فیض ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے،، فیض احمد فیض

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اس میں کوئی شک نہیں۔

اہم سوال یہ ہے کہ وقت گزرنے کے بعد کیا ایسی نظم اپنے محرک سے جدا سمجھی جا سکتی ہے؟

اس پر تبصرہ ضرور کیجیے
اس سوال کا جواب ہاں بھی ہے اور نہیں بھی۔ یعنی جواب اس بات پر منحصر ہے کہ آپ اس نظم کو کس رنگ کی عینک لگا کر دیکھتے ہیں۔ :):):)

تفنن برطرف ، شاعری عجیب چیز ہے۔ قاری کے پاس پہنچ جائے تو پھر شاعر کی نہیں رہتی ، قاری کی ہوجاتی ہے ۔ شاعر نے کوئی نظم یا شعر خواہ کسی بھی پس منظر یا کسی بھی فکر و فلسفے کے تحت کہا ہو قاری اس کو اپنی صورتحال پر جب چاہے اور جیسے چاہے منطبق کرسکتا ہے۔ سیدھے سیدھے لیلیٰ مجنوں ٹائپ کے عشقیہ اشعار پر بھی عشقِ حقیقی والے علما سر دھنتے پائے جاتے ہیں۔ شراب و میخانے کی نشہ اور بدمستی والی شاعری میں سے بھی لوگ تصوف کشید کرلیتے ہیں ۔ وغیرہ۔
اگر آپ اس نظم کا پس منظر نہیں جانتے تو بس یہ ایک رومانوی نظم ہے جس میں حد درجہ ابہام ہے ۔ اکثر مصرعوں کی غایت اور مطلب سمجھ میں نہیں آتا۔ شعریت اور غنائیت کا لطف تو لیا جاسکتا ہے لیکن مفہوم تک رسائی بہت مشکل ہے ۔یعنی یہ نظم دوبارہ پڑھے جانے کے لائق نہیں ۔

اس نظم کو سمجھنے اور پورا لطف لینے کے لیے اس کا مکمل پس منظر جاننا ضروری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فیض کو نظم کےشروع ہی میں یہ تمہیدی جملہ قوسین میں لکھنا پڑا کہ: " ایتھل اور جولیس روزن برگ کے خطوط سے متاثر ہو کر لکھی گئی" ۔
ایتھل اور جولیس سزائے موت سے پہلے دو الگ الگ جیلوں میں قید تھے اور وہاں سے ایک دوسرے کو محبت نامے لکھتے تھے ۔ یہ واقعہ ان دنوں پوری دنیا میں مشہور تھا اور ادبی حلقوں کا موضوعِ گفتگو تھا ، بالخصوص اشتراکیت پسندوں میں۔ جب یہ روزنبرگ خطوط دنیا بھر میں شائع ہوئے تو فیض تک بھی پہنچے ۔ فیض ان دنوں خود بھی راولپنڈی سازش یا غداری کے کیس میں جیل میں بند تھے۔ چنانچہ ان خطوط کا فیض کے دل پر گہرا اثر ہونا یقینی تھا۔ نتیجتاً یہ نظم وجود میں آئی کہ جس میں دو مجبور و مظلوم و محبوس محبت کرنے والوں پر "ظلم و ستم ، نا انصافی اور جبر و استبداد" کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ فیض نے اس نظم میں صیغۂ متکلم یعنی "ہم" استعمال کیا جو مزید معنی خیز بن جاتا ہے کہ وہ خود بھی غداری کے الزام میں داخلِ زنداں تھے ۔ روزنبرگ خطوط میں باہمی محبت اور رومان کے تذکرے کے علاوہ معصومیت کے دعوے ، بلند ہمتی اور مستقبل کے بارے میں مثبت خیالی کے عناصر بہت نمایاں تھے اور یہی تمام باتیں فیض نے اپنی نظم میں سمودی ہیں ۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے نظم کو پڑھا جائے تو نہ صرف ہر ہر مصرع بلکہ ہر ہر لفظ گہرے معنی رکھتا ہے۔ پوری نظم بہت خوبصورتی کے ساتھ اس سوچ اور جدوجہد کی عکاسی کرتی ہے کہ جس سے محبت کرنے والے ، انقلابی سوچ رکھنے والے ،آزادی کے طالب محبوس اور مجبور لوگ گزرتے ہیں ۔ چنانچہ فیض کی یہ نظم اپنی نوعیت میں رومانوی ہونے کے باوجود استعمار اور ظلم و نا انصافی کے خلاف ایک آواز بن گئی اور اشتراکیت پسند حلقوں نے اسے اپنے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا ۔
ویسے روزنبرگ واقعے سے متاثر ہوکر دنیا کی بہت ساری زبانوں میں شعر و ادب تخلیق ہوا ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
محترم ظہیر بھائی،
بھئی فیض نے اپنے خیالات کے ساتھ انصاف کیا۔ جو کہ بری بات نہیں۔
ایک ملک کے فریڈم فائٹرز اسی ملک کے دوسرے کئی لوگوں کے لیے آتنگ وادی ہوتے ہیں!
بری بات تو بالکل نہیں ہے ۔ ہر شخص ہر واقعے کو اپنی عینک سے دیکھتا ہے۔ تفصیل کے لیےمیرا مندرجہ بالا مراسلہ دیکھیے گا ۔
ایک گھبرو نوجوان کی محبوبہ اسی محترم کی والدہ کو کلموہی معلوم ہوتی ہے۔ :LOL: اور یہی وجہ ہے کہ اگر محترم نوجوان اور والدہ محترمہ دونوں شاعر ہوں تو دو مختلف طرح کی شاعری پڑھنے کو ملے گی۔
undefined
جی جی ۔ بالکل درست بات !
اِس محترم کی والدہ شاعرہ تو نہیں تھیں لیکن کلموہی کی شان میں کئی فی البدیہہ طویل نثری نظمیں میں نے خود اپنے گناہگار کانوں سے سنیں ۔اُن نظموں کی زبان و بیان اور رنگ و ذائقہ اِس محترم کی پابند نظموں سے خاصا مختلف تھا ۔ لیکن ماننا پڑے گا کہ تشبیہ و استعارے اور زورِ بیان کے لحاظ سے امّاں بازی لے گئیں ۔ :D
اگر مزید وضاحت درکار ہو تو مزید مثالی دی جا سکتی ہیں۔ :grin::biggrin:
مزید مثالوں کی قطعی ضرورت نہیں ۔ فیض کی اس معرکۃ الآرا نظم کی توجیہہ آپ نے جس پُرشکوہ ادبی اور علمی انداز میں بیان کی ہے اس کے بعد اب مزید کسی تشریح کی ضرورت تو باقی نہیں ۔ البتہ اگر آپ مزید خامہ فرسائی پر آمادہ ہیں تو کلموہی کی شان میں کی گئی کوئی پابند نظم بطور مثال عطا فرمادیجیے۔ اردو کی خدمت ہوگی ۔
 

