پرانی کتابوں کا اتوار بازار، کراچی، 23 جون 2013

راشد اشرف

محفلین
پرانی کتابوں کا اتوار بازار، کراچی، 23 جون 2013
اتوار بازار سے ملنے والی کتابوں سے منتخب کردہ کل 207 اوراق پر مشتمل پی ڈی ایف کا لنک یہ ہے۔ مذکورہ فائل میں سن 33ء میں علی گڑھ سے شائع ہونے والی خودنوشت "کارنامہ سروری" سے 100 صفحات بھی فائل کے آغاز میں شامل کیے گئے ہیں:


اس مرتبہ ملنے والی کتابوں میں ریڈیو سے وابستہ رہے مظفر حسین کی خودنوشت "عرض و سماع" بھی شامل تھی۔ 384 صفحات پر مشتمل یہ تاریخی خودنوشت 1990 میں کراچی سے شائع ہوئی تھی۔ "عرض و سماع" کو ہم ایک "فراموش کردہ داستان حیات" کہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ اس کتاب کے بارے میں امریکہ میں مقیم بزرگ ادیب اور میرے کرم فرما جناب ابو الحسن نغمی نے فون پر مجھ سے کہا: ’’ کچھ کتابیں کم نصیب ہوتی ہیں، ان کے بارے میں کوئی نہیں جانتا اور وہ وقت کی دھول میں کہیں گم ہوجاتی ہیں،میرے دوست مظفر حسین کی خودنوشت ’عرض و سماع ‘بھی ایسی ہی ایک کتاب ہے۔لیکن یہ آپ کو کہاں سے مل گئی؟ ‘‘
منفرد عنوان کی حامل یہ خودنوشت ریڈیو کے ادارے سے وابستہ رہے دونوں پیروں سے معذور ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جو اتنا تو غیر معروف نہ تھا کہ اس کی دلچسپ داستان حیات شہر کراچی کے اس نابغہ روزگار شخص کے پاس بھی نہ پہنچی ہو جسے خودنوشتوں سے ازحد لگاؤ تھا اور جو شہر میں خودنوشتوں کے سب سے بڑے ذخیرے کا مالک تھا۔ یہ ذکر مشفق خواجہ مرحوم کا ہے۔خواجہ صاحب کے کتب خانے میں عرض و سماع موجود نہیں ہے۔ اسی طرح شہر کی چند معروف لائبریروں میں بھی اس کتاب کی کوئی جلد موجود نہیں ہے۔اردو خونوشتوں پر کیے گئے ایم فل اور پی ایچ ڈی کے بیشتر مقالوں میں اس کا نام کہیں نہیں آیا، آپ بیتیوں پر لکھے گئے تحقیقی مقالے بھی اس بارے میں خاموش ہیں۔ سید مظفر حسین نے بچوں کے لیے تین ناول بھی لکھے تھے، کامران اور بھارتی جاسوس، کامران اور شاہی خنجر اور کامران اور شاہی خزانہ نامی تینوں مشہور ناول، فیروز سنز لاہور نے شائع کیے تھے۔ اس کے علاوہ تراجم میں ربیکا اور حکایات از شیکسپیئر شامل ہیں۔
عرض و سماع برصغیر پاک و ہند کے ایک سابق ریڈیو اور ٹی وی نیوز ریڈر و براڈ کاسٹر کی سرگزشت ہے جو 1942 سے 1982 تک کے ان ا ہم حالات و واقعات کا احاطہ کرتی ہے جن کے چشم دید گواہ نے 19 ستمبر 1943 کو آل انڈیا ریڈیو دہلی سے باقاعدہ ملازمت کا آغاز کیا۔ یہ نصف صدی کا قصہ ہے، دو چار برس کی بات نہیں۔عرض و سماع، نصف صدی کے آل انڈیا ریڈیو، ریڈیو پاکستان اور لاہور ٹی وی کے پروڈیوسروں، ڈرامہ نگاروں و فنکاروں،شاعروں، ادیبوں اور دیگر مشاہیر ادب کی باتوں سے لبریز ہے۔ یہ خودنوشت کسی صورت ریڈیو کے ذوالفقار علی بخاری کی داستان حیات ’سرگزشت‘ سے کم نہیں ۔ہاں یہ ضرور ہے کہ اس میں چھوٹے بخاری کا ذکر کچھ اچھے الفاظ میں نہیں ملتا۔مصنف نے ان کو جس حال میں دیکھا، من و عن بیان کردیا، یوں کہا جائے کہ عرض و سماع میں وہ ’ غلط بخاری ‘ ہی کے طور پر سامنے آتے ہیں، بیجا نہ ہوگا۔
مولانا شبیر احمد عثمانی کے انتقال کا دن مظفر حسین کو بہت عرصے تک یاد رہا۔ کراچی سے شکیل احمد نے مولانا کے انتقال کی خبر ان الفاظ میں نشر کی تھی:
