”میر ی ذات ذرہ بے نشاں“

ناعمہ عزیز

لائبریرین
پاکستانی معاشرے میں قدر، عزت، اہمیت اور مرتبہ صرف مرد کو مل سکتا ہے، عورت کو ان باتوں سے بہت دور رکھا گیا ہے۔ عورت ہمیشہ سے ہی مظلوم رہی ہے۔ مسئلہ باپ کی عزت کا ہو
بھائیوں یا شوہر کی غیرت کا یہ سب آکر عورت پر ہی ختم ہوتے ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ یہ مردوں کہ عزت اور غیرت اتنی کچی کیوں ہوتی ہے ذرا سی ٹھیس لگنے سے ہی متاثر ہو جاتی ہے۔
عورت کی کوئی عزت نہیں، ایک وہ عورت کی جو گھر سے باہر کام کرنے نکلتی ہے نا جانے اسے کیا کیا مجبوریاں ہوتیں ہیں جو اسے گھر سے باہر قدم رکھنے پر مجبور کر تی ہیں، کسی کا باپ مر جاتا ہے۔ کسی کا بھائی نشے کا عادی ہوتا ہے، کسی کی ماں بیمار ہوتی ہے، کسی کے بہن بھائی چھوٹے ہوتے ہیں یو پھر کسی کا کوئی نہیں ہوتا۔ مگر گھر سے باہر قدم رکھتے ہی وہ مردوں کی نظر میں نیک نام نہیں رہتی، اس لئے کہ وہ ان ہی کی گندی نظروں اور گھٹیا فقروں، اور غلیظ سوچ کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ یہی لوگ اپنی بہن بیٹوں کو گھر کی چار دیواری میں چھپا کر رکھتے ہیں، میں پوچھتی ہوں کہ ان کی غیرتیں تب ہی کیوں مر جاتیں ہیں جب سوال دوسروں کی بہن بیٹی کا آتا ہے؟
سوال اگر بیٹے کی پسند کی شادی کا ہو تو فورا ہاں ہو جاتی ہیں یہ انا تب ہی کیوں آڑے آتی ہے جب بیٹی اپنی پسند بتا دے؟ خاندان کی روایات صرف عورتوں پر ہی کیوں لاگو ہوتیں ہیں؟ باپ کے اصول، بھائیوں کی غیرت اور شوہر کے ظلم صرف ایک عورت کے حصے میں ہی کیوں آتے ہیں؟
شادی کے بعد اگر یہ بات شوہر کو پتا چل جائے کہ اس کی بیوی شادی سے پہلے کسی سے پیار کرتی تھی تو اس کے یہ بات گناہ کبیرہ بن جاتی ہے جس کی کوئی معافی نہیں۔ اوربیوی کو پتا چل جائے کہ تو اسے چاہیئے کہ وہ برداشت کرے کیوں کی باپ نے بیٹی کو گھر سے یہ کہہ کر رخصت کیا تھا کہ بیٹا جی اب تمھارا جینا مرنا وہاں ہی ہے۔ جو بھی ہوگا برداشت کرنا اس گھر سے تیری ڈولی اٹھ گئی ہے جہاں تو جارہی ہے وہاں سے تیرا جنازہ ہی اٹھے گا۔
کبھی ہم نے غور کیا ہے ہیرا منڈی میں بیٹھی حوا کی بیٹوں کے بار ے میں جو حسرت کی تصویر بنی بیٹھی ہیں ۔ کیا وہ شوق سے وہاں بیٹھی ہیں؟ کیا وہ کسی کی بہن بیٹیاں نہیں تھیں؟ کیا ان کو عزت کی زندگی گزارنے کا کوئی حق نہیں ےتھا؟ کس نے چھینا ان سے یہ حق؟ کون ان کی اس حالت کا ذمہ دار ہے؟ مجھے یہی بیان کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کی کون؟
تقسیمِ پاکستان سے لے کر آج تک عورت کٹی ہے، غیرت کے نام پر ماری گئی ہے، ونی چڑھائی گئی ہے، یہ سب مرد کر سکتا ہے؟ اتنا سب کرکے بھی عورت کو عزت کی زندگی گزارنے کا کوئی حق نہیں ہے۔نا مردوں کا اتنا ظرف ہے کہ وہ عورت کو یہ حق دے سکیں۔
اور یہ ہمارے معاشرے کا وہ موضوع ہے جو مسئلہ ِکشمیر کی طرح شاید کبھی بھی حل نا ہو سکے۔ کیوں کہ یہ معاشرہ مردوں کا ہے اور مرد کی انا اسے اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتی کہ وہ عورت کو اس احساس کمتری سے نکال سکے۔
 

