لاہور اور کراچی کی دو فیکٹریوں میں آتشزدگی

یہ جو کہہ رہا ہے ناں کہ جو چیزیں سامنے آئی ہیں، ان پر تعجب ہے، تو ان چیزوں پر دستخط کرنے والا یہ خود ہی ہو گا۔
بلکل سائٹ ایسوسی ایشن ایک پاورفل ادارہ ہے اور بغیر ان کی ان پٹ کے فیکڑی کالائسنس ایشو نہیں ہونا چاہیے۔ میں سائٹ ایسوی ایشن کے ساتھ بطور کنسلٹنٹ کام کرچکا ہوں۔ مجھے پتہ ہے کہ ان سہولیات کی ذمہ داری ایسوسی ایشن پر بھی عائد ہوتی ہے۔ یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں
 
وزیرداخلہ عبدالرحمٰن ملک نے کہا ہے کہ لاہور اور کراچی میں آتشزدگی کے واقعات کی ایف آئی اے تحقیقات کررہی ہے کہ کہیں ان میں دہشت گردی کا عنصر تو موجود نہیں۔
بلکل موجود ہے۔
مجھے گمان ہے کہ کراچی کے سانحہ میں بلوچ دھشت گرد اور ان کے بھتہ گروپ بھی شامل ہیں۔ یہی لوگ چہرہ بدل کر جائے حادثے کا دورہ بھی کررہے ہیں۔
یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک بڑا سانحہ ہے ۔ اللہ رحم کرے ۔
 
میرے شہر کے باسیوں نے طبعی موت مرنا چھوڑ دیا
سرِ شام یہاں حادثات بہت ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ مرحومین کی مغفرت فرمائے اور سوگواران کو صبرِ جمیل عطا کرے۔آمین​
 

