طارق شاہ
محفلین
غزل
لُبھاتا ہے اگرچہ حسُنِ دریا، ڈر رہا ہُوں مَیں
سَبب یہ ہے کہ ، اِک مُدّت کنارے پر رہا ہُوں مَیں
یہ جھونکے، جن سے دِل میں تازگی، آنکھوں میں ٹھنڈک ہے
اِنھی جھونکوں سے، مُرجھایا ہُوا شب بھر رہا ہُوں مَیں
تیرے آنے کا دن ہے، تیرے رستے میں بچھانے کو
چمکتی دُھوپ میں سائے اکٹّھے کر رہا ہُوں مَیں
کوئی کمرہ ہے، جس کے طاق میں اِک شمع جلتی ہے !
اندھیری رات ہے، اور سانس لیتے ڈر رہا ہُوں مَیں
مجُھے معلوُم ہے اہل ِ وَفا پر کیا گُزرتی ہے
سمجھ کر ، سوچ کر، تجھ سے محبّت کر رہا ہُوں مَیں
احمد مُشتاؔق
لُبھاتا ہے اگرچہ حسُنِ دریا، ڈر رہا ہُوں مَیں
سَبب یہ ہے کہ ، اِک مُدّت کنارے پر رہا ہُوں مَیں
یہ جھونکے، جن سے دِل میں تازگی، آنکھوں میں ٹھنڈک ہے
اِنھی جھونکوں سے، مُرجھایا ہُوا شب بھر رہا ہُوں مَیں
تیرے آنے کا دن ہے، تیرے رستے میں بچھانے کو
چمکتی دُھوپ میں سائے اکٹّھے کر رہا ہُوں مَیں
کوئی کمرہ ہے، جس کے طاق میں اِک شمع جلتی ہے !
اندھیری رات ہے، اور سانس لیتے ڈر رہا ہُوں مَیں
مجُھے معلوُم ہے اہل ِ وَفا پر کیا گُزرتی ہے
سمجھ کر ، سوچ کر، تجھ سے محبّت کر رہا ہُوں مَیں
احمد مُشتاؔق