یاد آئے گی کبھی تم کو محبّت میری

الف عین
الف نظامی
عظیم
شکیل احمد خان23
مقبول
----------------
یاد آئے گی کبھی تم کو محبّت میری
ایک سے ایک تھی تم پر عنایت عنایت میری
-----
کیا کبھی تم کو ستایا تھا بتاؤ تو سہی
بھول سکتے ہو کبھی دل سے شرافت میری؟
--------
ساتھ چھوٹا ہے تمہارا یہ خدا کی مرضی
قسم کھاتا ہوں کہ ایسی نہ تھی نیت میری
-----------
کوئی شکوہ تھا اگر مجھ سے بتایا ہوتا
دیکھتے کر کے کبھی مجھ سے شکایت میری
------
من میں آیا جو کیا مجھ سے نہ پوچھا ہرگز
تم نے سمجھا نہ ضروری ہے اجازت میری
--------
تم رقیبوں سے ملے مجھ سے بغاوت کر کے
کیوں نہ سمجھا کہ ہے اس میں تو اہانت میری
----------
خود سری سب پہ نمایاں ہے تمہاری ارشد
تم نے سمجھا نہ کبھی خود کو امانت میری
-------
 

عظیم

محفلین
یاد آئے گی کبھی تم کو محبّت میری
ایک سے ایک تھی تم پر عنایت عنایت میری
----- عنایت واحد مجھے اس صورت میں کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا

کیا کبھی تم کو ستایا تھا بتاؤ تو سہی
بھول سکتے ہو کبھی دل سے شرافت میری؟
-------- بتاؤ تو سہی کا ٹکڑا مجہول بناتا ہوا محسوس ہو رہا ہے مصرع
# کیا کبھی تم کو ستایا ہے کبھی رنج دیا
بہتر ہو سکتا ہے
اسی طرح دوسرا مصرعہ بھی شاید یوں ٹھیک ہو کہ
کیا بھلا سکتے ہو تم دل سے... حالانکہ 'دل سے' بھرتی سا لگ رہا ہے
کسی دوسرے انداز سے فکر کر کے دیکھیں

ساتھ چھوٹا ہے تمہارا یہ خدا کی مرضی
قسم کھاتا ہوں کہ ایسی نہ تھی نیت میری
----------- 'یہ' کی وجہ سے روانی کچھ مجروح ہوئی معلوم ہوتی ہے، اس کی جگہ 'تو' بہتر لگتا ہے مجھے
قسم کا تلفظ دیکھیں درست ہے

کوئی شکوہ تھا اگر مجھ سے بتایا ہوتا
دیکھتے کر کے کبھی مجھ سے شکایت میری
------ 'بتایا ہوتا' اچھا نہیں لگ رہا، کچھ اور لے آئیں
مثلاً 'تو کہتے تو سہی"
باقی ٹھیک لگتا ہے مجھے

من میں آیا جو کیا مجھ سے نہ پوچھا ہرگز
تم نے سمجھا نہ ضروری ہے اجازت میری
-------- من اچانک کہاں سے لے آئے؟ جو زبان چل رہی تھی وہی چلنے دیں، یعنی دل لائیں
دوسرا بھی
# یہ نہ سمجھا کہ ضروری ہے... بہتر رہے گا

تم رقیبوں سے ملے مجھ سے بغاوت کر کے
کیوں نہ سمجھا کہ ہے اس میں تو اہانت میری
---------- اہانت ملنے والے کی ہے یا شکایت کرنے والی کی یہ واضح نہیں لگ رہا، شعر بھی کچھ خاص نہیں لگتا، نکالا جا سکتا ہے

خود سری سب پہ نمایاں ہے تمہاری ارشد
تم نے سمجھا نہ کبھی خود کو امانت میری
-------ٹھیک
 
محترم ارشد صاحب !
بہت خوبصورت غزل ہے ۔محبت میں کی جانے والی اِن شکایتوں میں لگاوٹ کی باتوں کا مزہ ہے ۔سات اشعار ہیں مگر یہ میرے خیال میں پیار ،محبت،چاہ ،چاہت ،پیت، پریت اور پریم کی ہفت اقلیم ہے کہ سرسری دیکھیں تو دکھائی نہ دے اورغور کریں تو بے اختیار کہنا پڑے:​
چشم ِ بینا ہو ، پرکھ ہو تو نظر آئیں گے
ہفت اقلیم لیے پھرتے ہیں نادار کئی​
 
یاد آئے گی کبھی تم کو محبّت میری
ایک سے ایک تھی تم پر عنایت عنایت میری
تھی تمھارے لیے ہر ایک عنایت میری
کیا کبھی تم کو ستایا تھا بتاؤ تو سہی
بھول سکتے ہو کبھی دل سے شرافت میری؟
نہ کبھی تم کو ستا یا نہ رُلایا ہی تمھیں
۔۔۔۔کیا بھلا دو گے یونہی تم یہ شرافت میری
ساتھ چھوٹا ہے تمہارا یہ خدا کی مرضی
قسم کھاتا ہوں کہ ایسی نہ تھی نیت میری
ساتھ چھوٹا جو تمھارا تھی خدا کی مرضی
۔۔۔میں قسم کھاتا ہوں ایسی نہ تھی نیت میری
 
لیکن غلطی ظاہر نہیں کی
میں نے سوچا کہ پڑھنے والا پڑھ کر سمجھ جائے گا کہ جنابِ شیخ کا نقشِ قدم یوں نہیں یوں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وزن
قسم
قسم
کسی امر کا یقین دلانے کے لیے کسی مقدس ہستی کانام لیکرعہدکرنا، لینا یا دینا
ق پر زبر س پر زبر اور م اُردُو کے ہر حرف کی طرح ساکن
=-
-=
غَلط
دُرست
 
آخری تدوین:
اور م اُردُو کے ہر حرف کی طرح ساکن
یعنی اُردُو کے ہر لفظ کے آخری حرف کی طرح ساکن۔۔۔

لفظ قسم کے تلفظ کی چند مشہور مثالیں:
قسم اُس وقت کی جب زندگی کروٹ بدلتی ہے ۔۔۔ہمارے ہاتھ سے دنیا نئے سانچے میں ڈھلتی ہے
2۔دیکھو قسم سے،قسم سے کہتے ہیں تم سے ہاں۔۔۔تم بھی جلو گے ہاتھ ملو گے رُوٹھ کے ہم سے ہاں
3۔کھائی ہے رے ہم نے قسم سنگ رہنے کی۔۔۔آئے گا رے اُڑکے میر ا ہنس پردیسی
قسم نہ لو کوئی ہم سے قسم نہ ہم کوئی کھائیں گے۔۔۔جب تک ساتھ نبھےگا تب تک ساتھ نبھائیں گے
5۔تم اپنا رنج و غم اپنی پریشانی مجھے دے دو۔۔۔تمھیں غم کی قسم اِس دل کی ویرانی مجھے دے دو
6۔تمھیں دیکھوں تمھارے چاہنے والوں کی محفل میں۔۔۔محبت کی قسم اتنی کہاں طاقت میرے دل میں
7۔کروٹیں بدلتے رہے ساری رات ہم آپ کی قسم آپ کی قسم۔۔۔غم نہ کرو دن جدائی کے بہت ہیں کم آپ کی قسم آپ کی قسم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top