بدل پائے جسے تدبیر، وہ تقدیر ہی کیا ہے؟ اور تین قطعات برائے تنقید

شاہد شاہنواز

لائبریرین
اس غزل کے قوافی کچھ عجیب سے ہیں۔ میں انہیں صوتی قافیہ سمجھتا رہا ہوں لیکن بقول مزمل شیخ بسمل یہ غلط ہے۔ سو یہ قافیے بھی درست ہیں یا غلط، تنقید کے ساتھ ساتھ اس حوالے سے بھی رہنمائی کی درخواست ہے۔

بدل پائے جسے تدبیروہ تقدیر ہی کیا ہے؟
ہمیشہ ہو کے رہتاہے، مقدر میں جو لکھا ہے

وہ میدان اپنی مرضی سے مقدر چھوڑ دے جس کو
اسی میدان میں انسان خود قسمت بناتا ہے

دوا ممکن نہیں اس کی، دعا مانگی نہیں جاتی
نکلتی ہی نہیں دل سے محبت نام جس کا ہے

لہو دے کر کیاجاتا ہے روشن جن چراغوں کو
مقدر ان چراغوں کا سدا جلتے ہی رہنا ہے

وہ اپنی سوچ دیوانوں سے بہتر کیوں سمجھتے ہیں؟
خردمندوں نے کب سمجھا جو دیوانوں نے سوچا ہے؟

خزاں کے موسموں سے گل محبت کیوں نہیں کرتے؟
بہار آجائے گلشن میں تو کیونکر پھول کھلتا ہے؟

قدم کو چاند پر رکھ کر بھی انساں یہ نہیں سمجھا
جسے انسان کہتے ہیں، وہ ان چیزوں سے پیارا ہے

سبھی کہتے ہیں سب سے محترم جانوں کی حرمت ہے
لہو پھر بھی نہیں رُکتا، یہ آخر جرم کس کا ہے؟

سڑک دھل ہی گئی لیکن وہ سرخی اب بھی باقی ہے
مرے چاروں طرف آخر یہ کس کا خون بکھرا ہے؟

وہی ہے چار دیواری بھی، چھت بھی قید خانے میں
وہی سب کچھ ہے اس گھر میں جہاں اپنا بسیرا ہے

اب تین قطعات جو میں نے لکھے ہیں، وہ پیش ہیں، بشرطیکہ وہ قطعات کہلانے کے لائق ہوں۔
پہلے میں پہلا مصرع کمزور لگتا ہے مجھے، لیکن یہ فیس بک پر اسی طرح لکھا گیا تھا۔۔۔
بسے وہ ہم سے جا کر دور، کتنے دور؟ پوچھو مت!
صدائے زندگی کا جن کو سوز و ساز ہونا تھا
محبت کی تو پائی ہی نہیں ان کی جھلک شاہد
وہیں پر ختم افسانہ، جہاں آغا ز ہونا تھا
دوسرا یا تو مکمل طور پر درست ہے، یا پورا غلط۔۔۔
اجل کیوں زندگی لگنے لگی ہے ؟
تو اپنی زندگی پر غور کرلے
اگر بھاتی نہیں تجھ کو محبت
محبت چھوڑ دے، کچھ اور کرلے
تیسرا فرمائش پر لکھا گیا کہ آپ اس فتنے پر کیوں نہیں لکھتے جس پر ہر اہل قلم کو آج کے دور میں لکھنا چاہئے۔۔۔ سو یہ اب تک کی تمام کوششوں سے بالکل مختلف ہے، تاہم اس پر شک وزن سے گرنے کا بھی ہے کیونکہ فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن کی تقطیع میرے لیے بعید از فہم ہے۔۔۔
زمانہ ماضی سے بد تر ہے عہد حاضر کا
کہ جس کا سنتے تھے وہ حال سر پہ آپہنچا
صدائیں آنے لگی ہیں کہ جنگ لازم ہے
سنا ہے فتنہ دجال سر پہ آپہنچا

