’اسٹیبلشمنٹ کے بنائے سیاسی ماحول سے جان چھڑانے کا وقت آگیا‘

’اسٹیبلشمنٹ کے بنائے سیاسی ماحول سے جان چھڑانے کا وقت آگیا‘
عاصم سجاد اختراپ ڈیٹ 21 ستمبر 2019




پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو اقتدار میں آئے ایک سال سے تھوڑا زیادہ عرصہ گزر چکا ہے اور نئے سیاسی نظام کی بنیاد ڈالنے کے حوالے سے کیے گئے دعوؤں کی قلعی مکمل طور پر کھل چکی ہے۔

موجودہ حکومت صرف انتقامی سیاست کے معاملے پر پرُعزم دکھائی دیتی ہے۔ پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ کی گرفتاری دراصل اپوزیشن کا منہ بند کرنے کے علاوہ مزید کچھ نہ کرنے کی ایک تازہ مثال ہے۔ معیشت کی صورتحال ابتر ہے، خارجہ پالیسی ہر طرح سے ناکامی کا استعارہ بنی ہوئی ہے اور وزرا تواتر کے ساتھ خود کو اور اپنی جماعت کو شرمندہ کر رہے ہیں۔

پھر کم و بیش 15 کروڑ نوجوانوں کا کیا بنا؟ حتیٰ کہ تعلیم یافتہ اور متحرک طبقہ بھی اقتصادی اعتبار سے غیر محفوظ ملازمت یا آمدن کے حالات کا سامان کررہا ہے جبکہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو محفوظ مستقبل کی کہیں کوئی کرن نہ دکھائی دیتی ہے اور نہ کوئی نوید سنائی دیتی ہے۔

اسکول سے باہر موجود غربت کی دلدل میں پھنسے 3 کروڑ بچوں اور جنگ اور ماحولیاتی آفات کے باعث اپنے ہی دیس میں بنے ہوئے پناہ گزین کا تو تذکرہ ہی کیا کرنا۔

اور یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس ان کے لیے کسی بھی نوعیت کا کوئی منصوبہ نہیں۔

باقی دنیا میں جہاں بھی حکومتوں کو کارپوریٹ لابیوں کی حمایت حاصل ہوتی ہے وہاں نوجوان اور دنیا کے مستقبل کی زیادہ فکر نہیں کی جاتی، تاہم کئی ملکوں میں حقیقی مسائل کسی نہ کسی سطح پر مرکزی دھارے کے سیاسی اور شعوری مباحثے کے دوران اجاگر ہو ہی جاتے ہیں، بلکہ دنیا کے کئی حصوں میں تو نوجوان معاملات اپنے ہاتھوں میں لے چکے ہیں۔

آج سوئیڈ گریٹا تھنبرگ نامی 15 سالہ بچی سمیت دیگر ٹین ایجرز کی شروع کردہ مہم ایک بار پھر دنیا کے مختلف حصوں میں سڑکوں کا رخ کر رہی ہے جس کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ نوجوانوں اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنایا جائے۔ شکر ہے کہ پاکستان میں بھی چند نوجوان اس عمل میں متحرک ہیں اور تربت، پشاور، ٹھٹہ، فیصل آباد اور دیگر علاقوں میں مارچ کریں گے۔




دراصل یہ نوجوان ان انقلابیوں کی نسلوں کے وارث ہیں جو عدم مساوات اور غیر منصفانہ سماجی نظام کو گرانے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ اس نظام کا نام ہے سرمایہ داری اور یہ ہماری زمین کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے اور اس عمل میں اربوں انسانی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کر رہا ہے۔

دنیا بھر میں موجود اسٹیبلشمنٹ جنگیں کرواتی ہیں، دُور دراز کے خطوں سے ان کے قدرتی وسائل کی چوری کرتی ہیں اور پھر جو ان کے خلاف آواز اٹھائے تو اسے مجرم قرار دے دیا جاتا ہے۔

