’’گجل‘‘: اردو شاعری کی ایک نئی صنفِ سخن ۔۔۔ از سرور عالم راز سرورؔ

’’گجل‘‘: اردو شاعری میں نئی صنفِ سخن
از سرور عالم راز سرورؔ


اس مضمون کا موضوع وہ نئی صنفِ سخن ہے جو پچھلے کئی سالوں سے غزل پر ’’چھاپہ مار کر‘‘ اس کے ہمہ گیر سایہ تلے اپنی اصل شکل و صورت چھپانے کی کوشش کرتی رہی ہے۔ اس خفیہ کاروائی کے پس منظر میں یہ جذبہ کارفرما نظر آتا ہے کہ چونکہ یہ نام نہاد صنف سخن خود اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل نہیں ہے اس لیے اس کو غزل کی خوبصورت آڑ میں اردو دنیائے ادب پر مسلط کیا جاسکتا ہے۔ اس طرز عمل سے خود اس صنفِ سخن کو کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو، غزل کو سخت نقصان پہنچنا یقینی ہے۔چنانچہ یہ اشد ضروری ہے کہ اس ’’بتِ طناز‘‘ کا چہرہ بے نقاب کیا جائے اور اس کا اصلی رنگ و روپ اہلِ اردو کو دکھایا جائے۔

یہ نئی صنفِ سخن اپنی ظاہری صورت میں غزل سے کافی مشابہت رکھتی ہے۔ اس میں بھی ردیف و قافیہ اور بحر و وزن کے جملہ تقاضوں کا ’’حسبِ توفیق‘‘ خیال رکھا جاتا ہے۔ یہ بھی اشعار پر مشتمل ہوتی ہے اور اس کا ہر شعر بھی دو، کم و بیش ایک ہی لمبائی کے، مصرعوں سے تشکیل پذیر ہوتا ہے۔لیکن یہ اپنے مزاج، رنگ، مضامین اور زبان و بیان میں غزل سے اتنی مختلف ہے کہ اس کو ایک نئے اور منفرد نام سے تعبیر کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

ہمارا خیال ہے کہ اس نئی صنف کو ’’گجل‘‘ کے نام سے پکارا جانا چاہیے۔ اس طرح ا س کی انفرادیت بھی قائم رہے گی اور غزل سے اس کا دھندلا اور پامال سا رشتہ ہے اس کا اعتراف بھی ہوجائے گا: بارے ’’گجلوں‘‘ کا کچھ بیاں ہوجائے؟

روایتی غزل میں ’’سہلِ ممتنع‘‘ ایسے اشعار کو کہا جاتا ہےجو اپنے سیدھے سادھے مضامین کے باوجود دل و دماغ کو اپنے تاثر اور حسنِ زبان و بیان سے منور کر دیتے ہیں۔مثلاً

تم مرے پاس ہوتے ہوگیا ۔۔۔۔ جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا (مومن خاں مومنؔ)
سرہانے میرؔ کے آہستہ بولو ۔۔۔۔ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے (میرتقی میرؔ)
نازکی اس کے لب کی کیا کہیے ۔۔۔ پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے (میر تقی میرؔ)

زیرِ بحث صنفِ سخن ’’گجل‘‘ میں بھی ایسی ہی ایک خصوصیت ہے، لیکن اس کو سادگی اور سلاست جیسے فرسودہ الفاظ سے بیان نہیں کیا جاسکتا۔ ’’گجل‘‘ میں سادگی تو ہے، لیکن ایسی کہ شعر کا مطلب سمجھنے کے لیے کسی کوشش یا تکلف کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ شعر پڑھیے، فوراً سمجھ میں آجائے گا! یہ دراصل ایک طرح کے ’’نثری‘‘ اشعار ہوتے ہیں۔یعنی نثر کے کسی ایک جملہ کو دو مناسب (یا غیر مناسب!) ٹکڑوں میں بانٹ کر آپس میں ٹانک دیا جاتا ہے۔ اس عمل میں مضمون کو روکھا، سپاٹ، بے رنگ اور اکثر مطلق غائب رکھنے کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے۔ کسی اور مناسب اصطلاح کی عدم موجودگی میں ہم ایسے اشعار کو ’’پیدل‘‘ کہہ سکتے ہیں! چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے:
:پیدل اشعار:

آگ لگی ہے جنگل میں ۔۔۔۔ کانپ رہا ہوں سردی سے (آشفتہؔ چنگیزی)
پرندے جب نہ دیدے پھوڑ پائے ۔۔۔۔ تو گردن داب لی اپنے پروں میں (عطا الرحمان طارقؔ)
ساحل، ریت، سمندر، شام ۔۔۔۔ ساتھ ہے میرے پل بھر شام
دور ابھرتی لہروں میں ۔۔۔۔ ڈوب رہی تھی ہنس کر شام (شیداؔ رومانی)
جب غور سے دیکھا ہے تو اندازہ ہوا ہے ۔۔۔۔مہتاب کی کرنیں ہیں ستاروں کی سہیلی (ضمیرؔ کاظمی)
ہنس رہا ہوگا کسی شاخ کے پیچھے سورج ۔۔۔۔ پیڑ سے چھین رہا ہے کوئی سایہ اس کا (نعمان شوقؔ)
بھیڑ اک نظروں کی اس کے بال و پر کے آس پاس ۔۔۔۔ اک پرندہ نیلگوں آکاش میں اڑتا ہوا (رئیس منظرؔ)

ان ’’تگجل‘‘ سے بھرپور جواہر پاروں کی داد نہ دینا اپنی کم علمی کے اعتراف کے مترادف ہے! اگر درجِ بالا میرؔ و مومنؔ کے اشعار جیسے اشعار کہنا آسان نہیں ہے تو یہ ’’پیدل ‘‘ اشعار بھی ایک خاص ذہن و دماغ چاہتے ہیں جو ہر شاعر کی قمست میں نہیں لکھا ہوا ہے! کبھی کبھی ’’پیدل‘‘ اشعار میں عوامی چاشنی بھرنے کے لیے ’’دیسی‘‘ الفاظ کی مدد لی جاتی ہے۔ یہ اضافی الفاظ جتنے کم سواد اور عام پسند ہوں، اتنا ہی ’’گجل‘‘ کا لطف بڑھ جاتا ہے اور بالکل ’’آم کے آم، گٹھلیوں کے دام‘‘ والی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ ایسے ’’دیسی اشعار کی چند مثالیں دیکھیے:

دیسی اشعار:

کہاں ایسا تکلف ہے گھروں میں ۔۔۔۔بڑے آرام سے ہیں دفتروں میں (عطا الرحمان طارقؔ)
دیکھ شہادت کھیل نہیں ۔۔۔۔ باز آ نقشہ بازی سے (آشفتہؔ چنگیزی)
آٹھ برس کا بچہ میرا دوست قریبی لگتا ہے ۔۔۔۔ کام بہت ہوگا پاپا کو، پیار سے جب سمجھاتا ہے (آصف اظہر علی)
اک کمینہ کی روٹیاں کھا کر ۔۔۔۔ سخت بیمار ہو گیا ہوں آج (پروین کمار اشکؔ)
روگ مت پال غزل کا اے اشکؔ ۔۔۔۔ تجھ کو یہ لڑکی نہ پاگل کر دے (پروین کمار اشکؔ)
مرے ہی پاس تھے تخلیق کے منصب سبھی کل بھی ۔۔۔۔ میں ماں ہوں، کس طرح سہہ آج دردِ زہ نہیں سکتی (مسرتؔ زیبا)


’’گجل‘‘ کی ایک اور دل آویز ’’خصوصیت‘‘ اس کی ’’پراسراریت‘‘ ہے۔ شاعرانہ خلاقی کی یہ بہترین مثال ہے۔ الفاظ کی ہیرا پھیری، زبان و بیان کی ’’نقشہ بازی‘‘ اور ایسے الفاظ و تراکیب کا استعمال جن سے کان تو آشنا ہوں لیکن جن کی معنی آفرینی قارئین کی فکر و فہم کی چولیں ہلا کر رکھ دے، اس خصوصیت کے عناصرِ ثلاثہ ہیں۔ ایسے اشعار کو پڑھ کر قاری سوچتا ہے کہ ان کو سمجھنے کے لیے یا تو علمِ غیب کی ضرورت ہے یا پھر خود شاعر سے بلاواسطہ استفادہ کرنا ہوگا۔ اکثر وہ یہ سوچ کر صبر کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ چونکہ غزل شائع ہوگئی ہے اس لیے اس کا کوئی نہ کوئی مطلب بھی ضرور ہوگا! اس خصوصیت کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اگر اشعار کا مطلب سمجھ میں آ بھی جائے تو یوں ہوتا ہے کہ صبح کو ایک اور شام کو دوسرا مطلب ہاتھ آتا ہے۔ روایتی اردو غزل اپنی پوری تاریخ میں ایسی کوئی مثال قائم نہیں کرسکی ہے۔ ’’گجل‘‘ کے ایسے اشعار کو ہم جاسوسی اشعار کہہ سکتے ہیں۔