محمد وارث

لائبریرین
اِس محترم کی والدہ شاعرہ تو نہیں تھیں لیکن کلموہی کی شان میں کئی فی البدیہہ طویل نثری نظمیں میں نے خود اپنے گناہگار کانوں سے سنیں ۔اُن نظموں کی زبان و بیان اور رنگ و ذائقہ اِس محترم کی پابند نظموں سے خاصا مختلف تھا ۔ لیکن ماننا پڑے گا کہ تشبیہ و استعارے اور زورِ بیان کے لحاظ سے امّاں بازی لے گئیں ۔ :D
اس حوالے سے تو خاکسار کی والدہ مرحومہ مغفورہ ہمارے گھر میں نثری نظم کی شاعرہ عظمیٰ تھیں! :)
 

فاخر رضا

محفلین
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے

میں نے ایک لڑی میں یہ شعر بطور استعارہ کربلا کے لئے استعمال کیا تھا. ظاہر سی بات ہے اس وقت مجھے یہ پوری نظم اور اس کا پس منظر معلوم نہیں تھا، پھر ایک دوست نے توجہ دلائی تو ڈھونڈتے ہوئے یہاں تک پہنچا
لیکن ایک عمدہ معلومات حاصل ہوئی اس سب میں
Capitalist لوگ اس طرح کے نہ دعوے کرتے ہیں نہ اس طرح کی شاعری، اس لیے کمیونسٹ برادری کا ادبی لحاظ سے ان سے مقابلہ نہیں ہے. غور کیجیے
 

زیک

مسافر
اگر آپ اس نظم کا پس منظر نہیں جانتے تو بس یہ ایک رومانوی نظم ہے جس میں حد درجہ ابہام ہے ۔ اکثر مصرعوں کی غایت اور مطلب سمجھ میں نہیں آتا۔ شعریت اور غنائیت کا لطف تو لیا جاسکتا ہے لیکن مفہوم تک رسائی بہت مشکل ہے ۔یعنی یہ نظم دوبارہ پڑھے جانے کے لائق نہیں ۔

اس نظم کو سمجھنے اور پورا لطف لینے کے لیے اس کا مکمل پس منظر جاننا ضروری ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ فیض کو نظم کےشروع ہی میں یہ تمہیدی جملہ قوسین میں لکھنا پڑا کہ: " ایتھل اور جولیس روزن برگ کے خطوط سے متاثر ہو کر لکھی گئی" ۔
پس ثابت ہوا کہ اس نظم کو محرک سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔
 

فاخر رضا

محفلین
اگر پاکستان نہ بنتا تو 1857 کا معرکہ غدر اور بن گیا تو جنگ آزادی. یہ تو ہوتا رہا ہے دنیا میں. سب اپنی اپنی عینک پہن کر دیکھتے ہیں.
 
Top