یومِ مئی اور ’’شُھَدَائے‘‘ شکاگو (مقامِ عبرت)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
یومِ مئی اور ’’شُھَدَائے‘‘ شکاگو
دوسرے بہت سے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال یومِ مئی منایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ مزدوروں کا عالمی دن ہے۔ پس منظر اس کا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ آج سے تقریباً ایک صدی پیشتر، مزدوروں سے بہت زیادہ مشقت لی جاتی تھی اور ان کو اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ یکم مئی کو شکاگو کے مزدوروں نے اس ناروا سلوک کے خلاف احتجاج کیا اور اوقاتِ کار میں کمی کرنے کا مطالبہ کیا۔ حکومتِ وقت نے ان کے اس مظاہرے کو تشدد سے دبانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں بہت سے مزدور زخمی ہوئے اور متعدد ہلاک ہوگئے۔ انہی ہلاک شدگان کی یاد منانے کے لئے ہر سال یوم مئی منایا جاتا ہے۔ اس دن ملک بھر میں تعطیل ہوتی ہے، مزدور تنظیمیں بڑی بڑی ریلیاں منعقد کرتی ہیں، محنت کشوں کے حقوق کے علمبردار دھواں دھار تقریریں کرتے ہیں، اخبارات و رسائل خصوصی ایڈیشن شائع کرتے ہیں اور دل کھول کر ’’شہدائے‘‘ شکاگو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
ہمیں نہ مزدوروں کا دن منانے پر کوئی اعتراض ہے، نہ اس دن تعطیل کرنے کا کوئی شکوہ ہے۔ اگر اعتراض ہے تو اس پر کہ مملکتِ اسلامیہ میں مزدوروں کا دن یکم مئی کو کیوں منایا جاتا ہے---؟ اگر شکوہ ہے تو یہ کہ شکاگو میں مرنے والوںکو ’’شہداء‘‘ کیوں کہا جاتا ہے---؟
اپنے دامن میں سب کچھ ہوتے ہوئے اغیار کی دریوزہ گری کرنا، کیا اعتراض کی بات نہیں ہے---؟ ہمیں شکاگو کے مزدوروں کو اپنا ہیرو بنانے کی کیا ضرورت ہے---؟ شکاگو کے محنت کشوں نے تو صرف ایک صدی قبل احتجاج کیا تھا اور وہ بھی محض اپنے حقوق کے لئے ، نہ کہ دنیا بھر کے مزدوروں کے لئے۔ مزدوروں کے حقوق کا حقیقی نگہبان تو وہ کالی کملی والا ہے، جس نے آج سے چودہ سو سال پہلے اپنے پیروکاروں کو یہ حکم دیا تھا کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دیا کرو۔
مزدور تو پھر بھی آزاد شہری ہوتے ہیں، عرب معاشرے میں ایک طبقہ غلاموں کا بھی تھا۔ یہ وہ بدنصیب لوگ تھے، جن کی باقاعدہ منڈیاں لگتی تھیں اور ان کو بھیڑ بکریوں کی طرح خریدا اور بیچا جاتا تھا۔ یہ ہوتے تو انسان تھے، مگر ان کے ساتھ جانوروں سے بھی برا سلوک کیا جاتا تھا۔ ان کے کوئی حقوق نہیں تھے۔ مالک چاہے تو اپنے غلام کو تپتی ہوئی ریت پر لٹا دے، چاہے تو اس کے سینے پر بھاری سِل رکھ دے، چاہے تو اس کے گلے میں رسی ڈال کر بچوں کے حوالے کر دے اور کہہ دے کہ اس کو مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتے پھرو--- الامان والحفیظ!
مگر اس مظلوم و مقہور طبقے کی طرف جب شہنشاہ مدینہ کی نگاہ عنایت اٹھی تو بیک جنبش لب ان کو آقاؤں کا بھائی بنا دیا اور حکم دیا کہ ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے جیسا کہ حقیقی بھاؤں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
ارشاد ہؤا
’’تمہارے غلام تمہارے ہی بھائی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارا ماتحت بنا دیا ہے، اس لئے جو کچھ خود کھاؤ، وہی ان کو بھی کھلایا کرو، جو کچھ خود پہنو، وہی ان کو بھی پہنایا کرو۔‘‘
اللہ اکبر---! جس ذات گرامی نے اپنے ایک حکم سے بے بس اور بے کس غلاموں کو جانوروں کے زمرے سے نکال کر آزاد انسانوں کا ہمسر کر دیا۔ اس کے ہوتے ہوئے ہم شکاگو کے مزدوروں کی طرف کیوں دیکھیں---؟ ہم مسجد قبا اور مسجد نبوی کی تعمیر کے دن کو یومِ مزدور کے طور پر کیوں نہ منائیں، جب سلطان العرب والعجمﷺ ایک عام مزدور کی طرح گردوغبار میں اٹے ہوئے تھے اور پتھر، مٹی اور گارا ڈھو رہے تھے---؟ ہم خندق کی کھدائی کے دن کو یوم محنت کش کی حیثیت سے کیوں نہ منائیں، جب شاہ مدینہ سخت فاقے کے عالم میں کدال چلا رہے تھے اور اپنے محنت کش ساتھیوں کا حوصلہ بڑھا رہے تھے---؟
غریبوں اور مسکینوں کے اس ملجاء و مأوٰی کو تو مزدوروں کی حق رسانی کا اتنا خیال تھا کہ اس نے واشگاف الفاظ میں اعلان کر رکھا تھا کہ جس نے مزدور سے کام لینے کے بعد اس کا حق ادا نہ کیا، قیامت کے دن میں اس کا حریف ہوں گا۔
استغفراللہ---! میدانِ محشر میں شفیع المذنبین، جس کے حریف ہو جائیں، اس کی ذلت و رسوائی اور بدبختی و حرماں نصیبی کا کیا ٹھکانا---!! اعاذنا اللہ تعالیٰ منہ۔
ستم بالائے ستم یہ کہ ہلاک شدگانِ شکاگو کو’’شہداء‘‘ کہا جاتا ہے۔ حالانکہ کسی کافر کو شہید قرار دینا پرلے درجے کی سفاہت و حماقت ہے۔ قرآن کریم میں کافر کے بارے میں صراحتہً ارشاد ہے کہ ہُوَ فِیْ الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنo (وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔)
کہاں خسارہ اٹھانے والا وہ بدنصیب، جو جہنم کے ہولناک شعلوں میں گھرا ہو اور کہاں حیاتِ ابدی سے سرفراز وہ خوش قسمت کہ جس کو تمام تر نعمتوں سے نواز دینے کے بعد بھی اس کارب اس سے کہتا ہے کہ مانگ اور کیا مانگتا ہے۔
شہادت کا مرتبہ تو اتنا بلند و بالا ہے کہ کافر تو درکنار، جہاد کرنے والا مؤمن بھی اس وقت تک اس کو نہیں پا سکتا، جب تک اس کی نیت مکمل طور پر درست نہ ہو۔ قیامت کے روز متعدد ایسے لوگ پیش ہوں گے، جو مسلمانوں کی طرف سے لڑتے ہوئے مرے ہوں گے اور ان کا خیال ہوگا کہ ہمیں شہداء میں شمار کیا جائے گا، مگر علیم بذات الصدور فرمائے گا۔
اے فلاں! تو نے مال غنیمت کے لالچ میں حصہ لیا تھا--- اے فلاں! تو نے تو شہرت و ناموری حاصل کرنے کے لئے جنگ میں حصہ لیا تھا۔ اے فلاں! تو نے اپنی شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کرنے کی غرض سے لڑائی کی تھی--- اس لئے تم میں سے کوئی بھی شہید نہیں ہے۔ شہید تو وہ ہوتا ہے، جو صرف میرا کلمہ بلند کرنے کے لئے جہاد میں حصہ لے اور میری راہ میں اپنی جان قربان کر دے۔
غرضیکہ اگر خلوص نیت نہ ہو تو مسلم کی موت بھی شہادت نہیں ہوتی۔ خواہ وہ میدان جنگ میں ہی کیوں نہ مرا ہو --- پھر شکاگو کے احتجاجی مظاہرے میں مارے جانے والے (کفار) کس طرح ’’شہداء‘‘ کہلا سکتے ہیں؟!
خدارا، ہر کس وناکس اور ایرے غیرے کو شہید کہہ کہہ کر لفظ شہادت اور شہید کی آبرو نہ گنوائیے۔ یہ جرم ہے--- بہت بڑا جرم۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق شناسی کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔


کتاب ”رونمائیاں“ سے ماخوذ
 

نایاب

لائبریرین
ستم بالائے ستم یہ کہ ہلاک شدگانِ شکاگو کو’’شہداء‘‘ کہا جاتا ہے۔ حالانکہ کسی کافر کو شہید قرار دینا پرلے درجے کی سفاہت و حماقت ہے۔ قرآن کریم میں کافر کے بارے میں صراحتہً ارشاد ہے کہ ہُوَ فِیْ الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنo (وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔)

میرے محترم بھائی
اچھی تحریر شریک محفل کی آپ نے ۔
مگر کچھ سوال سامنے آ گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال کرتے شرماتا نہیں میں ۔۔۔۔
یقین ہے کہ جواب مل جائیں گے ۔
اہل الکتاب اور کافر میں کچھ فرق ہے کہ نہیں ؟
کیا یہ شگاگو والے سارے ہی کافر تھے ۔؟
کیا " شہید " کا درجہ صرف " مسلمان " کے لیے ہے باقی کسی بھی " نبی " کی امت کے لیے نہیں ۔۔۔ ؟
کیا " شہید " کا درجہ صرف " جہاد بالسیف " سے ہی ملتا ہے ۔؟
اللہ تعالیٰ ہمیں حق شناسی کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔
آمین ثم آمین

بہت دعائیں
 

ربیع م

محفلین
میرے محترم بھائی
اچھی تحریر شریک محفل کی آپ نے ۔
مگر کچھ سوال سامنے آ گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال کرتے شرماتا نہیں میں ۔۔۔۔
یقین ہے کہ جواب مل جائیں گے ۔
اہل الکتاب اور کافر میں کچھ فرق ہے کہ نہیں ؟
کیا یہ شگاگو والے سارے ہی کافر تھے ۔؟
کیا " شہید " کا درجہ صرف " مسلمان " کے لیے ہے باقی کسی بھی " نبی " کی امت کے لیے نہیں ۔۔۔ ؟
کیا " شہید " کا درجہ صرف " جہاد بالسیف " سے ہی ملتا ہے ۔؟

آمین ثم آمین

بہت دعائیں

محترمی! نہایت احترام کے ساتھ یہ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ یہ بھی واضح کر دیجئے کہ جو سوالات آپ نے پوچھے ہیں ان کے جواب آپ کو اسلام اور قرآن وسنت کے نقطہ نظر سے چاہئیں یا پھر کسی اور کے نقطہ نظر سے
اگر کسی اور کے نقطہ نظر سے تو کس کے؟
 