محترم الف عین صاحب
اور محترم محمد یعقوب آسی صاحب
 
جنابِ شاہد شاہنواز صاحب۔
زیرِ نظر غزل کے قوافی کی آپ نے خوب کہی کہ
اس غزل کے قوافی کچھ عجیب سے ہیں۔ میں انہیں صوتی قافیہ سمجھتا رہا ہوں لیکن بقول​
مزمل شیخ بسمل​
یہ غلط ہے۔​

آپ خود اِن کو ’’عجیب سے‘‘ قرار دے رہے ہیں اور مزمل شیخ بسمل صاحب نے اِن کو غلط قرار دیا ہے؟ یقیناً اِس کی کوئی وجہ رہی ہو گی۔ اس پر شیخ صاحب کا استدلال دیکھ کر بات کی جا سکتی ہے۔ آپ کو یہ ’’عجیب سے‘‘ کیوں لگے، اِس کا بھی کوئی سبب تو ہو گا!۔ مناسب سمجھیں تو اسے کھول دیں۔
غزل کے مضامین اور لفظیات پر گفتگو کو مؤخر کرتے ہیں۔ قطعات کو دیکھ لیتے ہیں۔
 
قطعہ بنیادی طور پر ابیات ہی کا مجموعہ ہے۔ غزل میں ایک شعر میں ایک مضمون باندھنے کا تقاضا بہت معروف ہے۔ ایک مضمون ایسا آ گیا کہ ایک شعر میں پورا بیان نہیں ہوتا تو اُس کو دوسرے شعر میں لے جائیں، تیسرے میں لے جائیں۔ اساتذہ کے ہاں غزلوں کے اندر قطعہ بند اشعار ملتے ہیں۔ پھر یوں ہوا کہ قطعہ بذاتِ خود ایک صنفِ شعر قرار پایا۔

بات گویا یوں بنی کہ:
قطعہ اپنی ہیئت میں غزل جیسا ہے (وزن کی پابندی ہے، قافیہ کی پابندی ہے، اور اگر آپ نے رویف اختیار کی ہے تو اُس کی بھی پابندی ہے)۔ قطعہ چونکہ بنا ہی اس لئے کہ دو مصرعوں میں ایک مضمون سمونا مشکل لگا تھا، سو قطعے میں وحدتِ مضمون لازمی قرار پاتی ہے۔ ایک قطعے میں ایک سے زیادہ مضامین لانا مستحسن نہیں ہے۔ کہنا ہو تو ایک اور قطعہ کہہ لیجئے۔
 
شاہد شاہنواز صاحب کے قطعات ۔۔

پہلے میں پہلا مصرع کمزور لگتا ہے مجھے، لیکن یہ فیس بک پر اسی طرح لکھا گیا تھا۔۔۔​
بسے وہ ہم سے جا کر دور، کتنے دور؟ پوچھو مت!​
صدائے زندگی کا جن کو سوز و ساز ہونا تھا​
محبت کی تو پائی ہی نہیں ان کی جھلک شاہد​
وہیں پر ختم افسانہ، جہاں آغا ز ہونا تھا​

پہلے مصرعے میں الفاظ کی در وبست ٹھیک کر لیجئے، ضعف جاتا رہے گا۔ الف عین صاحب لقمہ بنا کر دینے کے قائل نہیں، میں اُن سے متفق ہوں، کہ میاں روٹی خود توڑو! تاہم روٹی پر انگلی پھیر کر یہ بتانے میں کوئی ہرج نہیں جانتا کہ ’’یہاں یہاں تک سے توڑ لو‘‘۔ شاہد شاہنواز صاحب کو بنے بنائے لقموں کی اختیاج بھی نہیں۔
بسے وہ ہم سے جا کر دور، کتنے دور؟ پوچھو مت!
’’کتنے دور‘‘ محاورہ میں نہیں ’’کتنی دور‘‘ بہتر ہے۔ ’’پوچھو مت‘‘ کو الٹ دیجئے۔ سکون بالقوت کی ضرورت نہیں رہتی۔ ’’صدائے زندگی کا سوز و ساز‘‘ میں کچھ کلام ہے۔ صدائے زندگی ہونا تھا، یا زندگی کا سوز و ساز ہونا تھا؟ تیسرے مصرعے میں شاید املاء کی کوئی غلطی ہے؟
محبت کی تو پائی ہی نہیں ان کی جھلک شاہد
’’ان کی‘‘ یا ’’ان میں‘‘؟ یہ آپ پر موقوف ہے۔
ایک اہم بات، فیس بُک پر یا کہیں اور، آپ نے جیسا بھی لکھا تھا؛ اگر آپ اُس سے مطمئن نہیں تو جب چاہے اس میں ترمیم کر لیجئے۔ کسی جگہ ایک کچی بات آپ نے کر دی، چلئے کر دی۔ اس کو جانے دیجئے، بعد میں کہیں پیش کریں تو اس کو سنوار کر پیش کریں یہ آپ کا حق ہے۔ شعر آپ کا ہے، بات آپ کی ہے، جب چاہے اس میں ترمیم کر لیجئے۔ ہاں! البتہ، آپ کا ایک شعر بہت معروف ہو گیا یا آپ کی شناخت بن گیا تو اُس کو بدلنا واقعی مشکل ہوتا ہے۔
 
شاہد شاہنواز صاحب کا یہ قطعہ، اُن کے اپنے ریمارکس کے ساتھ۔


دوسرا یا تو مکمل طور پر درست ہے، یا پورا غلط۔۔۔​
اجل کیوں زندگی لگنے لگی ہے ؟​
تو اپنی زندگی پر غور کرلے​
اگر بھاتی نہیں تجھ کو محبت​
محبت چھوڑ دے، کچھ اور کرلے​

مجھے تو اس میں مسئلہ وحدتِ مضمون کا لگتا ہے۔ دو شعروں میں دو الگ الگ مضمون ہیں اور اپنی اپنی جگہ مکمل ہیں۔ اس کو فردیات میں رکھ لیجئے، کسی مرحلے پر غزل بن گئی تو ٹھیک، نہ بنی تو بھی کوئی قباحت نہیں۔
 
شاہد شاہنواز صاحب اپنے پیش کردہ تیسرے قطعے کے بارے میں رقم طراز ہیں:

تیسرا فرمائش پر لکھا گیا کہ آپ اس فتنے پر کیوں نہیں لکھتے جس پر ہر اہل قلم کو آج کے دور میں لکھنا چاہئے۔۔۔ سو یہ اب تک کی تمام کوششوں سے بالکل مختلف ہے، تاہم اس پر شک وزن سے گرنے کا بھی ہے کیونکہ فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن کی تقطیع میرے لیے بعید از فہم ہے۔۔۔​
زمانہ ماضی سے بد تر ہے عہد حاضر کا​
کہ جس کا سنتے تھے وہ حال سر پہ آپہنچا​
صدائیں آنے لگی ہیں کہ جنگ لازم ہے​
سنا ہے فتنہ دجال سر پہ آپہنچا​

اس قطعے میں اوزان کا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ میں اس کی تقطیع یوں کرتا ہوں ’’فعول فاعلتن فاعلات فاعلتن‘‘ اس میں ’’فاعلتن‘‘ کے مقابل ’’مفعولن‘‘ آ سکتا ہے۔ چھٹے دائرے (دائرہ موتودہ) کی پہلی بحر ’’فاعلات فاعلتن فاعلات فاعلتن‘‘ کا اولین سببِ خفیف ہٹا دیا۔
 
