Discovery Channel کے پروگرام "How The Universe Works - Season 1" کا اردو ترجمہ

زہیر عبّاس

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چندا ماما اور ماورائے ارض چاند - حصّہ سوم (آخری حصّہ)
8 How The Universe Works - Season 1, Episode
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سارے مقیّد چاند چھوٹے نہیں ہوتے.ٹرائٹن(Triton) ان سب مقیّد چاندوں کا باپ ہے(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ١٢). یہ سیّارہ نیپچون کے گرد چکر کاٹتا ہے. یہ کافی بڑا ہے اور اس کا قطر تقریبا"١٧٠٠ میل پر محیط ہے. مگر ٹرائٹن چاند کی اپنی ایک الگ انوکھی کہانی ہے. ٹرائٹن نے ماہرین فلکیات کے دماغ کی چولیں ہلا کر رکھی ہوئی تھیں. عام طور سے یہ ہی سمجھا جاتا تھا کہ جس طرف سیّارہ خود گردش کر رہا ہے اسی طرف اس کے چاند بھی اس کے مدار میں گردش کرتے ہیں. مگر نیپچون کے چاند ٹرائٹن کا معاملہ تو بالکل ہی الٹ تھا. نیپچون ایک طرف گھوم رہا ہے جبکہ اس کا چاند اس کی گردشی سمت کے مخالف طرف گھوم رہا ہے. اس کا مطلب تو سائنس دانوں کو یہ سمجھ میں آیا کہ اس کی پیدائش نیپچون سیّارے کے پیدا ہونے کے بعد بچ جانے والے گرد و غبار سے نہیں ہوئی کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو وہ اسی طرف چکر کاٹتا جس طرف سیّارہ خود گھوم رہے ہے. لہٰذاکوئی چیزتو ہے جو اس الٹی گنگا بہنے کا سبب بنی ہے. ٹرائٹن کافی بڑا ہے اور اس کا مدار بھی کچھ عجیب سا ہی ہے. ٹرائٹن خود بھی کافی الگ ہے اور سائنس دانوں کو محسوس ہوتا تھا کہ یہ نیپچون کے چاندوں کے نظام کے تحت نہیں پیدا ہوا. ایسا لگتا ہے کہ کوئی بونا سیّارہ (Dwarf Planet)تھا جو نیپچون کی قوّت ثقل کے زیر اثر یہاں قید ہوگیا ہے. سائنس دانوں کو یقین ہوا چلا ہے کہ ٹرائٹن، پلوٹو کی ہی طرح کا کوئی بونا سیّارہ تھا اور نیپچون جیسے دیوہیکل سیّارے کی قوّت ثقل لازمی طور پر اس قدر تھی کہ اس نے ایک ٹرائٹن کے حجم کا چاند پکڑ لیا. لازمی طور ٹرائٹن نظام شمسی کے باہر ی حصّے میں پیدا ہوا تھا اور کسی موقع پر نیپچون کی گرفت میں آگیا تھا. شاید ٹرائٹن کا اپنا بھی چاند تھا اور وہ بھی اس کے ساتھ ہی پکڑا گیا تھا مگر بعد میں وہ تباہ ہوگیا ہوگا. ٹرائٹن کا وجود خطرے میں ہے.نیپچون اس کو اپنے سے قریب سے قریب ترکررہا ہے. آخرکار وہ اس قدر قریب ہوجائے گا کہ نیپچون کی زبردست قوّت ثقل اس کو پارہ پارہ کردے گی. ٹرائٹن چاند نیپچون کے چھلے بنا کر پھر زندہ ہوگا.