حقیقی تبدیلی کی سیاست کو ان تمام مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہاں میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ ماحولیاتی مسائل کے خلاف احتجاجی مظاہرے فوری عالمی انقلاب کی نوید ثابت ہوں گے۔ تاہم یہاں میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ جس طرح نوجوان عام سطح پر ماحولیاتی تبدیلی اور طبقاتی استحصال، خواتین اور لڑکیوں پر منظم جبر پر مبنی اور دنیا کے زیادہ تر انسانوں (بالخصوص بھورے اور سیاہ فام) پر مٹھی بھر سامراجی قوتوں کے تسلط کا احساس دلانے والے اس سیاسی و اقتصادی نظام کے طریقہ کار پر سوال کھڑا کرتے ہوئے اب سیاسی دھارے میں آرہے ہیں، یہی دراصل امید کا جلتا دیا ہے۔

اس حقیقت کے باوجود کہ دنیا کے دیگر حصوں میں باضابطہ نمائندہ ادارے چند سری نظام کے تحت کام کر رہے ہیں، یہاں اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ سماج کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈرز یعنی نوجوانوں کے زیرِ سرپرستی چلنے والی خالص جمہوری مہمات جڑ پکڑ رہی ہیں۔

اس مہم کے سب سے طاقتور نعروں میں سے ایک نعرہ ’ماحولیاتی تبدیلی نہیں، نظام کی تبدیلی چاہیے‘ (‘System change, not climate change’) ہے، جو بلاشبہ اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ مہم کے شرکا کی جدوجہد کا تعلق صرف انفرادی صارفی آپشنز سے نہیں ہے بلکہ اس کا تعلق ایک ایسی عوامی سیاسی قوت وجود میں لانے سے ہے جو نظام کی تبدیلی پیدا کرسکے۔


پاکستان کے کئی شہروں میں ہونے والے مارچ سے ملک کے نوجوانوں کا صرف چھوٹا حصہ ہی یکجا ہوپائے گا، چند نوجوانوں کو قائل ہونا باقی ہے جبکہ کئی نوجوانوں کو اس بارے میں کچھ خبر نہیں یا پھر وقت کی تنگی کے باعث شرکت نہیں کر پائیں گے (ٹھیک ویسے ہی جیسے یکم مئی کو بھی مزدور اپنی دہاڑی نہیں چھوڑا کرتے۔)

نوجوانوں کے کئی دیگر حلقوں کے ساتھ اس ایک حلقے کو بھی اس کلائمٹ ایکشن موومنٹ کا لازمی حصہ بنانا چاہیے جس نے پی ٹی آئی کی دانستہ طور پر حمایت کی اور اسے اقتدار میں لے آئے۔ انہیں خود سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ کیا پاکستان کو انتقامی سیاست سے آگے لے جانے میں پی ٹی آئی نے کوئی مدد فراہم کی ہے؟ یا پھر حالات بد سے بدتر ہوچکے ہیں؟

اگر گزشتہ 12 ماہ کے دوران امید کی کوئی کرن نظر آئی ہے تو وہ یہ ہے کہ کئی عام پاکستانی، بالخصوص پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد نہ صرف اس نظامِ حکومت کے قیام میں اسٹیبلشمنٹ کے ادا کردہ کردار کے حوالے سے بتدریج آگاہ ہوتے جارہے ہیں، بلکہ تنقید بھی کرتے ہیں جس نظام کو سرل المیڈا ‘ہائبرڈ‘ نظامِ حکومت پکارتے ہیں جو ہمیں پاتال کی تہوں کی طرف لے جائے گا۔

وقت آگیا ہے کہ ہم یکجا ہوں اور اسٹیبلشمنٹ کے گرد گھومتے ماڈل سے آگے بڑھیں اور ایک خالص عوامی سیاست، عوام کی جانب سے کی جانے والی سیاست اور عوام کے لیے کی جانے والی سیاست کا نظام وجود میں لائیں۔ فیصلے کا اختیار ہم سب کے پاس ہے، اور ہمارے مستقبل کا دار و مدار بھی اسی فیصلے سے منسلک ہے۔

ترجمہ: ایاز احمد لغاری

یہ مضمون 20 ستمبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا
0

لکھاری قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں پڑھاتے ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
پیپلزپارٹی کے خورشید شاہ کی گرفتاری دراصل اپوزیشن کا منہ بند کرنے کے علاوہ مزید کچھ نہ کرنے کی ایک تازہ مثال ہے
واقعی خورشید شاہ جیسے ایماندار شخص کو گرفتار کرکے بہت بڑی غلطی کر دی۔ عمران خان جیسے چور کو گرفتار کرنا چاہئے تھا۔
97-E6-FB22-B79-C-4636-84-DC-C736-FA9224-F8.jpg
 

