ہم تصور میں جو ان سے دوچار ہیں (فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن)

درویش بلوچ

محفلین
ہم تصور میں جو ان سے دوچار ہیں
درد سوئے ہوئے پھر سے بیدار ہیں

ہائے! بے رخ ہوئے شہر کے چارہ گر
ان کے چوکھٹ پہ ہم کب سے بیمار ہیں

کون دے گا مرے قاتلوں کو سزا
منصفِ وقت خود ان کے غمخوار ہیں

قتل و غارت گری جن کا پیشہ رہا
ملک و ملت کے وہ آج سردار ہیں

بے وفا تاج و تختوں کے مالک بنے
اور اہلِ وفا بر سرِ دار ہیں

اے ستم گر ستم آزماتے رہو
ہم بھی سر پہ کفن باندھے تیار ہیں

مکتبِ عشق کی سب کتابیں پڑھیں
اب تو اس کام میں خوب ہوشیار ہیں

باغِ فردوس سے جو نکالے گئے
ہاں جی درویش ہم وہ گنہگار ہیں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اوزان میں تقریباً درست ہے، لیکن زبان و بیان بلکہ اظہار بیان میں البتہ۔۔۔۔۔
ہم تصور میں جو ان سے دوچار ہیں
درد سوئے ہوئے پھر سے بیدار ہیں
÷÷÷ دو چار کا محاورہ اکثر منفی معنوں میں ہوتا ہے۔ یہاں سمجھ میں نہیں آیا۔درد کی جمع بھی عجیب ہے۔

ہائے! بے رخ ہوئے شہر کے چارہ گر
ان کے چوکھٹ پہ ہم کب سے بیمار ہیں
÷÷÷بے رخ ہونا؟؟؟ یہ محاورہ سمجھ میں نہیں آ سکا۔ چوکھٹ بھی مؤنث ہوتی ہے (چاہے چارہ گر مذکر ہوں!!!!!)

کون دے گا مرے قاتلوں کو سزا
منصفِ وقت خود ان کے غمخوار ہیں
÷÷÷ درست

قتل و غارت گری جن کا پیشہ رہا
ملک و ملت کے وہ آج سردار ہیں
÷÷آج وہ ملک و ملت۔۔۔۔ بہتر ہو گا نا؟ شعر درست ہے۔ اگرچہ عام بات ہے۔

بے وفا تاج و تختوں کے مالک بنے
اور اہلِ وفا بر سرِ دار ہیں
÷÷÷تاج و تخت تو محاورہ ہے لیکن تختوں؟

اے ستم گر ستم آزماتے رہو
ہم بھی سر پہ کفن باندھے تیار ہیں
÷÷÷ درست

مکتبِ عشق کی سب کتابیں پڑھیں
اب تو اس کام میں خوب ہوشیار ہیں
÷÷÷دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے۔ ’ہشیار‘ ہو سکتا ہے لیکن اچھا نہیں لگتا۔

باغِ فردوس سے جو نکالے گئے
ہاں جی درویش ہم وہ گنہگار ہیں
÷÷÷ہاں جیُ کا بیانیہ جی کو نہیں لگا۔
 
آخری تدوین:

درویش بلوچ

محفلین
اوزان میں تقریباً درست ہے، لیکن زبان و بیان بلکہ اقظہار بیان میں البتہ۔۔۔۔۔
ہم تصور میں جو ان سے دوچار ہیں
درد سوئے ہوئے پھر سے بیدار ہیں
÷÷÷ دو چار کا محاورہ اکثر منفی معنوں میں ہوتا ہے۔ یہاں سمجھ میں نہیں آیا۔درد کی جمع بھی عجیب ہے۔

ہائے! بے رخ ہوئے شہر کے چارہ گر
ان کے چوکھٹ پہ ہم کب سے بیمار ہیں
÷÷÷بے رخ ہونا؟؟؟ یہ محاورہ سمجھ میں نہیں آ سکا۔ چوکھٹ بھی مؤنث ہوتی ہے (چاہے چارہ گر مذکر ہوں!!!!!)

کون دے گا مرے قاتلوں کو سزا
منصفِ وقت خود ان کے غمخوار ہیں
÷÷÷ درست

قتل و غارت گری جن کا پیشہ رہا
ملک و ملت کے وہ آج سردار ہیں
÷÷آج وہ ملک و ملت۔۔۔۔ بہتر ہو گا نا؟ شعر درست ہے۔ اگرچہ عام بات ہے۔

بے وفا تاج و تختوں کے مالک بنے
اور اہلِ وفا بر سرِ دار ہیں
÷÷÷تاج و تخت تو محاورہ ہے لیکن تختوں؟

اے ستم گر ستم آزماتے رہو
ہم بھی سر پہ کفن باندھے تیار ہیں
÷÷÷ درست

مکتبِ عشق کی سب کتابیں پڑھیں
اب تو اس کام میں خوب ہوشیار ہیں
÷÷÷دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے۔ ’ہشیار‘ ہو سکتا ہے لیکن اچھا نہیں لگتا۔

باغِ فردوس سے جو نکالے گئے
ہاں جی درویش ہم وہ گنہگار ہیں
÷÷÷ہاں جیُ کا بیانیہ جی کو نہیں لگا۔
استادِ محترم! بہت بہت شکریہ کہ آپ ناچیز کی کاوش پر نظر کرم فرما گئے. میں ان شاء اللہ بہت جلد اس میں تبدیلیاں لا کر آپ کی خدمت میں پھر پیش کروں گا. دراصل میں اردو ادب میں بالکل ہی نیا ہوں. ابھی ایک ماہ بھی مکمل نہیں ہوا. میری مثال اس بچے کی ہے جو ابھی ابھی سائیکل چلانا سیکھ رہا ہے. کبھی گرتا ہے تو کبھی دیواروں کو ٹھوکریں مارتا ہے.. میرا ذخیرہء الفاظ بھی ابھی تک اتنا وسیع نہیں کہ اپنے جذبات کااظہار مؤثر انداز میں کر سکوں. اساتذہ کے مجموعے زیرِ مطالعہ ہیں. اور اپنے اندر بہت بہتری بھی محسوس کررہا ہوں. آپ بھی اپنے قیمتی مشورے مجھے نوازتے رہیں تو مجھے بہت خوشی ہوگی.
 
Top