میر انیس

لائبریرین
میری بہن اگر آپ غیر جذباتی انداز میں سوچیں تو ہمارے معاشرے میں جو یہ سب روایتیں چلی آرہی ہیں ان میں مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کا بھی قصور ہے اپنے بالکل صحیح باتیں کیں پر ایک عورت ہی اکثر دوسری عورت کو طنز اور طعنہ کا نشانہ بناتی ہے میں مانتا ہوں کے عورتوں پر پابندی کی بات پہلے کسی مرد نے ہی شروع کی ہوگی پر اس کو پروان کس نے چڑھایا ایک ماں ہی گود سے لے کر شادی ہونے تک اپنی بیٹی کی تربیت کرتی ہے اور وہ شروع ہی سے یہ کرو وہ نہ کرو یہ ٹھیک ہے وہ ٹھیک نہیں ہے سمجھاتی رہتی ہے جہاں ان پابندیوں میں کچھ ٹھیک بھی ہوتی ہیں پر کچھ غلط بھی ہوتی ہیں جیسے اگر ماں بیٹے کو باہر جاکر کھیلنے کی اجازت دیتی ہے تو بیٹی کو گھر میں بند رکھتی ہے بیٹے پر تو ذمہ داریوں کا بوجھ تعلیم یا اکثر شادی کے بعد پڑتا ہے پر ابھی بیٹی سات یا آٹھ سال کی ہوتی ہے تو اس پر ذمہ داریوں کا اور بعض اوقات تو پورے گھر کا بوجھ ڈالدیا جاتا ہے میں آپ کو بالکل سچ بتا رہا ہوں میری آنکھوں دیکھا واقعہ ہے کہ بیٹی کا پیپر ہے پر اسکو روٹی ضرور پکانی ہے اور اگر اسنے عذر پیش کیا تو اسکی ماں نے چیمٹے سے اسکی مار لگانی ہے۔ دیکھیں ہر بات میں مرد کو دوش نہیں دیا جاسکتا۔ پھر جب وہ اور بڑی ہوجاتی ہے تو اکثر ماں ہی اسکی مذید تعلیم کے خلاف ہوجاتی ہے ماں ہی اسکو اپنے باپ کے گھر میں آرام نہیں کرنے دیتی اور یہ جملہ تو میں نے خود اپنی والدہ سے اپنی بہنوں کا بار ہا کہتے سنا ہے کہ پرائے گھر جا کار ناک کٹوانی ہے کیا لوگ کہیں گے ماں نے کچھ نہیں سکھایا آپ ایمانداری سے بتائیں آپ کے بھی والد آپ کو کتنا اس چیز کا احساس دلاتے ہونگے جتنا اپ کی امی دلاتی ہونگی۔ باپ اور بھائی کی عزت کا بار بار یہ عورتیں ہی احساس دلاتی ہیں اگر کسی لڑکی سے کچھ بیباکی ہوجائے تو گھر گھر جاکر یہ پھاپھا کٹنیاں ہی ہوتی ہیں جو اسکے باپ اور بھائی کو بے غیرت کہ رہی ہوتی ہیں آسان لفظوں میں یہ بی جمالو ٹائپ کی عورتوں سے ہی باپ اور بھائی کو اپنی عزت کا خیال آتا ہے یہ نہ سمجھیں کہ میں مردوں کا بچائو کرکے سب ملبہ عورتوں پر ڈال رہا ہوں پر یہ کہ رہا ہوں کہ عورتویں بھی برابر کی شریک ہوتی ہیں بلکہ مردوں سے کچھ زیادہ حصہ انکا ہوتا ہے جو پیغام رسانی کا کام انجام دے کر اپنی ہی ہم جنس پر تہمت لگاتی ہیں اور یہ نہیں سوچتیں کہ انکی بھی اپنی بیٹی ہے لہٰذا مکافاتِ عمل ہوتا ہے اور انکی بیٹی اس سے زیادہ بدنام ہورہی ہوتی ہے کسی اور بی جمالو کی کارستانی سے
 