جاسم محمد

محفلین
اور یہ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس ان کے لیے کسی بھی نوعیت کا کوئی منصوبہ نہیں۔
منصوبہ ہے، پیسے نہیں ہیں۔ امسال 12 ارب ڈالر صرف پچھلی حکومتوں کے لئے گئے مہنگے قرضوں کی قسطیں بمع سود ادا کرنے میں چلے گئے جو کہ ایک نیا ریکارڈ ہے۔
5d6496110690b.jpg

External debt servicing jumps by 54pc - Newspaper - DAWN.COM
 

آورکزئی

محفلین
جسم صاحب ۔۔۔۔۔۔۔۔ نیازی کی ذرائع آمدن بتائیں۔۔۔۔۔۔۔ شاید اپ بتا بھی چکے ہوں لیکن بھول گیا۔۔۔ اور ان کے بہنوں کی بھی ۔۔۔
اور ساتھ ساتھ شوکت خانم فنڈ رائزنگ پر تھوڑا تبصرہ فرمائیں۔۔۔۔۔۔۔ نیازی دودھ ہو دھلا ہوا ہے
 

جاسمن

لائبریرین
منصوبہ ہے، پیسے نہیں ہیں۔
1:عارضی بھرتیاں اور تنخواہیں زیادہ۔
2:بدعنوانی کے ریٹ بہت زیادہ اور ہر طرح و طریقے سے تبادلوں پہ دگنی تگنی شرح سے رشوت۔
3:ڈینگی پہ قابو پانے میں ناکامی۔
یہ تین مسائل نہیں ہیں۔۔۔۔ان سے جڑے اور ان کے علاوہ بے شمار مسائل ہیں۔
ہم حکومت کے خلاف نہیں ہیں۔ جب یہ لوگ آئے تو ہم نے بھی بہت امیدیں لگائیں۔ چلیں سب نہ سہی کچھ پوری ہوتیں۔ کچھ نہ کچھ تو ہوتا نظر آتا۔
لیکن
۔۔۔۔افسوس!
 