زیک

مسافر
ستم بالائے ستم یہ کہ ہلاک شدگانِ شکاگو کو’’شہداء‘‘ کہا جاتا ہے۔ حالانکہ کسی کافر کو شہید قرار دینا پرلے درجے کی سفاہت و حماقت ہے۔ قرآن کریم میں کافر کے بارے میں صراحتہً ارشاد ہے کہ ہُوَ فِیْ الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنo (وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔)
یہی عین اسلام ہے۔ ماشاء اللہ۔
 

زیک

مسافر
سوچ رہا تھا کہ بات مزدوروں تک رہے گی یا مزید بڑھے گی مگر مسلمان باز تو آ نہیں سکتے۔ وہ مسلمان جن کے مذہب میں لونڈی کے ساتھ زنا بالجبر نہ صرف جائز ہے بلکہ تمام اکابر دین اور ساتویں سے بیسویں صدی تک کے بہت سے مسلمانوں نے خوشی خوشی کیا بھی ہے۔ وہ مسلمان جو صدیوں جنگ و جلد کر کے غلام حاصل کرتے رہے۔ وہ مسلمان جو غلاموں کے جنسی اعضاء ختم کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔ وہ مسلمان جو آج بھی غلامی کو حرام کہنے اور برائی سمجھنے سے ڈرتے ہیں۔ وہی مسلمان ہمیں غلام کے بھائی ہونے کا درس دے رہے ہیں۔ واہ واہ واہ
 

زیک

مسافر
اب مزدوروں کی بات کرتے ہیں۔ اسلام کے گہوارے جزیرة العرب میں غیرملکی لیبر کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے؟
 

ربیع م

محفلین
سوچ رہا تھا کہ بات مزدوروں تک رہے گی یا مزید بڑھے گی مگر مسلمان باز تو آ نہیں سکتے۔ وہ مسلمان جن کے مذہب میں لونڈی کے ساتھ زنا بالجبر نہ صرف جائز ہے بلکہ تمام اکابر دین اور ساتویں سے بیسویں صدی تک کے بہت سے مسلمانوں نے خوشی خوشی کیا بھی ہے۔ وہ مسلمان جو صدیوں جنگ و جلد کر کے غلام حاصل کرتے رہے۔ وہ مسلمان جو غلاموں کے جنسی اعضاء ختم کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔ وہ مسلمان جو آج بھی غلامی کو حرام کہنے اور برائی سمجھنے سے ڈرتے ہیں۔ وہی مسلمان ہمیں غلام کے بھائی ہونے کا درس دے رہے ہیں۔ واہ واہ واہ

سیکولر اور نصارٰی کے بارے میں بھی کچھ تحریر فرمائیے!!!
 
سرد جنگ کا ایک شاخسانہ ایک یہ بھی تھا کہ مسلمانوں کو "دامے، درمے، سخنے" ، یہ یقین دلادیا گیا کہ کمیونزم اپنے ملحد نظریات کے باعث اسلام کا دشمن ہے اور سرمایہ داری عینِ اسلام ہے۔

یومِ مئی اور فیض احمد فیض کی شاعری کی مخالفت اسی دور کی یادگار ہے۔
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
محترمی! نہایت احترام کے ساتھ یہ کہنے کی جسارت کر رہا ہوں کہ یہ بھی واضح کر دیجئے کہ جو سوالات آپ نے پوچھے ہیں ان کے جواب آپ کو اسلام اور قرآن وسنت کے نقطہ نظر سے چاہئیں یا پھر کسی اور کے نقطہ نظر سے
اگر کسی اور کے نقطہ نظر سے تو کس کے؟
میرے محترم بھائی
مجھ کم علم کواس " علم " سے غرض جو انسانیت سکھاتے انسان سے محبت کرنا سکھائے ۔
اور میرے نزدیک سب سے بلند درجہ دین اسلام کا ہے ۔ اور قران رہنما ۔۔۔۔۔۔۔
آپ کی جانب سے ملی توجہ ان شاء اللہ میری رہنما ہو گی ۔
آپ چاہے جس بھی نظریئے کو " امام " رکھتے آگہی کی شمع جلائیں ۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
سلام مسنون
--------
معذرت: ہمارے علاقہ میں آجکل بجلی کی تاریں ڈالی جا رہی ہیں۔ جسکی وجہ سے تقریباً 3،4 ہفتوں سے صبح آٹھ سے شام 4 تک بجلی بند رہتی ہے۔ ایک کتاب کو از سر نو پرنٹنگ کے لئے سیٹ کرنے میں مصروف ہوں اور اپنی ایک ویب سائٹ پر بھی کام ہے۔ ٹائم بہت کم ملتا ہے صبح اٹھیں تو دماغ ”صُم بُکْم“ کی کیفیت سے دوچار ہوتا ہے اس لئے جواب دینے میں تھوڑی تاخیر ہو گئی۔
----------------------
سوچ رہا تھا کہ بات مزدوروں تک رہے گی یا مزید بڑھے گی مگر مسلمان باز تو آ نہیں سکتے۔ وہ مسلمان جن کے مذہب میں لونڈی کے ساتھ زنا بالجبر نہ صرف جائز ہے بلکہ تمام اکابر دین اور ساتویں سے بیسویں صدی تک کے بہت سے مسلمانوں نے خوشی خوشی کیا بھی ہے۔ وہ مسلمان جو صدیوں جنگ و جلد کر کے غلام حاصل کرتے رہے۔ وہ مسلمان جو غلاموں کے جنسی اعضاء ختم کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔ وہ مسلمان جو آج بھی غلامی کو حرام کہنے اور برائی سمجھنے سے ڈرتے ہیں۔ وہی مسلمان ہمیں غلام کے بھائی ہونے کا درس دے رہے ہیں۔ واہ واہ واہ
محترم زیک!

