” کیا نظارا تھا مجسم تھی حیا، دیکھ آیا ” ایک کاوش اصلاح کیلیے

کیا نظارا تھا مجسم تھی حیا، دیکھ آیا
اُس کی آنکھوں میں جو اُترا ہوں، وفا دیکھ آیا
ہوش بھی گُم ہوئے، دیوانہ بنا پھرتا ہوں
اک نظر میں ہی خدا جانے میں کیا دیکھ آیا
زلف پھیلا کے کہا اُس نے کہ آو جاناں
پھر برستی ہوئی چاہت کی گھٹا دیکھ آیا
گنگ رہتا تھا، ملاقات ہوئی تھی پل کی
کیا تھا اُس بت میں خدا جانے، جدا دیکھ آیا
بزم تھی، لوگ تھے، رونق تھی، چراغاں کتنا
سب تھا بیکار کہ سب اُس کے سوا دیکھ آیا
دیکھنے کی جو تمنا تھی کہ مکہ دیکھوں
اُس میں شامل ہوئی مولی کی رضا، دیکھ آیا
سبز گنبد کی زیارت کو گیا تھا اظہر
پاس بازو میں ہی رہتا تھا خدا دیکھ آیا
 

الف عین

لائبریرین
اس غزل میں ایک مشق تم ہی کرو، غور سے دیکھو کہ کون سے الفاظ بھرتی کے ہیں، ان کو کس طرح بدلا جائے کہ مفہوم بھی واضح ہو، اور روانی میں بھی اضافہ ہو۔ یعنی تم اپنی اصلاح خود کرو، بعد میں مَیں دیکھتا ہوں۔
 
کیا نظارا تھا مجسم تھی حیا، دیکھ آیا
اُس کی آنکھوں میں جو اُترا ہوں، وفا دیکھ آیا
ہوش بھی گُم ہوئے، دیوانہ بنا پھرتا ہوں
اک نظر میں ہی خدا جانے میں کیا دیکھ آیا
زلف پھیلا کے کہا اُس نے کہ آو جاناں
پھر برستی ہوئی چاہت کی گھٹا دیکھ آیا
گنگ رہتا تھا، ملاقات ہوئی تھی پل کی
کیا تھا اُس بت میں خدا جانے، جدا دیکھ آیا
بزم تھی، لوگ تھے، رونق تھی، چراغاں کتنا
سب تھا بیکار کہ سب اُس کے سوا دیکھ آیا
دیکھنے کی جو تمنا تھی کہ مکہ دیکھوں
اُس میں شامل ہوئی مولی کی رضا، دیکھ آیا
سبز گنبد کی زیارت کو گیا تھا اظہر
اور بازو میں ہی رہتا تھا خدا دیکھ آیا
 
کیا نظارا تھا مجسم تھی حیا، دیکھ آیا
اُس کی آنکھوں میں جو اُترا ہوں، وفا دیکھ آیا
ہوش بھی گُم ہوئے، دیوانہ بنا پھرتا ہوں
اک نظر میں ہی خدا جانے میں کیا دیکھ آیا
زلف پھیلا کے کہا اُس نے کہ آو جاناں
پھر برستی ہوئی چاہت کی گھٹا دیکھ آیا
گنگ رہتا تھا، ملاقات ہوئی تھی پل کی
کیا تھا اُس بت میں خدا جانے، جدا دیکھ آیا
بزم تھی، لوگ تھے، رونق تھی، چراغاں کتنا
سب تھا بیکار کہ تھا اُس کے سوا دیکھ آیا
دیکھنے کی جو تمنا تھی کہ مکہ دیکھوں
اُس میں شامل ہوئی مولی کی رضا، دیکھ آیا
سبز گنبد کی زیارت کو گیا تھا اظہر
اور بازو میں ہی رہتا تھا خدا دیکھ آیا
 
کچھ مزید تبدیلیاں جو سمجھ آٴی ہیں


کیا نظارا تھا مجسم تھی حیا، دیکھ آیا
اُس کی آنکھوں میں جو اُترا ہوں، وفا دیکھ آیا