:جاسوسی اشعار:

مل گیا جب وہ نگیں پھر خوبیٔ تقدیر سے ۔۔۔۔ دل کو کیا کیا وحشتیں ہیں سنگ کی تاثیر سے (شعیب نظام)

روشنی کا بدن ہوا ریزہ ۔۔۔۔ روح پر گرد رات کا ریزہ
آج کس نے یہ دل پہ دی دستک ۔۔۔۔ محورِ زیست میں اٹا ریزہ (محمد وسیم)

ٹوٹے اگر ہوا تو اندھیرے کا گل جھڑے ۔۔۔۔ مکتوب لے گئی ہے سویرے کے نام کا ( جاوید ناصر)
ان جنگلوں میں دوستو، رستے بھی کھو گئے ۔۔۔۔ دشتِ تعلقات بھی آئے سراب میں (مختار شمیم)
دیکھ اے چشمِ طلب دیدہ، یہاں مت کھلنا ۔۔۔۔ کیسی شادابی، جہاں خون کی بارش ہی نہیں (شامؔ کلیم)
مرے شریک مسافر ہیں اور صحرا بھی ۔۔۔۔ شجر نہ دے مرے سائے کا لمبا قد کردے (راشد امکانؔ)

’’گجل‘‘ خود ہی ایک تجربہ کہی جاسکتی ہے، پھر بھی ’’گجل گو شعرا‘‘ اس نئی صنف میں نت نئے تجربات کی پھٹکری ڈال کر اس کا رنگ چوکھا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ اس کی ایک صورت یہ ہے کہ شاعر ’’گجل‘‘ کی زبان و بیان کے انتخاب میں اس کا خاص خیال رکھتے ہیں کہ سڑک پر چلتا ہوا ہر شخص بلا تخصیصِ ذوق و صلاحیت ایسی شاعری کا مطلب سمجھ جائے۔ اس قسم کی بے ساختگی اور ابتذال کے ڈانڈے براہِ راست بازار اور چوراہے سے ملتے ہیں۔ دراصل ’’گجل‘‘ ایسی صنف کی پرکھ کے لیے ایسے ہی کم قیمت اور بازاری پیمانہ کی ضرورت بھی تھی۔ ایسے اشعار کو اگر ’’سودیشی‘‘ کے نام سے پکارا جائے تو غیرمناسب نہیں ہوگا۔ چند مثالیں حاضرِ خدمت ہیں۔

:سودیشی اشعار:

الجھے داڑھی چوٹی میں ۔۔۔۔ کھیلو پھاگ لنگوٹی میں
بکتا دیکھا ہے انسان ۔۔۔۔ دوبوٹی اک روٹی میں
آج مظفرؔ چاند ہوئے ۔۔۔۔ کل تک تھے کجلوٹی میں (مظفرؔ حنفی)

دیکھے جو میں خواب وہ چِلّی کے خواب تھے ۔۔۔۔ آنکھوں میں پھر رہی ہے وہ خوابوں کی کہکشاں (ثمرؔ ٹکاروی)
یہ بھوک بیچ میں آخر کہاں سے آئی ہے ۔۔۔۔ یہ روٹیاں بھی تری ہیں، شکم بھی تیرے ہیں ( عقیل شادابؔ)
تمہارے بن مرا پردیس میں اب دل نہیں لگتا۔۔۔۔ میں دن جانے کے گنتی ہوں کیلنڈر سامنے رکھ کر (مسرتؔ زیبا)

’’گجل‘‘ میں تجربہ کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ ’’گجل گو‘‘ اپنا مطلب ادا کرنے کے لیے فارسی نما الفاظ استعمال کرنےکی کوشش کرتا ہے۔ چونکہ آج کل فارسی کا رواج بہت کم ہوگیا ہے، اس لیے شاعر عوام کی آسانی کے لیے ایسے الفاظ میں ’’دیسی‘‘ رنگ ملاتا جاتا ہےتا کہ عوام کی معلومات میں بھی اضافہ ہو اور وہ اس کی شاعری سے کم و بیش لطف اندوز بھی ہو سکیں۔ ذیل میں ایسے ’’معلوماتی‘‘ اشعار کی مثالیں دی جا رہی ہیں۔ پڑھیے اور سر دھنیے!

