”دعائے مغفرت“

انتہا

محفلین
”دعائے مغفرت“
محمد عظمت اللہ
میں قبرستان کی سنسان اور ویران فضا سے بہت گھبراتا تھا لیکن اللہ بخشے جس والد صاحب اللہ کو پیارے ہوئے قبرستان آنا جانا معمول بن گیا۔ ایک دن میں والد صاحب کی قبر پر فاتحہ پڑھ کر واپس آرہا تھا کہ دیکھا کہ کسی کی میت دفنائی جا چکی ہے اور لوگ دعائے مغفرت کے لیے تیار کھڑے ہیں۔ مرحوم کے ایک قریبی دوست بصد خلوص اور نہایت عاجزی سے بارگاہ رب العزت میں مرحوم کے لیے دعائے مغفرت مانگ رہے ہیں اور حاضرین بلند آواز میں آمین کہہ رہے ہیں۔ موصوف کا حلیہ نورانی تھا۔ داڑھی گھنی اور مونچھیں 'غنی' تھیں پگڑی کا طرہ لومڑی کی دم سے بھی زیادہ لمبا تھا۔ موصوف نے دعا کرتے ہوئے گڑگڑا کر کہا۔ ۔
اے دلوں کا حال جاننے والے اللہ میں ان حاضرین کو گواہ بنا کر اور تجھے حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میری رقم جو مرحوم نے قرض لی تھی وہ واپس نہیں کی میں وہ رقم معاف کرتا ہوں اے سب سے بڑے معاف کرنے والے تو بھی میرے اس مقروض کو معاف فرما۔
اے ہمارے مالک مرحوم نے تنگدستی کی وجہ سے اپنے گھر کے بجلی کے میٹر میں گڑ بڑ کر رکھی تھی۔ اے تنگ دستوں کے دستگیر مرحوم کی اس لغزش کو معاف فرما۔
اے اللہ مرحوم کے پاس چار مختلف شناختی کارڈ تھے جن میں سے ایک میں سید، دوسرے میں شیخ لکھا ہوا تھا تیسرے میں صوبہ مختلف تھا اور چوتھے میں ولدیت تبدیل کر دی گئی تھی۔ اے اللہ مرحوم کی یہ غلط بیانی اور ہیرا پھیری معاف فرما۔
اے اللہ مرحوم ہمیشہ بغیر ٹکٹ ریل کا سفر کیا کرتے تھے۔ ریلوے کے کسی ٹکٹ چیکر نے کبھی ان سے باز پرس نہیں کی۔ اے اللہ سفر آخرت بھی بغیر کسی باز پرس کے بخیر و بخوبی طے کرا دے۔
اے اللہ مرحوم پولیس اور عدالت کے پیشہ ور گواہ تھے مگر دل سے یہ کہتے تھے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ نہیں کوئی معبود سوائے تیرے۔ اے اللہ ان کی اس گواہی کے صدقے ان کی جھوٹی گواہیوں سے در گزر فرما۔
اے اللہ مرحوم نے تقریباً آدھی زندگی کرائے کے مکان میں گزار دی وہ تین ماہ کا کرایہ پیشگی دے کر بغیر کسی کرائے کے تین سال اس مکان میں رہتے تھے اور پھر مالک مکان سے ہزاروں روپے اینٹھ کر مکان خالی کیا کرتے تھے۔ اے اللہ ایسی ہزاروں چھوٹی موٹی خطائیں مرحوم سے سرزد ہوئیں تو انہیں اپنے کرم سے معاف فرما۔
میرے مولا، مرحوم پہلی جماعت سے میٹرک تک کرسچین مشنری سکول کے طالب علم رہے اسی لیے قرآن شریف ناظرہ بھی نہ پڑھ سکے جب کسی رشتے دار یا دوست کے گھر فاتحہ، سوم، یا چہلم پر قرآن خوانی میں شرکت کرتے تو قرآن کا پارہ لے کر ہر سطر پر انگلی پھیرتے جاتے اور دل ہی دل میں اللہ اکبر کا وظیفہ پڑھتے جاتے۔ اور ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کے ساتھ ساتھ صفحات پلٹتے رہتے اسی شخص کے ساتھ تلاوت ختم کرتے اور پارہ آنکھوں سے لگا کر پڑھے ہوئے پاروں کی ڈھیری میں رکھ دیا کرتے تھے۔ اے اللہ مرحوم قرآن پاک کی تلاوت تو نہیں کرسکتے تھے مگر اللہ اکبر یعنی تیری بڑائی کا ذکر کرتے رہتے تھے۔ اے میرے پرودرگار اپنی بڑائی کے صدقے انہيں معاف فرما۔
اے اللہ تنگ دستی سے نجات کے لیے مرحوم کسٹمز کی ملازمت چاہتے تھے مگر عمر زیادہ ہوچکی تھی اس لیے مرحوم نے میٹرک کی سند میں جعلسازی سے تاریخ پيدایش تبدیل کی اور انہیں نوکری مل گئی۔ محکمہ جعلسازی سے بے خبر رہا۔ اے سارے عالم کی خبر رکھنے والے اللہ ان کی اس جعلسازی سے در گزر فرما۔
میرے پروردگار مرحوم کو کعبہ کی زیارت اور رسول کریم صلى اللہ عليہ وسلم کے روضہ اقدس پر حاضری کی بہت لگن تھی۔ انہوں نے کسٹم کی ملازمت کے دوران میں کبھی کسی کا دل دکھا کر پیسے نہیں لیے۔ لوگوں کو لاکھوں کا فائدہ پہنچا کر ہر سال حج کیا کرتے تھے۔ اے اللہ مرحوم کے تمام حج قبول فرما اور ایسے حاجیوں کے طفیل ہم سب کے حج بھی قبول فرما۔
اے اللہ کسٹم کے ملازمت کے دوران میں نے انہوں نے منشیات کے ایک بڑے سمگلر کو پکڑا اور اس کے پيسوں سے ایک نیا مکان اور ایک تیرا مکان یعنی ایک اعلی مسجد تعمیر کروا کر اس میں ایک دینی مدرسہ کی بنیاد رکھی تھی تا کہ غریب بچے دینی تعلیم حاصل کر سکیں۔ لیکن مرحوم دینی تعلیم کی تلقین میں اتنے مصروف رہے کہ خود انہیں دین پرعمل کرنے کی فرصت ہی نہ ملی۔ اے نکتہ نواز مرحوم کے اس نیک جذبے کی قدر فرما اور انہیں جنت فردوس میں اعلی مقام عطا فرما۔
اے اللہ مرحوم کے نامہ اعمال میں لکھا ہوگا کہ ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن سے مکان کی تعمیر کے لیے مرحوم نے بیوی کے نام قرض لیا تھا لیکن کچھ عرصے کے بعد اپنی زندگی ہی میں جانتے بوجھتے بیوی کو بیوہ ظاہر کیا اور قرض معاف کروا لیا۔ اے پرودرگار مرحوم کے دانستہ اور نادانستہ گناہوں کو معاف فرما۔
اے اللہ کراماً کاتبین نے یہ ضرور لکھا ہوگا کہ مرحوم نے غریبوں کی فلاح و بہبود کے بہت سارے کام کیے مثلاً شہر بھر کے کھیل کے میدانوں، دوا خانوں، اسکولوں، مختلف فلاحی اداروں کے لیے مختص کیے ہوئے خالی پلاٹوں اور پارکوں پر قبضہ کرکے کچی آبادیاں قائم کردیں اور غریبوں کی دعائیں لیتے رہے اے اللہ اس نیک کام کے بدلے مرحوم کو جنت فردوس میں خوبصورت باغ عطا فرما۔
اے اللہ مرحوم نے ملک میں کنڈا سسٹم متعارف کروایا تھا جس کی ذریعے ہزاروں لاکھوں جھگیوں کو تاریکی سے نکالا اور جھگیاں روشنی سے جگمگا اٹھیں۔ میرے مولا مرحوم کی قبر کو روشن کر دے بلکہ بقعہ نور بنادے۔
اے اللہ مرحوم نے پسماندگان میں چار حاضر سروس بیویاں، بارہ ریٹائرڈ یعنی مطلقہ بیویاں اور ہر بیوی سے تین تین لڑکیاں یعنی جملہ ٤٨ بیٹیوں اور لاتعداد قرض خواہوں کو سوگوار چھوڑا ہے، اے اللہ ان سب کو صبر جمیل عطا فرما۔
اے اللہ تیری رحیمی اور کریمی کا واسطہ، اگر حاضرین میں سے کچھ بندے ان ہی خطاؤں کے مرتکب رہے ہوں یا ہیں تو انہیں بھی معاف فرما۔ آمین۔
 
Top