ہوش اب کس کو ہے، دیوانہ بنا پھرتا ہوں
اک نظر ہی میں خدا جانے میں کیا دیکھ آیا

زلف پھیلا کے کہا اُس نے کہ آو جاناں
پھر برستی ہوئی چاہت کی گھٹا دیکھ آیا

چپ سا رہتا ہوں، ملاقات ہوئی تھی پل کی
کیا تھا اُس بت میں خدا جانے، جدا دیکھ آیا

بزم تھی، لوگ تھے، رونق تھی، چراغاں کتنا
سب تھا بیکار کہ سب اُس کے سوا دیکھ آیا

دیکھنے کی جو تمنا تھی کہ مکہ دیکھوں
اُس میں شامل ہوئی مولی کی رضا، دیکھ آیا

سبز گنبد کی زیارت کو گیا تھا اظہر
پاس بازو میں ہی رہتا تھا خدا دیکھ آیا
 
کیا نظارا تھا مجسم تھی حیا، دیکھ آیا

اُس کی آنکھوں میں جو اُترا ہوں، وفا دیکھ آیا​


ہوش اب کس کو ہے، دیوانہ بنا پھرتا ہوں

اک نظر ہی میں خدا جانے میں کیا دیکھ آیا


زلف پھیلا کے کہا اُس نے کہ آو جاناں​

پھر برستی ہوئی چاہت کی گھٹا دیکھ آیا​


بعد ملنے کے مجھے چپ سی لگی ہے یارو

کیا تھا اُس بت میں خدا جانے، جدا دیکھ آیا​


بزم تھی، لوگ تھے، رونق تھی، چراغاں کتنا​

سب تھا بیکار کہ سب اُس کے سوا دیکھ آیا​


دیکھنے کی جو تمنا تھی کہ مکہ دیکھوں​

اُس میں شامل ہوئی مولی کی رضا، دیکھ آیا​


سبز گنبد کی زیارت کو گیا تھا اظہر​

پاس بازو میں ہی رہتا تھا خدا دیکھ آیا
 

الف عین

لائبریرین
ان اشعار پر غور کرو
بزم تھی، لوگ تھے، رونق تھی، چراغاں کتنا​
سب تھا بیکار کہ سب اُس کے سوا دیکھ آیا​
’چراغاں کتنا‘ کا فقرہ بے محل نہیں لگتا؟ اس کے علاوہ بزم تھی ،لوگ تھے اور ’رونق تھی‘ میں ایک ہی بات کہی گئی ہے۔
بزم تھی، ساز تھے، تھا رقص ، چراغاں بھی تھا
یہ فی البدیہہ ایک ٹوٹا پھوٹا مصرع مثال کے لئے۔


سبز گنبد کی زیارت کو گیا تھا اظہر​
پاس بازو میں ہی رہتا تھا خدا دیکھ آیا​
اس کے موضوع پر کوئی بحث نہیں کر رہا۔ صرف ’بازو‘ لفظ کے استعمال پر اعتراض ہے کہ یہ لفظ ان معنوں میں فصیح نہیں ہے، بول چال کا عامیانہ لفظ ہے۔
اور نزدیک ہی رہتا تھا خدا۔۔۔۔ کہا جا سکتا ہے نا؟
 

ایم اے راجا

محفلین
اظہر صاحب خوب غزل ہے، ایک بات کہنے کی جسارت کروں گا، استاد محترم کی اجازت سے۔

کیا نظارا تھا مجسم تھی حیا، دیکھ آیا
اُس کی آنکھوں میں جو اُترا ہوں، وفا دیکھ آیا​
مطلع کے دوسرے مصرعہ میں شاید ہوں ٹھیک نہیں، ہ مصرعہ یو ہو تو کیسا ؟​
کیا نظارا تھا ، مجسم تھی حیا ، دیکھ آیا​
اس کی آنکھوں میں جو اترا تو وفا دیکھ آیا​

ویسے میری جسارت تو نہیں کہ استاد محترم کے ہوتے کچھ کہوں مگر اپنے علم میں اضافے کے لئے یہ عرض کی ہے، امید کہ استاد صاحب کو اور آپ کو نا گوار نہیں گزرے گا۔​
 

الف عین

لائبریرین
ناگواری کی کیا بات ہے راجا، میرا فرض ہے کہ سب کی بات سنوں، اور اگر مشورہ دینا ہو تو مشورہ دوں۔ اظہر نے جو اترا کے بعد کاما لگایا ہے، وہ پورے شعر کو واضح کر دیتا ہے۔ اسی لئے میں نے اس میں کوئی اصلاح کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ میرا یہ خیال ہے کہ ’اترا تو‘ سے شعر زیادہ بیانیہ ہو جاتا ہے، اس لئے ’اترا، ہوں‘ ہی زیادہ مناسب ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
اظہر صاحب خوب غزل ہے، ایک بات کہنے کی جسارت کروں گا، استاد محترم کی اجازت سے۔

کیا نظارا تھا مجسم تھی حیا، دیکھ آیا
اُس کی آنکھوں میں جو اُترا ہوں، وفا دیکھ آیا​
مطلع کے دوسرے مصرعہ میں شاید ہوں ٹھیک نہیں، ہ مصرعہ یو ہو تو کیسا ؟​
کیا نظارا تھا ، مجسم تھی حیا ، دیکھ آیا​
اس کی آنکھوں میں جو اترا تو وفا دیکھ آیا​
ویسے میری جسارت تو نہیں کہ استاد محترم کے ہوتے کچھ کہوں مگر اپنے علم میں اضافے کے لئے یہ عرض کی ہے، امید کہ استاد صاحب کو اور آپ کو نا گوار نہیں گزرے گا۔​
بہت شکریہ استاد محترم
 
کیا نظارا تھا مجسم تھی حیا، دیکھ آیا
اُس کی آنکھوں میں جو اُترا ہوں، وفا دیکھ آیا

ہوش اب کس کو ہے، دیوانہ بنا پھرتا ہوں
اک نظر ہی میں خدا جانے میں کیا دیکھ آیا

زلف پھیلا کے کہا اُس نے کہ آو جاناں
پھر برستی ہوئی چاہت کی گھٹا دیکھ آیا

بعد ملنے کے مجھے چپ سی لگی ہے یارو
کیا تھا اُس بت میں خدا جانے، جدا دیکھ آیا

بیٹھنا پڑ تو گیا بزم کی رونق میں مگر
سب تھا بیکار کہ سب اُس کے سوا دیکھ آیا

خواب میں اُس سے بچھڑنے کا تصور اُبھرا
میں تو نزدیک سے جیسے کہ قضا دیکھ آیا

ملنے والی ہے لگا دولت دنیا مجھ کو
اُس کو اظہر میں رقیبوں سے خفا دیکھ آیا
 

الف عین

لائبریرین
انہی تینوں سرخ شدہ اشعار سے مطمئن نہیں ہوں۔ بعد میں دیکھتا ہوں، ممکن ہے کہ تم ہی کچھ تصحیح کر سکو۔
 
Top