اب ہم ذکر کرتے ہیں اپنے چاندا ماما کا. اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے. یہ یہاں کیسے آیا؟ کیا یہ بھی کوئی مقیّد سیّارچہ تو نہیں ہے. حقیقت تو اس سے بھی زیادہ چونکا دینے والی ہے. یہ تو بہت ہی قیامت خیز ماحول میں وجود میں آیا ہے. ہمارا چاند دوسرے بہت سے چاندوں کی طرح چٹانی ، بنجر اور شہابی گڑھوں سے بھرا ہوا چاند ہے. مگر ایک طرح سے ہمارا چاند نظام شمسی کا ایک نہایت ہی منفرد چاند ہے. بہت عرصے تک یہ سمجھا جاتا رہا کہ چاند بھی سیّارہ زمین کے پیدا ہونے کے بعد بچی ہوئی گرد و غبار سے ہی وجود میں آیا. مگر ١٩٦٠؁ میں ہوئی تحقیق نے بالکل ہی الگ نظریہ پیش کیا . اس تحقیق میں بتا یا گیا کہ چاند ایک زبردست تصادم کے نتیجہ میں وجود میں آیا . شروع میں تو یہ نظریہ زیادہ مقبول عام نہیں ہوا کیونکہ اس بات کے ثبوت تو چاند ہی پر موجود تھےاور اس ثبوت کو حاصل کرنے کے لئے اس وقت تک انتظار کرنا تھا جب تک اپالو کے خلانورد چاند پر پہنچ نہیں گئے. وہ وہاں سے سینکڑوں پونڈ چاند کی چٹانیں لے آئے . سائنس دانوں نے ان چٹانوں کا تجزیہ کیا اور وہ اس وقت حیران رہ گئے جب انہوں نے چاند سے لائی ہوئی چٹانوں کو بالکل زمین کے جیسی چٹانوں کے جیسا پایا جن کو بہت زیادہ درجہ حرارت پر گرم کیا ہو. آخر ایسا کیسا ہوسکتا تھا کہ زمین کے ٹکڑے زبردست گرم ہوکر چاند کی سطح پر پہنچ گئے ہوں. ہارٹ مین کو اس بات کا پورا یقین تھا کہ یہ ٹکڑے زمین سے ہی بنے ہیں.زمین سے کسی چیز کی ٹکر سے اس کی ہلکی سطح پھٹ گئی ہوگی اور چٹانی مادّہ اوپر آگیا ہوگا. پھر اس غبار نے زمین کے مدار میں جا کر چاند کو بنایا ہوگا. چاند کی پیدائش زمینی چٹانی گرد و غبار سے ہی ہوئی ہے. ذرا آج سے ٤.٥ ارب سال پہلے نظام شمسی کا تصور کریں. نوزائیدہ زمین ان سینکڑوں سیّاروں میں سے ایک تھی جو سورج کے گرد چکر لگا رہے تھے. ان میں سے ایک مریخ کے حجم کا سیّارہ جس کا نام تھیا (Theia)تھا اس کا تصادم زمین سے ہوا.زمین اور تھیا ایک دوسرے سے کی ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ٹکرائے . تھیا تباہ ہوگیا اور زمین بمشکل بچ پائی. اس تصادم نے ارب ہا ٹن گرد و غبار خلاء میں چھوڑا . اب یہ زمین کے بچے ہوئے ٹکڑے آپس میں جڑنا شروع ہوئے اور ہمارے چاند کی پیدائش ہوئی. یہ بہرحال ایک نظریہ ہی ہے.