سید زبیر

محفلین
بلکل موجود ہے۔
مجھے گمان ہے کہ کراچی کے سانحہ میں بلوچ دھشت گرد اور ان کے بھتہ گروپ بھی شامل ہیں۔ یہی لوگ چہرہ بدل کر جائے حادثے کا دورہ بھی کررہے ہیں۔
یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک بڑا سانحہ ہے ۔ اللہ رحم کرے ۔
آپ نے بالکل درست فرمایا یہ پاکستان کا المناک ترین سانحہ ہے ۔لیکن سوچیں اتنے المناک سانحہ میں ہمارے حساس اور بے حس اداروں نے کیا کردار ادا کیا ۔اس کے لیے تو سٹریٹجک ڈائیلاگ نہیں کرنے پڑتے۔ کراچی کے ٹھیکیدار بلدیاتی آرڈیننس کے لیے دن رات ایک کرنے والے سوائے متحدہ کے ارکان کے کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن کا کا وجود کہیں نظرآرہا تھا ۔ روزانہ ٹی وی کے ٹاک شومیں آنے والی شرمیلا فاروقی ، شہلا رضا ، غرضیکہ کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا۔کراچی میں تین چھاونیاں کراچی صدر،کلفٹن کینٹ اور ملیر کینٹ موجود ہیں ،فضائیہ کے چار بڑے بیسز اور نیوی کے بیسز ہیں کیا وہ سو سو آدمی اور چند ایمبولینس گاڑیاں بھی مدد کے لیے نہیں بھیج سکتے تھے یا طبی سہولیات کا کوئی انتظام کرسکتے تھے ؟۔ رینجرز کا کیا کردار تھا ؟جب ان کو ضرورت ہوتی ہے تو عوام خون کا عطیہ دینے کے لیے بلا کسی کی درخواست یا آئینی پابندی کے ہسپتالوں کا رخ کرتی ہے اور آج اتنے شدید المناک حادثے میں یہ خیر خواہ ائر کنڈیشنڈ دفاتر میں بیٹھ کر ذاتی منفعت میں لگے ہوئے ہیں ۔ کیا قوی سانحوں سے نمٹنے کی یہی تربیت ہے ۔کروڑوں روپے سے قائم ہو نے والے ڈیزاسٹر میںجمنٹ اتھارٹی کا دائرہ عمل کیا صرف اسلام آباد ہی تک محدود ہے ان کی روزمرہ کی سرگرمیاں صرف قومی خزانے پر بوجھ ہی بنتی ہیں ۔اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اپنا ٹیکس ستار ایدھی اور چھیپا جیسے فلاحی اداروں کو دیا کریں کیونکہ وہ فوری رسپانڈ کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں غیر ملکیوں سے سٹریٹجک ڈائیلاگ یا انٹیلیجنس شئیرنگ کاکوئی مینڈیٹ ملا ہے ۔
کہ رحمان ملک کی بات کی تصدیق ہو سکے کہ یہ دہشت گردی ہو سکتی ہے ۔فیکٹری کے ناقص انتظام ک ا ذکر نہیں
اللہ اس پیارے وطن کو ان منافقین، دولت ،اقتدار ، طاقت ، کے پجاریوں سے بچائے (آمین)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
آپ نے بالکل درست فرمایا یہ پاکستان کا المناک ترین سانحہ ہے ۔لیکن سوچیں اتنے المناک سانحہ میں ہمارے حساس اور بے حس اداروں نے کیا کردار ادا کیا ۔اس کے لیے تو سٹریٹجک ڈائیلاگ نہیں کرنے پڑتے۔ کراچی کے ٹھیکیدار بلدیاتی آرڈیننس کے لیے دن رات ایک کرنے والے سوائے متحدہ کے ارکان کے کوئی نظر نہیں آرہا تھا۔صوبائی وزیر اطلاعات شرجیل میمن کا کا وجود کہیں نظرآرہا تھا ۔ روزانہ ٹی وی کے ٹاک شومیں آنے والی شرمیلا فاروقی ، شہلا رضا ، غرضیکہ کوئی بھی نظر نہیں آرہا تھا۔کراچی میں تین چھاونیاں کراچی صدر،کلفٹن کینٹ اور ملیر کینٹ موجود ہیں ،فضائیہ کے چار بڑے بیسز اور نیوی کے بیسز ہیں کیا وہ سو سو آدمی اور چند ایمبولینس گاڑیاں بھی مدد کے لیے نہیں بھیج سکتے تھے یا طبی سہولیات کا کوئی انتظام کرسکتے تھے ؟۔ رینجرز کا کیا کردار تھا ؟جب ان کو ضرورت ہوتی ہے تو عوام خون کا عطیہ دینے کے لیے بلا کسی کی درخواست یا آئینی پابندی کے ہسپتالوں کا رخ کرتی ہے اور آج اتنے شدید المناک حادثے میں یہ خیر خواہ ائر کنڈیشنڈ دفاتر میں بیٹھ کر ذاتی منفعت میں لگے ہوئے ہیں ۔ کیا قوی سانحوں سے نمٹنے کی یہی تربیت ہے ۔کروڑوں روپے سے قائم ہو نے والے ڈیزاسٹر میںجمنٹ اتھارٹی کا دائرہ عمل کیا صرف اسلام آباد ہی تک محدود ہے ان کی روزمرہ کی سرگرمیاں صرف قومی خزانے پر بوجھ ہی بنتی ہیں ۔اس سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ہم اپنا ٹیکس ستار ایدھی اور چھیپا جیسے فلاحی اداروں کو دیا کریں کیونکہ وہ فوری رسپانڈ کرتے ہیں اور نہ ہی انہیں غیر ملکیوں سے سٹریٹجک ڈائیلاگ یا انٹیلیجنس شئیرنگ کاکوئی مینڈیٹ ملا ہے ۔
کہ رحمان ملک کی بات کی تصدیق ہو سکے کہ یہ دہشت گردی ہو سکتی ہے ۔فیکٹری کے ناقص انتظام ک ا ذکر نہیں
اللہ اس پیارے وطن کو ان منافقین، دولت ،اقتدار ، طاقت ، کے پجاریوں سے بچائے (آمین)
آج کے ڈان اخبار میں ایک رپورٹ کے مطابق خدانخواستہ اگر اسلام آباد میں ایسا کوئی حادثہ ہو جاتا ہے تو سی ڈی اے کا محکمہ اس سے نمٹ نہیں سکے گا حالانکہ ان کے پاس گاڑیاں اور دیگر سامان جاپان اور سویڈن سے درآمدشدہ ہے لیکن نہ تو سامان کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی ورکرز کی ٹریننگ ایمرجنسی حالات کو مدِ نظر رکھ کر کی جاتی ہے۔ واللہ اعلم باالصواب
 