لفظیات پر تھوڑی سی بات کر لی جائے۔

زمانہ ماضی سے بد تر ہے عہد حاضر کا​
کہ جس کا سنتے تھے وہ حال سر پہ آپہنچا​
صدائیں آنے لگی ہیں کہ جنگ لازم ہے​
سنا ہے فتنہ دجال سر پہ آپہنچا​

پہلے مصرعے میں تکرارِ معنوی کسی قدر ثقالت پیدا کر رہی ہے۔ زمانہ اور عہد؟ تیسرا مصرع موجود کی نسبت مضبوط تر ہونا چاہئے تھا، اور چوتھے مصرعے میں ’’سنا ہے‘‘ تیسرے مصرعے کے ’’لازم ہے‘‘ سے میل نہیں کھا رہا۔

اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ ’’دجال‘‘ آج کے دور میں بالخصوص اہم مضمون ہے۔ اس پر شاعری بھی ہونی چاہئے اور ادب کے علاوہ بھی اس کو زیرِ بحث آنا چاہئے۔

دعاؤں کا طالب ہوں۔
 
ارے بھائی!!!!! میں کون ہوتا ہوں اس درست قافیہ کو غلط قرار دینے والا۔
میری بحث اس تھریڈ پر ملاحظہ ہو۔ صوتی قافیہ جائز نہیں یہ میں نے کہا تھا۔ مگر صوتی قافیہ وہ نہیں جسے آپ صوتی سمجھتے ہیں۔ صوتی قافیہ یہ ہوتا ہے جیسا میں نے اس دھاگے میں کہا۔
صوتی قافیہ جیسی اردو میں کوئی چیز نہیں پھر دوبارہ کہتا ہوں. یہ صوتی قافیہ نہیں.
صوتی قافیہ ہوتا ہے جیسے:
آپ کا قافیہ آب,
طاق کا قافیہ جھانک,
راگ کا قافیہ خاک وغیرہ.
یعنی ملتے جلتے حروف کو قافیہ کرنا.
قاف اور کاف کو,
ب اور پ کو,
ت اور ط کو,
سین اور ص کو.
یہ صوتی قافیہ ہے. مگر یہ جائز نہیں. بہت زیادہ معیوب اور نفرت آمیز ہے.
میں صوتی قافیہ کو غلط کہتا ہوں مگر آپ جسے صوتی کہتے ہیں وہ صوتی قافیہ نہیں بڑے بھائی۔ :)

آگے دیکھیں میں نے اس استعمال شدہ قافیہ کے حوالے سے سارہ بشارت گیلانی صاحبہ کو کیا کہا ہے۔:
پہلے شعر میں ملنا کے ساتھ اتنا قافیہ کریں۔ پھر یہ سب بھی استعمال کرسکتی ہیں۔ مگر ہلنا اور ملنا کو پہلے شعر میں رکھ کر باقی قوافی غلط ہونگے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ پہلے شعر میں ”اتنا“ اور ”جتنا“ قافیہ کریں پھر باقی اشعار میں اوپر لکھے سب قوافی استعمال کریں۔
یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلے شعر میں ”اتنا“ اور ”ایسا“ قافیہ رکھیں باقی اشعار میں کوئی بھی ایسا قافیہ جو الف پر ختم ہو لے آئیں۔ :)
میں تو اس قافیہ کے حق میں آپ کو دلائل دے رہا تھا مگر آپ ہی کا دل نہیں ٹھک رہا تھا اسے استعمال کرنے پر۔:)
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
میں صوتی قافیہ کو غلط کہتا ہوں مگر آپ جسے صوتی کہتے ہیں وہ صوتی قافیہ نہیں بڑے بھائی۔
میں نے یہی لکھا ہے کہ اسے صوتی قافیہ کہنا غلط ہے، مگرجس طریقے سے وہ لکھا ہے اس سے مطلب الٹا ہی نکلتا ہے۔۔۔ یہ غلط فہمی پیدا کرنے پر معذرت خواہ ہوں۔۔​
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
جنابِ شاہد شاہنواز صاحب۔
زیرِ نظر غزل کے قوافی کی آپ نے خوب کہی کہ