مگر اس نظریے کی جانچ کس طرح کی جاسکتی ہے.ناسا میں ورٹیکل گن رینج تجربہ گاہ میں اس قدیمی حادثاتی ٹکراؤ کو دہرایا جا رہا ہے.جہاں ایک ٣٠ فٹ لمبی بندوق ایک چھوٹی سی چیز کو ١٨ ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے پھینکتی ہے. یہ چھوٹی سی چیز تھیا کی نقل ہے جبکہ جس گیند پر یہ پھینکی جارہی ہے وہ زمین کی شبیہ ہے. اس تجربے میں سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے مختلف زاویوں سے تھیا کو زمین پر مارا تاکہ وہ اس بات کی جانچ کر سکیں کہ کس زاویے سے تھیا زمین سے ٹکرایا تھا جس سے چاندکا ظہور ہوا. پہلی ٹکر میں تھیا زمین کے اوپری حصّے سے ٹکرایا . اس ٹکر میں زمین نے کچھ دھول اور مٹی خلاء میں پھینکی اور اس پر ایک طاس (Basin)بن گیا. یہ طا س ہزاروں میل لمبا اور چوڑا تھا. ان تجربے میں تھیا نے صرف زمین کی اوپری سطح ہی چھیلا تھا اور دھول اور مٹی اتنی زیادہ نہیں تھی کہ جس سے چاند پیدا ہوسکے. دوسرے تجربے میں تھیا سیدھا زمین سے ٹکرایا . اس سے زمین ہی کا خاتمہ ہوگیا. اس کی بچی ہوئی مٹی نے کئی دوسرے چھوٹے سیّارے بنا دیئے . لہٰذا جب زمین ہی نہ رہی تو چاند کہاں سے آتا. تیسرے تجربہ میں بندوق کا رخ پھر تبدیل کیا اور ایک نئے زاویے سے تھیا زمین سے ٹکرائی. اس تجربے میں سائنس دانوں نے دیکھا کہ زمین بمشکل بچ سکی. اس ٹکر میں زمین کا ایک بڑا ٹکرا ٹوٹ گیا اور دھول اور مٹی خلاء میں بکھر گئی. یہ ہی چاند کے بننے کی شروعات تھی. تجربے نے بتایا کہ تھیا زمین سے ٹکرا کر پاش پاش ہوسکتا تھا اور اس حادثے میں چاند کی تخلیق ہو سکتی تھی. مگر اس تصادم کو بالکل ٹھیک زاویے سے ہونا تھا . ہماری خوش قسمتی کہ ایسا ہی ہوا.آج چاند زمین سے ٢٥٠ ہزار میل دور ہے. مگر جب یہ پہلی دفعہ بنا تھا تو زمین سے صرف ١٥ ہزار میل اوپر ہی تھا . چاند کی تخلیق کے ہم ٥٠ کروڑ سال بعد اگر آسمان کی طرف نظر اٹھا کر دیکھتے تو وہ آسمان کا کافی حصّہ گھیرے ہوئے نظر آتا . وہ بہت ہی بڑا نظر آتا کیوں کہ وہ زمین سے بہت ہی قریب تھا. اس وقت زمین کی گردش اتنی تیز تھی کہ ایک دن چھ گھنٹے میں پورا ہوجاتا تھا. چاند کے زمین سے اس قدر نزدیک ہونے کی وجہہ سے اس نے ایک بریک کی طرح کام کیا اور زمین کی گردش کو آہستہ کیا اتنا آہستہ کہ اب اس کی گردش ٢٤ گھنٹے میں مکمل ہوجاتی ہے.چاند کی قوّت ثقل عظیم مدو جزر پیدا کرتی ہے.جس سے سمندروں میں معدنیات اور غذایت بخش اجزاء حل ہوجاتی ہیں. اس ہی نے وہ اوّلین گاڑھا مادّہ پیدا کیا جس سے زندگی کا آغاز ہوا. ہمارے چندا ماما کے بغیر زمین پر زندگی کی شروعات نہیں ہوسکتی تھی اور شاید دوسرے چاند بھی زندگی کو پنپنے کے لئے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں.


چاند کائنات کی عظیم حیاتیاتی تجربہ گاہیں ہیں. چاند حیرتوں کے پہاڑ ہیں.ان کی متنوع فیہ قسمیں ہیں . جس میں عظیم آتش فشاں سے لے کر وسیع سمندر تک موجود ہیں. اب ہم جان چکے ہیں کہ وہ حیات کو دوام بخشنے والے مرکبات سے بھرپور ہیں. ہمارے نظام شمسی میں موجود چاند کائنات کو سمجھنے کے لئے ایک بہترین جگہ ہیں. شاید ہم یہاں زندگی کو کسی شکل میں ڈھونڈھ ہی نکالیں گے. شاید یہاں ہمیں ایسی زندگی مل سکے جو کائنات میں موجود حیات کے بارے میں راز افشا کرے.


