ہم نے دل کی مانی ہے (فاعلن مفاعیلن)

نوید ناظم

محفلین
آنکھ میں جو پانی ہے
یہ بھی اک نشانی ہے

کون کس کا ہو گا اب
یہ تو بس کہانی ہے

لو بدل گئے تیور
کچھ تو اس نے ٹھانی ہے

حُسن خود ہے حیرت میں
توبہ کیا جوانی ہے

یوں نہیں ہوئے برباد
ہم نے دل کی مانی ہے

دشت سے مِری یاری؟
یہ تو بہت پرانی ہے!
 
آخری شعر کے مصرع ثانی کے پہلے حصے میں وزن مجروح ہوا ہے، مکرر دیکھ لیجیے۔ یہ بحر ہزج ہے۔ ارکان ہیں: فاعلن مفاعیل (مربع اشتر)
مجوزہ طور پر: مدتوں پرانی ہے، سالہا پرانی ہے، ہاں! بہت پرانی ہے، میری جاں! پرانی ہے وغیرہ ٹھیک مصرعے ہو سکتے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے۔ بس آخری شعر میں ترمیم کر دو۔ اور
یوں نہیں ہوئے برباد
ہم نے دل کی مانی ہے
پہلے مصرع میں اگر ’ہی‘ کا اضافہ کر سکو تو زیادہ معنی خیز ہو جائے۔ جیسے
یوں ہی ہم نہیں برباد
 

نوید ناظم

محفلین
آخری شعر کے مصرع ثانی کے پہلے حصے میں وزن مجروح ہوا ہے، مکرر دیکھ لیجیے۔ یہ بحر ہزج ہے۔ ارکان ہیں: فاعلن مفاعیل (مربع اشتر)
مجوزہ طور پر: مدتوں پرانی ہے، سالہا پرانی ہے، ہاں! بہت پرانی ہے، میری جاں! پرانی ہے وغیرہ ٹھیک مصرعے ہو سکتے ہیں۔
ممنون ہوں کہ آپ نے ادھر نگاہ کی۔۔۔
جی بالکل آخری مصرعے میں ٹائپو ہو گیا، "تو" نہیں تھا درمیان میں ۔۔۔۔ لیکن آپ کی تجویز بہت خوبصورت ہے "ہاں! بہت پرانی ہے" ایسے کر دیا۔
 

نوید ناظم

محفلین
اچھی غزل ہے۔ بس آخری شعر میں ترمیم کر دو۔ اور
یوں نہیں ہوئے برباد
ہم نے دل کی مانی ہے
پہلے مصرع میں اگر ’ہی‘ کا اضافہ کر سکو تو زیادہ معنی خیز ہو جائے۔ جیسے
یوں ہی ہم نہیں برباد
بہت شکریہ سر،
غزل میں کچھ اچھا ہے تو وہ آپ ہی کی وجہ سے ہے،
سبحان اللہ! کتنا خوبصورت مصرع عطا کر دیا آپ نے۔
 
Top