آج سہ پہر کو مولانا شبیر احمد عثمانی کو گولی مار کے قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔
گولی مار، کراچی کا ایک گنجان آباد علاقہ ہے۔
عرض و سماع کے آخری صفحات میں مظفر حسین لکھتے ہیں: ’’ ایک روز میں نے صدر مملکت ضیاء الحق کو اپنی حالت سے مطلع کیا، خط کی رسید تو ملی لیکن جواب نہ آیا۔ ایک زمانے میں بیگم عطیہ عنایت اللہ میرے ساتھ لاہور میں انگریز ی کا پروگرام کرتی تھیں۔وہ معاشرتی فلاح و بہبود کی مشیر تھیں، ان کو خط لکھا لیکن ان کی طرف سے نہ کوئی عطیہ ملا، نہ کوئی عنایت ہوئی۔ ہوسکتا ہے وہ معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے معاشرہ تلاش کرتی رہی ہوں اور فلاح و بہبود کا موقع ہی نہ ملتا ہو البتہ ان کے بیانات ان کی موجودگی کا پتہ دیتے ہیں۔ میں معذور بھی تھا، سفید پوش بھی اور غیرت مند بھی۔آج میں پہلی بار اپنے آپ کو بے حد بے بس ، بے کس اور مجبور محسوس کررہا ہوں۔ میری بیوی اپنی ضروری خرید و فروخت کے لیے میری طرف دیکھتی ہے میں آسمان کی طرف دیکھنے لگتا ہوں کہ اوس سے کر لے فرشتے تک اوپر سے ہی آتے ہیں۔
‘‘
۔عرض و سماع کے ذریعے ایک معذور شخص اپنے قاری کو جینا سکھا گیا۔
حاصل عمرم سہ سخن بیش نیست
خام بدم، پختہ شدم، سوختم
راقم الحروف نے احباب کے لیے یہ دلچسپ خودنوشت انٹرنیٹ پر پیش کی ہے۔ اسے درج ذیل لنک پر پڑھا اور ڈاؤن لوڈ کیا جاسکتا ہے
"کارنامہ سروری" ایک خودنوشت ہے۔ کون جانتا تھا کہ علی گڑھ سے 1933 میں شائع ہونے والی اس کتاب کا اصلی نسخہ ہمیں پورے 80 برس بعد کراچی کے فٹ پاتھ سے ملے گا۔ کتاب کے ایک کونے میں کسی صاحب کے دستخط ہیں جو 19 نومبر 1944 کو کتاب پر ثبت کیے گئے تھے۔
کتاب کی پیشانی پر لکھا مصنف کا نام تو ملاحظہ ہو:
"
عالی جناب سرور الملک سرور الدولہ نواب آغا مرزا بیگ خان ہہادر سرور جنگ مرحوم و مغفور" سابق معتمد پیشی و استاد خاص اعلی حضرت غفران مکان میر محبوب علی خاں آصف جاہ سادس۔
اس قدر طویل اور شاہانہ القابات کے ساتھ انسان مرحوم تو ہوسکتا ہے لیکن اس کا مغفور ہونا اپنی رعایا کے ساتھ کیے گئے حسن سلوک کے ساتھ مشروط ہے۔
یقینا مصنف ایک درمند دل رکھنے والے انسان تھے۔
یہ خودنوشت سرور جنگ کے فرزند نواب ذوالفقار جنگ بہادر نے طبع کراکے شائع کروائی۔
سرور جنگ کی مرزا غالب سے رشتہ داری تھی۔ ان کا بچپن دلی میں گزرا جہاں انہوں نے ایک تہذیب کے عروج و زوال کو بغور دیکھا۔ ایک جگہ مرزا غالب کے بھائی کے بارے میں لکھتے ہیں
:
" مرزا یوسف برادر حقیقی کلاں مرزا اسد اللہ خاں غالب افواج قاہرہ دولت آصفیہ میں نہایت مقتدر عہدے پر سرفراز تھے۔ کسی دشمن نے ایسا جادو کیا یا ایسی دوا کھلائی کہ وہ مجنون ہوگئے اور تاوقت انتقال مجنون رہے۔"
راقم الحروف نے کارنامہ سروری سے 100 سے زائد اوراق کو مذکورہ پی ڈی ایف فائل میں شامل کیا ہے۔ ان میں مصنف کے ابتدائی حالات، سفر حیدرآباد دکن، سفر اورنگ آباد، میرا پہلا تجربہ دربار انگریزی اور میری خدمت کے آخری ایام نامی ابواب شامل ہیں۔
