درویش بلوچ
محفلین
ہم تصور میں جو ان سے دوچار ہیں
درد سوئے ہوئے پھر سے بیدار ہیں
ہائے! بے رخ ہوئے شہر کے چارہ گر
ان کے چوکھٹ پہ ہم کب سے بیمار ہیں
کون دے گا مرے قاتلوں کو سزا
منصفِ وقت خود ان کے غمخوار ہیں
قتل و غارت گری جن کا پیشہ رہا
ملک و ملت کے وہ آج سردار ہیں
بے وفا تاج و تختوں کے مالک بنے
اور اہلِ وفا بر سرِ دار ہیں
اے ستم گر ستم آزماتے رہو
ہم بھی سر پہ کفن باندھے تیار ہیں
مکتبِ عشق کی سب کتابیں پڑھیں
اب تو اس کام میں خوب ہوشیار ہیں
باغِ فردوس سے جو نکالے گئے
ہاں جی درویش ہم وہ گنہگار ہیں
درد سوئے ہوئے پھر سے بیدار ہیں
ہائے! بے رخ ہوئے شہر کے چارہ گر
ان کے چوکھٹ پہ ہم کب سے بیمار ہیں
کون دے گا مرے قاتلوں کو سزا
منصفِ وقت خود ان کے غمخوار ہیں
قتل و غارت گری جن کا پیشہ رہا
ملک و ملت کے وہ آج سردار ہیں
بے وفا تاج و تختوں کے مالک بنے
اور اہلِ وفا بر سرِ دار ہیں
اے ستم گر ستم آزماتے رہو
ہم بھی سر پہ کفن باندھے تیار ہیں
مکتبِ عشق کی سب کتابیں پڑھیں
اب تو اس کام میں خوب ہوشیار ہیں
باغِ فردوس سے جو نکالے گئے
ہاں جی درویش ہم وہ گنہگار ہیں
آخری تدوین: