ہم قافیہ الفاظ

فرخ منظور

لائبریرین
زوال شام کا نوحہ یہی ہے
ہم اہل شوق کا کوفہ یہی ہے

اجل کب کا ہمیں لے جا چکی ہے
اب اک باقی بچا لاشہ یہی ہے

مجھے معلوم ہے تم تھک چکے ہو
مگر اب کیا کریں، رستہ یہی ہے

جو نوکِ تیغِ قاتل کند ہو تو
مجے مارے، مگر خدشہ یہی ہے

تحیر علم ہے، اور علم حیرت
یہی عرفان ہے، زینہ یہی ہے

یہی شوروفغاں، کچھ خواب، آنسو
ہماری نسل کا قصہ یہی ہے

مجھے عاصؔم زبان بخشی گئی ہے
روایت میں مرا حصہ یہی ہے

عاصم بخشی
 

الف عین

لائبریرین
آپ احباب کی رائے درکار ہے کہ کیا اس غزل میں جو قافیے استعمال ہوئے ہیں وہ واقعی ہم قافیہ ہیں یا نہیں۔
ظہیراحمدظہیر ، الف عین اور مزید احباب بھی اگر رائے دینا چاہیں تو خوشی ہو گی۔
مجھے تو درست لگ رہے ہیں۔ زبر کی حرکت کے ساتھ سہ، صہ، شہ وغیرہ
 

رضوان راز

محفلین
حضرت تقابلِ ردیفین کا عیب کیا ہے؟ تفصیل عنایت فرمائیے۔
مزید یہ کہ اس عیب کے حامل ان دو اشعار کی نشان دہی فرما دیجیے تا کہ سمجھنے میں سہولت ہو ۔
مصرعِ اولیٰ کے آخر میں ردیف کا بغیر قافیے کے آ جانا تقابلِ ردیفین کہلاتا ہے۔
جیسے کہ ان اشعار میں ہے:

اجل کب کا ہمیں لے جا چکی ہے
اب اک باقی بچا لاشہ یہی ہے

مجھے عاصؔم زباں بخشی گئی ہے
روایت میں مرا حصہ یہی ہے
 

رضوان راز

محفلین
مصرعِ اولیٰ کے آخر میں ردیف کا بغیر قافیے کے آ جانا تقابلِ ردیفین کہلاتا ہے۔
جیسے کہ ان اشعار میں ہے:

اجل کب کا ہمیں لے جا چکی ہے
اب اک باقی بچا لاشہ یہی ہے

مجھے عاصؔم زباں بخشی گئی ہے
روایت میں مرا حصہ یہی ہے
ایک گتھی اور سلجھا دیجیے۔
خاک سار کی فہمِ خام کے مطابق یہاں ردیف دو الفاظ پر مشتمل ہے جو کہ یہی ہے۔ جب کہ مذکورہ اشعار کے مصرع ہائے اولیٰ میں فقط ہے آیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر مصرع اولیٰ میں قافیے کے بغیر ردیف جزوی طور پر آئے تو کیا اسے تقابلِ ردیفین شمار کیا جائے گا یا اس عیب کے لیے مکمل ردیف آنے کی شرط ہے۔
رہنمائی فرمائیے۔
 