مصنف غدر کے بعد ہانپتے کاپنتے مئی 1872 میں لکھنؤ سے چلے تو اگلے برس کے اوائل میں دکن پہنچے۔ سفر کی صعوبتوں کا احوال مذکورہ بالا باب میں موجود ہے۔ تحریر کی سلاست کے کیا کہنے، ذرا ایک ٹکڑا ملاحظہ تو کیجیے, کہ ڈیڑھ سو برس پہلے بھی حالات ویسے ہی تھے جیسے آج ہیں۔
مقامات منزل مقرر تھے۔ ہر مقام پر سرائیں بنی ہوئی تھیں جن میں بھٹیارے بسے ہوئے تھے۔ ہر روز بھٹیارے اپنی سرائے سے دور تر جا کر مسافروں کو استقبال کرکے لاتے تھھے، آپس میں خوب لڑائیاں ہوتی تھیں۔ ہر بھٹیارا اپنی صفات بیان کرکے مسافروں کو اپنی طرف راغب کرتا تھا۔ مسافر بیچارا ان کی باہم کشمکش میں حیران و پریشان ہوجاتا تھا۔ سرائے کے دروازے مین داخل ہوتے ہی عجیب سماں نظر آتا تھا۔ جدھر دیکھیئے گاڑیاں، بیل، گھوڑے، اونٹ وغیرہ سواریوں کا جھمگٹ ہے۔ درختوں پر جانوروں کا شور و غل، بسیرے کا وقت، بھٹیاروں کی مسافروں کے ساتھ چھین جھپٹ۔ مسافروں کے غول کے غول پکانے ریندھنے کی فکر میں ادھر ادھر دوڑ دھوپ اور غل غپاڑا، گھوڑوں کا ہنہنانا، بیلوں کا ڈکارنا، اونٹوں کا بلبلانا، شام کا رفتہ رفتہ رات ہوجانا، ایک خاص سماں بندھ جاتا تھا۔ بی بھٹیاری کی پکائی ہوئی موٹی موٹی روٹیاں اور کھڑی چھلکوں کی ماش کی دال اس میں بڑا لوندا گھی کا رکھا ہوا۔ روٹیاں بھی گھی سے چپڑی ہوئی۔ تھکے ماندے مسافروں کو وہ مزہ دیتی تھیں کہ بادشاہوں کی اغذیہ لطیفہ بھی ان پر صدقہ کردی جائیں۔"
مصنف حیدرآباد پہنچے تو نظام کے دربار میں ملازمت کی سبیل کی فکر لاحق ہوئی، مراد پوری ہوتے پورے تین برس لگے۔ ان کا پہلا تقرر نظام کے انگریز اتالیق کے مددگار کے طور پر ہوا۔ نظام کے حضور پہلی پیشی کے احوال میں لکھتے ہیں:
کچھ عرصے بعد حضور پرنور برآمد ہوئے تو انہوں نے مجھے طلب کیا۔ چھوٹا سا دلان، چھوٹی سی انگنائی۔ دلان میں مسند بچھی ہوئی۔ اس پر حضور کلاہ زرنگار برسر، انگرکھا دکنی دربر، لمبی لمبی چوٹیاں تا بہ کمر۔ عمر شریف کوئی آٹھ برس کی، جلوہ افروز تھے۔ دو تین مامائیں سفید مثل برف دوپٹوں میں لپٹی ہوئی پس پشت استادہ بڑے میاں اور ان کے بیٹے دست بستہ رو بروئے مسند بیٹھے ہوئے۔ اول لفظ جو حضور نے ارشاد فرمایا یہ تھا کہ "انگریزی بولی کیسی ہوتی ہے۔سناؤ"
میں نے انگریزی میں عرض کیا:
I pray for you highness 's life and prosperity
اس کے بعد فورا برخاست ہوگئے۔
نواب سرور جنگ کی خودنوشت "کارنامہ سروری" شہر حیدرآباد اور نظام حیدرآباد کے دربار کی درست عکاسی کرتی ہے۔
دیگر کتابوں کی تفصیل کچھ یوں ہے:
کارنامہ سروری
خودنوشت
نواب سرور جنگ
ناشر: مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
اشاعت: 1933
عرض و سماع
خودنوشت
مظفر حسین
صفحات: 384
اشاعت: 1990
ذہنی کوفت کا سفر
خودنوشت
کریم الدین احمد
ناشر: آئینہ ادب لاہور
اشاعت: 1988
تخلیقی ادب
اول شمارہ
زیر ادارت: مشفق خواجہ
اشاعت: 1980
شاکر علی-فن اور شخصیت
صفحات: 235
اشاعت: 1982
ناشر: شعبہ تحقیق و مططوعات، پاکستان۔ اسلام آباد
جریدہ کتاب نما، دہلی
مئی 1990
گوشہ مشیر الحق بسلسلہ شہادت
آپ ببتا
خودنوشت
قمر یوسف زئی
اشاعت: 2002
میری زندگی کے 75 سال
خودنوشت
اعجاز الحق قدوسی
اشاعت: 1988
ناشر: مکتبہ اسلوب، کراچی
یاد خزانہ
خودنوشت
جمیل زبیری
اشاعت: 1993
ناشر: مکتبہ دانیال، کراچی
 

