بچپن میں بہنوں ، بھائیوں کے ساتھ فصلوں میں کھیلنا اور تجسس کی وجہ سے الٹے سیدھے کام کرنا اُ س کا مر غوب مشغلہ تھا ۔ ہمسائیوں کے گھر میں جاکر بوہڑ کے درخت کے سائے تلے جھولے جھولنا اور رنگ برنگی تتلیوں کے پیچھے بھاگنا اور ان کو نہ پکڑ پانے سے مایوس ہونے کی بجائے پھر سے نئی تگ و دو میں جُت جانا یہی زند گی تھی ۔
کھیتوں میں اپنے گھر کے اردگرد مٹر گشتیاں کرتے رہنا ہی صبح سے شام تک کا حاصل تھا ۔ کھیتوں میں ہی موجو د ایک دوسرا گھر اُس کا ہمسایہ تھا ۔ ان ہمسائیوں کے ہم عمر بچوں سے کھیلنا اور گفتگو میں اپنے مو قف کو درست ثابت کرنا ہی کل کائنات تھی ۔ کبھی ہمسائیوں کے گھر میں بوہڑ کی گولیں کھانا اور کبھی اپنے شہتوت کے درختوں سے شہتوت کی گولیں کھا نا سب سے بڑی عیاشی تھی۔
جمعرات کو نہری پانی کے کھا لو ں میں پانی کے آنے پر پانی میں نہانا ، کپڑوں کا دُھلنا اور اُسی پانی میں سے پینے کے گھڑوں کا بھر لیا جانا ہی مکمل لطف اندوز ی تھی کیونکہ اُس کے گاؤں کا زمینی پانی میٹھا نہ تھا اس لیے اُ ن کو کھالے کا گدلا پانی پھٹکر ی کی مدد سے صاف کر کے پینا پڑتا تھا اور گھر کے سامنے لگے ہوئے دستی نلکے سے صرف صبح کے وقت چہرہ وغیرہ دھو لینے کا کام لیا جاتا تھا اس پانی سے نہاتے وقت سر کے بال نہ نکھرتے تھے اور کپڑوں کے داغ نہ دُ ھلتے تھے ۔ پینے کے لیے وہ منا سب نہ تھا کیونکہ یہ کھارا پانی تھا ۔
 
اُن کے کھالے میں انہوں نے بانس کے درختوں کے جُھنڈ سے آگے ایک گڑھا بنا رکھا تھا جسے وہ پنجابی میں ’’ ڈِ گی ‘‘ کہتے تھے ۔ ڈگی میں جمعرات کے دن پانی بھر جاتا تھا پھر ہفتہ بھر وہی پانی پینے اور دھونے دھلانے کا کام دیتا تھا ۔ کتنی سادہ اور رنگین زندگی تھی ۔ برسات کی شاموں میں نہری پانی کے کھا لون کی منڈیروں پر اُگی ہوئی گھا س سے جگنو نمو دار ہوتے اور رات کے وقت وہ جگ مگ جگ مگ کرتے نظر آتے تو اس کا جی چاہتا کہ وہ اُن جگنوؤں کو اپنے ننھے ننھے ہاتھوں میں پکڑ کر دیکھے کہ آخر یہ روشنی آتی کہاں سے ہے ۔
اُن کے گھر کے بالکل سامنے کھالے پر ایک چھوٹا سا مصنوعی جو ہڑ بنا ہوا تھا جس میں ذخیرہ شدہ پانی ہفتہ بھر جانوروں یعنی مو یشیوں کے نہانے اور پینے کے کام آتا ہے اور وہ کھالا یعنی پانی کا چھوٹا سا نالا سیدھا آگے کچی سڑک تک جاتا تھا ۔ لیکن بچپنے کی وجہ سے ایک لمبا راستہ محسو س ہو تا تھا ۔ جس جانب سے یہ کھالا آتا تھا کو ئی ایکڑ بھر کے فاصلے پر یہ بڑے یعنی مرکزی کھالے سے نکلتا تھا ۔ اُس کے لیے یہ بھی طویل فاصلے پر موجود ایک موڑ تھا ۔ یہ مرکزی کھالا جنوب کی طرف سے آتا تھا ۔ تھوڑی دُ ور ہی گنے کے کھیتوں میں سے گزر کر یہ کھالا کچی سڑک تک پہنچ جاتا تھا اور جو چھوٹے کھالے کے اختتام پر مغربی طر ف کچی سڑک گزرتی تھی وہ بھی اسی سڑک کے ساتھ جنوب مغرب کی طرف سے منسلک تھی ۔ چھوٹے کھالے کے اختتام پر کچی سڑک کے پاس چند گھر آباد تھے ۔ ان میں سے چند افراد کا اُس کے گھر میں روز کا آنا جانا تھا ۔ اُن میں ایک آدمی کے پاس ایک بڑی سی ٹیپ یعنی کیسٹ پلیئر ہوتی تھی ۔
اور اس میں اُس دور کے گانے چل رہے ہوتے تھے
ُُ’’ چِٹا میں کبوتر اُڈار چھوڑ یا
ماہیا تیریاں یاداں میکوں مار چھوڑیا ‘‘
’’تیرے ظُلماں توں ہو کے مجبور
اسیں چلے تیرے و طناں تو ں دُور
جین نہیں دیندی دنیا
جین نہیں دیندی دنیا
( جب وہ جوانی کو پہنچ گیا تو تب بھی یہ نغمے اس کی یادوں سے محو نہ ہو سکے ۔)
 