شعیب صفدر

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون​
کراچی کت سانحہ پر بھی سیاست!!!​
نیٹ پر کچھ اس طرح کی چیزیں شیئر ہو رہی ہیں!!!​
523294_421908971200444_134154938_n.jpg
 

سید زبیر

محفلین
آج کے ڈان اخبار میں ایک رپورٹ کے مطابق خدانخواستہ اگر اسلام آباد میں ایسا کوئی حادثہ ہو جاتا ہے تو سی ڈی اے کا محکمہ اس سے نمٹ نہیں سکے گا حالانکہ ان کے پاس گاڑیاں اور دیگر سامان جاپان اور سویڈن سے درآمدشدہ ہے لیکن نہ تو سامان کا خیال رکھا جاتا ہے اور نہ ہی ورکرز کی ٹریننگ ایمرجنسی حالات کو مدِ نظر رکھ کر کی جاتی ہے۔ واللہ اعلم باالصواب
عزیز بہن مسئلہ سامان کا نہیں ہے مسئلہ نیت کا ہے ۔کل ٹی وی کے ایک پروگرام میں نجم سیٹھی کہہ رہے تھے کہ اب پاکستان کے ہر شعبہ کے مقتدرہ طبقے نے غریبوں سے مکمل لا تعلقی اختیار کر لی ہے ان کی نیت ہی نہیں ۔کیا کراچی کا کوئی ذمہ دار مجسٹریٹ کی سطح سے لے کر ایڈمنسٹریٹر ، اے ایس آئی کی سطح سے لے کر آئی جی تک ،ڈیپٹی کمشنر کمشنر ، ریسکیو سب اپنے دفاتر تک ہی محدود رہے صرف ایم کیو ایم ،چھیپا اور ایدھی کے رضا کار کام رتے رہے ۔ کیا زندہ قوموں کا یہی وطیرہ ہوتا ہے ۔لسانی ، مذہبی ،سیاسی تنظیموں کے عہدے دار ٹی وی پر آکر کہتے رہتے ہیں کراچی کا ہر شہری ہمارا بھائی ہے کتنے نظر آئے ۔ لبیا میں اپنے ملک سے ہزاروں میل دور چار امریکی جل کر مرے ایک ایک منٹ کی رپورٹ آرہی تھی ۔امریکی حکومت مضطرب تھی ،مسئلہ سب نیت کا ہے یہ خادم نہیں مخدوم ہیں
 

محمداحمد

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔۔۔۔۔!

افسوس کہ یہ سب کچھ ہمارے مقدر میں لکھ دیا گیا ہے اور شاید ہم اسی قابل ہیں۔ اس طرح کے سانحات جس طرح گزرے سالوں میں پہ درپے ہوئے ہیں ان سے یہی لگتا ہے۔ ہم کیا کرتے ہیں بس باتیں، کیا ہوا؟ کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ یوں ہوتا تو نہ ہوتا۔ ایسا کر لیتے تو ٹھیک رہتا۔ کہ ہمارا اختیار یہیں تک ہے۔ جن کے پاس اختیار ہے وہ کچھ نہیں کرتے۔ وہ کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے ۔ اور وہ ہی دراصل اس سب کا ذمہ دار ہیں۔ لاکھ وہ ہمدردیاں جتائیں، لاکھ آنسو بہائیں مگر سب بے کار۔۔۔ ! درد مند دل ایسے نہیں ہوتے ۔

