سید ذیشان حیدر
محفلین
نئی غزل پیشِ خدمت ہے۔ اصلاح کی درخواست ہے۔
ابھی زیرِ گرداب آئے ہوئے ہیں
کہ طوفانوں نے سر اُٹھائے ہوئے ہیں
یہ اُمید، یہ چارہ جوئی، یہ قسمت
میاں میرے کس کام آئے ہوئے ہیں
علاجِ غمِ جان و دل ہم سے مت پوچھ
اِسی غم کے ہم بھی ستائے ہوئے ہیں
مرے زخم کی دوستوں کو خبر ہے؟
قبا میں نمکداں چھپائے ہوئے ہیں
تجھے دوستوں سے ہے اُمید تو رکھ
مرے سب کے سب آزمائے ہوئے ہیں
جو اب کوئے دِل میں تُو آئے تو سوچے
کہ اِس شہرِ ویراں میں آئے ہوئے ہیں
ہماری کوئی قدر و قیمت نہیں ہے
میاں ہم نظر سے گرائے ہوئے ہیں
گزرنا ہے اب کوئے جاناں سے ہم کو
ہتھیلی پہ جاں رکھ کے آئے ہوئے ہیں
سر الف عین ، محمد ریحان قریشی محمد خلیل الرحمٰن
ابھی زیرِ گرداب آئے ہوئے ہیں
کہ طوفانوں نے سر اُٹھائے ہوئے ہیں
یہ اُمید، یہ چارہ جوئی، یہ قسمت
میاں میرے کس کام آئے ہوئے ہیں
علاجِ غمِ جان و دل ہم سے مت پوچھ
اِسی غم کے ہم بھی ستائے ہوئے ہیں
مرے زخم کی دوستوں کو خبر ہے؟
قبا میں نمکداں چھپائے ہوئے ہیں
تجھے دوستوں سے ہے اُمید تو رکھ
مرے سب کے سب آزمائے ہوئے ہیں
جو اب کوئے دِل میں تُو آئے تو سوچے
کہ اِس شہرِ ویراں میں آئے ہوئے ہیں
ہماری کوئی قدر و قیمت نہیں ہے
میاں ہم نظر سے گرائے ہوئے ہیں
گزرنا ہے اب کوئے جاناں سے ہم کو
ہتھیلی پہ جاں رکھ کے آئے ہوئے ہیں
سر الف عین ، محمد ریحان قریشی محمد خلیل الرحمٰن