وہ شام کے اوقات میں گھر کی بیرونی جانب بیٹھا کرتے اور خو ش گپیاں لگایا کرتے ۔ اُن کی یہ محدود سی دُنیا تھی اور محدود سی خو شیاں تھیں اور تب غم بھی محدود ہی تھے تب ان کو زمانے کے نشیب و فراز سے آگاہی نہ تھی اور حسرتوں کے خو ن ہو جانے کا علم نہ تھا ۔ یہ اس بچپن کی یا دیں تھیں ان میں سے اُسے بہت سی یاد رہیں اور وہ اُن کو چاہ کر بھی نہ بھُلا سکا ۔ لیکن وہ اُن کو بھُلا نا بھی تو نہیں چاہتا تھا کیونکہ یہی تو وہ بے فکری کے دن تھے جب اُسے غمِ روز گار نہ تھا ۔ جب اُسے غمِ دنیا نہ تھا ۔ جب اُسے اُمت کے مسائل سے واقفیت نہ تھی ۔ جب اُ سے سود و زیاں کا ادراک نہ تھا ۔ جب اُسے کسی مفلس کی مفلسی کا غم نہ تھا جب اُسے کسی نادرا کی نادار ی کا دکھ نہ تھا ۔ جب اُسے بے بسی کے آنسوؤں کی خبر نہ تھی ۔ جب اُسے غریبوں کی غریبی کا احساس نہ تھا اور جب اُسے یہ بھی علم نہ تھا کہ امیر کیا ہوتے ہیں ۔جب اُسے ماضی و مستقبل کی خبر نہ تھی اور اُسے تو اپنے حال کا بھی علم نہ تھا ۔ وہ تو شام کو اپنے ریڈیو سے نکلتی آوزیں سُن کر بے فکر ہو کر سو جا یا کر تا تھا ۔ اُس کی راتوں کی نیند ابھی اُچاٹ نہ ہوئی تھی اور وہ خود کو بے منزل راہی تصور نہ کرتا ہے ۔ اُسے اپنی منزل کی خبر نہ تھی اور کسی ’’نوائے منزل ‘‘ کا بھی انتظار نہ تھا ۔
 