کچھ عرصے بعد جب ہم یہ سب باتیں بھول جائیں گے تب پھر سے ایسا ہی کوئی شور اُٹھے گا، پھر یہی باتیں، پھر یہی سب کچھ، پھر سے ہمدردیاں، پھر سے مگر مچھ کے آنسو۔ شاید ہم اسی قابل ہیں۔
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
گن گیہوں کے ساتھ ہی پستا ہے
آزمائش قوم کی قوم کے اندر برائی کی بناء پر ہورہا ہے
الحمدللہ عذاب نہیں آیا پورے پاکستان اس میں ڈوبا ہوا ہے
بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو نگل رہی ہے۔ اور چھوٹی مچھلی
چھوٹے چھوٹے کرائم کررہے مثال کے طور پر گولیمار، موسی کالونی شیرشاہ، لیاری، اونگی ٹاؤن،تیسر ٹاؤن ، اللہ والی بستی وغیرہ جو کراچی میں ہیں یہاں بجلی کی چوری ایسے کرتے ہیں جیسے ان کے اگلوں نے وراثت میں چھوڑی ہو۔
تو آزمائشیں آئنگی۔
اللہ ہم سب پر رحم فرمائے اور ہمیں پہلے کے انبیاء علیہ السلام کے گناہوں کے طریقے سے باہر نکالے۔
میں جانتا ہوں کہ فیکٹریوں میں کتنی چوریاں ہوتی ہیں۔
اللہ ان سب کو جوار رحمت میں جگہہ عطا فرمائے۔
آمین
 
بنیادی طور پر یہ معاملہ قانون پر عملدرامد نہ ہونے کہ وجہ سے ہے۔ اور اسکی وجہ کرپشن اور خودغرضی ہے۔ اسکی ایک اور بنیادی وجہ مقامی لوگوں پر جبر اور اختیار نہ ہونا ہے۔
بہتر ہوگا اگر کراچی میں مقامی حکومت کا قیام عمل میں اجائے جس کی وجہ سے لوگ اپنے سسٹمز کو ٹھیک کرلیں اور کرپشن بھی کم ہو۔ میری ذاتی رائے میں ایک نیم خودمختار ریاست جیسے پہلے بہاولپورتھی یا کشمیر اس مسئلہ کاحل ہے ۔ مگر فی الوقت مضبوط شہری حکومت بھی مناسب ہے۔
کراچی کو لوگوں کو مزید محنت کرنی پڑے گی۔ تعلیم کو عام کرنا پڑے گا اور سیاسی طور پر بھی درست فیصلے کرنے ہونگے۔
 

نگار ف

محفلین
پانچ سو روپے کی موت!
وسعت اللہ خان
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

آخری وقت اشاعت: جمعرات 13 ستمبر 2012 ,‭ 03:45 GMT 08:45 PST

120912110411_khi_fire_304.gif

بارہ ستمبر کو لاہور اور کراچی کی دو فیکٹریوں میں جل مرنے والے تین سو دس سے زائد محنت کش اگر ان فیکٹریوں میں نا بھی مرتے تو گیٹ سے باہر نکلتے ہی غفلت، بے حسی اور بدعنوانی کی رسیوں سے بٹے موت کے کسی اور جال میں پھنس کر مر جاتے۔
اگر یہ کارکن کسی کوئلہ کان کےمزدور ہوتے تو بغیر حفاظتی آلات کے زیرِ زمین سیاہ دیواروں کا لقمہ بنتے۔ ویسے بھی پاکستان میں کوئلے کی کانوں میں اوسطاً سالانہ ایک سو افراد کا ہلاک ہونا قطعاً غیر معمولی خبرنہیں۔

گذشتہ برس کی ہی تو بات ہے جب بلوچستان میں کوئلے کی ایک کان میں پینتالیس اور دوسری کان میں پندرہ مزدور پھنس کے مرگئے۔ شاید ہی کوئی مہینہ ہو جو اپنے ساتھ ایک دو کان مزدور نہ لے جاتا ہو۔ زخمی تو کسی شمار قطار میں ہی نہیں۔
اگر یہ مزدور کسی بھی فیکٹری یا کان میں نہ ہوتے اور تلاشِ روزگار میں کسی مسافر ویگن میں جا رہے ہوتے تب بھی زندہ روسٹ ہوجاتے۔ جیسے گذشتہ برس وہاڑی میں ایک مسافر وین کا گیس سلنڈر پھٹنے سے اٹھارہ، خیرپور کے نزدیک سٹھارجہ میں تیرہ، گوجرانوالہ بائی پاس کے قریب چھ، اور شیخوپورہ میں اب سے تین ماہ پہلے سکول وین کا سلنڈر پھٹنے سے پانچ خواتین ٹیچرز اور ایک بچہ زندہ جل گیا۔
اور کسی ایک سال کے دوران گنجان رہائشی علاقوں میں قائم سینکٹروں غیرقانونی دوکانوں میں بکنے والے مائع گیس اور سی این جی سلنڈر پھٹنے کے حادثات سے ہونے والے املاکی و جانی نقصان کا تذکرہ اگر لے بیٹھوں تو یہ مضمون فہرست کی تپش سے ہی جل جائے گا۔
ایسے واقعات پر نگاہ رکھنے والی ایک این جی او سول سوسائٹی فرنٹ کی تازہ رپورٹ کے مطابق سال دو ہزار گیارہ میں صرف گیس سلنڈر پھٹنے سے پاکستان میں دو ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ یہ تعداد گذشتہ برس ڈرون حملوں سے مرنے والوں کے مقابلے میں چار گنا زائد ہے۔