:معلوماتی اشعار:

بڑی لطیف تھی وہ بات جس کے سننے سے ۔۔۔۔ لہو بدن میں ہو اہے ابال آمادہ (خالد بشیر)
کب تک میں کواڑوں کو لگائے ہوئے رکھتا ۔۔۔۔ دن اگتے ہی احوال بیانی نکل آئی ( احمد کمال پرویزؔ)
میں واقف ہوں تری چپ گوئیوں سے ۔۔۔۔ سمجھ لیتا ہوں تیری ان کہی بھی (سلیمان خمارؔ)
خلوت کدۂ دل پہ زبوں حالیٔ بسیار ۔۔۔۔ ہے صورتِ گنجینۂ الفاظ و معانی (عین تابشؔ)

خشک و تر، زرد، ہری فصلِ کعصفِ ماکول ۔۔۔۔ اب کسی خواب سے چسپاں نہیں تاویل کوئی
غیر مربوط، گماں وصف، محرف، مبہم ۔۔۔۔ یعنی ہر شخص ہوا آیتِ انجیل کوئی (سلیم شہزاد)

ایک دن چھن جائے گا، آنکھوں سے سارا رنگ و نور ۔۔۔۔ دیکھ لے ان کو کہ یہ منظر ہمیشائی نہیں (مہتاب حیدر)

روایتی غزل شاعر پر بہت سی پابندیاں لگاتی ہے۔ اول تو غزل گوئی کے لیے فطری صلاحیت کی ضرورت ہے۔ پھر زبان و بیان کا علم، اہلِ ذوق کی صحبت، اساتذہ کے کلام کا شاگردانہ مطالعہ (تا کہ سر جھکا رہے اور ٹھوکر نہ لگے!) اور اگر خدا توفیق دے تو کسی صاحبِ علم و فن کے سامنے زانوائے تلمذ تہہ کرنا بھی ضروری ہیں۔ اب سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ایک غزل گو کے یہاں نہ صرف ردیف و قوافی ، وزن و بحر کا التزام ہوتا ہے، بلکہ زبان و بیان کی نزاکتوں اور تقاضوں کا لحاظ بھی رکھا جاتا ہے اور غزل کے دیگر جملہ لوازمات بھی موجود ہوتے ہیں۔

’’گجل‘‘ ان پابندیوں کو یکسر تو نظر انداز نہیں کرسکتی، البتہ جابجا ان فرسودہ اور دقیانوسی بندشوں کو اتار پھینکنے میں برائی بھی نہیں سمجھتی۔ کس کو فرصت ہے کہ آج کل کے مصروف دور میں مصرعوں کو وزن اور بحر کے ترازو میں تولے اور ان پیچیدگیوں میں اپنا اور دوسروں کا وقت خراب کرے! آخر ’’گجل‘‘ ایک صنف سخن ہے، مدرسہ کا سبق تو نہیں ہے ! چنانچہ ’’گجل گو‘‘ جہاں تہاں ان پابندیوں سے اغماز برت لیتا ہے اور ایک فقیرانہ بے نیازی سے ’’گجل‘‘ پوری کرکے اپنے فرض سے نجات حاصل کرلیتا ہے۔ اس قسم کے اشعار کو ہم پرہیزی کہیں تو بےجا نہیں ہوگا۔ کچھ جواہرپارے ملاحظہ فرمائیے۔

:پرہیزی اشعار:

ہر غم کو سہنے کی طاقت دینا مجھے ۔۔۔۔ کوئی بھی غم اس پہلے مت دینا مجھے
ایسا مت کرنا جیتے جی مر جاؤں ۔۔۔۔ مرنے سے پہلے شہرت دینا مجھے (محمد علوی)

اب اپنی چیخ ہی کیا، اپنی بے زبانی کیا ۔۔۔۔ محض امیروں کی زندگانی کیا (عذرا پروینؔ)
وہ درمیانِ روز و شب وقفہ ہے کیا ۔۔۔۔ زیر افق میری طرح جلتا ہے کیا ( شفقؔ سوپوری)
شاید تھا اک بگولے میں تنہائیوں کا غم ۔۔۔۔ زیباؔ جو دل کے گملے میں کیکٹس لگا مجھے (مسرت زیباؔ)