رانا

محفلین
1:عارضی بھرتیاں اور تنخواہیں زیادہ۔
2:بدعنوانی کے ریٹ بہت زیادہ اور ہر طرح و طریقے سے تبادلوں پہ دگنی تگنی شرح سے رشوت۔
3:ڈینگی پہ قابو پانے میں ناکامی۔
یہ تین مسائل نہیں ہیں۔۔۔۔ان سے جڑے اور ان کے علاوہ بے شمار مسائل ہیں۔
ہم حکومت کے خلاف نہیں ہیں۔ جب یہ لوگ آئے تو ہم نے بھی بہت امیدیں لگائیں۔ چلیں سب نہ سہی کچھ پوری ہوتیں۔ کچھ نہ کچھ تو ہوتا نظر آتا۔
لیکن
۔۔۔۔افسوس!
میرا گمان ہے کہ عمران خان واقعی کچھ کرنا چاہتا تھا اور ہے بھی۔ لیکن دو وجوہات کی وجہ سے سب رومانس ختم ہوگیا۔ ایک وجہ تو سامنے کی ہے کہ گذشتہ حکومتوں کے نالائقیاں بہرحال اسے بھگتنی پڑرہی ہیں اور انتہائی ابتر صورتحال ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑی وجہ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کی بے صبری ہے جو انہیں لے کر بیٹھ گئی۔ جس وقت یہ الیکشن کے بعد حکومت کے لئے جوڑ توڑ کررہے تھے تو کیا انہیں اندازہ نہیں تھا کہ نمبر گیم پورے کرنے کے لئے جتنے پاپڑ بیلنے پڑرہے ہیں یہ تو صرف ابتدا ہے۔ جب چوروں لٹیروں کو بیساکھیاں بنائیں گے تو پھر ان کی ماننی بھی پڑیں گی۔ چوہدری برادرن اور ایم کیو ایم کی مثال سامنے ہے پھر کئی لوگوں کے انفرادی احسانات کی مثالیں علیحدہ ہیں کہ ایک طرف تو ان کے کرتوتوں کی وجہ سے کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے اور دوسری طرف ان کے احسانات کے بوجھ تلے دبی گردن ان کے سامنے اٹھانے کے بھی قابل نہیں تو پھر کچھ کریں کیسے ۔ لیکن یہ تو ابھی سال بھر کا معاملہ ہے۔ اس سے بھی کئی سال پہلے جب انہوں نے دوسری پارٹیوں کے لوٹوں کو تحریک انصاف میں لینا شروع کیا تھا وہیں سے بےصبری کا اندازہ ہوگیا تھا کہ بس کسی طرح حکومت میں آجائیں۔ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ حکومت میں آکر سب کو پاکستانی ٹیم کی طرح سیدھا کردیں گے لیکن یہ نہ سوچا کہ ٹیم میں تو ان کے پاس تمام اختیارات تھے اور کسی کا کوئی احسان نہیں تھا لیکن لوٹوں لٹیروں کے احسان اٹھا کر الیکشن جیتنے کے بعد کونسے اختیار ہوں گے۔ اگر کچھ صبر کرجاتے تو حالات جس نہج پر چل رہے تھے اب ان کا نمبر آنا ہی تھا کہ خواص و عوام کے پاس کوئی آپشن ہی نہیں بچا تھا۔ ایسی صورت میں اگر انہیں بیساکھیوں والی حکومت ملتی تو صاف انکار کردیتے لیکن اقتدار کے چکر میں بری طرح اپنے آپ کو ایکسپوز کروا بیٹھے۔ اب روف کلاسرا وغیرہ جس طرح ان کے وزرا اور ان کے دوستوں کی داستانیں کھول رہے ہیں اور خود یہ اپنی پالیسیوں اور یوٹرن کی بدولت جس طرح ایکسپوز ہورہے ہیں، اپنے ساتھ تو ظلم کیا ہی لیکن ان بے چاروں کے ساتھ زیادہ ظلم کیا ہے جو انہیں مسیحا سمجھ بیٹھے تھے کہ پہلے تو پھر بھی عمران خان کی شکل میں انہیں ایک امید نظر آتی تھی اب وہ بھی گئی۔
 

فرقان احمد

محفلین
میرا گمان ہے کہ عمران خان واقعی کچھ کرنا چاہتا تھا اور ہے بھی۔ لیکن دو وجوہات کی وجہ سے سب رومانس ختم ہوگیا۔ ایک وجہ تو سامنے کی ہے کہ گذشتہ حکومتوں کے نالائقیاں بہرحال اسے بھگتنی پڑرہی ہیں اور انتہائی ابتر صورتحال ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑی وجہ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان کی بے صبری ہے جو انہیں لے کر بیٹھ گئی۔ جس وقت یہ الیکشن کے بعد حکومت کے لئے جوڑ توڑ کررہے تھے تو کیا انہیں اندازہ نہیں تھا کہ نمبر گیم پورے کرنے کے لئے جتنے پاپڑ بیلنے پڑرہے ہیں یہ تو صرف ابتدا ہے۔ جب چوروں لٹیروں کو بیساکھیاں بنائیں گے تو پھر ان کی ماننی بھی پڑیں گی۔ چوہدری برادرن اور ایم کیو ایم کی مثال سامنے ہے پھر کئی لوگوں کے انفرادی احسانات کی مثالیں علیحدہ ہیں کہ ایک طرف تو ان کے کرتوتوں کی وجہ سے کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے اور دوسری طرف ان کے احسانات کے بوجھ تلے دبی گردن ان کے سامنے اٹھانے کے بھی قابل نہیں تو پھر کچھ کریں کیسے ۔ لیکن یہ تو ابھی سال بھر کا معاملہ ہے۔ اس سے بھی کئی سال پہلے جب انہوں نے دوسری پارٹیوں کے لوٹوں کو تحریک انصاف میں لینا شروع کیا تھا وہیں سے بےصبری کا اندازہ ہوگیا تھا کہ بس کسی طرح حکومت میں آجائیں۔ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ حکومت میں آکر سب کو پاکستانی ٹیم کی طرح سیدھا کردیں گے لیکن یہ نہ سوچا کہ ٹیم میں تو ان کے پاس تمام اختیارات تھے اور کسی کا کوئی احسان نہیں تھا لیکن لوٹوں لٹیروں کے احسان اٹھا کر الیکشن جیتنے کے بعد کونسے اختیار ہوں گے۔ اگر کچھ صبر کرجاتے تو حالات جس نہج پر چل رہے تھے اب ان کا نمبر آنا ہی تھا کہ خواص و عوام کے پاس کوئی آپشن ہی نہیں بچا تھا۔ ایسی صورت میں اگر انہیں بیساکھیوں والی حکومت ملتی تو صاف انکار کردیتے لیکن اقتدار کے چکر میں بری طرح اپنے آپ کو ایکسپوز کروا بیٹھے۔ اب روف کلاسرا وغیرہ جس طرح ان کے وزرا اور ان کے دوستوں کی داستانیں کھول رہے ہیں اور خود یہ اپنی پالیسیوں اور یوٹرن کی بدولت جس طرح ایکسپوز ہورہے ہیں، اپنے ساتھ تو ظلم کیا ہی لیکن ان بے چاروں کے ساتھ زیادہ ظلم کیا ہے جو انہیں مسیحا سمجھ بیٹھے تھے کہ پہلے تو پھر بھی عمران خان کی شکل میں انہیں ایک امید نظر آتی تھی اب وہ بھی گئی۔
عمران خان صاحب کو کرسی پر بیٹھنے کی خواہش تھی سو وہ پوری کر دی گئی۔ ان کی غلطی نہیں ہے۔ قوم نے ضرورت سے زائد توقعات وابستہ کر لی تھیں۔
 

رانا

محفلین
عمران خان صاحب کو کرسی پر بیٹھنے کی خواہش تھی سو وہ پوری کر دی گئی۔ ان کی غلطی نہیں ہے۔ قوم نے ضرورت سے زائد توقعات وابستہ کر لی تھیں۔
ضرورت سے زائد تو قوم کی غلطی تھی لیکن جو ضروری کام تھے اور یہ کرسکتے تھے وہ تو انہی کی غلطی ہے۔ ضروری اقدامات نہ لے سکنے کے پیچھے یہی وجہ ہے کہ جلد اقتدار میں آنے کے لالچ میں کرپٹ لوگوں کے کندھوں پر سوار ہونے میں بھی باک محسوس نہیں کیا اور اب انہی لوٹوں کے سامنے اونچی آواز میں بول نہیں سکتے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ضرورت سے زائد تو قوم کی غلطی تھی لیکن جو ضروری کام تھے اور یہ کرسکتے تھے وہ تو انہی کی غلطی ہے۔ ضروری اقدامات نہ لے سکنے کے پیچھے یہی وجہ ہے کہ جلد اقتدار میں آنے کے لالچ میں کرپٹ لوگوں کے کندھوں پر سوار ہونے میں بھی باک محسوس نہیں کیا اور اب انہی لوٹوں کے سامنے اونچی آواز میں بول نہیں سکتے۔
جلد یا بدیر کا مسئلہ نہیں ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان قرضوں کی دلدل میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔
جب زرداری نے حکومت چھوڑی تھی تو ملک کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ صرف 3 ارب ڈالر تھا۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بھی کم تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب آپ مزید قرضے لئے بغیر اپنے زر مبادلہ کے ذخائر با آسانی بڑھا سکتے تھے اور ساتھ میں ترقیاتی منصوبے لگا کر قرضوں کا جی ڈی پی سے تناسب مزید کم کر سکتے تھے۔
لیکن اس تاریخی موقع کا فائدہ اٹھانے کی بجائے لیگی حکومت نے سی پیک کے چکر میں قوم کو مزید 40 ارب ڈالر کا مقروض کر دیا۔ اب اس پہاڑ جتنے قرضوں کو چکانے کیلئے موجودہ حکومت کو مزید قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ کیونکہ سابقہ حکومت نے ان قرضوں کی ادائیگی کیلئے آمدن کا کوئی بندوبست نہیں کیا تھا۔ جبکہ گالیاں عمران خان کو پڑ رہی ہیں۔ جو اس بد انتظامی کو ٹھیک کرکے ایکسپورٹس اور امپورٹس میں توازن لانے کیلئے کوشاں ہیں۔
3-1532027175.jpg


