ماہرالقادری : قران کی فریاد

سید زبیر

محفلین
قرآن کی فریاد

طاقوں میں سجایا جاتا ہوں ، آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں
تعویذ بنایا جاتا ہوں ، دھودھو کے پلایا جاتا ہوں

جزدان حریر وریشم کے ، اور پھول ستارے چاندی کے
پھر عطر کی بارش ہوتی ہے ، خوشبو میں بسایا جاتا ہوں

جس طرح سے طوطے مینا کو ، کچھ بول سکھاے جاتے ہیں
اس طرح پڑھایا جاتا ہوں ، اس طرح سکھایا جاتا ہوں

جب قول وقسم لینے کے لیے ، تکرار کی نوبت آتی ہے
پھر میری ضرورت پڑتی ہے ، ہاتھوں پہ اُٹھایا جاتا ہوں

دل سوز سے خالی رہتے ہیں ، آنکھیں ہیں کہ نم ہوتی ہی نہیں
کہے کو میں اک اک جلسہ میں ، پڑھ پڑھ کے سنایا جاتا ہوں

نیکی پہ بدی کا غلبہ ہے ، سچائی سے بڑھ کر دھوکا ہے
اک بار ہنسایا جاتا ہوں ، سو بار رولا یا جاتا ہوں

یہ مجھ سے عقیدت کے دعوے ، قانون پہ راضی غیروں کے
یوں بھی مجھے رسوا کرتے ہیں ، ایسے بھی ستایا جاتا ہوں

کس بزم میں مجھ کو بار نہیں ، کس عُرس میں میری دُھوم نہیں
پھر بھی میں اکیلا رہتا ہوں ، مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں

ماہر القادریؒ​
 

نایاب

لائبریرین
اک اچھی نصیحت کی جانب بلاتی تحریر ۔۔۔
یہ فریاد پڑھتے پڑھتے جانے کیوں علامہ صاحب کا کہا " مرد ناداں پہ کلام نرم و نازک بے اثر " یاد آنے لگتا ہے ۔
بہت شکریہ بہت دعائیں محترم سید بھائی
 

تلمیذ

لائبریرین
فی زمانہ قران کریم زیادہ تران ہی باتوں کے لئے استعمال ہو رہا ہے۔اگرچہ اس صحیفۂ پاک کا احترام ہم پر لازم ہے لیکن ساتھ اس کی تعلیمات پرعمل کرنا اس سے زیادہ اہم ہے جس کو ہم بھولے ہوئے ہیں۔
شراکت کے لئے شکر گذاری، جناب۔
 

عاطف بٹ

محفلین
کس بزم میں مجھ کو بار نہیں ، کس عُرس میں میری دُھوم نہیں
پھر بھی میں اکیلا رہتا ہوں ، مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں​
بہت ہی خوبصورت انتخاب ہے۔ بالعموم تمام مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانی مسلمانوں کے قرآن مجید جیسی لازوال کتاب کے ساتھ رویے کی ٹھیک ٹھیک عکاسی۔
شیئر کرنے کے لئے بہت شکریہ سر!
 
بہت خوب بھائی جان ۔یاد آیا جب میں چھوٹا سا تھا غالبا پانچویں یا چھٹی میں اسکو ایکشن سے ایک برے جلسہ میں پڑھا ۔بہت پسند کیا تھا لوگوں نے ۔اب بھی لوگ ملتے ہیں تو اس کا تذکرہ کرتے ہیں ۔آہ وہ بھی کیا زمانہ تھا۔
 

باباجی

محفلین
یہ پڑھ کر ممتاز مفتی کی بات سے متفق ہوں کہ ہم نے لوگوں نے قرآن کو بہت ہی مقدس شے جان کر خود سے دور کردیا ہے طاق میں سجادیا ہے صرف ثواب کی خاطر یا کسی مقصد کی خاطر پڑھا جاتا ہے ۔ حالانکہ یہ Book of life ہے ۔ اسے تو ہماری ٹیبل پر پڑا ہونا چاہیئے کہ ہم اپنے مسائل اور روزمرہ کے اعمال کی جانکاری حاصل کرسکیں
 
Top