ہرچند کہ اب تک کی یہ تحریر ’’گجل‘‘ کے تعارف کے لیے بہت کافی ہے، پھر بھی اس کی ایک خوبی ایسی مزید ہے جو حرفِ آخر کا حکم رکھتی ہے۔ جہاں غزل ہر شعر کے دونوں مصرعوں میں ربطِ باہمی کو لازمی گردانتی ہے، وہیں ’’گجل‘‘ ایسے فضول اور بے مصرف تقاضوں کا التزام اپنے لیے باعثِ ہتک جانتی ہے۔ ’’گجل‘‘ کے اشعار کے مصرعوں میں ربطِ باہمی کے فقدان کے بہت سے فوائد ہیں۔ ایک تو ’’گجل گو‘‘ شاعر کو اپنے ذہن پر زیادہ زور نہیں ڈالنا پڑتا۔ دوسرے، دونوں مصرعوں کا اختلافِ خیال ایک ہی شعر کو دو یا دو سے زیادہ مطالب ظاہر کرنے کی قدرت عطا کرتا ہے۔ اس طرح دس اشعار کی ’’گجل‘‘ میں بیس اشعار کا مزا آسانی سے مل سکتا ہے اور اجمال میں تفصیل کا حسن بھی پیدا ہو جاتا ہے! چونکہ اس طرح کی ’’گجل‘‘ کا ہر شعر پہلودار ہوتا ہے، ہم ایسے اشعار کو ’’دورخی ‘‘ کہہ سکتے ہیں۔ درجِ ذیل اشعار اس خصوصیت کی اچھی نمائندگی کرتے ہیں:

:دو رُخی اشعار:

نئی پرواز ویرانی ۔۔۔۔ ہر اک آغاز ویرانی
خوش آہنگ انکشافوں سے ۔۔۔۔ خلا کا راز ویرانی (ریاض لطیف)

یہ کس کے ہاتھ نے مسمار کردیا ہے ہمیں ۔۔۔۔ سوال گونج رہے ہیں شجر شجر کیسے (پروین راجا)
بچے سنا کریں گے مزے کی کہانیاں ۔۔۔۔ ذہنوں میں بات آج کی ڈالی نہ جائے گی ( عطا الرحمان طارقؔ)
بو دی تھیں میں نے اپنی دسوں انگلیں جہاں ۔۔۔۔ پیروں میں آ رہا ہے وہی راستہ سا پھر (رشید امکانؔ)
میں مانتا ہوں کہ ان دیکھے سائبان کی شام ۔۔۔۔۔ یتیم ہوگی مگر خود کفیل تو ہوگی ( احمد کمال پروازی)
جسم غائب ہے اور سر موجود ۔۔۔۔ زندگی تیغِ بے سپر موجود ( واجد قریشی)

’’گجل‘‘ کی یہ ’’صد رنگی‘‘ روایتی غزل کے نزدیک بے مایہ اور ’’بے حضور‘‘ سہی، لیکن ’’گجل‘‘ کو اس سے دل برداشتہ ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ وہ اپنی ذات میں ندرت اور تنوع کے اتنے امکانات رکھتی ہے جو غزل کو اپنی طویل عمر میں نصیب نہیں ہوسکتے۔ ’’گجل گو‘‘ شعرا کو غزل دوست حلقۂ فکر کی تنقید و تبصرہ کا خیال نہیں کرنا چاہیے اور صرف اس وجہ سے اپنی تخلیقی کاوشوں میں کمی نہیں کرنی چاہیے کہ اصحابِ فکر و نظر ’’گجل‘‘ کی پذیرائی میں کفِ افسوس ملتے ہوئے یہ پڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ:

ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی ۔۔۔۔ اب آبروئے شیوۂ اہلِ نظر گئی
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
راحل بھائی ، اس دلچسپ تنقیدی مضمون کی طرف متوجہ کرنے کا شکریہ۔ میں یہ مضمون سرور بھائی کی ویبگاہ پر بہت ہی پہلے پڑھ چکا ہوں ۔ اسے یہاں لگانے اور دوبارہ پڑھوانے کے لئے بھی بہت شکریہ ۔ بیشک "گجل" پر تنقید و تبصرہ اسی اندازِ بیان اور پیرائے کا متقاضی تھا جو صاحبِ مضمون نے اختیار کیا ۔ ویسے تو سرور بھائی بنیادی طور پر شاعر اور افسانہ نگار ہیں لیکن جب کبھی کوئی فکاہیہ تحریر لکھتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی منجھے ہوئے مزاح نگار کے قلم سے شگفتگی ٹپک رہی ہو ۔ اگرچہ اس مضمون میں ان کا انداز فکاہیہ ہے لیکن بین السطور ایک ٹھوس اور مدلل تنقیدی رویہ صاف جھلکتا ہے ۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اب کم ہی قلم کار تنقیدی ادب میں دلچسپی لیتے نظر آتے ہیں ۔ تنقید پڑھنے اور اس سے اکتساب کرنے والے لوگ کم ہوتے جارہے ہیں ۔ قلمکاروں کا زیادہ رجحان اب سنجیدہ نقد و نظر کے بجائے داد و تحسین بٹورنے کی طرف ہوتا جارہا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے میں نے بھی "گجل" ہی سے متعلق ایک موضوع پر سرور صاحب کا ایک مضمون یہاں لگایا تھا ۔ یہ مضمون نہیں بلکہ ایک گفتگو تھی جو ویبگاہ اردو انجمن پر ہوئی تھی اور میں نے اسے مضمون کا روپ دے دیا ۔یہ مضمون لگانے کے بعد میری سرور بھائی سے فون پر بات ہوئی تھی اور ان کی فرمائش پر اس کا ربط بھی میں نے ٹیکسٹ میسیج میں انہیں بھیج دیا تھا ۔ اب تک دو ایک لوگوں کی توجہ اس لڑی کی طرف گئی ہے ۔ ممکن ہے آپ نے بھی دیکھی ہو ۔ اگر نہیں دیکھی تو اب دیکھ لیجئے۔ آپ پڑھ کر لطف اندوز ہوں گے ۔
 
کچھ عرصہ پہلے میں نے بھی "گجل" ہی سے متعلق ایک موضوع پر سرور صاحب کا ایک مضمون یہاں لگایا تھا ۔
جی، مجھے یاد ہے، بلکہ وہی پڑھ کر خیال آیا تھا کہ گجل والا مضمون بھی یہاں لگانا چاہیے ۔۔۔ مگر چونکہ سرورؔ صاحب کی ویب سائٹ پر سارا کام ہی ان پیچ سے برآمد تصویری فائلوں پر مشتمل ہے، اس لیے مکمل مضمون کو ٹائپ کرنے میں اتنا عرصہ سستی آڑے آتی رہی۔ قرنطینہ میں کچھ فراغت میسر ہوئی تو سوچا ٹائپ کر ہی لوں :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جی، مجھے یاد ہے، بلکہ وہی پڑھ کر خیال آیا تھا کہ گجل والا مضمون بھی یہاں لگانا چاہیے ۔۔۔ مگر چونکہ سرورؔ صاحب کی ویب سائٹ پر سارا کام ہی ان پیچ سے برآمد تصویری فائلوں پر مشتمل ہے، اس لیے مکمل مضمون کو ٹائپ کرنے میں اتنا عرصہ سستی آڑے آتی رہی۔ قرنطینہ میں کچھ فراغت میسر ہوئی تو سوچا ٹائپ کر ہی لوں :)
اس سلسلے میں تابش بھائی سے مدد لیجئے ۔ وہ کوئی پروگرام استعمال کرتے ہیں جو تصویری متن کو ٹائپ کردیتا ہے ۔ ویسے گوگل ڈاکس میں بھی یہ سہولت موجود ہے ۔
 
اس سلسلے میں تابش بھائی سے مدد لیجئے ۔ وہ کوئی پروگرام استعمال کرتے ہیں جو تصویری متن کو ٹائپ کردیتا ہے ۔ ویسے گوگل ڈاکس میں بھی یہ سہولت موجود ہے ۔
پہلے ٹیلیگرام پر ایک بوٹ استعمال کر رہا تھا، مگر وہ اب مزید کام نہیں کرتا۔
ایک ایپ ہے Text scan pro۔ کچھ دن کے لیے فری ہے، پھر پیسے مانگتے ہیں۔ اگر 310 روپے فی مہینہ ادا کر سکتے ہیں، تو استعمال کیجیے۔ :)
 
Top