2 ماہ میں ڈیڑھ ارب ڈالر کے بیرونی قرضے، سال میں13 ارب ڈالر لینے کا منصوبہ
شہباز رانا اتوار 22 ستمبر 2019
چین 158.3، سٹی بینک 148.2،عالمی کنسورشیم سے173ملین ڈالر ملے، یوروبانڈز، سکوک کے ذریعے3ارب ڈالراکٹھے کیے جائینگے فوٹو:فائل

اسلام آباد: حکومت پاکستان نے رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ میں ڈیڑھ ارب ڈالر کے بیرونی قرضے لیے ہیں جو گزشتہ سال اسی عرصہ کے دوران لیے گئے قرضوں کے مقابلے میں 108 فیصد زائد ہیں۔

غیرملکی قرضوں میں یہ اضافہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد سے شروع ہوا ، آئی ایم ایف پروگرام کے تحت تین سال میں پاکستان کیلیے 38ارب ڈالر کی غیرملکی فنڈنگ کا تخمینہ ہے۔ وزارت خزانہ کے اعدادوشمار کے مطابق اس سال جولائی اور اگست میں غیرملکی کمرشل بینکوںاور مختلف قرض دہندگان نے پاکستان کو1.49ارب ڈالر دیے ہیں جبکہ 2018کے انھی دو ماہ میں 71.4کروڑ ڈالر قرضہ لیا گیا تھا۔ ڈیڑھ ارب ڈالر کے ان قرضوں کے علاوہ برطانیہ، امریکا اور جاپان سے غیرملکی گرانٹس کی شکل میں 4132.3ملین بھی لیے گئے ہیں۔

پی ٹی آئی حکومت نے اس سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی ضروریات کیلیے 13ارب ڈالر کے قرضے لینے کا ہدف رکھا ہے اور یہ ڈیڑھ ارب ڈالر مجموعی ہدف کا 11.5فیصد ہیں۔ حکومت نے اپنے پہلے سال کے دوران 16ارب ڈالر کے بیرونی قرضے لیے تھے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ اگرچہ کم ہو رہا ہے تاہم رواں مالی سال کے دوران یہ خسارہ پورا کرنے کے لیے تقریباً 8ارب ڈالر درکار ہیں۔ آئی ایم ایف نے رواں مالی سال کیلیے کم ازکم 25.6ارب ڈالر کی بیرونی امداد کی ضرورت کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ یہ تخمینہ 6.6ارب ڈالر کے متوقع کرنٹ خسارے کی بنیاد پر لگایا گیا ہے جبکہ ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد کا کہنا ہے کہ رواں سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 8ارب ڈالر کے لگ بھگ رہ سکتا ہے۔ اس سال جولائی، اگست میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 1.3ارب ڈالر رہا جو گذشتہ سال کے اسی عرصہ کے مقابلے میں 53فیصد کم ہے۔

اس سال جولائی، اگست میں ڈیڑھ ارب ڈالر کے قرضوں میں 321.5ملین ڈالر کے کمرشل قرضے اور 500ملین ڈالر ایشیائی ترقیاتی بینک کی پہلی امداد شامل ہے ،دوطرفہ قرض دہندگان کی طرف سے 272ملین ڈالر وصول ہوئے جو کل قرضوں کا 18فیصد ہے۔ سعودی عرب نے 108ملین ڈالر دیے۔ چین نے پراجیکٹ فنانسنگ کی مد میں 158.3ملین ڈالر دیے جو گذشتہ سال کے اسی عرصہ کے مقابلے میں47فیصد کم ہے، سی پیک کی بہت سے اسکیمیں مکمل ہونے کے باعث چینی فنانسنگ میں کمی آئی ہے۔چین نے حویلیاں تھاکوٹ روڈ کیلیے 27.2ملین ڈالر اور سکھر ملتان موٹروے کیلیے 68.2ملین ڈالر دیے، یہ دونوں منصوبے مکمل ہو چکے ہیں اور وزیراعظم عمران خان کی طرف سے افتتاح کے منتظر ہیں۔