اُسے یاد تھا کہ ایک دن وہ کسی مہمان کے لیے کھانا لے کر گھر سے دوپہر کے وقت بغیر جوتوں کے نکلا تو سامنے شہتوت کی چھاؤں تک پہنچتے پہنچتے اُس کے پاؤں گرمی سے تپی ہوئی زمین پر یوں لگا جیسے جُھلس گئے ہوں ۔ اُس کے بعد ہو کبھی بھی ننگے پاؤں نہ چلا تھا ۔ اپنی زندگی میں اُ س نے درجنوں بچے ایسے دیکھے کہ جنہیں جوتوں کے پہننے کا کبھی شعور نہیں رہا اور وہ سخت گرمیوں میں بھی ننگے پاؤں دھوپ میں چلتے پھرتے بھاگتے کو دتے اور کھیلتے نظر آتے ۔ لیکن آج اُس کے پاؤں کا گرم ہو جانا اُس کے لیے ایک نصیحت بن گیا تھا اور اُس نے اس نصیحت کو پلے بندھ لیا ۔ اُسے یاد تھا کہ ایک بار اُس کے پسندیدہ بزرگ دوست کے خیالات کے ہم آہنگ وہ خو د بھی ایک سیاسی پارٹی کا حامی رہ چکا تھا حالانکہ وہ اتنا چھوٹا تھا کہ سیاست تو کجا اُسے اپنے ملک کا نام یا اپنے گاؤں تک کا نام معلوم نہ تھا اور جب وہ پارٹی ہار گئی تو اُسے بھی پتاچل چکا تھا کہ اُس کی پارٹی ہار چکی ہے۔اور جب وہ بزرگ ان کے گھر آئے تو اُس نے بے ساختہ کہا تھا ۔
’’بابا اپنی بالٹی تے مودھی ہو گئی ‘‘یعنی ہماری بالٹی اُلٹ گئی اس نے ابھی تک اپنی زبان سے تو تلے الفاظ میں پارٹی کو صرف بالٹی کہنا سیکھا تھا یعنی اُسے اپنے انتہائے بچپن کی باتیں بھی یاد تھیں ۔ حالا نکہ اُس کا مشاہدہ تھا کہ اُس کے دوسرے ہم عمر اور ہم جولی لو گ جو اُسے زندگی کے مختلف موڑوں پر ملے انہیں اپنی دس بارہ سال کی عمر کے بعد کے واقعات بمشکل یا د تھے ۔
 
تب وہ دور سُہانا تھا ۔ وہاں صبح کے وقت گنے کی فصلوں میں دُھند چھائی ہوتی تھی اور صبح کے وقت جا گ کر صبح کا کھانا کھانے سے قبل باہر جو ہڑ کے کنارے لگے ہوئے دستی نلکے سے مُنہ دھونا ایک روزمرہ کا ضروری امر ہوتا تھا ۔ وہ اپنے بڑے بہن بھائیوں کے ساتھ نلکے تک ہاتھ منہ دھونے کے لیے جاتا تھا ۔ اُس کے بڑے بہن بھائی اُسے ڈراتے تھے کہ و ہ خو د پہلے گرم گرم پانی سے اپنا ہاتھ منہ دھولیں گے اور وہ ٹھنڈے پانی سے بعد میں منہ دھوئے گا حالانکہ اُسے علم نہ تھا کہ سردیوں میں تو نلکے کے نیچے سے نکلنے والا مزید گرم تر آتا ہے ۔ یہ اُس بچپنے کی طبیعت کی سادگی تھی اور یہ سادگی عمر بھر اُس کے ساتھ ہی رہی ۔ اُس کے جاننے والوں نے اس کی اسی نفسیاتی کمزوری کو خو ب استعمال کیا اور موقع پر اُسے ہمیشہ نلکے پر ہاتھ منہ دھونے کے عمل کی طرح بلیک میل کیا گیا ۔ یہ سادگی اس کی سر شت میں شامل تھی وہ ذہین ہونے کے باوجود بھی عیار نہ بن سکا وہ لو گوں کو دھوکے نہ دے سکا وہ جھوٹ بول کر اپنا اُلو سیدھا کر لینے والا نہ بن سکا ۔ اس نے اپنی سادگی کی بناء پر دھوکے کھانے تو سیکھ لیے لیکن دھوکے دینا نہ سیکھ سکا ۔
 
اُسے یا د تھا کہ ایک بار بارش ہوئی تھی تو اُن کی وہ بڑی سی چار پائی جو پلا سٹک کے بان سے بُنی ہوئی تھی وہ صحن میں ہی پڑی رہی اور بارش کے بعد وہ اس پر آکر لیٹا تھا تو کتنا خوش گوار محسوس ہوا تھا ۔ پھر گھر کے تمام افرادایک بڑی سی چادر لیے شہتوت کے درخت کے نیچے کھڑے ہوگئے اور گھر کے بزرگوں نے شہتوت کو ہلا یا تو بہت ساری گولیں یعنی شہتوت کے پھل اُس چادر پر گر گئے تو بارش کے بعد ان لو گوں کو کھانے کا جو لُطف تھا اور جو موسم کا سہانا پن تھا وہ اُسے بعد میں عمر بھر نظر نہ آسکا ۔ اُس کے بعد ہمیشہ سُہانے موسم میں وہ پریشان ہو جاتا تھا اور اُداس رہنے لگا تھا اُس پہلے سہانے مو سم کا نعم البدل اُسے کوئی اور موسم محسوس نہ ہو سکا اور وہ موسموں کے ان ہیر پھیر میں اُلجھ کر رہ گیا۔
 
