حسان خان
لائبریرین
میں کل رات مرحوم ڈاکٹر اسرار احمد کی کتاب 'اسلام اور پاکستان: تاریخی، سیاسی، علمی اور ثقافتی پس منظر' کا مطالعہ کر رہا تھا۔ اُس میں مرحوم نے مولانا مودودی کے اپنے الفاظ کے حوالے سے اُن کی تحریکِ پاکستان سے علیحدگی کی جو دلچسپ وجوہات بیان کی ہے، اُن سے میرے اس نظریے کی مزید تائید ہوتی ہے کہ ہمارے بانی قائدِ اعظم محمد علی جناح (رحمۃ اللہ علیہ) اور مسلم لیگ کی سربراہی میں چلنے والی مسلمانوں کی وطنیت کی تحریک مسلم قوم پرستانہ جذبے کی بنیاد پر تھی نہ کہ ضیاءالحق یا مولویانہ طرز کی دینی نظریاتی بنیادوں پر۔
آئیے اس تحریک سے علیحدگی کی جو دلچسپ وجوہات مولانا مودودی مرحوم نے بیان فرمائی ہیں ہیں وہ انہی کے الفاظ میں پڑھی جائیں:
"پہلی وجہ یہ تھی کہ اس نئی تحریک کے دور میں عامۃ المسلمین کی قیادت و رہنمائی ایک ایسے گروہ کے ہاتھ میں چلی گئی جو دین کے علم سے بے بہرہ ہے اور محض قوم پرستانہ جذبے کے تحت اپنی قوم کے دنیوی مفاد کے لیے کام کر رہا ہے۔ دین کا علم رکھنے والا عنصر اس گروہ میں اتنا بھی نہیں جتنا آٹے میں نمک ہوتا ہے اور اس قدرِ قلیل کو بھی کوئی دخل رہنمائی میں نہیں ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہندوستان میں اس سے پہلے کبھی عام مسلمانوں کا اعتماد علمائے دین سے ہٹ کر اس شدت کے ساتھ غیر دیندار اور ناواقفِ دین رہنماؤں پر نہیں جما تھا۔ میرے نزدیک یہ صورتِ حال اسلام کے لیے وطنی قومیت کی تحریک سے کچھ کم خطرناک نہیں ہے۔ اگر ہندوستان کے مسلمانوں نے دین سے بے بہرہ لوگوں کی قیادت میں ایک بے دین قوم کی حیثیت سے اپنا علیحدہ وجود برقرار رکھا بھی جیسا کہ ٹرکی اور ایران میں برقرار رکھے ہوئے ہیں تو ان کے اس طرح زندہ رہنے میں اور کسی غیر مسلم قومیت کے اندر فنا ہو جانے میں میں آخر فرق ہی کیا ہے؟ ہیرے نے اگر اپنی جوہریت ہی کھو دی تو پھر جوہری کو اس سے کیا دلچسپی کہ وہ کمبخت پتھر کی صورت میں باقی رہے یا منتشر ہو کر خاک میں رل جائے۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ میں نے اس تحریک کے اندر داعیۂ دینی کے بجائے داعیۂ قومی کو بہت زیادہ کارفرما دیکھا۔ اگرچہ ہندوستان کے مسلمانوں میں اسلام اور مسلم قوم پرستی ایک مدت سے خلط ملط ہیں لیکن قریبی دور میں اس معجون کا اسلامی جزو اتنا کم اور قوم پرستانہ جزو اتنا زیادہ بڑھ گیا ہے کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں اس میں نری قوم پرستی ہی قوم پرستی نہ رہ جائے۔ حد یہ ہے کہ ایک بڑے ممتاز لیڈر کو ایک مرتبہ اس امر کی شکایت کرتے ہوئے سنا گیا کہ بمبئی اور کلکتہ کے دولتمند مسلمان اینگلو انڈین فاحشات کے ہاں جاتے ہیں حالانکہ مسلمان طوائفیں ان کی سرپرستی کی زیادہ مستحق ہیں۔ اس حدِ کمال کو پہنچ جانے کے بعد اس مسلم قوم پرستی کے ساتھ مزید رواداری برتنا میرے نزدیک گناہِ عظیم ہے۔"
(مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم - دیباچہ
کتاب کا سالِ طباعت: ۱۹۴۱ء)
آئیے اس تحریک سے علیحدگی کی جو دلچسپ وجوہات مولانا مودودی مرحوم نے بیان فرمائی ہیں ہیں وہ انہی کے الفاظ میں پڑھی جائیں:
"پہلی وجہ یہ تھی کہ اس نئی تحریک کے دور میں عامۃ المسلمین کی قیادت و رہنمائی ایک ایسے گروہ کے ہاتھ میں چلی گئی جو دین کے علم سے بے بہرہ ہے اور محض قوم پرستانہ جذبے کے تحت اپنی قوم کے دنیوی مفاد کے لیے کام کر رہا ہے۔ دین کا علم رکھنے والا عنصر اس گروہ میں اتنا بھی نہیں جتنا آٹے میں نمک ہوتا ہے اور اس قدرِ قلیل کو بھی کوئی دخل رہنمائی میں نہیں ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہندوستان میں اس سے پہلے کبھی عام مسلمانوں کا اعتماد علمائے دین سے ہٹ کر اس شدت کے ساتھ غیر دیندار اور ناواقفِ دین رہنماؤں پر نہیں جما تھا۔ میرے نزدیک یہ صورتِ حال اسلام کے لیے وطنی قومیت کی تحریک سے کچھ کم خطرناک نہیں ہے۔ اگر ہندوستان کے مسلمانوں نے دین سے بے بہرہ لوگوں کی قیادت میں ایک بے دین قوم کی حیثیت سے اپنا علیحدہ وجود برقرار رکھا بھی جیسا کہ ٹرکی اور ایران میں برقرار رکھے ہوئے ہیں تو ان کے اس طرح زندہ رہنے میں اور کسی غیر مسلم قومیت کے اندر فنا ہو جانے میں میں آخر فرق ہی کیا ہے؟ ہیرے نے اگر اپنی جوہریت ہی کھو دی تو پھر جوہری کو اس سے کیا دلچسپی کہ وہ کمبخت پتھر کی صورت میں باقی رہے یا منتشر ہو کر خاک میں رل جائے۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ میں نے اس تحریک کے اندر داعیۂ دینی کے بجائے داعیۂ قومی کو بہت زیادہ کارفرما دیکھا۔ اگرچہ ہندوستان کے مسلمانوں میں اسلام اور مسلم قوم پرستی ایک مدت سے خلط ملط ہیں لیکن قریبی دور میں اس معجون کا اسلامی جزو اتنا کم اور قوم پرستانہ جزو اتنا زیادہ بڑھ گیا ہے کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں اس میں نری قوم پرستی ہی قوم پرستی نہ رہ جائے۔ حد یہ ہے کہ ایک بڑے ممتاز لیڈر کو ایک مرتبہ اس امر کی شکایت کرتے ہوئے سنا گیا کہ بمبئی اور کلکتہ کے دولتمند مسلمان اینگلو انڈین فاحشات کے ہاں جاتے ہیں حالانکہ مسلمان طوائفیں ان کی سرپرستی کی زیادہ مستحق ہیں۔ اس حدِ کمال کو پہنچ جانے کے بعد اس مسلم قوم پرستی کے ساتھ مزید رواداری برتنا میرے نزدیک گناہِ عظیم ہے۔"
(مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم - دیباچہ
کتاب کا سالِ طباعت: ۱۹۴۱ء)