مگر ڈرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ آپ اگر سی این جی سے چلنے والی بسوں اور ویگنوں میں سفر نہ بھی کریں یا گنجان آبادی میں مائع گیس یا آتش بازی کا سامان فروخت کرنے والی موت کی دوکانوں سے بچ کر بھی گذر جائیں تب بھی شاید جہان سے گذر جائیں۔ زندہ رہنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ سڑک بھی پار نہ کریں، موٹر سائیکل بھی نہ چلائیں اور کار سے بھی اتر جائیں۔ اگر کسی بدمست مسافر ویگن، بس یا مال بردار ٹرک نے کچل دیا یا کسی ٹرالر کا کنٹینر آپ پر پھسل گیا تو قاتل ڈرائیور پر زیادہ سے زیادہ غفلت کا مقدمہ قائم ہو جائےگا۔ آپ نے ایسے کتنے ڈرائیوروں پر تین سو دو کا کیس بنتے دیکھا یا سنا ہے؟ آخر پاکستان کی سڑکوں پر ہر سال آٹھ سے دس ہزار آپ جیسے یونہی تو نہیں مرجاتے۔
لیکن آپ سڑک بھی پار نہ کریں، کسی سی این جی والی وین میں بھی نہ بیٹھیں اور صرف ایک عام سی بس میں سفر کریں تو بچنے کا کوئی امکان ہے؟ یاد کریں گذشتہ برس ستمبر میں کلر کہار موٹر وے پر فیصل آباد کے اسکولی بچوں کو پکنک سے واپس لانے والی بس کے ساتھ کیا ہوا۔ کیا ستر مسافروں کی گنجائش والے اس گردشی تابوت میں ایک سو دس بچے اور اساتذہ نہیں ٹھونسے گئے تھے؟ اور جب فٹنس سرٹیفکیٹ یافتہ اس تیس برس پرانی بس کے بریک جواب دے گئے اور وہ کھائی میں گرگئی تو اس کھائی سے سینتیس لاشیں اور ستر زخمی کیسے نکالے گئے؟ اس واقعے کو ایک برس ہو گیا۔ اس دوران اگر کسی کو سزا ملی ہو یا مقدمے میں کوئی پیش رفت ہوئی ہو تو مطلع فرما کے شکریے کا موقع دیں۔
اب آئیے نجی و سرکاری عمارات میں آتش زدگی سے بچاؤ کی سہولتوں کی طرف۔ پاکستان کے اقتصادی و افرادی انجن یعنی کراچی میں اس وقت جتنی بھی قانونی و غیرقانونی کمرشل یا رہائشی عمارات کھڑی ہیں، ان میں سے پینسٹھ فیصد عمارات میں نہ باہر نکلنے کے ہنگامی دروازے ہیں، نہ ہی آگ بجھانے کے آلات۔ جن عمارات میں آگ بجھانے کے سرخ سلنڈر نمائشی انداز میں لٹکے ہوئے ہیں، ان عمارات کے بھی سو میں سے ننانوے مکین نہیں بتا سکتے کہ بوقتِ ضرورت یہ آلات کیسے استعمال کیے جاتے ہیں یا ان آلات کو استعمال کرنے کے ذمہ دار کون کون ہیں یا فائر ڈرل کس جانور کا نام ہے۔ ذرا سوچئے اگر کراچی ایسا ہے تو باقی کیسا ہوگا؟
رہی بات صنعتی سیکٹر کی تو پاکستان میں اسوقت کم ازکم ستر لاکھ مزدور کارخانوں، ورکشاپوں اور اینٹوں کے بھٹوں میں ملازم ہیں۔ ان میں سے لگ بھگ بیس فیصد مزدور ہی ایسے ہوں گے جنہیں نافذ صنعتی قوانین کے تحت بنیادی مراعات اور حادثات سے تحفظ کے ازالے کی سہولت حاصل ہے۔باقی بندگانِ محنت پھوٹی قسمت کے رحم و کرم پر ہیں۔

