سراج اورنگ آبادی شرابِ شوق پی کر دو جہاں کا جس نے غم بھولا ۔۔۔ ۔ سراج اورنگ آبادی

ش

شہزاد احمد

مہمان
شرابِ شوق پی کر دو جہاں کا جس نے غم بھولا
خیالِ خم افلاطوں و فکر جامِ جم بھولا
صنم کی تیغ پر سیر گلستانِ شہادت ہے
جو کوئی یہاں سرسیتی چلتا نہیں، اس نے قدم بھولا
نہ لاوے ہوش میں ہرگز دمِ عیسی اسے ایک دم
تری تیغِ نگہ کے دم کے دیکھے جس نے دم بھولا
ہر یک نقش قدم کوں بوجھتا ہے پھول کر پھکڑی
گزر تیری گلی میں جو کیا باغِ ارم بھولا
نہیں اٹکا ترے دامِ نگہ میں کون سا وحشی
تری آنکھوں کی وحشت دیکھ کر آہو نے رم بھولا
سراپا سحر ہے موہن کہ جس تصویر لکھنے میں
نہ لا دیدار کی طاقت مصور نے قلم بھولا
نظر کر دیکھ ہر شے مظہر نور الٰہی ہے
سراج اب دیدہء دل سیں صمد دیکھا صنم بھولا
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
مطلع "ٹائپ" ہونے سے رہ گیا ۔۔۔ اگر اس مطلع کے پہلے مصرعہ کو عنوان بنا دیا جائے تو مناسب ہو گا ۔۔۔ اور مطلع کو بھی غزل میں شامل کرنے کی درخواست ہے ۔۔۔ شکریہ
شرابِ شوق پی کر دو جہاں کا جس نے غم بھولا
خیالِ خم افلاطوں و فکر جامِ جم بھولا
 
مطلع "ٹائپ" ہونے سے رہ گیا ۔۔۔ اگر اس مطلع کے پہلے مصرعہ کو عنوان بنا دیا جائے تو مناسب ہو گا ۔۔۔ اور مطلع کو بھی غزل میں شامل کرنے کی درخواست ہے ۔۔۔ شکریہ
شرابِ شوق پی کر دو جہاں کا جس نے غم بھولا
خیالِ خم افلاطوں و فکر جامِ جم بھولا
تدوین کردی ہے جناب
 
Top