تلمیذ

لائبریرین
واہ واہ جناب، دل خوش کردیا راشد اشرف صاحب۔ جزاک اللہ۔
اتوار بازار سے حاصل کردہ کتابیں خود تو خیر ایک تحفہ ہوتی ہی ہیں لیکن ان کے بارے میں آپ کا تحریر کردہ تعارف اور تبصرہ بہت لطف دیتا ہے اور کسی فلم کے ٹریلر کی طرح ان کو پڑھنے کی اشتہا کو فزوں تر کر دیتا ہے۔
'عرض و سماع' میں آپ کے ڈاکومینٹس سے حاصل کر کے پڑھ چکا ہوں۔ اس کے اقتباس دیتے ہوئے آپ نے یہ نہیں لکھا کہ سید مظفر حسین تقسیم کے وقت پاکستان ہجرت کرنےسے قبل شملہ میں ہوٹل بزنس سے وابستہ ایک کروڑ پتی باپ کے فرزند تھے اور مرور زمانہ نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ان کی یہ خود نوشت پڑھ کر زمانے کی بے ثباتی اور مشیت ایزدی کے کرشموں پر یقین پختہ ہو جاتا ہے۔باری تعالے سے ہر وقت دست بدعا رہنا چاہئے کہ کسی کو ایسی آزمائش میں نہ ڈالے۔
آپ بیتیوںمیں ریڈیو اور ٹی وی سے وابستہ شخصیات کے خود نوشت حالات ایک خاص کیف اور معلومات کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ اب تک جن شخصیات کی کتابوں کا مطالعہ کر نے کا موقع مل چکا ہے، ان میں عشرت رحمانی، ذوالفقار بخاری، آغا ناصر، اخلاق احمد دہلوی، اور رضا علی عابدی شامل ہیں۔ اے حمید نے بھی اپنی کئی کتابوں (مثلا 'گلستان ادب کی یادیں') میں ریڈیو سے متعلق کافی لکھا ہے۔

وقت ملنے پر مکمل کتابیں بھی اپنے مجموعے میں شامل فرما کر ممنون کریں۔ اللہ پاک آپ کو خوش رکھے، آمین۔
 