بظاہر جس صنعتی یونٹ میں بھی دس سے زائد ورکر ہوں اس یونٹ کا محکمہ لیبر میں رجسٹریشن لازمی ہے تاکہ یہ صنعتی یونٹ مروجہ حفاظتی و مراعاتی قوانین پر عمل درآمد کا پابند ہوجائے۔ اس وقت پاکستان میں قائم کتنے صنعتی یونٹ رجسٹرڈ یا غیر رجسٹرڈ ہیں اس بارے میں جتنے محکمے اتنے اندازے۔ جو یونٹ رجسٹرڈ بھی ہیں ان کے اکثر مالکان اور اکثر لیبر انسپکٹرز کے درمیان بڑا پکا زبانی معاہدہ ہوتا ہے کہ ہم تمہارے اور تم ہمارے۔
کراچی میں جو صنعتی یونٹ تین سو کے لگ بھگ مزدوروں کا جہنم بن گیا وہ بھی تو ایک رجسٹرڈ یونٹ ہے۔ مگر اس میں ہنگامی طور پر باہر نکلنے کا ایک بھی دروازہ نہ تھا۔ شاید کسی بھی لیبر انسپکٹر کو سیٹھ کے کمرے میں کھلنے والے دروازے کے سوا کوئی اور دروازہ دیکھنے کی کیا پڑی۔ یہی حالت کم و بیش دیگر ہزاروں فیکٹریوں کی ہے۔ مگر وہ تب تک بالکل محفوظ ہیں جب تک آگ نہیں لگ جاتی۔
اور آگ بھی لگ جائے تو زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ وفاقی حکومت کے محنت و افرادی قوت ڈویژن کے اعداد و شمار کے مطابق فیکٹریز لاء مجریہ انیس سو چونتیس کے ترمیمی مسودے مجریہ انیس سو ستانوے کے تحت رجسٹرڈ صنعتی یونٹوں میں دو ہزار چار سے نو کے درمیان ڈھائی ہزار کے لگ بھگ چھوٹے بڑے صنعتی حادثات ہوئے۔ ان میں دو سو باون کارکن جاں بحق، پانچ سو ستر شدید زخمی اور ڈیڑھ ہزار سے زائد معمولی زخمی ہوئے۔گویا پاکستان میں رجسٹرڈ صنعتی یونٹوں میں ہر سال اوسطاً تقریباً پانچ سو صنعتی حادثات ہوتے ہیں۔ مگر ہزاروں غیر رجسٹرڈ صنعتی یونٹوں میں کتنے حادثات ہوتے اور کتنے کارکن مرتے ہیں۔ یہ واقعات و اموات و زخم کس کھاتے میں درج ہوتے ہیں۔ معاوضہ کون، کتنا طے کرتا اور کسے دیتا ہے۔ یہ راز خدا جانے ، فیکٹری مالک جانے یا زندہ درگور خاندان جانے۔
کیا روک تھام یا کمی ہوسکتی ہے، کیا لیبر کورٹس کے ذریعے کسی کی حقیقی گرفت کبھی ممکن ہے ؟ فیکٹریز ایکٹ کے تحت کارکنوں کے جانی و مالی تحفظ سے غفلت برتنے والے صنعتی یونٹ کے مالکان کے لئے سزا کیا ہے ؟ کیا آپ جانتے ہیں ؟
فی خلاف ورزی پانچ سو سے ساڑھے سات سو روپے جرمانہ ۔
 
Top