسدانوں نے کئی پیچیدہ hypotheses پیش کیے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی ایسا hypothesis سامنے نہیں آیا جس کے حق میں فیصلہ کُن ثبوت موجود ہوں۔ البتہ سائنسی شواہد کے مطابق زمین پر زندگی کا آغاز کم از کم 3.5 بلین سال قبل ہوا تھا۔ آپ نےفرمایا کہ ”بے جان ماس میں زندگی ڈالنا ممکن نہیں“؛ میں اس بات پر سائنسی اعتبار سے روشنی ڈالنے کے قابل ہرگز نہیں ہوں، لیکن شاید آپ کے لیے یہ بات دلچسپی کا باعث ہو گی کہ abiogenesis اُس قدرتی عمل کو کہا جاتا ہے جس کے نتیجے میں بے جان مادے (مثلاً سادہ نامیاتی کمپاؤنڈز) میں زندگی کی پیدائش ہوئی، اور جس میں 3.5 بلین سال قبل کی زمین کی حالت کا بھی اہم حصہ ہے۔

سو جب میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ”ارتقا کا دائرۂ عمل زندگی کے وجود میں آنے کے بعد شروع ہوتا ہے“، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کی ابتدا، اور زندگی کا ارتقا، یہ دونوں سائنسی اعتبار سے مختلف چیزیں ہیں اور ایک دوسرے کی نفی نہیں کرتیں۔



یہی گزارش میری بھی ہے۔ :)
مزے کی بات یہ دیکھئے کہ سیلف رپلی کیٹنگ لیکن غیر جاندار پروٹین بھی موجود ہیں جو اپنی کاپیاں بناتی جاتی ہیں، لیکن وہ زندہ شمار نہیں ہوتیں :)
 

سعادت

تکنیکی معاون
[...] جیسا کہ میں نے کہا کہ بے جان ماس میں زندگی ڈالنا ممکن نہیں [...]

اس صفحے پر موجود سوال کا پہلا جواب پڑھیے گا۔ :)

(ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ اس جواب کا آدھے سے زیادہ متن میرے سر کے اوپر سے گزر گیا ہے۔ (ماہی احمد ، کیا آپ کچھ مدد کریں گی؟) جینیاتی اور ارتقائی موضوعات پر کچھ کتابیں عرصے سے میری لسٹ پر موجود ہیں — میرا خیال ہے کہ اب مجھے ان کا مطالعہ شروع کر ہی دینا چاہیے۔)
 

قیصرانی

لائبریرین
کوئی ربط فراہم کریں گے جہاں اس بارے میں مزید پڑھا جا سکے؟ :)
چونکہ مجھے یہ علم نہیں کہ آپ اس طرح کے موضوع پر کتنا کچھ جانتے ہیں، تو کوئی خاص لنک یا کتاب کا حوالہ دینا مشکل لگ رہا ہے۔ تاہم آپ کو بونس میں "مبتدی" سمجھ کر ایک کتاب ریفر کر دیتا ہوں :)
A short history of nearly everything۔ اس کے مصنف ہیں Bill Bryson
 
دیکھیے، ارتقا جانداروں کی آبادیوں میں جینیاتی تبدیلیوں کا نام ہے۔ یہ تبدیلیاں جانداروں کی نسلوں کے درمیان مختلف ذرائع سے پیدا ہوتی ہیں (مثلاً نیچرل سیلیکشن)، اور وقت کے ساتھ ساتھ ان جانداروں میں قابلِ ذکر تغیر پیدا کرتی ہیں۔ نظریۂ ارتقا کہتا ہے کہ زمین پر موجود تمام جانداروں کا مورثِ اعلٰی ایک تھا۔ خود زندگی کی شروعات زمین پر کیسے ہوئی، اس سے ارتقا کو کوئی سروکار نہیں، کیونکہ ارتقا صرف اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ایک مورثِ اعلٰی سے پیدا ہونے والے وارثین اور پھر اُن میں ہونے والی جینیاتی تبدیلیوں نے کس طرح جانداروں کی مختلف النوع فیمیلیز کو جنم دیا۔

زندگی کی ابتدا abiogenesis کا میدان ہے، جہاں سائنسدانوں نے کئی پیچیدہ hypotheses پیش کیے ہیں، لیکن ابھی تک کوئی ایسا hypothesis سامنے نہیں آیا جس کے حق میں فیصلہ کُن ثبوت موجود ہوں۔ البتہ سائنسی شواہد کے مطابق زمین پر زندگی کا آغاز کم از کم 3.5 بلین سال قبل ہوا تھا۔ آپ نےفرمایا کہ ”بے جان ماس میں زندگی ڈالنا ممکن نہیں“؛ میں اس بات پر سائنسی اعتبار سے روشنی ڈالنے کے قابل ہرگز نہیں ہوں، لیکن شاید آپ کے لیے یہ بات دلچسپی کا باعث ہو گی کہ abiogenesis اُس قدرتی عمل کو کہا جاتا ہے جس کے نتیجے میں بے جان مادے (مثلاً سادہ نامیاتی کمپاؤنڈز) میں زندگی کی پیدائش ہوئی، اور جس میں 3.5 بلین سال قبل کی زمین کی حالت کا بھی اہم حصہ ہے۔