پھر ان کے ابونے ہمسائے کے بڑ( بوہڑ) کے درخت سے ایک بڑی سی قلم لا کر اپنے جو ہڑ کے کنارے لگا دی زندگی کے ایک موڑ پر دوبارہ اس کا گزر اپنے بچپن کے گھر کے پاس سے ہوا تو اُس نے دیکھا تھا کہ وہ پودا اب ایک جوان درخت کی صورت اختیار کر گیا تھا ۔ اُسے یاد تھا کہ ایک بار ان سب بہن بھائیوں نے مل کر پیچھے ہمسائیوں کے گھر سے واپسی پر کھیتوں میں جلی ہوئی راکھ کا ایک ڈھیر دیکھا ۔ وہ سمجھے کہ یہ ٹھنڈی راکھ ہے ۔ تو وہ اُس راکھ میں سے گزر گیا یکایک اُسے احساس ہوا کہ یہ راکھ ٹھنڈی نہ تھی بلکہ اس میں آ گ کے دہکتے ہوئے انگارے چھپے ہوئے تھے اور اُس کے پاؤں کو جلن کا احساس ہوا ۔ اُس نے اپنے بھائی اور بہن کو بتایا کہ اس آگ نے اس کے پاؤں جلا دیئے ہیں ۔تو سب مل کر اس آگ سے بدلہ لینے کے لیے اُس راکھ میں مٹی کے ڈھیلے پھینکنے لگے ۔ انہوں نے بے شمار ڈھیلے پھینک کر اپنا انتقام لے لیااور گھر آکر سارا ماجرا کہہ سنایا ۔ گھر کے بزرگوں نے جب سنا تو انہوں نے سخت برہمی کا اظہار کیا کیونکہ اُس راکھ یعنی آگ میں انہوں نے کوئی دوائی تیار کرنے کے لیے ہڈیاں وغیرہ جلنے کو رکھی ہوئی تھیں۔
تب گھر کے بزرگوں نے جاکر اُ س راکھ کے ڈھیر میں سے اپنی تیار کردہ دوائی کو نکالا اور بچوں کو اس طرح کی غلطیوں سے محتاط رہنے کو کہا حالانکہ غلطیوں سے محتاط تو انسان ہوتا ہی غلطی ہو جانے کے بعد ہے اور اس کے بعد زندگی میں بے شمار غلطیاں سرزد ہوئیں اور ہر بار آئندہ ان سے محتاط رہنے کا پختہ ارادہ کیا لیکن آئندہ پتہ ہی تب لگتا جب کام غلط ہوجاتا اور بعدمیں پھر مستقبل کے لیے تازہ عزائم باندھے جاتے ۔
 
اُسے یہ یاد تھا اُ ن کی ایک لا ل رنگ کی ایک گائے ہوتی تھی اور اُسے وہ دن بھی یاد تھے جب اُس کے ماموں کے قتل ہوجانے پر اس کی امی اس کے ننھیال گئیں اور ان تین بہن بھائیو ں کو گھر چھوڑ گئی تھیں تو وہ وہیں رہے ماموں کے قتل ہوجانے کے افسوس کا تو اُسے احساس نہ تھا کیونکہ وہ بہت ہی چھوٹا بچہ تھا بلکہ تب تک اُ ن کو صحیح صورت حال کا عمل نہ تھا ۔
اُن کی والدہ کو بھی درست حقیقت نہ بتائی گئی تھی اُسے بھی یہی بتایا گیا تھا کہ اُس کے بھائی کی کسی کے ساتھ لڑائی ہوئی تھی اور اُسے چوٹیں آگئی تھیں اور وہ ان چھوٹے بچوں کو گھر میں چھوڑ گئی تھی ۔ یہ بچے ان چند دنوں میں اپنے چچا کے ساتھ رہے ایک شام جب اُن کا چاچو گھر سے تھوڑی دور فصلوں کو نہری پانی دے رہا تھا تو وہ اُسے پکارتے رہے کیونکہ وہ گھر میں گھبرا رہے تھے ۔
 