پہلی نظر میں کوئی بھی چاند حیات کے لئے موزوں نہیں لگتا. انسیلیڈس کو ہی لیجئے . یہ چمکتی ہوئی برفیلی گیند ہے٣٠٠ میل پر محیط یہ زحل کے گرد چکر کاٹ رہی ہے. یہ نظام شمسی کا روشن ترین جسم ہے.یہ ١٠٠ فیصد روشنی کو منعکس کرتا ہے. یہ نہایت روشن اور چمکدار ہے.کیونکہ یہ پانی کی برف سے بنا ہوا ہے.٢٠٠٥؁ءمیں کسینی کھوجی نے یہاں کے برفیلے آتش فشاں دیکھے جو اس کی سطح پر موجود تھے. اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ اس کے قلب میں موجود حرارت ہی یہ کام کررہی ہوگی اور حرارت ہی پانی کے سمندر بناتی ہے اور جہاں پانی ہوتا ہے وہاں زندگی ہونے کا امکان ہوتا ہے. یہاں پر موجود ایک چشمہ پانی کو ١٥٠ فٹ کی بلندی تک پھینک رہا ہے.یہ بہت ہی حیرت انگیز اور ناقابل یقین ہے. اگر آپ انسیلیڈس کی سطح پر کھڑے ہوں تو آپ دیکھیں گے کہ وہاں موجود چشمے برف کے ذرے اور پانی کے بخارات خلاء میں میلوں دور پھینک رہے ہوں گے.


برفیلے آتش فشاں کو قوّت ثقل توانائی پہنچاتی ہے . یہاں زحل کی قوّت اس کے چاند کے قلب کو گرما رہی ہے. اس کی سطح کے نیچے موجود پانی گرم ہوکر پھیلتا ہے اور سطح سے پھٹ کر باہر نکلتا ہے اور فضا میں برف کی قلمیں بنا کر اچھال دیتا ہے. یہ نظام شمسی کے چند شاندار نظروں میں سے ایک ہیں.ان آتش فشانیوں کی برف میں سائنس دانوں کو سادہ حیاتی سالمے ملے ہیں. جس کا مطلب ہے کہ سطح زمین کے نیچے موجود پانی نہ صرف گرم ہے بلکہ حیاتیاتی مرکبات سے بھی بھرپور ہے.زندگی کی شروعات کے لئے تین انتہائی اہم چیزیں یعنی حرارت، پانی اور غذایت سے بھرپور اجزاء زمین کے سمندروں میں موجود ہوتی ہیں یہ تینوں چیزیں وہاں پر زیر زمین سمندروں میں بھی موجود ہو سکتی ہیں. یہ ایک زبردست دریافت تھی کہ انسیلیڈس میں زیر زمین سمندر موجود ہے اور شاید مشتری کے چاند یوروپا میں بھی. مگر صرف یہ ہی وہ چاند نہیں ہیں جہاں زندگی شروع ہو سکتی ہے . زحل کا ایک اور چاند ہے ٹائٹن جہاں زندگی شروع ہونے کا سب سے زیادہ امکان ہے.


٢٠٠٥؁ءمیں کسینی نے ایک کھوجی جس کا نام ہائی گنز (Huygens)تھا وہ یکطرفہ مشن پر ٹائٹن پر بھیجا. صرف ٣١.٥ گھنٹے ہائی گنز نےبراہ راست ٹائٹن کی سطح کی تصاویر زمین سے ایک ارب میل دور سےبھیجیں. اس کے بعد اس کی بیٹری ختم ہوگئی.یہ بہت ہی ہیجان انگیز تھا پہلی دفعہ انسان کی بنائی ہوئی کسی چیز نے اس کی سطح کو چھوا تھا.یہ ایک ایسا موقع تھا جسے پوری دنیا میں منانا چاہیے تھا . یہ واقعی تاریخ ساز لمحہ تھا.


