محمد کاشف تبسم
محفلین
*⭐خاموش اذانیں ہیں تری بادِ سحَر میں⭐*
✍محمد کاشف تبسم
پانچ سو سال بعد اسپین اذاں سے گونج اٹھا،عالمی وبا کورونا نے اٹلی کے بعد اسپین کو دبوچ لیا ہے،یہاں اسلامی شعار پر مکمل پابندی عاٸد ہے۔
ایک خبر کے مطابق” البیازین مسجد میں 500 سال کے بعد اذان دی گئی۔کچھ مسلمانوں نے گھروں کی بالکونیوں میں کھڑے ہوکر اذان دی۔“
*اللہ اکبر۔۔۔اللہ اکبر*
یہ وہی اسپین یا اندلس ہےجس کی سرزمین پر طارق بن زیاد رح نے اپنی فوج سے تاریخی تقریر کی ، جس کے اِبتدائی الفاظ یوں تھے :
أيها النّاسُ! أين المفرّ؟ البحر مِن ورائِکم و العدوّ أمامکم، و ليس لکم و اﷲِ إلا الصّدق و الصبر.
(دولةُ الاسلام فی الاندلس، 1 : 46)
اے لوگو! بھاگنے کا راستہ کہاں ہے؟ تمہارے پیچھے سمندر ہے اور سامنے دُشمن اور بخدا تمہارے لیے ثابت قدمی اور صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
اِس تقریر سے پہلے ’طارق بن زیاد‘ نے سمندر میں کھڑی اپنی کشتیاں جلادی تھیں تاکہ فتح کے سوا زِندہ بچ نکلنے کے باقی تمام راستے بند ہو جائیں۔اس کے بعد مسلمان فوج نے ڈٹ کر مقابل کیا اور 19جولائی 711ء کے تاریخی دِن ’وادئ لکہ‘ کے مقام پر ہسپانوی اَفواج کو شکستِ فاش سے دوچار کیا، جس میں گاتھ بادشاہ فرار ہوتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مر گیا۔ اِس بڑے معرکے کے بعد جہاں عالمِ اِسلام خصوصاً افریقہ میں مسرّت کی لہر دوڑ گئی وہاں اسپین کے عوام نے یومِ نجات منایا!اور پھر آٹھ سو سال تک کامیاب اسلامی حکومت رہی، یوں اسلامی تاریخ ہی نہیں بل کہ پورے یورپ کی ترقی کا ایک نیا باب شروع ہوا،اسپین کی دھرتی سے نامور مسلمان ساٸنسدان اور ڈاکٹروں نے جنم لیا جو جدید ترقی یافتہ دور کی بنیاد بنے۔ابو القاسم زہراوی (سر جری کا بانی) ابن رشد، امام ابن حزم، ابن زہر ابن طفیل، امام قرطبی اور دیگر سینکڑوں علماء وفضلاء اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔
اور پھر 892ھ بمطابق 1492ء میں اسپین میں مسلم اقتدار کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا اور ان کی آخری ریاست غرناطہ بھی مسیحیوں کے قبضے میں چلی گئی۔ اس واقعے کو سقوط غرناطہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اسپین میں مسلمانوں کے زوال کی اس اندھیری تاریخ میں علامہ اقبال *مسجد قرطبہ* تشریف لے گئےجو اب گرجا گھر بن چکی تھی،اقبال نے پادریوں اور محکمہ آثار قدیمہ کی اجازت لے کر مسجد میں اذان دی جسکی فضا صدیوں سے بے اذان پڑی ہوئی تھی۔۔۔۔
دیدۂ انجم میں ہے تیری زمیں آسماں
آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
واپسی پر اقبال نے *مسجد قرطبہ* پر ایک نظم لکھی اس کے چند اشعار ملاحظہ کیجٸے
ہسپانیہ تُو خُونِ مسلماں کا امیں ہے
مانندِ حرم پاک ہے تُو میری نظر میں
پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
خاموش اذانیں ہیں تری بادِ سحَر میں
روشن تھیں ستاروں کی طرح ان کی سنانیں
خیمے تھے کبھی جن کے ترے کوہ و کمر میں
پھر تیرے حسینوں کو ضرورت ہے حِنا کی؟
باقی ہے ابھی رنگ مرے خُونِ جگر میں!