آئی ایم ایف کی شرائط کی وجہ سے سی پیک بہت زیادہ متاثر ہوا ہے اور9ارب ڈالر کے ریلوے مین لائن ون پراجیکٹ کے مستقبل قریب میں شروع ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا۔ حکومت نے321.5ملین ڈالر کے قدرے مہنگے کمرشل قرضے لیے ہیں جو مجموعی قرضے کا 21فیصد ہیں۔ کمرشل بینکوں کے قرضوں میں تقریباً 5گنا اضافہ ہوا ہے، رواں مالی سال کے دوران حکومت نے 2ارب ڈالر کے کمرشل قرضے لینے کا تخمینہ رکھا ہے۔ گزشتہ ماہ سٹی بینک نے حکومت کو 148.2ملین ڈالر شارٹ ٹرم سہولت کے طور پر دیے، دبئی بینک اور کریڈٹ سوئس کی سربراہی میں کنسورشیم نے لندن انٹر بینک ریٹس پر 173ملین ڈالر کے قرضے دیے۔گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر حکومتی سکیورٹیز میں سٹی بینک کی سرمایہ کاری لانے کیلے کوشاں ہیں۔ پی پی دور کے سابق اقتصادی مشیر ثاقب شیرانی نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ ڈاکٹر رضا باقر نے بیرونی سرمایہ لانے کیلیے لندن میں سٹی بینک کے زیراہتمام کانفرنس میں شرکت کی ہے۔

گزشتہ ماہ کثیر طرفہ قرض دہندگان کی طرف سے قرضوں میں اضافہ ہوا اور حکومت نے ان سے 896ملین ڈالر کے قرضے لیے جو مجموعی قرضے کا 60فیصد ہیں۔ اسلامی ترقیاتی بینک نے551 ملین ڈالر کی آئل کریڈٹ کی سہولت کے تحت 285ملین ڈالر دیے۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے گزشتہ 2 ماہ میں 520ملین ڈالر دیے۔ پاکستان نے ایشیائی ترقیاتی بینک سے مجموعی طور پر 1.7ارب ڈالر قرضے کا تخمینہ لگا رکھا ہے اور اسے 2.2ارب ڈالر سے زائد ملنے کی توقع ہے۔ ورلڈ بینک نے 1.2ارب ڈالر کے قریب سالانہ تخمینے کے سلسلے میں 65ملین ڈالر جاری کیے ہیں۔ حکومت نے عالمی مارکیٹ میں لانگ ٹرم سیکیورٹی پیپرز جاری کرنے کے لیے مالیاتی مشیروں کی خدمات حاصل کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ہے، یورو بانڈز اور سکوک کے ذریعے 3ارب ڈالر جمع کرنے کا منصوبہ ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
اس تاریخی موقع کا فائدہ اٹھانے کی بجائے لیگی حکومت نے سی پیک کے چکر میں قوم کو مزید 40 ارب ڈالر کا مقروض کر دیا۔ اب اس پہاڑ جتنے قرضوں کو چکانے کیلئے موجودہ حکومت کو مزید قرضے لینے پڑ رہے ہیں۔ کیونکہ سابقہ حکومت نے ان قرضوں کی ادائیگی کیلئے آمدن کا کوئی بندوبست نہیں کیا تھا۔ جبکہ گالیاں عمران خان کو پڑ رہی ہیں
کرپشن کا ریٹ بہت بڑھ جانا بھی پچھلی حکومت کے کھاتے میں جاتا ہے؟؟؟
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم خلیل صاحب -آپ کے سیاسی تبصرے میں پڑھتا رہتا ہوں اور خوب محظوظ ہوتا ہوں -:)

میری سیاسی سوجھ بوجھ بہت کم ہے اور آپ نے مجھ سے زیادہ اخبار پڑھے ہیں ،جتنی میری عمر ہے آپ کا تجربہ -پھر بھی ایک بات عرض کروں ،فرض کیجیے اسٹیبلشمنٹ منظر عام سے ہٹ گئی -اب کیا اوپشنز رہ گئے -وہی دو -فارسی مثل ہے آزمودہ را آزمودن جہل است جس کا اردو میں ایک دل جلے نے بڑا فحش ترجمہ کیا ہے کہ <آزمائے ہوئے کو آزمانا -اپنی __________وانا > بقول ایک بڑے ادیب عنایت علی خان صاحب کے :