ٹائٹن میں بارش کے قطرے زمین سے دوگنے ہوتے ہیں مگر وہاں بارش پانی کی نہیں بلکہ میتھین کی ہوتی ہے(ملاحظہ کیجئے تصویر نمبر ١٣).زمین پر میتھین گیس کی شکل میں موجود ہوتی ہے مگر ٹائٹن پر یہ مائع حالت میں پائی جاتی ہے .کیونکہ وہاں درجہ حرارت کافی کم ہوتا ہے . ہوسکتا ہے کہ وہاں کوئی میتھین کی برف کے تودے موجود ہوں، یہ بھی ممکن ہے کہ وہاں جھیلیں، دریا، بارش اور بادل سب کے سب میتھین کے ہوں اور ہو سکتا ہے کہ کبھی کوئی کیڑا بھی میتھین میں تیرتا ہوا مل جائے. مائع میتھین میں پلنے والے کیڑے سوچ کر ہی عجیب سے محسوس ہوتے ہیں. سائنس دان یہ دریافت کرچکے ہیں کہ انسیلیڈس ، یوروپا اور ٹائٹن سب کے سب ایک مادّے جس کا نام تھولین(Tholin) ہے سے بھرپور ہیں. تھولین زندگی کو شروع کرنے والے بنیادی عنصر کا ایک اہم جز ہے. ہوسکتا ہے کہ زندگی کسی ایک یا ایک سے زیادہ ماوراء ارض چاندوں پر نمودار ہوجائے.


کرس مکآئی(Chris Mckay) تھولین بنانے کے عمل کو تجربہ گاہ میں دہرا رہے ہیں . انہوں نے ٹائٹن میں پائے جانے والے مکسچر کو بجلی کے ساتھ ملایا تو ان کو ایک سرخی مائل بھورے رنگ کا گارا ملا جس کو ہم تھولین کہتے ہیں. یہ غیر حیاتیاتی اور غیر نامیاتی مرکب ہے. انہوں نے اس کو کیمیائی توانائی سے بنایا جس میں نائٹروجن اور میتھین شامل ہیں اور یہ گیسیں ٹائٹن میں عام پائی جاتی ہیں. سائنس دانوں نے اس طرح کے ثبوت انسیلیڈس میں بھی دیکھے ہیں. بلکہ سورج کے بیرونی مدار میں موجود اکثر چاندوں پر اس قسم کے مرکب پائے گئے ہیں. یہ قدرت کے وہ اجزاء ترکیبی ہیں جن سے آخر کار زندگی نمودار ہوجاتی ہے. سورج کے بیرونی مدار میں موجود کسی چاند پر ہوسکتا ہے زندگی کی شروعات ہوچکی ہو. مگر شاید وہ زندگی اس زندگی سے کافی مختلف ہو جو ہم زمین پر دیکھتے ہیں. یہ زندگی کا ورژن ٢ ہو جو زندگی کے ورژن ١ سے کافی مختلف ہو. درحقیقت زندگی ٢ جتنی زیادہ الگ ہوگی اتنی زیادہ دلچسپ ہوگی.چاہے یہ زندگی پر پائی جانے والی زندگی کے جیسی ہو یا اس سے مختلف ، سورج کے بیرونی مدار میں پائے جانے والے ان چاندوں میں ملنے والی زندگی ہمیں کائنات میں موجود زندگی کو ڈھونڈھنے کے طریقہ کو بدل کر رکھ دے گی. اگر ہم نظام شمسی میں زندگی کو کسی دوسری جگہ پر ڈھونڈھنے میں کامیاب ہوگئے تو ہم اس بحث کو ختم کرسکتے ہیں کہ ہم اور ہماری زندگی کائنات میں منفرد اور انوکھی ہے.


چاند سیّاروں کے مقابلے میں اگرچہ چھوٹے ہوتے ہیں مگر وہ نہایت متنوع فیہ اور متحرک ہوتے ہیں . یہ ہمیں کائنات کے کام کرنے کے طریقہ کار کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں. یہ اس کونیاتی نظام کا لازمی حصّہ ہیں.چاندوں کے بغیر ہمارا نظام شمسی بالکل ہی علیحده ہوتا .ہم جانتے ہیں کہ ہمارے اپنے چندا ماما کے بغیر زمین پر زندگی کبھی پنپ ہی نہیں سکتی تھی.