اگر تو آپ نبی کرمﷺ اورگزشتہ یا موجودہ دور کے نام نہاد مسلمانوں کو اخلاق و کردار، عادات و اطوار اور جملہ صفات کے لحاظ سے ایک ہی صف میں سمجھتے ہیں تو پھر تو آپ سے گِلہ ہی کیا جو آپ کا جی چاہے لکھیں۔۔۔۔۔۔۔
میں نے جو مراسلہ شیئر کیا۔ شائد اسے مکمل طور پر سمجھے بغیر ہی محض جذباتیات کی بنیاد پر آپ نے اپنا جواب ارسال کر دیا۔ میرے مراسلے میں صاحبِ تحریر نے جو بات کی ہے وہ سب نبی کریمﷺ کی کے بارے میں ہے۔ نہ کہ اسلام کے ٹھیکے داروں کی--------
کہاں آنحضرتﷺ کی عالی صفات کی ذندگی اور کہاں آجکل کے اسلام کے خوشفہم داعی (چند ایک کو چھوڑ کر) جن کی زندگی کو آپ، نبی کریمﷺ کی زندگی پر منطبق کر رہے ہیں۔

گذشتہ تحریر کے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں

مزدوروں کے حقوق کا حقیقی نگہبان تو وہ کالی کملی والا ہے، جس نے آج سے چودہ سو سال پہلے اپنے پیروکاروں کو یہ حکم دیا تھا کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دیا کرو۔

’’تمہارے غلام تمہارے ہی بھائی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارا ماتحت بنا دیا ہے، اس لئے جو کچھ خود کھاؤ، وہی ان کو بھی کھلایا کرو، جو کچھ خود پہنو، وہی ان کو بھی پہنایا کرو۔‘‘

غریبوں اور مسکینوں کے اس ملجاء و مأوٰی کو تو مزدوروں کی حق رسانی کا اتنا خیال تھا کہ اس نے واشگاف الفاظ میں اعلان کر رکھا تھا کہ جس نے مزدور سے کام لینے کے بعد اس کا حق ادا نہ کیا، قیامت کے دن میں اس کا حریف ہوں گا۔

استغفراللہ---! میدانِ محشر میں شفیع المذنبین، جس کے حریف ہو جائیں، اس کی ذلت و رسوائی اور بدبختی و حرماں نصیبی کا کیا ٹھکانا---!! اعاذنا اللہ تعالیٰ منہ۔

کیا یہ بیسوی صدی کے اسلامی ٹھیکے داروں کی باتیں ہیں۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

اگر آپ جذباتیات سے انکار کریں تو ایمانداری سے جواب دیں کہ

سوچ رہا تھا کہ بات مزدوروں تک رہے گی یا مزید بڑھے گی مگر مسلمان باز تو آ نہیں سکتے۔ وہ مسلمان جن کے مذہب میں لونڈی کے ساتھ زنا بالجبر نہ صرف جائز ہے بلکہ تمام اکابر دین اور ساتویں سے بیسویں صدی تک کے بہت سے مسلمانوں نے خوشی خوشی کیا بھی ہے۔ وہ مسلمان جو صدیوں جنگ و جلد کر کے غلام حاصل کرتے رہے۔ وہ مسلمان جو غلاموں کے جنسی اعضاء ختم کرنے میں مہارت رکھتے تھے۔ وہ مسلمان جو آج بھی غلامی کو حرام کہنے اور برائی سمجھنے سے ڈرتے ہیں۔ وہی مسلمان ہمیں غلام کے بھائی ہونے کا درس دے رہے ہیں۔ واہ واہ واہ

اس کے بعد بدر الفاتح نے جب آپ سے سوال کیا

سیکولر اور نصارٰی کے بارے میں بھی کچھ تحریر فرمائیے !!!
تو اس کے جواب میں آپ نے یہ جواب دیا۔۔۔

غلامی کے سلسلے میں یورپ اور امریکہ کا ریکارڈ انتہائی برا ہے۔ غلامی انسانیت کے تمام اصولوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔

درج بالا دونوں مراسلے لکھتے وقت آپ کے جذبات ایک جیسے تھے؟؟؟؟؟؟

جب سیکولر اور نصارٰی کی بات ہو تو آپ کے جواب اور جذبات میں اتنا فرق کیوں آیا؟؟؟؟؟

آپ ماضی کی بات کرتے ہیں، چلیں ماضی کو چھوڑیں۔ حال میں ہی انسانیت کا نام جپنے والوں کو دیکھ لیں۔ اب بھی مغربی اقوا م کے کئی ہوٹلوں اور پارکوں وغیرہ کے باہر لکھا ہوتا ہے کہ
“Black people and dogs are not allowed”
واہ--- آفریں---صد آفریں --- انسانیت کے ان علمبرداروں کو!!!!!!!!!!!!!