مخمصہ
پہنچ گئے ہیں الکشن کے پھر دوراہے پر
تمھی بتاؤ مرے بھائی کس طرف جائیں؟
ادھر “میاں“ ہے ادھر “مائی“ کس طرف جائیں
ادھر کنواں ہے ادھر کھائی کس طرف جائیں


یوں سمجھ لیں :beggars cant be choosers

ہمارے یہاں خالص جمہوری نظام اگر تیّار ہو بھی جائے تو نتیجے میں ایک بدمعاش حکومت ہی تشکیل پائے گی کیونکہ ہماری اکثر عوام عقل و شعور کی نہایت نچلی سطح پر ہے جو ہر چیز کو پیٹ کی آنکھ سے دیکھنے کی قائل ہے -ہم لوگ قمیص اٹھا کر اگر دیکھیں تو پیٹ میں ایک گڑھا نظر آئے گا جس میں اندھیرا ہی اندھیرا ہے نور نہیں -ہم اسی سے دیکھتے ہیں -
سروے کر لیں :<موجودہ حکومت کیسی ہے؟> ،<بالکل کنڈم >،<کیوں صاحب ؟>،<قیمتیں بڑھ گئیں ،،ٹیکس چڑھ گئے >لیجیے ہوگیا سروے -اب آپ فرمائیے کیا کسی بھی حکومت کی ناکامی کا معیار کیا صرف یہی دو چیزیں ہیں -مغربی معاشرہ تو چلتا ہی ٹیکس پر ہے-اصل میں ماضی کے حرام خور حکمرانوں نے جمہور عوام کی ذہن سازی اس نہج پر کی ہے کہ جو حکمران کھائے اور کھلائے وہ اچھا ہے چاہے ملکی سالمیت اور بقا داؤ پہ لگا دے -

میری ناقص رائے میں موجودہ اسٹیبلشمنٹ بہتر ہے کیونکہ اس کی نظر انتخاب عمران خان ہے - عمران خان کو آپ جو کچھ کہہ لیں ملک کا بدخواہ نہیں کہہ سکتے -توقعات کے لحاظ سے کوئی خاص پیش رفت اس لیے نہیں ہو پائی کہ اس کے ارد گرد کھوٹے سکّے ہیں -اور یہ میرا ذوق تنقید ہے جو یہ کچھ لکھ دیا ورنہ میں پی ٹی آئی کا حامی نہیں -میں نے زندگی میں ایک ہی ووٹ دیا پچھلے الیکشن میں، مفتی تقی عثمانی کے فتویٰ کو سمجھ کر عمل کرتے ہوئے اور دیا کس کو؟ ، سیاسی اسلامی جماعتوں کو -جس پر اب کبھی افسوس بھی ہوتا ہے تو اپنے آپ کو سمجھا دیتا ہوں کہ میں نے تو فتویٰ کے لحاظ سے عمل کیا لہٰذا میرا ثواب کہیں نہیں گیا -

ہمیں چاہیے کہ اپنے اندر ایک صحت مند تنقیدی ذوق پیدا کریں نہ کہ اندھی تنقید اور اندھی تقلید کریں -اندھی تنقید تو یہ ہے کہ جس شخص کا میں مخالف ہوں اس کا اچھا کام بھی میرے نزدیک برا ہو -اور اندھی تقلید یہ ہےکہ جس شخص کا میں حامی اور معتقد ہوں اس کا برا کام بھی میرے لیے اچھا ہو -
 

جاسم محمد

محفلین
سروے کر لیں :<موجودہ حکومت کیسی ہے؟> ،<بالکل کنڈم >،<کیوں صاحب ؟>،<قیمتیں بڑھ گئیں ،،ٹیکس چڑھ گئے >لیجیے ہوگیا سروے -اب آپ فرمائیے کیا کسی بھی حکومت کی ناکامی کا معیار کیا صرف یہی دو چیزیں ہیں -مغربی معاشرہ تو چلتا ہی ٹیکس پر ہے-اصل میں ماضی کے حرام خور حکمرانوں نے جمہور عوام کی ذہن سازی اس نہج پر کی ہے کہ جو حکمران کھائے اور کھلائے وہ اچھا ہے چاہے ملکی سالمیت اور بقا داؤ پہ لگا دے -
کیا بات ہے جناب۔ بہترین تجزیہ
 
Top