sajjad hyder

محفلین
سب انا کے روپ ھین یہ مردوں کے بھی اورتوں ک بھی۔ عرتوں کو آزادی ھونی چاھئے مگر پوزیٹو وے مین۔ ۔یورپ نیں عورت کو آزادی دی تو آج دیکھ لیں وہ اپنے ھی کلچر کے ھاتھوں مجبور ھیں۔آزادی ھو مگر پوزیٹو۔ ۔ ۔ ۔ ۔
 

arifkarim

معطل
ہم تو بہت پیچھے ہیں۔ مشرق و مغرب کب کا اپنی عورتوں کو آزاد کر چکے ہیں۔ اور اسکا انجام عام فحاشی کی صورت میں دیکھ بھی چکے ہیں۔
 

dehelvi

محفلین
میرے نزدیک اس نا انصافی کی وجہ جہالت اور صرف جہالت کے سوا کچھ نہیں۔
تاہم ناعمہ بہن کے جذبات قابل قدر ہیں۔
 

ایم اے راجا

محفلین
عورتوں کی آزادی جو اسلام نے دی اس سے بہتر راہِ آزادی کوئی نہیں، اسلام نے عورت کو ایک طاقت ایک حق بخشا ہے جو کہ عورت کو ایک امتیازی حیثیت دیتا ہے، شاید ہی کوئی مذہب یہ کہتا ہو کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے، شاید ہی کسی مذہب نے عورت کو بیوی، بہیں اور ماں کی صورت میں اتھے حقوق دیئے ہوں، اسلام میں دیئے گئے حقوق ہی وہ حقوقِ حقیقی ہیں جو راہِ فلاح برائے دنیا و آخرت ہیں، ان سے آگے کی تمام باتیں فحاشی اور برائی کی طرف اشارہ کرتی ہیں، کیوں اسلام کا ضابطہ حقیقی اور فطری ضابطہ ہے جو نہ ایک سوط کم اور نہ زیادہ ہے۔
 

dehelvi

محفلین
کاش جہالت کی یہ اندھیری رات جو ایک بار پھر امت مسلمہ پر چھائی ہوئی ہے دور ہو اور اسلام کی سچی تعلیمات اور سراپا عدل وانصاف کی صبح کا سورج جلد ہمارے اس معاشرے میں طلوع ہو۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
عورتوں کی آزادی جو اسلام نے دی اس سے بہتر راہِ آزادی کوئی نہیں، اسلام نے عورت کو ایک طاقت ایک حق بخشا ہے جو کہ عورت کو ایک امتیازی حیثیت دیتا ہے، شاید ہی کوئی مذہب یہ کہتا ہو کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے، شاید ہی کسی مذہب نے عورت کو بیوی، بہیں اور ماں کی صورت میں اتھے حقوق دیئے ہوں، اسلام میں دیئے گئے حقوق ہی وہ حقوقِ حقیقی ہیں جو راہِ فلاح برائے دنیا و آخرت ہیں، ان سے آگے کی تمام باتیں فحاشی اور برائی کی طرف اشارہ کرتی ہیں، کیوں اسلام کا ضابطہ حقیقی اور فطری ضابطہ ہے جو نہ ایک سوط کم اور نہ زیادہ ہے۔

جی میں مانتی ہوں کہ اسلام نے عورت کو حقوق دیئے ہیں ۔ پر اسلام نے یہ نہیں کہا کہ عورت کا گھر سے ہاہر نکلنا حرام کردیا جائے۔ اس پہ بُری نظر رکھی جائے۔ میں عزت اس کو نہیں کہتی جو اپنی بہن کی کی جاتی ہے میرے نزدیک
عزت و احترام وہ ہے جو کسی کی بہن بیٹی کے لئے بھی ویسا ہی ہو۔ اور میرا موضوعِ گفتگو بھی یہی تھا، آزادیِ عورت کی بات میں نے نہیں کی میں تو عورت کی مجبوری کی بات کررہی ہوں کہ جس کے سرپر باپ بھائی اور شوہر کا آسرا نہیں ہوتا وہ کہاں سے کھائے ؟ اپنی وقار کو کیسے بلند رکھے؟گھر بیٹھ کر؟ کیا اس کے لئے آسمان سے من و سلوی اترے گا؟ اس مجبوری سے فائدہ اٹھانے والوں کی بات کررہی ہوں۔
یہ حق بھی عورت کو اسلام نے دیا ہے کہ وہ اپنی پسند سے شادی کر سکتی ہے۔ پھر عورت کو روایات کی بھنیٹ چڑھانے میں اسلام کا قصور کہاں سے آ گیا؟
اور یہ کہاں لکھا گیا تھا اسلام میں کہ بے ضمیر لوگ لڑکیاں کو اغوا کر کے ہیرا منڈیاں بنائیں؟
 

dehelvi

محفلین
درست فرمایا: اسلام نے واقعی عورت کو جو وقار دیا ہے وہ کسی نے نہیں دیا، کیا عورت کی بے حرمتی پر حتی کہ ناجائز نظر ڈالنے پر اسلام نے جو سزائیں دنیاوی واخروی بتلائی ہیں یہ سب اسلام میں عورت کی عظمت کی دلیل نہیں؟
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
اسلام نے عورت کو جو وقار بخشا ہے مجھے اس سے انکار نہیں کسی بھی طرح۔
مگر یہ وقار ہمارے معاشرے میں عورت کو نہیں دیا جا سکتا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
ماشا اللہ ہمارے محفل کے اراکین بہت ذہین ہیں۔ امید ہے ہر دھاگے میں یہ کفر و اسلام کی جنگ شروع کرنے سے احتراز برتیں گے۔
 

ظفری

لائبریرین
مذہبی اقدار اور معاشرے کے رسوم و رواج دو مختلف چیزیں ہیں ۔ مذہب ، اقدار کی ترویح و اشاعت کے لیئے آگے آتا ہے ۔ جس سے معاشرے میں موجود فرسودہ رسم و رواج اور منفی سوچ کا خاتمہ ہوسکے ۔ افسوس کہ ہم مذہبی اقدار پر معاشرتی اقدار کو ترجیح دیتے ہیں ۔ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ یہ سب جہالت اور لاعلمی کی بناء پر ہوتا ہے ۔ کیونکہ عموماً دیکھا گیا ہے کہ شعور رکھنے والے لوگ بھی مذہبی اقدار پر معاشرتی اقدار کو مسلط کر دیتے ہیں ۔ اس کی کیا وجہ ہے ۔ یہ سب جانتے ہیں ۔ مذہب کا اس قسم کے ردوعمل سے دور کا بھی واسطہ نہیں ۔ یہ خالصتاً ایک معاشرتی مسئلہ ہے ۔ جس میں ایک مخصوس قسم کی تعلیم و تربیت کا اہتمام ضروری ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
باقی ۔۔۔۔ جو ناعمہ بہن نے لکھا ہے ۔ وہ زمینی حقائق ہیں ۔ ان کی طرف توجہ مرکوز کرنا بہت ضروری ہے ۔ ناعمہ سسٹر کو ایک بہترین تحریر پر ایک بار پھر مبارک باد ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
جی آپ نے درست فرمایا ناعمہ صاحبہ لیکن شاید آپ یا دوسروں کو بھی مجھ سے اتفاق نہ ہو لیکن میں یہ بات کہنے میں خود کو حق بجانب سمجھتا ہوں کہ عزت اور وقار پیدا کرنا عورت کے اپنے ہاتھ میں ہے، میں تسلیم کرتا ہوں بہت سارے مرد عورت کو صرف عورت سمجھتے ہیں انسان نہیں اور یہ صرف ہمارے معاشرے کا مسئلہ نہیں بلکہ پوری دنیا کا مسئلہ ہے، مگر ایک بات شاید آپ بھی تسلیم کریں کہ عورت خود کو اگر عورت تک ہی محدود رکھے تو اسکی عزت کافی بڑھ جاتی ہے لیکن اگر وہ خود کو نمائش کا سمبل بنانے کی کوشش کرے ( جیسا کہ اکثر کرتی ہیں) تو ظاہر ہے مرد ایک جنسِ مخالف ہے، مختصر یہ کہ مینے عورت کے باہر نکلنے پر اعتراض نہیں کیا بلکہ اسکے طرز پر بات کی ہے، پردہ میرا خیال ہیکہ عورت کی عذت اور وقار کو بڑھا دیتا ہے اور عورت کی حفاظت بھی کرتا ہے، نمائش ہی وہ چیز ہے جو نظروں کو متوجہ کرتی ہے، رہی بات عورتوں کو اغوا کرنے کی تو میں مانتا ہوں پر اس میں موبائیل ہونے کا شوق پھر اس میں بیلنس کا شوق اور دوستیاں بنابے اور بیوقوف بنانے کا شوق بھی بہت حد تک کافرما ہیں، اور عورت کو دھوکہ دینے والی بھی عورت ہے۔ آپ نے فرمایا کہ عورت کو اسلام نے مرضی کی شادی کی اجازت دی ہے تو مجھے اس بات سے کوئی انکار نہیں مگر مرضی کی شادی کا طریقہ یہ نہیں کہ عورت گھر سے بھاگ کر شادی کر لے اور اسے حکمِ اسلام کہے، ہاں اگر وہ اس جگہ شادی نہیں کرنا چاہتی جہاں کرائی جا رہی ہے تو پھر وہ ایک با وقار طریقہ اپنا سکتی ہے۔
یہ کہاں کی آزادی ہیکہ وہ اپنی شادی کی بات چلنے سے پہلے ہی کسی سے چھپ چھپا کر رابطے کر لے اور ملنے لگے اور پھر ماں باپ کی عزت کو تار تار کرتے ہوئے بھاگ نکلے اور ایسی کتنی شادیاں کامیاب ہوئی ہیں؟ اور کیا یہ اپنے پیاروں ( گھر والوں ) کے ساتھ کھلا دھوکا نہیں؟ کیا یہی آزادیِ نسواں ہے، کیا عورت ایسی آزادی چاہتی ہے جیسی مغرب میں حاصل ہے اور کیا مغرب کی آزادی عورت کو تحفظ فراہم کرتی ہے؟
میں مانتا ہوں کہ مجبور عورت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے اور یہ پوری دنیا کا المیہ ہے، مگر کیازیادہ تر عورت خود اسکی ذمہ دار نہیں، میں ایسی بہت سی خواتین سے واقف ہوں جو بلا وجہ آزادی چاہتی ہیں وہ حالانکہ ان پر کسی قسم کی کوئی پابندی بھی نہیں انہیں کہیں آنے جانے کی روک ٹوک بھی نہیں، پھر وہ کیا اور کیوں چاہتی ہیں؟
یہ موضوع اتنا وسیع ہیکہ اس پر کئی سو صفحات لکھے جاسکتے ہیں، مگر مختصر یہ کہ آزادی کا مطلب آوارہ گردی اور مختصر لباسی نہیں آزادی کی حدود اسلام نے مقرر کر دی ہیں اور مرد اور عورت کے کار بھی مقرر کر دیئے ہیں۔ اللہ ہم سب کو اسلام کے احکامات پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
کہنے کو میرے پاس بہت کچھ ہے لالہ لیکن وہ سب اس سے بھی تلخ ہے۔
اور میں نہیں چاہتی کہ مجھے وارننگ دی جائے کیوں کہ میں نے آج تک یہاں پہ کسی بڑے کے ساتھ کوئی تلخ کلامی کرنے کی کوشش نہیں کی نا میں چاہتی ہوں کہ میرے جذباتی پن آکر لکھنے پر کوئی میرے ساتھ کرےاور میں آئندہ لکھنے کا ارادہ ہی ترک کردوں۔ اس لئے جو آپ نے لکھا میں اس کا احترام کرتے ہوئے اس بحث کو یہاں پر ہی ختم کرتی ہوں۔
واسلام۔
 
Top