اپکی باتوں سے تو مجھے اکبر الہ آبادی کی نظم یاد آ گئی جو انہوں نے اپنے بیٹے ”عشرتی“ کے نام لکھی تھی۔

-----------------------------------

یومِ مئی اور فیض احمد فیض کی شاعری کی مخالفت اسی دور کی یادگار ہے۔
محترم خلیل صاحب ؛ کیا اس شاعری کا کوئی مواد مل سکتا ہیں۔ ٹیکسٹ، -ای-بک – یا کسی اور صورت میں ، اگر ممکن ہو تو ارسال کر کے بندہِ ناچیز کو شکریہ ادا کرنے کا موقع عنایت فرمائیں۔

-------------------------------------

محترم نایاب صاحب دوران گفتگو کوئی بات بری لگے تو پیشگی معذرت

اہل الکتاب اور کافر میں کچھ فرق ہے کہ نہیں ؟
ویکیپیڈیا سے ایک اقتباس
تثلیت اور اسلام
اسلام میں تثلیت کی کوئی گنجائش نہیں، قرآن کریم میں ایسی سینکڑوں آیات ہیں جن میں ایک میں تین یا تین میں ایک کہنے سے روکا گیا ہے(سورۃ 4 آیت 71، 72)۔ اس بات کو اتنا بڑا گناہ گردانا گیا ہے کہ جس کی پاداش میں یہ کائنات ہی ختم کر دی جاتی۔ اسلام میں وحدانیت ہیں، اللہ تعالیٰ ایک ہے، ان کی ذات اور صفات میں کوئی دوسرا شریک نہیں۔
اگر اہل کتاب انبیاء کو اللہ کا بیٹا کہیں تو وہ اہلِ کتاب شمار ہوں گے یا مشرک؟؟؟؟؟؟ میں اپنے علم میں اضافے کے لئے دست بستہ سوال کر رہا ہوں۔

میرے محترم بھائی
کیا " شہید " کا درجہ صرف " مسلمان " کے لیے ہے باقی کسی بھی " نبی " کی امت کے لیے نہیں ۔۔۔ ؟
سید الورٰی سے ایک اقتباس
------------------------------

پیمانِ ازل
عالمِ ارواح میں ایک عظیم الشان اجتماع تھا۔ ایک لاکھ سے زائد انبیاء کرام اور رُسل عظام کی ارواح جمع تھیں --- چونکہ کائنات کا خالق و مالک اس دن بنفس نفیس ایک اہم اعلان کرنے والا تھا اس لئے سب ہمہ تن گوش تھے --- بالآخر شہنشاہ مطلق کی پر عظمت و جلال آواز گونجی --- وہ گروہ انبیاء سے مخاطب تھا۔
(لَمَا اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتَابٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہ‘ ط)
(جب میں تم لوگوں کو فریضۂ نبوت و رسالت ادا کرنے کے لئے دنیا میں بھیجوں گا تو تمہیں کتاب بھی دوں گا اور حکمت سے بھی نوازوں گا، لیکن اگر اسی دوران وہ رسول آگیا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق والا ہوگا تو (تمہاری نبوت و رسالت کی ذمہ داریاں ختم ہوجائیں گی، تمہاری کتابیں منسوخ ہو جائیں گی اور) تمہیں اس رسول پر ایمان لانا پڑے گا اور اس کے ساتھ امداد و تعاون کرنا ہوگا۔)
یہ فرمان ہی کافی تھا --- جن ہستیوں کو مخاطب کرکے یہ فرمان جاری کیا جا رہا تھا، ان سے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ کسی مرحلے میں اس سے سرتابی کریں --- لیکن اس کی غیر معمولی اہمیت کے پیشِ نظر حاضرین کا زبانی اقرار بھی ضروری سمجھا گیا اور ان سے پوچھا گیا
اَاَقْرَرْتُمْ؟ (کیا تم اقرار کرتے ہو؟)
پھر اس فرمان کو اپنا عہد قرار دے کر اس کی اہمیت کو مزید اجاگر کیا گیا۔
وَاَخَذْتُمْ عَلیٰ ذٰلِکُمْ اِصْرِیْ؟ (اور اس پر میرا عہد لیتے ہو؟)
انکار کی مجال ہی کسے تھی ---؟ سب نے کہا
اَقْرَرْنَا (ہم اقرار کرتے ہیں)
تعجب ہے کہ انبیاء کرام کی پاکیزہ ارواح کے اس اقرار پر بھی اکتفا نہیں کیا گیا؛ بلکہ اس پر باقاعدہ گواہیاں ڈالی گئیں --- اور گواہ کون بنے---؟ انبیاء کی پوری جماعت اور خود رب العلمین۔
قَالَ فَاشْہَدُوْا وَاَنَا مَعَکُمْ مِّنَ الشّٰہِدِیْنَo
(رب نے کہا ”تم سب اس پر گواہ رہنا اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں شامل ہوں۔“)
کوئی اندازہ کرسکتا ہے اس پیمان کی اہمیت کا جس کے گواہوں کے زمرہ میں بادشاہِ حقیقی کا اپنا نام بھی درج ہو؟
رب کریم جانتا تھا کہ انبیاء تو میرے کسی بھی حکم سے انحراف نہیں کریں گے لیکن انبیاء کی امتوں میں ایسے لوگ ضرور ہوں گے جو اس عہد سے پھر جائیں گے، اس لئے اس نے یہ بھی ضروری سمجھا کہ اس پیمان سے انحراف کا انجام بھی بیان کر دیا جائے۔ چنانچہ مزید ارشاد ہؤا
(فَمَنْ تَوَلّٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓىِٕکَ ھُمُ الْفَاسِقُوْنَo) (۱)
(اگر اس کے بعد کسی نے اس میثاق سے روگردانی اختیار کی تو اس کا شمار فاسقوں میں ہوگا۔)
قرآنِ کریم میں شاید ہی کسی شئے کے لئے اتنی تاکید و اہتمام کیا گیا ہو جتنا اس مِیْثَاقُ النَّبِیِّیْنْ کے لئے کیا گیا۔
------------- اقتباس ختم ہوا -------------
باقی تما م اقتباس تو صرف وضاحت کے لئےشیئر کیا ہے اصل بات جو عرض کرنا چاہتا تھا کہ اتنا اہم میثاق صرف اس بات کے لئے لیا گیا تھا کہ
(لَمَا اٰتَیْتُکُمْ مِّنْ کِتَابٍ وَّحِکْمَۃٍ ثُمَّ جَآءَ کُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَکُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِہٖ وَلَتَنْصُرُنَّہ‘ ط)
(جب میں تم لوگوں کو فریضۂ نبوت و رسالت ادا کرنے کے لئے دنیا میں بھیجوں گا تو تمہیں کتاب بھی دوں گا اور حکمت سے بھی نوازوں گا، لیکن اگر اسی دوران وہ رسول آگیا جو تمہاری کتابوں کی تصدیق والا ہوگا تو (تمہاری نبوت و رسالت کی ذمہ داریاں ختم ہوجائیں گی، تمہاری کتابیں منسوخ ہو جائیں گی اور) تمہیں اس رسول پر ایمان لانا پڑے گا اور اس کے ساتھ امداد و تعاون کرنا ہوگا۔)
نبی کریمﷺ کے تشریف لانے کے بعد جب انبیاء کی نبوت ختم اور انکی کتابیں بھی منسوخ یہاں تک کہ انکی شریعت بھی منسوخ ہو جائے تو (اسلامی نقطۂ نظر سے) وہ کس طرح شہداء کا درجہ پا سکتے ہیں۔ ہاں نبی کریمﷺ سے پہلے ایمان لانے والوں کی بات اور ہے، وہ بھی صرف وہ لوگ جو انبیاء کے صحیح پیروکار تھے۔

