ساغر صدیقی یہ تیری گلیوں میں پھر رہے ہیں جو چاک داماں سے لوگ ساقی- ساغر صدیقی

یہ تیری گلیوں میں پھر رہے ہیں جو چاک داماں سے لوگ ساقی
کریں گے تاریخِ مے مرتب یہی پریشاں سے لوگ ساقی

اگر یہ اندھیر اور کچھ دن رہا تو ایسا ضرور ہو گا
الجھ پڑیں گے بنامِ حالات زلفِ جاناں سے لوگ ساقی

لگا کوئی ضرب اس ادا سے کہ ٹوٹ جائیں دلوں کی مُہریں
تری قسم تنگ آگئے ہیں سکوتِ پنہاں سے لوگ ساقی

لبوں پی ہلکی سی مسکراہٹ جلو میں صد انقلاب رقصاں
نہ جانے آئے ہیں کس جہاں سے یہ حشر ساماں سے لوگ ساقی

کوئی نیا رنگ بخش اس کو کوئی نئی روح پھونک اس میں
گریز کرنے لگیں گے ورنہ حدیثِ یزداں سے لوگ ساقی

چمن کی خیرات چند کانٹے تو ڈال دے دامنِ طلب میں
وگرنہ مر جائیں گے لپٹ کر درِ گلستاں سے لوگ ساقی

یہ جگنوؤں کی چمک سے بھی اب سنبھال لیتے ہیں اپنا خرمن
مجھے یقیں ہے کہ ڈر گئے ہیں شبِ چراغاں سے لوگ ساقی

خیال ہے میکدے میں اک بار اور شعلوں کا راج ہو گا
شنید ہے انتقام لیں گے نشاط دوراں سے لوگ ساقی

ساغر صدیقی
 
مدیر کی آخری تدوین:
Top