آپ خود اِن کو ’’عجیب سے‘‘ قرار دے رہے ہیں اور مزمل شیخ بسمل صاحب نے اِن کو غلط قرار دیا ہے؟ یقیناً اِس کی کوئی وجہ رہی ہو گی۔ اس پر شیخ صاحب کا استدلال دیکھ کر بات کی جا سکتی ہے۔ آپ کو یہ ’’عجیب سے‘‘ کیوں لگے، اِس کا بھی کوئی سبب تو ہو گا!۔ مناسب سمجھیں تو اسے کھول دیں۔
غزل کے مضامین اور لفظیات پر گفتگو کو مؤخر کرتے ہیں۔ قطعات کو دیکھ لیتے ہیں۔
عام ڈگر سے ہٹے ہوئے قافیے ہیں جو عموما استعمال نہیں ہوتے۔۔۔شاید۔۔۔​
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
شاہد شاہنواز صاحب کے قطعات ۔۔



پہلے مصرعے میں الفاظ کی در وبست ٹھیک کر لیجئے، ضعف جاتا رہے گا۔ الف عین صاحب لقمہ بنا کر دینے کے قائل نہیں، میں اُن سے متفق ہوں، کہ میاں روٹی خود توڑو! تاہم روٹی پر انگلی پھیر کر یہ بتانے میں کوئی ہرج نہیں جانتا کہ ’’یہاں یہاں تک سے توڑ لو‘‘۔ شاہد شاہنواز صاحب کو بنے بنائے لقموں کی اختیاج بھی نہیں۔
بسے وہ ہم سے جا کر دور، کتنے دور؟ پوچھو مت!
’’کتنے دور‘‘ محاورہ میں نہیں ’’کتنی دور‘‘ بہتر ہے۔ ’’پوچھو مت‘‘ کو الٹ دیجئے۔ سکون بالقوت کی ضرورت نہیں رہتی۔ ’’صدائے زندگی کا سوز و ساز‘‘ میں کچھ کلام ہے۔ صدائے زندگی ہونا تھا، یا زندگی کا سوز و ساز ہونا تھا؟ تیسرے مصرعے میں شاید املاء کی کوئی غلطی ہے؟
محبت کی تو پائی ہی نہیں ان کی جھلک شاہد
’’ان کی‘‘ یا ’’ان میں‘‘؟ یہ آپ پر موقوف ہے۔


ایک اہم بات، فیس بُک پر یا کہیں اور، آپ نے جیسا بھی لکھا تھا؛ اگر آپ اُس سے مطمئن نہیں تو جب چاہے اس میں ترمیم کر لیجئے۔ کسی جگہ ایک کچی بات آپ نے کر دی، چلئے کر دی۔ اس کو جانے دیجئے، بعد میں کہیں پیش کریں تو اس کو سنوار کر پیش کریں یہ آپ کا حق ہے۔ شعر آپ کا ہے، بات آپ کی ہے، جب چاہے اس میں ترمیم کر لیجئے۔ ہاں! البتہ، آپ کا ایک شعر بہت معروف ہو گیا یا آپ کی شناخت بن گیا تو اُس کو بدلنا واقعی مشکل ہوتا ہے۔
بسے وہ ہم سے جا کر دور، کتنی دور؟ مت پوچھو​
ہماری زندگی کا جن کو سوز و ساز ہونا تھا​
محبت کی، تو پائی ہی نہیں ان کی جھلک شاہد​
وہیں پر ختم افسانہ جہاں آغاز ہونا تھا ۔۔۔​
۔۔ کی پر توقف ہے۔۔۔ تیسر ے مصرعے میں ۔۔۔​
 