تمام شد ۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
پہلے سیزن کا ترجمہ ختم ہوگیا ہے۔ اب اگر قاری حضرات کی دلچسپی ہو تو میں دوسرے سیزن کا ترجمہ بھی پوسٹ کرنا شروع کروں۔ اصل میں وہ تو شکر ہے کہ اردو محفل میں یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ پوسٹ کو کتنی مرتبہ پڑھا گیا ہے۔ ورنہ تو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ آیا چند لوگوں کے سوا دوسرے بھی اس کو پڑھنا چاہتے ہیں یا صرف میں اپنی ذہنی تسکین و عیاشی کی خاطر اس کو پوسٹ کئے جارہا ہوں۔ سائنس سے متعلق فیس بک کے کچھ گروپس پر بھی پوسٹنگ کی تھی وہاں تو اس صورت میں ہی معلوم ہوتا ہے کہ کتنے لوگوں نے پڑھا جب کوئی تبصرہ کرے یا پھر پسند کرے۔
فلکیات اور دوسری عمومی سائنس کے متعلق گلوبل سائنس میں اچھا مواد مل جاتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ وہ میرے جیسے قاری کے لئے بہت ہی تھوڑا ہوتا ہے کیونکہ یہ مہینے میں ایک مرتبہ چھپتا ہے اور میں اسے ایک ہی دن میں چاٹ جاتا ہوں لہٰذا میری پیاس نہیں بجھ پاتی۔ اسی بات کو سوچتے ہوئے میں خود اس میدان کو کود پڑا کہ اگر روز تھوڑا تھوڑا مواد انٹرنیٹ پر پوسٹ کیا جائے تو میرے جیسے لوگ اس سے کچھ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
بہرحال آج اگر کچھ اس بارے میں فیڈ بیک ملتا ہے تو انشااللہ میں کل سے دوسرا سیزن بھی ایک نئی لڑی کے ساتھ شروع کردوں گا۔
میں محترم جناب الف عین صاحب کا شکر گزار ہوں کہ انہوں نے اپنی بزم اردو لائبریری میں اس ترجمہ کو ایک کتاب کی شکل میں شایع کردیا ہے۔ جو حضرات اس کو کتاب کی صورت میں پڑھنا چاہتے ہیں وہ http://wp.me/p4c4xB-1zI پر جاکر پڑھ سکتے ہیں ۔ کتاب کا عنوان "آفاق کی یہ کارگہ شیشہ گری" بھیانہوں ہی تجویز کیا تھا۔ لہٰذا اب دوسرے سیزن کی لڑی کا نام "آفاق کی یہ کارگہ شیشہ گری - حصّہ دوم" کے نام سے شروع کرنے کا ارادہ ہے۔

نوٹ : مجھے سیزن ٣ کی قسط نمبر ٨ اور ٩ کے سب ٹائٹل درکار ہیں. اگر کسی کے پاس ہوں تو رابطہ کرسکتا ہے یا پھر کوئی لنک بھیج سکتا ہے. شکریہ
 
آخری تدوین:

موجو

لائبریرین
بہت ہی عمدہ جناب
آپ نے اس کا ترجمہ کرکے بڑی نیکی کی ہے ہم جیسے جاہلوں کے لیے۔
تجویز ہے: تبصروں کا دھاگہ علیحدہ ہو۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
نکتہ ور اورموجو آپ دونوں حضرات کا شکریہ.۔۔۔ نکتہ ور بھائی بات یہ ہے کہ تصویر کو شامل کرنا کافی درد سری ہے ۔۔۔پہلے کسی ویب سائٹ پر اپلوڈ کروں پھر وہاں سے یہاں پر شامل کروں۔ میں اتنا کمپیوٹر کا کوئی ایکسپرٹ نہیں ہوں. اگر براہ راست شامل کرسکتا تو ضرور کرتا. بہرحال جب کبھی کتاب کی صورت میں اس کو شایع کروں گا تو وہ شامل کردوں گا. اصل میں تصویروں کے بغیر اس کو پڑھنے کا صحیح لطف نہیں اٹھایا جاسکتا۔
 
آخری تدوین:
Top