اُسے یہ بھی یاد تھا کہ اُس کی بڑی بہن نے قریبی گاؤں میں سکول پڑھنے کے لیے جانا شروع کر دیا اور ایک بار اُس نے گھر میں سے کتابیں خریدنے کے بہانے سے کافی سارے روپے مختلف افراد (امی ، ابو اور چاچو)سے لے کر جمع کر لیے اور سکو ل جاکر اپنی سہیلیوں کے خر بو زے اور تربوز کھائے تھے ۔
پھر اُ س کے بڑے بھائی نے بھی سکول جانا شروع کر دیا ۔ پچھلے ہمسائے کے لڑکے کے ساتھ وہ سکول جانے لگا ۔ بڑے بھائی کے بعدآخر کار اُسے بھی سکول داخل کر وا دیا گیا ۔ وہ بھی اُن دونوں کے ساتھ کھالے سے سڑک تک اور سڑک سے سیدھے گاؤں کے شروع ہونے سے پہلے پرائمری سکو ل میں پڑھنے کے لیے جانے لگا ۔ اُسے یہ بھی یاد تھا کہ جب وہ اُس سکو ل میں جاتا تھا تو ایک دن سکول سے واپسی پر ہمسائے لڑکے نے (جو کہ اس کے بڑے بھائی سے بھی بڑا تھا ) اُس کے بھائی سے کہا تھا کہ تم گھر سے کل دس پیسے کا سکہ لا نا اپنے گھر والوں سے کہنا کہ سکو ل میں چندہ جمع کرو انا ہے ۔یہ سکو ل گاؤں کی بیرونی جانب ہی واقع تھا ۔ سکول میں چھوٹے چھوٹے پلا ٹ بنے ہوئے تھے ان پلاٹوں کے کنارے گینڈے کے خو بصورت پھول لگے ہوئے تھے اور پلا ٹوں کو پانی کی فراہمی کے لیے پانی کی نالیاں بنی ہوئی تھیں اُسے ابھی تک سکو ل کے قواعد و ضوابط کا بھی علم نہیں تھا ۔ اُسے صرف اپنا ایک ٹانگوں سے معذور مانیٹر لڑکا یاد تھا ۔ وہ شہتوت کے درخت کی پتلی سی نرم چھڑی سے شرارتی لڑکوں کی پٹائی کرتا تھا ۔ اُسے مانیٹر کی طبیعت سے بہت خو ف آتا تھا ۔ لیکن اُس کی پٹا ئی کبھی بھی نہ ہوئی کیونکہ وہ بہت ہی چھوٹا بچہ تھا اور ڈرتا رہتا تھا ۔ پھر اس نے کبھی کوئی شرارت بھی تو نہ کی تھی ۔ اُس نے وہاں اُردو کا نیا قاعدہ چند صفحے ہی پڑھا تھا ۔ جس صفحے پر ب الف ، با ، ب الف با، بابا، ن ، الف نا ، ن الف نا ، نانا، ب الف با، ج الف جا ، باجا اور تاالف تا ، ی الف یا ، تایا سبق تھے ۔ اس کے بعد وہ اُس سکو ل میں پڑھنے کے لیے نہ جاسکا ۔
 
اُسے یاد تھا کہ وہ ایک بار وہ اپنی امی کے ساتھ قریبی اڈے تک کوئی میڈیسن لینے بھی گیا تھا اُن میں سے کوئی بچہ بیمار تھا وہاں اس کو دیکھی ہوئی چند دکانیں یا د تھیں ۔ ان میں ایک کپڑے کی دکان بھی تھی اور ایک میڈیکل سٹور بھی تھا ۔ اُسے یہ بھی یا د تھا کہ ایک بار انہوں نے اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے اُن کے ہاں جانے کے لیے ایک طویل سفر بھی کیا تھا اُس سفر میں انہوں نے صوبہ پنجاب کے ایک طویل حصے کا چکر کاٹا تھا ۔ اُس دورے کے دوران اُسے پہلے بار فلش سسٹم والا بیت الخلا ء بھی دیکھا تھا ۔
ان کے ہمسائے کی اُس کی بڑی بہن کی ہم عمر لڑکی کہاکرتی تھی کہ میں نے تو اس سے شادی کرنی ہے یہ بات سُن کر وہ جھینپ جاتا تھا اور اسے شرمندگی ہو اکرتی تھی۔
 
