نواب یوسف علی خان 14 جنوری 1858
و از مئی خود آشکار است کہ حال چیست؟ پیوند تعلق با بہادر شاہ جز آن نبود کہ از ہفت ہشت سال بہ تحریر تاریخ سلاطین تیموریہ و از دو سہ سال بہ اصلاح اشعار شہریاری پرداختم۔ درین ہنگامہ خودرا بکنار کشیدم و بدین اندیشہ کہ مبادا گر یک قلم ترک آمیزش کنم خانہ من بتاراج رود، و جان در معرض تلف افتد، بہ باطن بےگانہ و بہ ظاہر آشناماندم ہرگاہ شہر بردست سپاہ انگریز فتح شد، ہمہ جاگیرداران و پنسن داران از شہر بدر رفتند، چناں کہ تا امروز آوارہ دشت و کوہ اند، من از جانہ جنیدم وہم چناں گوشہ گیر ماندم۔ درین بندوبست کہ خاصہ از ببرِ سیاست مجرمان است۔۔۔ و تحقیقاتِ جرم ازروی دفتر قلعہ و اظہار مخبران می کنند، ہیچ گونہ آلایشِ دامنِ من پدید نیامد، و دارو گیرو باز پرس رو نہ داد۔ بودن من در شہر از حکام نہان نیست۔ اما چوں پرسشی درمیان نیست ۔ لاجرم محفوظ ماندہ ام ۔ می بایست کہ خود سلسلہ جنبان گشتمی و با حکام پیوستمی۔ درین بارہ سخن آن ست کہ درین فرماند ہان باہیچ کس سابقہ، معرفتی ندارم و مع ہذا ہنوز موقع و محلِ آن نمی نگرم کہ نامہ نویسم و خواہش ملاقات بہ میان آورم۔راستی این کہ درفتنہ و آشوب خدمتی بجانیاہ وردہ ام ، لیکن مقام شکر است کہ بہ تقدیم نرسیدن خدمت ازراہ بے دستگاہی است، و ذریعہ اخلاص و خلوص ہمان بے گناہی است ۔
(ترجمہ از فیصل عظیم فیصل ۔ کیونکہ یہ خط مکمل فارسی میں ہی منقول ہے اور میں فارسی سے اردو ترجمہ پر اچھی طرح سے قادر نہیں ہوں امید ہے کوئی قاری اس کی اصلاح بھی کر دے گا
کیونکہ اناڑی ہوں لیکن مکمل خط فارسی میں نقل کرتا تو اس دھاگے میں بد مزگی پیدا ہو جاتی لہذا ٹوٹا پھوٹا جیسا تیسا ہوا کر دیا۔)
مئی سے حال تو اپنے آپ سے ظاہر ہے ۔ بہادر شاہ سے سات آٹھ برس کاتعلق سلاطین تیموریہ کی تاریخ لکھنے اور دو تین سال کا شہریاری شاعری کی اصلاح میں گزرا ۔اس ہنگامہ میں قلم ایک طرف رکھ دیا کہ مبادا قلم ترک نہ کیا تو گھر سے ہاتھ دھو بیٹھوں اور سرعام جان گنوا دوں ۔باہر سے ہوش میں اور اندر سے بے گانہ ہوں ۔ شہر کی ہر جگہ انگریز سپاہ فتح یاب ہوئی، کیا جاگیردار کیا پنشن خوار سب شہر بدر ہوئےاور آج تک دشت و کوہ میں دربدر ہوئے پھرتے ہیں۔میں نے اپنی جان لی اور یہیں گوشہ گیر ہو بیٹھا۔اس تعلق سے جو فاتح کا مجرموں سے ہے۔۔۔۔۔اور جرائم کی تحقیات مخبروں اور دفتر قلعہ سے کی جاتی ہیں اس میں کوئی حرج بھی نہیں، میرا دامن چونکہ کسی آلائش سے پاک ہے، مجھ سے کچھ بازپرس نہ کی گئی ، کہ میرا شہر میں وجود حکام سے مخفی نہ ہے۔ اس تفتیش و پرسش میں کوئی نہ بچا۔ میں محفوظ ہوں ۔ میں خود بھی کہیں نہ گیا نہ حکام سے ملا ۔اب کوئی شخص بھی پہلے جیسا نہ ہے۔ اب کچھ جانتا نہیں اور ملاقات یا خط لکھنے کا موقع و محل بھی نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس آشوب اور فتنہ کے وقت میں خدمت کیسی ۔ اور خدمت کا نہ ہونا مقام شکر ہے کہ میری طرف سے نہ تھا۔ گو کہ تنگی ہے اور خلوص اور سچائی اپنے آپ میں بے گناہی کا ثبوت ہوتی ہے۔