محبت کی، تو پائی ہی نہیں ان کی جھلک شاہد
اس مصرعے کو دیکھئے ذرا۔ محبت کی تو پھر ان کی جھلک پائی نہیں شاہد
میرا خیال ہے وہ ابہامی کیفیت باقی نہیں رہتی۔
 
قوافی کی بات تو طے ہو چکی۔
مزمل شیخ بسمل صاحب اور شاہد شاہنواز صاحب کا مکالمہ خوب رہا۔ اس غزل کے قوافی کی بات تو طے ہو چکی۔
شاہد صاحب! یہ بہت کھلا قافیہ ہے اور بہت مانوس ہے۔


بدل پائے جسے تدبیروہ تقدیر ہی کیا ہے؟​
ہمیشہ ہو کے رہتاہے، مقدر میں جو لکھا ہے​

مطلع میں اگر مثال کے طور پر ’’سپنا‘‘ اور ’’اپنا‘‘ کے قافیے ہوتے تب لازم ہو جاتا کہ آپ جپنا، کھپنا وغیرہ لاتے۔ یہاں اس غزل میں کوئی ایسی قید نہیں لگ رہی۔

مزید گفتگو بعد میں۔
 

الف عین

لائبریرین
قطعات کو چھوڑ کر غزل کے کچھ اشعار پر بات کرنا شروع کی تھی لیکن انٹر نیٹ دغا دے گیا، مجبورآً کاپی کر کے رکھ ہی نہیں لی، بلکہ مکمل غزل دیکھ لی ہے۔

قافئے کا کوئی سقم نہیں، بالکل درست ہے۔
مجموعی طور پر اس میں کچھ حشو و زوائد کا مسئلہ ہے، لمبی بحر ہے، اس لئے کچھ الفاظ یا فقرے طوالت کا شکار ہیں۔

بدل پائے جسے تدبیروہ تقدیر ہی کیا ہے؟
ہمیشہ ہو کے رہتاہے، مقدر میں جو لکھا ہے

//مطلع کمزور ہے۔ دوسرے مصرع کے فقروں کی ترتیب الٹ دو تو بیانیہ کچھ بہتر ہو جائے۔ اگرچہ خیال کی فرسودگی تو قائم رہے گی ہی۔

وہ میدان اپنی مرضی سے مقدر چھوڑ دے جس کو
اسی میدان میں انسان خود قسمت بناتا ہے

// یہ کون سا میدان ہے؟ جس کو مقدر اپنی مرضی سے چھوڑ دے!!! مطلب سمجھنے سے قاصر ہوں۔

دوا ممکن نہیں اس کی، دعا مانگی نہیں جاتی
نکلتی ہی نہیں دل سے محبت نام جس کا ہے
//دوا تو درست ہے، لیکن محبت کی دعا سے مراد؟ یا اللہ! مجھے کسی سے محبت کروا دے؟؟؟

لہو دے کر کیاجاتا ہے روشن جن چراغوں کو
مقدر ان چراغوں کا سدا جلتے ہی رہنا ہے
//یہ بھی کمزور شعر ہے۔ دوسرے چراغوں کے ساتھ کیا کچھ اور ہوتا ہے؟ یا خصوصیت ’سدا‘ جلنے کی صرف ایسے چراغوں میں ہوتی ہے؟۔

وہ اپنی سوچ دیوانوں سے بہتر کیوں سمجھتے ہیں؟
خردمندوں نے کب سمجھا جو دیوانوں نے سوچا ہے؟
//مفہوم؟

خزاں کے موسموں سے گل محبت کیوں نہیں کرتے؟
بہار آجائے گلشن میں تو کیونکر پھول کھلتا ہے؟
//‘کیونکر‘ کی بجائے ’کیسے‘ ہی لاؤ۔ شعر درست ہے۔