سو جب میں یہ عرض کرتا ہوں کہ ”ارتقا کا دائرۂ عمل زندگی کے وجود میں آنے کے بعد شروع ہوتا ہے“، تو اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کی ابتدا، اور زندگی کا ارتقا، یہ دونوں سائنسی اعتبار سے مختلف چیزیں ہیں اور ایک دوسرے کی نفی نہیں کرتیں۔



یہی گزارش میری بھی ہے۔ :)

میرے محترم میری بحث کہ جب تک یہ کہا جائے گا کہ زندگی زندگی کو پیدا کرتی ہے ارتقا ممکن نہیں۔ سائنس کو جو اختیارات ایک بے جان چیز کو جاندار کرنے کے لیے ضروری ہیں وہ انسانی عقل سے باہر ہیں۔ آپ نے فرمایا:
abiogenesis اُس قدرتی عمل کو کہا جاتا ہے جس کے نتیجے میں بے جان مادے (مثلاً سادہ نامیاتی کمپاؤنڈز) میں زندگی کی پیدائش ہوئی،

اگر ہم اسے سچ مان لیں تو بھی بائیو جینیسس جھوٹ ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا:

اور جس میں 3.5 بلین سال قبل کی زمین کی حالت کا بھی اہم حصہ ہے۔

میں ضرور جاننا چاہوں گا کہ زمین کی ایسی کونسی حالت ہے جو سائنس کے مطابق زمین پر زندگی کی ذمہ دار ہے؟

آگے آپ کا ارشاد:
ارتقا جانداروں کی آبادیوں میں جینیاتی تبدیلیوں کا نام ہے

اس بات سے میں اتفاق نہیں کرونگا۔ کیونکہ ارتقا کا مطلب رنگ و صورت بدلنا نہیں۔ ارتقا جینیٹک میوٹیشن کا نام نہیں۔ ارتقا جین میں اضافے کا نام ہے۔ جین میں تبدیلی آج بھی ممکن ہے اور پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔ لیکن اس سے ارتقا کا سچ ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ اب اگر biogenesis سچ ہے تو ارتقا ہو نہیں سکتا۔ اور اگر abiogenesis سچ ہے تو ارتقا ہوگا نہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
میرے محترم میری بحث کہ جب تک یہ کہا جائے گا کہ زندگی زندگی کو پیدا کرتی ہے ارتقا ممکن نہیں۔ سائنس کو جو اختیارات ایک بے جان چیز کو جاندار کرنے کے لیے ضروری ہیں وہ انسانی عقل سے باہر ہیں۔ آپ نے فرمایا:


اگر ہم اسے سچ مان لیں تو بھی بائیو جینیسس جھوٹ ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا:



میں ضرور جاننا چاہوں گا کہ زمین کی ایسی کونسی حالت ہے جو سائنس کے مطابق زمین پر زندگی کی ذمہ دار ہے؟

آگے آپ کا ارشاد:


اس بات سے میں اتفاق نہیں کرونگا۔ کیونکہ ارتقا کا مطلب رنگ و صورت بدلنا نہیں۔ ارتقا جینیٹک میوٹیشن کا نام نہیں۔ ارتقا جین میں اضافے کا نام ہے۔ جین میں تبدیلی آج بھی ممکن ہے اور پہلے بھی ہوتی رہی ہے۔ لیکن اس سے ارتقا کا سچ ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ اب اگر biogenesis سچ ہے تو ارتقا ہو نہیں سکتا۔ اور اگر abiogenesis سچ ہے تو ارتقا ہوگا نہیں۔
آخری پیراگراف کے بارے تو کچھ یوں سمجھ لیجئے کہ جینیٹک رپلی کیشن یعنی کاپی تیار ہونے کے عمل میں غلطی کے امکانات ہوتے ہیں۔ اس لئے کاپی کے عمل کے بعد جانچ ہوتی ہے اور غلطی فوراً ہی کاٹ کر الگ کر دی جاتی ہے اور غلط طور پر تیار شدہ پروٹین ری سائیکل کر دیا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ غلطیاں کسی وجہ سے ضائع ہونے سے بچ جاتی ہیں جس کی وجہ سے میوٹیشن پیدا ہوتی ہے۔ یہ میوٹیشن بعض اوقات اچھی اور اکثر اوقات بری ہوتی ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
اگر ہم اسے سچ مان لیں تو بھی بائیو جینیسس جھوٹ ہوتا ہے۔ آپ نے فرمایا:

میں ضرور جاننا چاہوں گا کہ زمین کی ایسی کونسی حالت ہے جو سائنس کے مطابق زمین پر زندگی کی ذمہ دار ہے؟
سائنس اور مذہب کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ ایک بار بے جان سے زندگی پیدا ہوئی اور پھر زندگی سے زندگی :)
ساڑھے تین ارب سال قبل زمین پر موجود پانی صرف بخارات کی شکل میں تھا اور وہ بھی تیزابی۔ اس وقت آکسیجن کا لیول آج کے لیول سے بہت مختلف ہے۔ اسی طرح درجہ حرارت بھی :)
ویسے یہ بھی ایک تھیوری ہے کہ زمین پر زندگی خلاء میں موجود کسی اور سیارے یا سیارے کے چاند سے بذریعہ شہاب ثاقب آئی ہے :) (جی وہی کہ کھوتا ہی "کھوہ" میں ڈال دیا)
 
Top