کیا یہ شگاگو والے سارے ہی کافر تھے ۔؟
بے شک نہ ہوں ۔ بات تو انکو شہید کہنے کی ہے۔ انہوں نے تو محض اپنے حق کے لئے آواز بلند کی تھی۔ وہ کوئی اللہ اور اسکے دین کے لئے تونہیں اٹھے تھے نا، اپنے مفاد کے لیے اٹھے تھے۔

کیا " شہید " کا درجہ صرف " جہاد بالسیف " سے ہی ملتا ہے ۔؟
قرآن نے تو صاف قُتِلُواْ فِي سَبِيلِ اللّهِ کہا ہے ۔ یعنی جو اللہ کی را ہ میں قتل کئے جائیں۔جنت کے انعامات عالیہ تو صرف ان لوگوں کے لئے ہی ہیں۔ باقی پانی میں ڈوب کے مرنا وغیرہ ، وہ تو اس درجہ کو نہیں پاسکتے ناااااااااا۔


والسلام
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
ماشاء اللہ۔ قاضی واجد صاحب نے خوب سیر حاصل بحث کی۔
لوگ مسلمانوں کی خامیاں اسلام سے منسوب کردیتے ہیں۔ حالاں کہ یہ خود بھی جانتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات اس کے برعکس ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عالم نزع میں بھی دو باتیں ہی ارشاد فرماتے رہے، نماز اور غلاموں و ماتحتوں کے حقوق کی حفاظت۔
اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے غلاموں اور لونڈیوں کے حقوق ذکر فرمائے ہیں۔ کئی گناہوں کے کفارے میں سب سے پہلے غلام یا لونڈی آزاد کرنے کا حکم ہے۔ کیا کوئی اور مذہب اسلام کے مقابلے میں غلاموں کے حقوق کی بات کرتا نظر آتا ہے؟
اور شکاگو میں مزدور لوگ عیسائی اور یہودیوں کے مظالم کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے ، ان کے مدمقابل مسلمان نہیں تھے۔ یہ حال ہے عیسائی اور یہودیوں کا!!! نشانہ پھر بھی مسلمان۔۔۔یاللعجب!!!
تاریخ گواہ ہے کہ عیسائیوں، یہودیوں، بدھوؤں اور ہندوؤں نے الگ الگ مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم کیا، اسلام کی تعلیمات سے انحراف کرکے حد سے گزرنے والے مسلمانوں کی اجتماعی زیادتیاں ان کا عشر عشیر بھی نہیں۔
 
آخری تدوین:
ماشاء اللہ۔ قاضی واجد صاحب نے خوب سیر حاصل بحث کی۔
لوگ مسلمانوں کی خامیاں اسلام سے منسوب کردیتے ہیں۔ حالاں کہ یہ خود بھی جانتے ہیں کہ اسلام کی تعلیمات اس کے برعکس ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم عالم نزع میں بھی دو باتیں ہی ارشاد فرماتے رہے، نماز اور غلاموں و ماتحتوں کے حقوق کی حفاظت۔
اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے غلاموں اور لونڈیوں کے حقوق ذکر فرمائے ہیں۔ کئی گناہوں کے کفارے میں سب سے پہلے غلام یا لونڈی آزاد کرنے کا حکم ہے۔ کیا کوئی اور مذہب اسلام کے مقابلے میں غلاموں کے حقوق کی بات کرتا نظر آتا ہے؟
اور شکاگو میں مزدور لوگ عیسائی اور یہودیوں کے مظالم کے خلاف آواز اٹھا رہے تھے ، ان کے مدمقابل مسلمان نہیں تھے۔ یہ حال ہے عیسائی اور یہودیوں کا!!! نشانہ پھر بھی مسلمان۔۔۔یاللعجب!!!
تاریخ گواہ ہے کہ عیسائیوں، یہودیوں، بدھوؤں اور ہندوؤں نے الگ الگ مسلمانوں کے ساتھ جو ظلم کیا وہ اسلام کی تعلیمات سے انحراف کرکے حد سے گزرنے والے مسلمانوں کی اجتماعی زیادتوں کا عشر عشیر بھی نہیں۔

ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کہا تھا کہ ایک اناڑی ڈرائیور اگر مرسڈیز کو کسی دیوار کے ساتھ مار دے تو سمجھدار لوگ ڈرائیور کو برا بھلا کہیں گے، نہ کہ کار کو
 
آخری تدوین:

اکمل زیدی

محفلین
یومِ مئی اور ’’شُھَدَائے‘‘ شکاگو
دوسرے بہت سے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی ہر سال یومِ مئی منایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ مزدوروں کا عالمی دن ہے۔ پس منظر اس کا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ آج سے تقریباً ایک صدی پیشتر، مزدوروں سے بہت زیادہ مشقت لی جاتی تھی اور ان کو اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کرنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ یکم مئی کو شکاگو کے مزدوروں نے اس ناروا سلوک کے خلاف احتجاج کیا اور اوقاتِ کار میں کمی کرنے کا مطالبہ کیا۔ حکومتِ وقت نے ان کے اس مظاہرے کو تشدد سے دبانے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں بہت سے مزدور زخمی ہوئے اور متعدد ہلاک ہوگئے۔ انہی ہلاک شدگان کی یاد منانے کے لئے ہر سال یوم مئی منایا جاتا ہے۔ اس دن ملک بھر میں تعطیل ہوتی ہے، مزدور تنظیمیں بڑی بڑی ریلیاں منعقد کرتی ہیں، محنت کشوں کے حقوق کے علمبردار دھواں دھار تقریریں کرتے ہیں، اخبارات و رسائل خصوصی ایڈیشن شائع کرتے ہیں اور دل کھول کر ’’شہدائے‘‘ شکاگو کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
ہمیں نہ مزدوروں کا دن منانے پر کوئی اعتراض ہے، نہ اس دن تعطیل کرنے کا کوئی شکوہ ہے۔ اگر اعتراض ہے تو اس پر کہ مملکتِ اسلامیہ میں مزدوروں کا دن یکم مئی کو کیوں منایا جاتا ہے---؟ اگر شکوہ ہے تو یہ کہ شکاگو میں مرنے والوںکو ’’شہداء‘‘ کیوں کہا جاتا ہے---؟
اپنے دامن میں سب کچھ ہوتے ہوئے اغیار کی دریوزہ گری کرنا، کیا اعتراض کی بات نہیں ہے---؟ ہمیں شکاگو کے مزدوروں کو اپنا ہیرو بنانے کی کیا ضرورت ہے---؟ شکاگو کے محنت کشوں نے تو صرف ایک صدی قبل احتجاج کیا تھا اور وہ بھی محض اپنے حقوق کے لئے ، نہ کہ دنیا بھر کے مزدوروں کے لئے۔ مزدوروں کے حقوق کا حقیقی نگہبان تو وہ کالی کملی والا ہے، جس نے آج سے چودہ سو سال پہلے اپنے پیروکاروں کو یہ حکم دیا تھا کہ مزدور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دیا کرو۔
مزدور تو پھر بھی آزاد شہری ہوتے ہیں، عرب معاشرے میں ایک طبقہ غلاموں کا بھی تھا۔ یہ وہ بدنصیب لوگ تھے، جن کی باقاعدہ منڈیاں لگتی تھیں اور ان کو بھیڑ بکریوں کی طرح خریدا اور بیچا جاتا تھا۔ یہ ہوتے تو انسان تھے، مگر ان کے ساتھ جانوروں سے بھی برا سلوک کیا جاتا تھا۔ ان کے کوئی حقوق نہیں تھے۔ مالک چاہے تو اپنے غلام کو تپتی ہوئی ریت پر لٹا دے، چاہے تو اس کے سینے پر بھاری سِل رکھ دے، چاہے تو اس کے گلے میں رسی ڈال کر بچوں کے حوالے کر دے اور کہہ دے کہ اس کو مکہ کی گلیوں میں گھسیٹتے پھرو--- الامان والحفیظ!
مگر اس مظلوم و مقہور طبقے کی طرف جب شہنشاہ مدینہ کی نگاہ عنایت اٹھی تو بیک جنبش لب ان کو آقاؤں کا بھائی بنا دیا اور حکم دیا کہ ان کے ساتھ ویسا ہی سلوک کیا جائے جیسا کہ حقیقی بھاؤں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
ارشاد ہؤا
’’تمہارے غلام تمہارے ہی بھائی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارا ماتحت بنا دیا ہے، اس لئے جو کچھ خود کھاؤ، وہی ان کو بھی کھلایا کرو، جو کچھ خود پہنو، وہی ان کو بھی پہنایا کرو۔‘‘
اللہ اکبر---! جس ذات گرامی نے اپنے ایک حکم سے بے بس اور بے کس غلاموں کو جانوروں کے زمرے سے نکال کر آزاد انسانوں کا ہمسر کر دیا۔ اس کے ہوتے ہوئے ہم شکاگو کے مزدوروں کی طرف کیوں دیکھیں---؟ ہم مسجد قبا اور مسجد نبوی کی تعمیر کے دن کو یومِ مزدور کے طور پر کیوں نہ منائیں، جب سلطان العرب والعجمﷺ ایک عام مزدور کی طرح گردوغبار میں اٹے ہوئے تھے اور پتھر، مٹی اور گارا ڈھو رہے تھے---؟ ہم خندق کی کھدائی کے دن کو یوم محنت کش کی حیثیت سے کیوں نہ منائیں، جب شاہ مدینہ سخت فاقے کے عالم میں کدال چلا رہے تھے اور اپنے محنت کش ساتھیوں کا حوصلہ بڑھا رہے تھے---؟
غریبوں اور مسکینوں کے اس ملجاء و مأوٰی کو تو مزدوروں کی حق رسانی کا اتنا خیال تھا کہ اس نے واشگاف الفاظ میں اعلان کر رکھا تھا کہ جس نے مزدور سے کام لینے کے بعد اس کا حق ادا نہ کیا، قیامت کے دن میں اس کا حریف ہوں گا۔
استغفراللہ---! میدانِ محشر میں شفیع المذنبین، جس کے حریف ہو جائیں، اس کی ذلت و رسوائی اور بدبختی و حرماں نصیبی کا کیا ٹھکانا---!! اعاذنا اللہ تعالیٰ منہ۔
ستم بالائے ستم یہ کہ ہلاک شدگانِ شکاگو کو’’شہداء‘‘ کہا جاتا ہے۔ حالانکہ کسی کافر کو شہید قرار دینا پرلے درجے کی سفاہت و حماقت ہے۔ قرآن کریم میں کافر کے بارے میں صراحتہً ارشاد ہے کہ ہُوَ فِیْ الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخَاسِرِیْنo (وہ آخرت میں خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔)
کہاں خسارہ اٹھانے والا وہ بدنصیب، جو جہنم کے ہولناک شعلوں میں گھرا ہو اور کہاں حیاتِ ابدی سے سرفراز وہ خوش قسمت کہ جس کو تمام تر نعمتوں سے نواز دینے کے بعد بھی اس کارب اس سے کہتا ہے کہ مانگ اور کیا مانگتا ہے۔
شہادت کا مرتبہ تو اتنا بلند و بالا ہے کہ کافر تو درکنار، جہاد کرنے والا مؤمن بھی اس وقت تک اس کو نہیں پا سکتا، جب تک اس کی نیت مکمل طور پر درست نہ ہو۔ قیامت کے روز متعدد ایسے لوگ پیش ہوں گے، جو مسلمانوں کی طرف سے لڑتے ہوئے مرے ہوں گے اور ان کا خیال ہوگا کہ ہمیں شہداء میں شمار کیا جائے گا، مگر علیم بذات الصدور فرمائے گا۔
اے فلاں! تو نے مال غنیمت کے لالچ میں حصہ لیا تھا--- اے فلاں! تو نے تو شہرت و ناموری حاصل کرنے کے لئے جنگ میں حصہ لیا تھا۔ اے فلاں! تو نے اپنی شجاعت و بہادری کا مظاہرہ کرنے کی غرض سے لڑائی کی تھی--- اس لئے تم میں سے کوئی بھی شہید نہیں ہے۔ شہید تو وہ ہوتا ہے، جو صرف میرا کلمہ بلند کرنے کے لئے جہاد میں حصہ لے اور میری راہ میں اپنی جان قربان کر دے۔
غرضیکہ اگر خلوص نیت نہ ہو تو مسلم کی موت بھی شہادت نہیں ہوتی۔ خواہ وہ میدان جنگ میں ہی کیوں نہ مرا ہو --- پھر شکاگو کے احتجاجی مظاہرے میں مارے جانے والے (کفار) کس طرح ’’شہداء‘‘ کہلا سکتے ہیں؟!
خدارا، ہر کس وناکس اور ایرے غیرے کو شہید کہہ کہہ کر لفظ شہادت اور شہید کی آبرو نہ گنوائیے۔ یہ جرم ہے--- بہت بڑا جرم۔
اللہ تعالیٰ ہمیں حق شناسی کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔


کتاب ”رونمائیاں“ سے ماخوذ
بہت اعلیٰ ۔۔۔۔۔۔
 
اور میں آپ کے ساتھ متفق

میرے ماموں یو اے ای میں نو مسلم کو اسلام سکھاتے تھے تو وہاں ایک عرب نے خالصتاً غرور و تکبر سے کہا "نخن عرب بالدم" ہم خونی (نسلی) عرب ہیں۔ تو وہاں کے ایک عالم نے کہا "بری بات کی ہے تم نے، یہ یہودی مذہب کا شیوہ ہے۔"
یہاں تک کہ میں خود ابو ظہبی کے ایک قبرستان میں گیا تو وہاں ان کا ارادہ تھا کا عرب اور عجم کی قبریں الگ بنائی جائی ہم عرب ہیں، عجمیوں کو ہم سے الگ رکھا جائے۔
وہ تو وہیں کے ایک علم نے کہا " ایسا مت کرو! کیا پتہ کوئی عرب کسی عجم کی وجہ سے ہی بخشا جائے۔
یہ اسلام کا گہوارہ ہے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

زیک

مسافر
اگر تو آپ نبی کرمﷺ اورگزشتہ یا موجودہ دور کے نام نہاد مسلمانوں کو اخلاق و کردار، عادات و اطوار اور جملہ صفات کے لحاظ سے ایک ہی صف میں سمجھتے ہیں تو پھر تو آپ سے گِلہ ہی کیا جو آپ کا جی چاہے لکھیں۔
سینکڑوں احادیث و روایات ہیں لونڈیوں سے جنسی تعلقات کے حق میں۔ یہ صرف بعد کے مسلمانوں کا شیوہ نہیں۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
اگر ایک طرف غیر عالم کی برائی ذکر کی گئی تو دوسری طرف علماء کی دین داری بھی بیان کی گئی۔ خیر اور شر تو ہر جگہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top