خرم شہزاد خرم
لائبریرین
ہو کچھ یوں کہ ابھی میں، ادھار کا موٹرسائیکل اور ہیلمٹ لے کر بائیک پر سوار ہوا ہی تھا۔ ابھی کک نہیں ماری تھی کے موبائل میں نوکیا کی سرکاری بل بجنا شروع ہو گئی۔ جینز کی جیب سے بڑی مشکل سے فون نکالا ، تو کیا دیکھتا ہوں جناب الف نظامی صاحب کی کال ہے۔ میں نے السلام علیکم کیا تو دوسری طرف سے وعلیکم السلام کے فوراَ بعد یہ پوچھا گیا "جناب آپ آ رہے ہیں نا" گویا نظامی صاحب کو ابھی بھی مجھ پر شک تھا کہ شاہد میں نہیں آؤں گا حالانکہ اردو محفل کی کوئی ایسی ملاقات نہیں ہے جس میں مجھے دعوت دی گئی ہو یا مجھے پتہ چلا ہو اور میں بتا کر نا آیا ہوں۔ خیر بتائی گئی جگہ کے بارے میں مجھے پتہ ہیں نہیں تھا کہ یہ ہے کہاں۔ اسلام آباد ہمیشہ میرے لیے ایک اجنبی شہر ہی رہا ہے، میں جتنی دفعہ مرضی یہاں کا چکر لگا لوں لیکن پھر بھی مجھے راستے یاد نہیں رہتے۔ اسی لیے میں نے چلنے سے پہلے اپنے دوست نوید کو فون کیا اور مطلوبہ جگہ کے بارے میں دریافت کیا اور پھر چل پڑا۔ کہا جاتا ہے نا کہ پہنچ جانا اور وقت پر پہنچ جانے میں فرق ہوتا ہے۔ اسی بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے میں نے وقت پر ہی پہنچنے کا ارادہ کیا اور وقت پر ہی پہنچ گیا۔ حبیبی ریسٹورنٹ کو دیکھا، دیکھنے کے بعد اس کے چارواطراف چکر لگائے تین اطراف سے تو حبیبی ریسٹورنٹ ہی تھا لیکن چوتھی طرف سے کچھ اور ہی تھا خیر میں پارکنگ میں پہنچا اور ادھار کی بائیک کو کھڑا کیا سائیڈ لاک لگایا اور اس کے بعد ایک اور لاک جس میں ادھار کے ہیلمٹ کو بھی پھنسا کر لگا دیا۔ گو کے ہیلمٹ ایسا تھا کہ کسی کی اٹھانے کی جرت نا ہوتی لیکن میں نے پھر بھی لاک لگا کر ہیلمٹ کی قیمت میں اضافہ کر دیا۔ وہی کھڑے کھڑے میں نے نظامی صاحب کو فون کیا تو انہوں نے پہلی دفعہ ہی میں مجھے دیکھ لیا اور کہنے لگے پیچھے کی طرف دیکھیں۔ ملاقات ہوئی تو پتہ چلا جناب جلدی میں گھر سے ناشتہ بھی نہیں کر کے آئے۔ لیکن میں تو اچھی طرح ناشتہ کر کے آیا تھا۔ اب ہم دونوں ایسی جگہ پر بیٹھے تھے کہ جب بھی کوئی پارکنگ میں انٹر ہوتا ہمیں نظر آ جاتا لیکن ہم ان کو نظر نا آتے۔ نظامی صاحب نے چائے کا آڈر دے دیا ۔ میں تو چائے پیتا نہیں تھا میرے انکار کے باوجود انہوں نے چائے منگوا لی۔ اسی اثنا میں سر زبیر صاحب بھی تشریف لے آئے۔ جب انہوں نے اپنا سکوٹر روکا تو نظامی صاحب نے ان کو دیکھ لیا میرے دل میں تھا کہ شرارت کی جائے یعنی جب وہ کال کریں گے تو ان کو ہم تھوڑا تنگ کریں گے لیکن نظامی صاحب نے فوراَ ہی اپنا موبائل نکالا اور کال ملا کر مجھے دے دیا کہ سر زبیر صاحب کو بتاؤ ہم کہاں ہیں۔ سر زبیر صاحب صاحب بھی تشریف فرما ہو گے۔ ان کے بعد جب امجد میاں صاحب آئے تو میں نے کہا اب تو شرارت کرنا فرض بنتا ہے۔ سو جب انہوں نے نظامی صاحب کو کال کی تو نظامی صاحب کے ہاتھ سے موبائل میں نے لیے لیا۔ میں نے السلام وعلیکم کیا، تو دوسری طرف سے وعلیکم السلام کے بعد پوچھا گیا کہ جناب کہاں ہیں۔ میں نے کہا سر کون کہاں ہیں۔ تو کہنے لگے الف نظامی صاحب، میں نے کہا جناب آپ نمبر چیک کریں آپ نے غلط نمبر ملا دیا ہے۔ اس پر انہوں نے مجھے ہولڈ کروا کر نمبر دیکھا اور کہنے لگے میرے پاس تو الف نظامی صاحب کا ہی نمبر سیو ہے پھر میں نے کہا نہیں جناب آپ نے غلط نمبر ڈائل کر دیا ہے آپ پھر دیکھیں۔ اس کے بعد امجد میاں داد صاحب نے سوری کر کے فون بند کر دیا۔ اسی وقت باسم میاں اور نرنگ خیال بھی وارد ہو گے۔ پھر میں نے کھڑے ہو کر اشارے سے ان کو مطلوبہ جگہ دیکھا دی جہاں ہم چھپے ہوئے تھے۔اس کے بعد ایک نوجوان ہمارے کچھ قریب ہی کھڑے ہو کر فون کرنے لگے۔ جب انہوں نے فون کان کے ساتھ لگایا تو نظامی صاحب کے موبائل کی گھنٹی بجنا شروع ہو گئی۔ میں نے سوچا شاہد یہ بھی اردو محفل کے کوئی رکن ہونگے۔ نظامی صاحب فون پر بات کرتے رہے اور وہ نوجوان ادھر ادھر دیکھتا رہا پھر مجھے یقین ہو گیا کہ یہ کوئی محفل کا ہی رکن ہے جب انہوں نے ہماری طرف دیکھا تو نظامی صاحب نے جا کر انہوں گلے سے لگایا اور ان کا تعارف کروانا شروع ہو گے۔ جناب ہیکر صاحب ہمارے درمیان موجود تھے۔ میرے علاوہ سب نے چائے کے مزے لیے اور پھر اس کے بعد والی گفتگو نرنگ خیال بھائی آپ کو سنا چکے ہیں۔ باقی کی کہانی اگر تصویری ہو جائے تو میرا خیال ہے چلے گا
آخری تدوین: