ابن رضا

لائبریرین
سَرسَری بھائی یہ وزن دیکھیں :thinking:اور خیال اگر مناسب لگ رہا ہے:nerd: تو مزید پیش رفت کروں:waiting:

ہزج مربع محذوف مضاعف(مَفاعیلن فَعولن مَفاعیلن فَعولن)
طلبِ طَلْعَت بجا ہے مگر اے طبعِ نازک
نگاہِ شوق میں تابِ نظار
ا بھی تو ہو
 
آخری تدوین:
سَرسَری بھائی یہ وزن دیکھیں :thinking:اور خیال اگر مناسب لگ رہا ہے:nerd: تو مزید پیش رفت کروں:waiting:

ہزج مربع محذوف مضاعف(مَفاعیلن فَعولن مَفاعیلن فَعولن)
طلبِ طَلْعَت بجا ہے مگر اے طبعِ نازک
نگاہِ شوق میں تابِ نظار
ا بھی تو ہو
مزمل شیخ بسمل صاحب کے ہوتے ہوئے ہم سے پوچھ رہے ہیں۔ :)
 
ویسے مزے کی بات بتاؤں۔ یہ بحر ایک انڈین گانے شاہ رخ خان کی فلم میں بھی استعمال ہوئی ہے۔ اگر آپ نے کسی ذریعے سے سنا ہو۔
ذرا تصویر سے تو، نکل کر سامنے آ۔۔ :cool::cool::cool:
 

ابن رضا

لائبریرین
ویسے مزے کی بات بتاؤں۔ یہ بحر ایک انڈین گانے شاہ رخ خان کی فلم میں بھی استعمال ہوئی ہے۔ اگر آپ نے کسی ذریعے سے سنا ہو۔
ذرا تصویر سے تو، نکل کر سامنے آ۔۔ :cool::cool::cool:
:laughing:سنا ہے البتہ یہ سوچا تھا کہ آپ کے نام کا مربع کر کے دیکھتے ہیں (مفاعیلن فعولن × 2 ):)
 
جناب انکشاف انکشاف ہوتا ہے اور وضاحت وضاحت ہوتی ہے (از اقتباساتِ اسلم رئیسانی)

بحث مقصود نہیں ہے۔ اسلم رئیسانی کا نظریہ انکا اپنا ہے۔ ہمارا بھی ایک نظریہ ہے۔ ہر کسی کا ہوتا ہے۔ :)
فی الحال مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارا مراسلہ نمبر اس سال کے سن سے میچ ہوگیا ہے۔ :)
 

ابن رضا

لائبریرین
بحث مقصود نہیں ہے۔ اسلم رئیسانی کا نظریہ انکا اپنا ہے۔ ہمارا بھی ایک نظریہ ہے۔ ہر کسی کا ہوتا ہے۔ :)
فی الحال مزے کی بات یہ ہے کہ ہمارا مراسلہ نمبر اس سال کے سن سے میچ ہوگیا ہے۔ :)
اچھا یہ بتائیں کہ طلب پر بات بگڑ رہی ہے یا مگر پہ؟
 

ابن رضا

لائبریرین
طلب میں اضافت وزن میں نہیں آرہی۔ اگر طلب کے ب کو ساکن پڑھا جائے تو شعر درس ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ ب ساکن نہیں۔
تو جب ہم دلِ کو ہجائے بلند باندھتے ہیں توکیا یہاں بھی یہی اصول ہو گا؟؟ شاید کہیں ایسے ہی مستعمل دیکھا ہے ۔ پتا نہیں کہاں

جیسے
اے دلِ ناداں (مفاعیلن)(n)
 
تو جب ہم دلِ کو ہجائے بلند باندھتے ہیں توکیا یہاں بھی یہی اصول ہو گا؟؟ شاید کہیں ایسے ہی مستعمل دیکھا ہے ۔ پتا نہیں کہاں

دل تو ہے ہی ہجائے بلند۔ بعض اوقات ہم دلِ کو بطور دلے باندھ کر اس میں شروع میں ایک ہجائے کوتاہ کا اضافہ کرتے ہیں۔ یا پھر بعض اوقات ایک ہجائے بلند کو دو ہجائے کوتاہ میں بدل دیتے ہیں۔ یعنی دِلِ۔ طلب میں پہلے ایک ہجائے کوتاہ ہے پھر ہجائے بلند۔ اضافت کے ساتھ اسے یا تو تین ہجائے کوتاہ میں بدلا جاسکتا ہے یعنی طَلَبِ۔ یا پھر دو ہجائے کوتاہ اور ایک ہجائے بلند یعنی طَلَبے۔
امید ہے بات واضح ہوگئی ہوگی۔
آپ اپنے شعر کی تقطیع کر دیکھیں مزید واضح ہو جائے گا۔
 
تو جب ہم دلِ کو ہجائے بلند باندھتے ہیں توکیا یہاں بھی یہی اصول ہو گا؟؟ شاید کہیں ایسے ہی مستعمل دیکھا ہے ۔ پتا نہیں کہاں

جیسے
اے دلِ ناداں (مفاعیلن)(n)

اس میں "اے" موجود نہیں۔ محض دل ناداں ہے۔
یعنی
دلِ ناداں = فعلاتن
 
Top