غرناطہ بھی دیکھا مری آنکھوں نے و لیکن
تسکینِ مسافر نہ سفر میں نہ حضَر میں
دیکھا بھی دِکھایا بھی، سُنایا بھی سُنا بھی
ہے دل کی تسلّی نہ نظر میں، نہ خبر میں!
اقبال رح نے اس مسجد کی زیارت پر اپنی کیفیات کا اظہار کرتے ہوٸے فرمایا تھا:
*مسجد کی زیارت نے مجھے جذبات کی ایسی کیفیت میں پہنچا یاجو مجھے کبھی نصیب نہ ہوئی تھی۔*
اسپین کی سرزمین پر اقبال نے ایک شاندار نظم لکھی جس کے آخری چند اشعار کمال پیغام رکھتے ہیں۔۔۔
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کشمکشِ انقلاب
صورتِ شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
کاش *آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں* کی صدا لگانے والا مرد درویش زندہ ہوتا تو آج اسپین میں گونجتی اذانیں سن کر ضرور کہہ اٹھتا۔۔۔
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر، اُٹھتے ہیں حجاب آخر
احوالِ محبّت میں کچھ فرق نہیں ایسا
سوز و تب و تاب اوّل، سوز و تب و تاب آخر
مَیں تجھ کو بتاتا ہُوں، تقدیرِ اُمَم کیا ہے
شمشیر و سناں اوّل، طاؤس و رباب آخر
میخانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرُور اوّل، دیتے ہیں شراب آخر
کیا دبدبۂ نادر، کیا شوکتِ تیموری
ہو جاتے ہیں سب دفتر غرقِ مئے ناب آخر
خلوَت کی گھڑی گزری، جلوَت کی گھڑی آئی
چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوشِ سحاب آخر
✍محمد کاشف تبسم
پانچ سو سال بعد اسپین اذاں سے گونج اٹھا،عالمی وبا کورونا نے اٹلی کے بعد اسپین کو دبوچ لیا ہے،یہاں اسلامی شعار پر مکمل پابندی عاٸد ہے۔
ایک خبر کے مطابق” البیازین مسجد میں 500 سال کے بعد اذان دی گئی۔کچھ مسلمانوں نے گھروں کی بالکونیوں میں کھڑے ہوکر اذان دی۔“
*اللہ اکبر۔۔۔اللہ اکبر*
یہ وہی اسپین یا اندلس ہےجس کی سرزمین پر طارق بن زیاد رح نے اپنی فوج سے تاریخی تقریر کی ، جس کے اِبتدائی الفاظ یوں تھے :
أيها النّاسُ! أين المفرّ؟ البحر مِن ورائِکم و العدوّ أمامکم، و ليس لکم و اﷲِ إلا الصّدق و الصبر.