اُس نے اپنے ننھیال میں د و پالتو کتے دیکھے تھے ان کے نام بالترییب کالو اور پھمن تھے جبکہ اُن کے اپنے گھر میں پانچ کتے تھے ان میں سے ایک پستہ کتا یعنی چھوٹے قد کا سفید بالوں والا کتا بھی تھا ۔ ان کو جب روٹی ڈالی جاتی تھی تو ان میں سے چھوٹے کتے کو اپنی نگرانی میں کھلانی پڑتی تھی کیونکہ دیگر کتے اس سے روٹی چھین کر لے جاتے تھے ۔
ایک بار اُن کے چا چو نے ایک دو رنگوں والی کتیا ( جو کہ کسی قریبی گھر کی تھی ) کو کلہاڑی سے مارا تھا تو اُسے اُس کتیا کو دیکھ کر اپنے ننھیا ل کا پھُمن یادآیا اور اُسے افسو س ہوا کہ پھمن کی ہم مشکل کتیا کو کیوں پیٹا گیا ۔ حالا نکہ ان دونوں کے درمیان سینکڑوں کلو میٹر کی دوری تھی ۔
ایک بار اُس کے داد ا نے اُسے سائیکل پر بٹھا کر ایک دوسرے گاؤں میں لے جاکر کُشتی کا ایک میچ بھی دکھایا تھا ۔ وہ مغربی سڑک سے شمالی کی طرف گئے تھے اور قبرستان کے پاس سے بڑی سڑک سے ہوتے ہوئے دوسرے گاؤں پہچنے تھے ۔
 
اُس کا چاچو کسی بڑی کلا س میں پڑھتا تھا اور باداموں کو پانی میں بھگو کر رکھتا تھا ۔ صبح کو وہ ان باداموں کی سردائی بناکر پیتاتھا تو وہ ہمیشہ لالچی سو چ سے اپنے چاچو کو بے حس بن کر ساری گریوں کی سردائی ہڑپ کر تے دیکھتا رہ جاتا ۔
اُن دنوں اُن کے چاچو کے استعمال میں ’’ ڈنٹونک ‘‘ دانتوں کو صاف کرنے والا پاؤڈر ہوتا تھا ۔ اُس کے بڑے بہن ، بھائی ڈنٹونک کی خالی ڈبیوں میں روشناہی ڈال کر اُن کو دوات کے طور پر استعمال کرتے تھے ان گھر کے دو کمرے تھے جن کا رُخ جنوب کی طرف تھا ۔ دونوں کمروں کے درمیان صحن میں ایک دیوار تھی اور اُس دیوار میں ایک راستہ بھی تھا ۔ یہ بائیں ہاتھ والا مشرقی کمرا ان کے چاچو اور دادا کا تھا ۔ اپنے دادا کو وہ بابا کہا کرتے تھے ۔ ایک بار اُن کے ابو لاہور سے واپس آئے تو اُن سب کے لیے مختلف کھلونے لے کر آئے ۔ ان میں ایک گڑیا ، ایک آئینہ اور ایک سبز پلا سٹک کا طوطا تھا ۔ بڑی بہن نے گڑیا ، بھائی نے طو طا اور اُس نے آئینہ اپنے اپنے حصے میں سے بانٹ لیا تھا ۔ حالانکہ اُسے طوطا زیادہ پسند تھا ۔ اُ سے یا د تھا کہ ایک بار اُن کے تما م کھیتوں میں ہل چلا گیا تھا اور تمام کھیتوں کی مٹی نرم ہو گئی تھی تو وہ چاندنی رات کو دیر تک اپنے ابو کے ساتھ وہاں نرم مٹی میں کھیلتے رہے تھے اور اُن کے ابو نے اپنی گردن کے اوپر سے ٹانگ کو کندھوں پر رکھنے کا مظاہر ہ بھی کیا تھا ۔
 
ایک بار اُس کی امی نے نیا سوٹ سی کر اسے دیا تھا اور اُسے کہا تھا کہ یہ پہن کر اپنے بابا کو یعنی دادا کو دکھا کر آؤ کہ ’’سوہنا ہے ؟ تو اُس نے دادا نے فرمائشی طور پر بتایا کہ ہاں بھئی سوہنا ہے ‘‘ ایک بار ان کی پھو پھو اپنے سُسرال اور اس کے ننھیال سے آئی تو وہ عصر کا وقت تھا اور وہ سب اس سے ملنے مشرقی طرف کھیتوں میں گئے تھے ۔ تھوڑی دیر وہاں بیٹھنے کے بعد وہ واپس گھر آگئے تھے ۔ ان کے دادا اور چاچا اپنا کھانا خو د پکاتے تھے تاہم کبھی کبھار وہ ان کی امی سے بھی روٹیاں پکوا لیتے تھے ۔ اُس کی ایک چھوٹی سی بہن تھی ایک بار اس کی امی آٹا گوندھ رہی تھی تو اُس نے ’’ کاکی ‘‘ کو اٹھانے کا چاؤ پورا کیا لیکن وہ اس کو سنبھال نہ پایا اور دوسرے ہی لمحے کاکی پیچھے پڑی ہوئی بالٹی میں گر گئی اور رونے لگی ۔
 