ایک گتھی اور سلجھا دیجیے۔
خاک سار کی فہمِ خام کے مطابق یہاں ردیف دو الفاظ پر مشتمل ہے جو کہ یہی ہے۔ جب کہ مذکورہ اشعار کے مصرع ہائے اولیٰ میں فقط ہے آیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر مصرع اولیٰ میں قافیے کے بغیر ردیف جزوی طور پر آئے تو کیا اسے تقابلِ ردیفین شمار کیا جائے گا یا اس عیب کے لیے مکمل ردیف آنے کی شرط ہے۔
رہنمائی فرمائیے۔
جزوی طور پر بھی آنا عیب ہے اگر وہ جزو ردیف کے آخر میں واقع ہو.
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ان قوافی میں حرف ِ روی کیا ہے؟
ان میں حرفِ روی "ہ" ہے ۔
ان تمام قوافی کے آخر میں جو ہائے ہوز ہے وہ حرفِ اصلی ہے ، حرفِ زائد نہیں ہے ۔ اگر کوئی لفظ کسی حرفِ زائد پر ختم ہورہا ہو تو اس سے ماقبل کے آخری حرفِ صحیح کو حرفِ روی مانا جاتا ہے ۔ مثلاً اگر مطلع کے قوافی کتابی اورگلابی ہوں تو ان میں حرفِ روی "ب" ہوگا۔ اسی طرح اگر مطلع کے قوافی حیرانیوں اورنادانیوں ہوں تو ان میں حرفِ روی نون ہوگا کیونکہ نون کے بعد کےحروف زائد یا اضافی ہیں۔ اصل الفاظ حیران اورنادان ہیں ۔ وعلیٰ ھذا القیاس۔
رضوان راز صاحب ، آپ کو بزمِ سخن میں سرگرم دیکھ کر خوشی ہوئی ۔ باز خوش آمدید !
آپ مرزا غالب کی غزل کی تشریح کے بعد جو غائب ہوئے تھے تو میں سمجھا کہ شاید میری تشریح مرزا کے علاوہ رضوان راز پر بھی گراں گزری ۔:) لیکن اب آپ کو دوبارہ بزم میں دیکھ کرخوشی ہوئی ۔ امید ہے کہ آپ گاہے بگاہے سہی لیکن رونق بخشتے رہیں گے۔
 

رضوان راز

محفلین
ان میں حرفِ روی "ہ" ہے ۔
ان تمام قوافی کے آخر میں جو ہائے ہوز ہے وہ حرفِ اصلی ہے ، حرفِ زائد نہیں ہے ۔ اگر کوئی لفظ کسی حرفِ زائد پر ختم ہورہا ہو تو اس سے ماقبل کے آخری حرفِ صحیح کو حرفِ روی مانا جاتا ہے ۔ مثلاً اگر مطلع کے قوافی کتابی اورگلابی ہوں تو ان میں حرفِ روی "ب" ہوگا۔ اسی طرح اگر مطلع کے قوافی حیرانیوں اورنادانیوں ہوں تو ان میں حرفِ روی نون ہوگا کیونکہ نون کے بعد کےحروف زائد یا اضافی ہیں۔ اصل الفاظ حیران اورنادان ہیں ۔ وعلیٰ ھذا القیاس۔
خاک سار اپنی خوش بختی پر نازاں ہے کہ آپ ایسے صاحبانِ علم کی صحبتِ فیض رساں میسر ہے۔
اس قدر تفصیل اور وضاحت سے سمجھانے پر ممنون ہوں۔

آپ مرزا غالب کی غزل کی تشریح کے بعد جو غائب ہوئے تھے تو میں سمجھا کہ شاید میری تشریح مرزا کے علاوہ رضوان راز پر بھی گراں گزری ۔:) لیکن اب آپ کو دوبارہ بزم میں دیکھ کرخوشی ہوئی ۔ امید ہے کہ آپ گاہے بگاہے سہی لیکن رونق بخشتے رہیں گے۔
یہ جان کر حیرت آمیز خوشی ہوئی کہ آپ نے اب تک یاد رکھا۔
وہ تشریح بمنزلہ اثاثہ ہے ۔
 

الف عین

لائبریرین
شکریہ اعجاز صاحب مگر نوحہ اور کوفہ پر غور کیجیے کیا یہ ہم آواز الفاظ ہیں؟
نہیں، نہ ہم آواز نہ قوافی۔ واؤ دونوں الفاظ میں مختلف ہے،ایک میں مجہول، دوسرے میں معروف۔ لیکن بطور قافیہ مذکورہ غزل میں درست ہیں ۔ بطور قوافی تو صوفہ اور کوفہ بھی غلط ہوتے
 
Top