قدم کو چاند پر رکھ کر بھی انساں یہ نہیں سمجھا
جسے انسان کہتے ہیں، وہ ان چیزوں سے پیارا ہے
//یہاں پہلے مصرع میں ‘کو‘ کی ضرورت نہیں، دوسرے مصرع میں سوال اٹھتا ہے کہ کن چیزوں سے۔ پہلے مصرع میں تو محض چاند پر قدم رکھنا ہی ہے، ایک واحد بات۔

سبھی کہتے ہیں سب سے محترم جانوں کی حرمت ہے
لہو پھر بھی نہیں رُکتا، یہ آخر جرم کس کا ہے؟
//کہو پھر بھی نہیں رکتا‘ کا فقرہ یہاں غلط ہے۔ اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ جیسے کسی ایک شخص کے زخم لگا اور خون ایسا بہا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیا۔ لیکن تمہارا مطلب یہ نہیں ہے، جیسا میں اندازہ کر رہا ہوں۔
مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے قتل کا سلسلہ نہیں رکتا!!

سڑک دھل ہی گئی لیکن وہ سرخی اب بھی باقی ہے
مرے چاروں طرف آخر یہ کس کا خون بکھرا ہے؟
//’دھل ہی گئی‘ ؟۔ اس کی بجائے ’دھل بھی گئی ‘کہو۔ شعر دو لخت لگتا ہے۔ پہلے مصرع سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اتنا خون بہایا گیا کہ سڑک کا رنگ دھوئے جانے پر بھی سرخ ہی رہا۔ لیکن دوسرا یہ کہہ رہا ہے کہ کسی مخصوص شخص کا خون ہے۔ میرے خیال میں اس کو بھی بدلا جائے۔ بلکہ یوں کرو کہ پہلا مصرع ہی یوں ہو
سڑک دھل بھی گئی لیکن لہو کا رنگ باقی ہے
دوسرے میں قتلِ عام کی بات کی جائے، ’سلسلہ کیا ہے‘ پر ختم ہونے والے اس قسم کے مصرع سے۔

وہی ہے چار دیواری بھی، چھت بھی قید خانے میں
وہی سب کچھ ہے اس گھر میں جہاں اپنا بسیرا ہے
یہ شعر بھی کمزور ہے، پہلے مصرع میں لگتا ہے کہ تم قید خانے میں ہی رہ کر بات کر رہے ہو، لیکن دوسرے میں معلوم ہوتا ہے کہ تم اپنے گھر میں ہی ہو، مگر اسے بھی قید خانہ جیسا محسوس کر رہے ہو۔ کم از کم پہلے مصرع میں ماضی کا صیغہ ہوتا تو قابل قبول کہا جا سکتا تھا۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
غزل پر عرض گزارش بعد میں آکے کرتا ہوں، ۔۔۔ فی الحال قطعے کا حل کچھ یوں سوجھا ہے:
فریب ماضی سے بد تر ہے عہدِ حاضر کا
کہ جس کا سنتے تھے وہ حال سر پہ آپہنچا
صدائیں آنے لگی ہیں کہ جنگ لازم ہے
عذابِ فتنہ دجال سرپہ آپہنچا ۔۔۔
۔۔۔۔ کیافرماتے ہیں آپ بیچ اس مسئلے کے؟
 

الف عین

لائبریرین
غزل پر جناب الف عین کی گفتگو کے بعد کوئی قابلِ ذکر بات نہیں رہ گئی۔ بہت آداب۔
اوہو، تو شاید میں نے جلد بازی کر دی غزل دیکھنے میں!! میں منتظر ہوں کہ آپ بھی کچھ مزید فرمائیں، مجھ سے اتفاق (یا نا اتفاقی!!) کے اظہار کے علاوہ بھی جو باتیں میرے سطحی گزر جانے کے باعث رہ گئی ہوں، ان کی نشان دہی کریں تو بہت شکریہ پیشگی!!
 
Top