اُن کے گھر کا ایک تیسرا کمرا بھی تھا جو مشرقی کمرے کے باہر مشرقی طرف ہی تھا اور اُس کا دروازہ بھی جنوب کو ہی تھا ۔ وہ بیٹھک کے طور پر اس کے چاچا کے مطالعہ کا کمرا تھا اور ان کے مغربی کمرے کے ساتھ مغربی طرف ایک ’’ چھیر ‘‘ تھا جس سے پچھلی یعنی شمال کی طرف بھی راستہ تھا اور اُسی طرف اُن ہمسائیوں کا گھرتاتھا جن کی بڑی لڑکی اُس سے کہا کرتی تھی کہ اُس نے تو اسی سے بیاہ کرنا ہے ۔
ایک بار ا س کے دادا نے کہا کہ باہر میرا حقہ لے کر جاؤ اور اپنے چاچو سے کہو کہ وہ ڈگی میں سے پانی ’’نتار ‘‘ کر دے یعنی صاف پانی اُس میں ڈال کر دے ۔ اُن دنوں پانی کی کمی تھی کھالے میں شاید پانی نہ آتا ہو گا تو ایک بار اُس نے چاچو نے بڑی مشکل سے پانی کسی نہ کسی طرح اس حقے کے لوٹے میں ڈال دیا اور وہ اسے لے کر اپنے گھر میں دادا کے پاس لے آیا ۔ اور دادا نے اس نایاب پانی سے حقے کو دھو ڈالا اور پھر پانی لانے کو کہااب وہ دوبارہ پانی لینے گیا تو اس کا چاچو اُسے ڈانٹنے لگا کہ پہلا پانی کیوں ضائع کیا حالا نکہ اس سارے معاملے میں اگر کوئی غلطی تھی تو اُس کے دادا کی تھی اوروہ قصور وار نہ تھا۔ پھر بھی جھڑکیاں سہنی پڑیں ۔ زندگی میں بہت بار ایسا ہوا کہ اُسے قصور کے بغیر ہی قصور وار ٹھہرایا گیا اور وہ اپنا دفاع نہ کر پایا ۔ کبھی تو وہ دفاع کی طاقت ہی نہ رکھتا تھا اور کبھی کسی مصلحت نے اُس کو روکے رکھااور کبھی اُس کے پاس ہر سوال کا جواب بھی ہو تا تھا اور وہ سامنے والے کو پچھاڑبھی سکتا تھا لیکن اپناضمیر مطمئن ہونے کی و جہ سے وہ تیز رفتاری سے سوچتا رہتا لیکن اپنا دفاع نہ کرتا اور اپنے صاف دامن پر جھوٹے داغ کا الزام سہہ جاتا ۔ لیکن اُسے کیا خبر تھی کہ یہ زمانہ تو طاقتوروں کا ہے کمزور کو تو یہ درخورِ اعتناہی نہیں سمجھتا ۔ اُسے کیا خبر تھی کہ انصاف ہمیشہ چپ رہنے سے نہیں ملتا کبھی کبھی اپنا حق چھیننا بھی پڑجاتاہے ۔
 

عسکری

معطل
سر جی انگریزی نام نہیں کرنا آتا ٹیگ مجھے۔ آپ کے حوالے سے ایک اور دھاگے میں بھی معذوری ظاہر کر چکا ہوں۔ ایک اور نام بھی تھا وہاں
کیوں انگریزی کیا لکھنا مشکل ہے اوپر سرچ بار میں لکھ کر کاپی مار دیتے ۔ ہم تو منہ دیکھتے رہ گئے :cry:
 

پردیسی

محفلین
جی جی جب بلایا ہے تو ضرور فرمائیں گے۔میں ذرا ٹویٹر پر بحث کو سمیٹ کر آیا ۔پھر پڑھ کر فرماتا ہوں
 
Top