فاتح
لائبریرین
چلیں غالب کی روح جنت میں کھیل کود پر لگ گئی۔۔۔تو اور کیا کرتی فاتح بھیا، بس یہی ایک صورت مناسب لگی ہمیں تو
بازیچۂ اطفال ہے جنت مرے آگے
چلیں غالب کی روح جنت میں کھیل کود پر لگ گئی۔۔۔تو اور کیا کرتی فاتح بھیا، بس یہی ایک صورت مناسب لگی ہمیں تو
اور یہ بھی میری خفگی نما دھمکی کی وجہ سے ممکن ہوا ہے ۔۔ ہاہاہہاہاہ
میں نے کہا بھی تھا کہ محفل میں نئے نظام متعارف ہی اس لیے ہوئے ہیں کہ ہم گیٹ پاس کے بغیر نہ آسکیں ۔ہاہاہاہہا
چلیں غالب کی روح جنت میں کھیل کود پر لگ گئی۔۔۔
بازیچۂ اطفال ہے جنت مرے آگے
آگلے کاحصہ کا مجھے انتظار رہے گاتبسم بٹیا ۔ ۔لو اگلا حصہ ملاحظہ کرو۔۔۔
ننھا منا سا چھوٹاغالبؔ کا ضبطِ تحریر میں لایا ہوا ہمارا خاکہ ’’ مغل سے مغزل تک‘‘ میں جو معلومات ہیں وہاں محض ایک کردار ’’ افسانہ نگار قبلہ چھوٹا غالب ہو الاصل اویس قرنی ‘‘ کی ذاتی بالیدگی پر دال ہے یعنی بابا جانی الف عین کا کردار ۔۔ جبکہ ہماری حقیقی زندگی میں یہ کردار ہمارےبابو جی یعنی میری پٹھانی کے بابا جانی (اللہ بابا جان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے آمین ثم آمین ) کا ہے ۔ جوغالب کی برسی کے موقع پر دیوانِ غالب لے بیٹھا کرتے ہیں اور سب گھر والوں سے الگ تھلگ غالب کی برسی منایا کرتے تھے۔ ۔سیکڑوں ہی اشعار بابا جان کے لب پر ہمیشہ رہتے تھے بابا جان کی شفقت اور غالب سے عقیدت نے غزل کے دل میں شعر کا بیج بو دیا ۔ یوں ابتدائی عرصے سے غزل باقاعدہ غزل کی طرف راغب ہوئی ۔ میرا اور غزل کا ملن اللہ تبارک و تعالیٰ نے شاید غزل کے پہلے شعر کے ساتھ ہی طے کردیا تھا ۔۔ میرا ایمان ہے کہ پروانے میں عشق کا جوہر رکھنے سے بہت پہلے قدرت شمع میں عشق کی آگ کو جلا بخش دیتی ہے جس پر پروانہ دیوانہ وار خود کو فنا کرلیتا ہے ۔۔ بس ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا برسوں کی ریاضت اور مجاہدے کے بعد جب غزل نے ایک شاعرِ بے ربط و بے نوا۔۔ م۔م۔مغل کی شب بھر کی دعائیہ ریاضتوں کے بعد ایک جملہ کہا۔ ’’ اوے کنجوس ۔۔ یہ تم کیا کرتے ہو کہ میں جتنا تم سے دور رہی تم بہت یاد آتے رہے ۔۔ یہ مجھے ہو کیا گیا ہے ‘‘ ۔۔ تاریخ اور دیگر باتیں چھوٹا غالب کے ہمارے خاکے میں ہمارے سر توڑ بلکہ سر پھوڑ قسم کے سوالات کے بعد ہمارے لاشعوری انٹرویو کے بعد شامل ہوئے ۔۔ یہ وہ عرصہ تھا جب چھوٹا غالب ’’پولیس کی لترول والے واقعے ‘‘ میں محفل سے عنقا تھے ۔۔۔ تو تبسم بٹیا رانی ۔۔ غزل کے ایک شعر پر ہم نے اعتراض اللہ خاں اعتراض ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے حرفِ نقد دراز کیا اور ۔۔۔ پھررر۔۔ بقول: ننھا منا غالب ::: ۔۔بیچارہ شہزادہ گلفام ۔ شہزادی بدرمنیر کےمسکراہٹ سے لبریز عتاب کا شکا ر ہوا۔۔ پھر محبتوں بھرے پیامیہ خطوط کے ساتھ ساتھ نہ رکنے والی جھڑپوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔۔ اور ہم دونوں ۔۔۔ گوڈوں گوڈوں (گھٹنوں گھٹنوں بلکہ سرتاپا) عشق میں ڈوبنے لگے ۔۔ کہتے ہیں کہ عشق انتہاؤں پر میں اور تو کا فرق مٹا دیتا ہے تو بالکل ٹھیک ہی کہتے ہیں ۔۔ یوں ہم مغل+غزل= مغزل ہوگئے ۔۔ (لڑائی جتنی ہم دونوں کرتے ہیں اگر کسی کو معلوم ہوجائے تو ہمیں پاگل قرار دے ہاہاہااہاہ)۔۔ لیکن کون جانے کہ یہ لڑائی خود حوالگی اور خود سپردگی کی کن انتہاؤں پر نصیب ہوتی ہے ۔۔غزل سے پہلے میں اپنے شعری اظہار میں ’’معاشرتی‘‘ دکھوں اور تجربات کو شعر کا لازمہ جانتا تھا ۔۔ میرے اظہارِ محبت کے چار سال بعد جب غزل نے جرمِ محبت کا اقرا رکیا اور سزا چاہی تو ۔۔ پہلا شعر یہ مجھ سے سرزد ہوا۔۔۔
تم غزل ہو غزال ہو کیا ہو
دشت آباد ہوگیا میرا۔۔۔
باقی آئندہ ۔۔۔ کھانے کا سمے ہوا چاہتا ہے ۔۔
نہیں نا ںںںںںںںںںںںںںںںںں پاگل ۔ ۔ ۔ ۔صبر کر بچووووو۔۔۔ ہاہاہاہ میں بتادوں ؟؟ کون ٹھہرتا ہے ۔۔ ہاہاہااہاہاہا ؟؟؟ بولو بولو ۔
ہاں آپی
آپ کو بھی پنجابھی آتی ہے
اففففففففففف میں تو ڈر گئی تھی کے کہیں آپ بھی پنجابی نا بول نے لگ جائےہاہاہاہاہا ۔ ۔ ۔ ۔نہیں آتی بہنا ، یہ تو محمود سے سیکھی ہے بس تھوڑی سی
ہائےےےےےےےےےےےےےےےےے میرے اللہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔تبسم بٹیا ۔ ۔لو اگلا حصہ ملاحظہ کرو۔۔۔
ننھا منا سا چھوٹاغالبؔ کا ضبطِ تحریر میں لایا ہوا ہمارا خاکہ ’’ مغل سے مغزل تک‘‘ میں جو معلومات ہیں وہاں محض ایک کردار ’’ افسانہ نگار قبلہ چھوٹا غالب ہو الاصل اویس قرنی ‘‘ کی ذاتی بالیدگی پر دال ہے یعنی بابا جانی الف عین کا کردار ۔۔ جبکہ ہماری حقیقی زندگی میں یہ کردار ہمارےبابو جی یعنی میری پٹھانی کے بابا جانی (اللہ بابا جان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے آمین ثم آمین ) کا ہے ۔ جوغالب کی برسی کے موقع پر دیوانِ غالب لے بیٹھا کرتے ہیں اور سب گھر والوں سے الگ تھلگ غالب کی برسی منایا کرتے تھے۔ ۔سیکڑوں ہی اشعار بابا جان کے لب پر ہمیشہ رہتے تھے بابا جان کی شفقت اور غالب سے عقیدت نے غزل کے دل میں شعر کا بیج بو دیا ۔ یوں ابتدائی عرصے سے غزل باقاعدہ غزل کی طرف راغب ہوئی ۔ میرا اور غزل کا ملن اللہ تبارک و تعالیٰ نے شاید غزل کے پہلے شعر کے ساتھ ہی طے کردیا تھا ۔۔ میرا ایمان ہے کہ پروانے میں عشق کا جوہر رکھنے سے بہت پہلے قدرت شمع میں عشق کی آگ کو جلا بخش دیتی ہے جس پر پروانہ دیوانہ وار خود کو فنا کرلیتا ہے ۔۔ بس ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا برسوں کی ریاضت اور مجاہدے کے بعد جب غزل نے ایک شاعرِ بے ربط و بے نوا۔۔ م۔م۔مغل کی شب بھر کی دعائیہ ریاضتوں کے بعد ایک جملہ کہا۔ ’’ اوے کنجوس ۔۔ یہ تم کیا کرتے ہو کہ میں جتنا تم سے دور رہی تم بہت یاد آتے رہے ۔۔ یہ مجھے ہو کیا گیا ہے ‘‘ ۔۔ تاریخ اور دیگر باتیں چھوٹا غالب کے ہمارے خاکے میں ہمارے سر توڑ بلکہ سر پھوڑ قسم کے سوالات کے بعد ہمارے لاشعوری انٹرویو کے بعد شامل ہوئے ۔۔ یہ وہ عرصہ تھا جب چھوٹا غالب ’’پولیس کی لترول والے واقعے ‘‘ میں محفل سے عنقا تھے ۔۔۔ تو تبسم بٹیا رانی ۔۔ غزل کے ایک شعر پر ہم نے اعتراض اللہ خاں اعتراض ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے حرفِ نقد دراز کیا اور ۔۔۔ پھررر۔۔ بقول: ننھا منا غالب ::: ۔۔بیچارہ شہزادہ گلفام ۔ بدرمنیر کےمسکراہٹ سے لبریز عتاب کا شکا ر ہوا۔۔ پھر محبتوں بھرے پیامیہ خطوط کے ساتھ ساتھ نہ رکنے والی جھڑپوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا۔۔ اور ہم دونوں ۔۔۔ گوڈوں گوڈوں (گھٹنوں گھٹنوں بلکہ سرتاپا) عشق میں ڈوبنے لگے ۔۔ کہتے ہیں کہ عشق انتہاؤں پر میں اور تو کا فرق مٹا دیتا ہے تو بالکل ٹھیک ہی کہتے ہیں ۔۔ یوں ہم مغل+غزل= مغزل ہوگئے ۔۔ (لڑائی جتنی ہم دونوں کرتے ہیں اگر کسی کو معلوم ہوجائے تو ہمیں پاگل قرار دے ہاہاہااہاہ)۔۔ لیکن کون جانے کہ یہ لڑائی خود حوالگی اور خود سپردگی کی کن انتہاؤں پر نصیب ہوتی ہے ۔۔غزل سے پہلے میں اپنے شعری اظہار میں ’’معاشرتی‘‘ دکھوں اور تجربات کو شعر کا لازمہ جانتا تھا ۔۔ میرے اظہارِ محبت کے چار سال بعد جب غزل نے جرمِ محبت کا اقرا رکیا اور سزا چاہی تو ۔۔ پہلا شعر یہ مجھ سے سرزد ہوا۔۔۔
تم غزل ہو غزال ہو کیا ہو
دشت آباد ہوگیا میرا۔۔۔
باقی آئندہ ۔۔۔ کھانے کا سمے ہوا چاہتا ہے ۔۔
نہیں نہیں میں نہیں بولوں گی پنجابی ۔ ۔ ۔ ۔فکر ناٹ بہنااففففففففففف میں تو ڈر گئی تھی کے کہیں آپ بھی پنجابی نا بول نے لگ جائے
80سے 100 پر آنے کی بہت مبارکباد چندا غ۔ن۔غ
اللہ تم کو ہمیشہ شاد آباد اور سدا سہاگن رکھے آمین
(دونوں بچوں کو دعا دیدی )