(دولةُ الاسلام فی الاندلس، 1 : 46)
اے لوگو! بھاگنے کا راستہ کہاں ہے؟ تمہارے پیچھے سمندر ہے اور سامنے دُشمن اور بخدا تمہارے لیے ثابت قدمی اور صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
اِس تقریر سے پہلے ’طارق بن زیاد‘ نے سمندر میں کھڑی اپنی کشتیاں جلادی تھیں تاکہ فتح کے سوا زِندہ بچ نکلنے کے باقی تمام راستے بند ہو جائیں۔اس کے بعد مسلمان فوج نے ڈٹ کر مقابل کیا اور 19جولائی 711ء کے تاریخی دِن ’وادئ لکہ‘ کے مقام پر ہسپانوی اَفواج کو شکستِ فاش سے دوچار کیا، جس میں گاتھ بادشاہ فرار ہوتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مر گیا۔ اِس بڑے معرکے کے بعد جہاں عالمِ اِسلام خصوصاً افریقہ میں مسرّت کی لہر دوڑ گئی وہاں اسپین کے عوام نے یومِ نجات منایا!اور پھر آٹھ سو سال تک کامیاب اسلامی حکومت رہی، یوں اسلامی تاریخ ہی نہیں بل کہ پورے یورپ کی ترقی کا ایک نیا باب شروع ہوا،اسپین کی دھرتی سے نامور مسلمان ساٸنسدان اور ڈاکٹروں نے جنم لیا جو جدید ترقی یافتہ دور کی بنیاد بنے۔ابو القاسم زہراوی (سر جری کا بانی) ابن رشد، امام ابن حزم، ابن زہر ابن طفیل، امام قرطبی اور دیگر سینکڑوں علماء وفضلاء اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔
اور پھر 892ھ بمطابق 1492ء میں اسپین میں مسلم اقتدار کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا اور ان کی آخری ریاست غرناطہ بھی مسیحیوں کے قبضے میں چلی گئی۔ اس واقعے کو سقوط غرناطہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اسپین میں مسلمانوں کے زوال کی اس اندھیری تاریخ میں علامہ اقبال *مسجد قرطبہ* تشریف لے گئےجو اب گرجا گھر بن چکی تھی،اقبال نے پادریوں اور محکمہ آثار قدیمہ کی اجازت لے کر مسجد میں اذان دی جسکی فضا صدیوں سے بے اذان پڑی ہوئی تھی۔۔۔۔
دیدۂ انجم میں ہے تیری زمیں آسماں
آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں
واپسی پر اقبال نے *مسجد قرطبہ* پر ایک نظم لکھی اس کے چند اشعار ملاحظہ کیجٸے
ہسپانیہ تُو خُونِ مسلماں کا امیں ہے
مانندِ حرم پاک ہے تُو میری نظر میں
پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
خاموش اذانیں ہیں تری بادِ سحَر میں
روشن تھیں ستاروں کی طرح ان کی سنانیں
خیمے تھے کبھی جن کے ترے کوہ و کمر میں
پھر تیرے حسینوں کو ضرورت ہے حِنا کی؟
باقی ہے ابھی رنگ مرے خُونِ جگر میں!
غرناطہ بھی دیکھا مری آنکھوں نے و لیکن
تسکینِ مسافر نہ سفر میں نہ حضَر میں
دیکھا بھی دِکھایا بھی، سُنایا بھی سُنا بھی
ہے دل کی تسلّی نہ نظر میں، نہ خبر میں!
اقبال رح نے اس مسجد کی زیارت پر اپنی کیفیات کا اظہار کرتے ہوٸے فرمایا تھا:
*مسجد کی زیارت نے مجھے جذبات کی ایسی کیفیت میں پہنچا یاجو مجھے کبھی نصیب نہ ہوئی تھی۔*
اسپین کی سرزمین پر اقبال نے ایک شاندار نظم لکھی جس کے آخری چند اشعار کمال پیغام رکھتے ہیں۔۔۔
جس میں نہ ہو انقلاب موت ہے وہ زندگی
روح امم کی حیات کشمکشِ انقلاب
صورتِ شمشیر ہے دست قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
کاش *آہ کہ صدیوں سے ہے تیری فضا بے اذاں* کی صدا لگانے والا مرد درویش زندہ ہوتا تو آج اسپین میں گونجتی اذانیں سن کر ضرور کہہ اٹھتا۔۔۔
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر، اُٹھتے ہیں حجاب آخر
احوالِ محبّت میں کچھ فرق نہیں ایسا
سوز و تب و تاب اوّل، سوز و تب و تاب آخر
مَیں تجھ کو بتاتا ہُوں، تقدیرِ اُمَم کیا ہے
شمشیر و سناں اوّل، طاؤس و رباب آخر
میخانۂ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرُور اوّل، دیتے ہیں شراب آخر
کیا دبدبۂ نادر، کیا شوکتِ تیموری
ہو جاتے ہیں سب دفتر غرقِ مئے ناب آخر
خلوَت کی گھڑی گزری، جلوَت کی گھڑی آئی
چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوشِ سحاب آخر