راشد اشرف

محفلین
واہ واہ جناب، دل خوش کردیا راشد اشرف صاحب۔ جزاک اللہ۔
اتوار بازار سے حاصل کردہ کتابیں خود تو خیر ایک تحفہ ہوتی ہی ہیں لیکن ان کے بارے میں آپ کا تحریر کردہ تعارف اور تبصرہ بہت لطف دیتا ہے اور کسی فلم کے ٹریلر کی طرح ان کو پڑھنے کی اشتہا کو فزوں تر کر دیتا ہے۔
'عرض و سماع' میں آپ کے ڈاکومینٹس سے حاصل کر کے پڑھ چکا ہوں۔ اس کے اقتباس دیتے ہوئے آپ نے یہ نہیں لکھا کہ سید مظفر حسین تقسیم کے وقت پاکستان ہجرت کرنےسے قبل شملہ میں ہوٹل بزنس سے وابستہ ایک کروڑ پتی باپ کے فرزند تھے اور مرور زمانہ نے انہیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ان کی یہ خود نوشت پڑھ کر زمانے کی بے ثباتی اور مشیت ایزدی کے کرشموں پر یقین پختہ ہو جاتا ہے۔باری تعالے سے ہر وقت دست بدعا رہنا چاہئے کہ کسی کو ایسی آزمائش میں نہ ڈالے۔
آپ بیتیوںمیں ریڈیو اور ٹی وی سے وابستہ شخصیات کے خود نوشت حالات ایک خاص کیف اور معلومات کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ اب تک جن شخصیات کی کتابوں کا مطالعہ کر نے کا موقع مل چکا ہے، ان میں عشرت رحمانی، ذوالفقار بخاری، آغا ناصر، اخلاق احمد دہلوی، اور رضا علی عابدی شامل ہیں۔ اے حمید نے بھی اپنی کئی کتابوں (مثلا 'گلستان ادب کی یادیں') میں ریڈیو سے متعلق کافی لکھا ہے۔

وقت ملنے پر مکمل کتابیں بھی اپنے مجموعے میں شامل فرما کر ممنون کریں۔ اللہ پاک آپ کو خوش رکھے، آمین۔

تقسیم سے قبل مظفر حسین کے حالات کے بارے میں تفصیلا اپنے اس مضمون میں لکھ چکا ہوں جو سہ ماہی اجرا، کراچی میں گزشتہ برس شائع ہوا تھا، مذکورہ مضمون "عرض و سماع" پر لکھا گیا تھا۔ زیر نظر احوال اسی مضمون سے لیا گیا ہے، طوالت کے خوف سے چند حصے حذف کرنے پڑے۔
ریڈیو سے وابستہ رہے ادیبوں کی خودنوشتیں تمام کی تمام ہی دلچسپ ہیں، جو نام آپ نے لکھے ہیں، وہی مقبول عام کہلائی ہیں۔
 

تلمیذ

لائبریرین
ربط دینے کا بے حد شکریہ۔ میں یہ کالم پڑھ چکا ہو٘ں۔ اورآپ کی پہلے کتاب کےبارے میں بھی ان کا کالم پڑھا تھا۔ ادبی رسالوں کےضمن میں 'الحمرا' کا ذکر انہوں نے نہیں کیا۔ شاید ان کی نظر سے نہیں گذرا۔ اور آپ سے پوچھنا تھا کہ 'معاصر 'کے بارے میں کیا خبر ہے۔ کافی عرصہ سے نہیں آیا۔ یہ بھی میرے خیال میں ایک معیاری ادبی جریدہ ہے۔
 

راشد اشرف

محفلین
ربط دینے کا بے حد شکریہ۔ میں یہ کالم پڑھ چکا ہو٘ں۔ اورآپ کی پہلے کتاب کےبارے میں بھی ان کا کالم پڑھا تھا۔ ادبی رسالوں کےضمن میں 'الحمرا' کا ذکر انہوں نے نہیں کیا۔ شاید ان کی نظر سے نہیں گذرا۔ اور آپ سے پوچھنا تھا کہ 'معاصر 'کے بارے میں کیا خبر ہے۔ کافی عرصہ سے نہیں آیا۔ یہ بھی میرے خیال میں ایک معیاری ادبی جریدہ ہے۔

معاصر ڈیڑھ سال پہلے آیا تھا، اس کے بعد کی خبر نہیں، اب ایسے ہی طویل انتظار کے بعد آیا کرتا ہے
 

راشد اشرف

محفلین
عرض و سماع، زندہ کتابیں کے تحت جولائی 2021 میں فضلی سنز کراچی سے شائع کردی گئی ہے
 
آخری تدوین:
Top