ہری پور کی عقلمند عوام!

arifkarim

معطل
11863269_10153025231806766_7556514053893002409_n.jpg

لئیق احمد تجمل حسین عبدالقیوم چوہدری نایاب اوشو زہیر عبّاس
 
مدیر کی آخری تدوین:

زہیر عبّاس

محفلین
عوام کا سمجھ میں نہیں آتا. جب مشرف صاحب آئے تھے تو سب ان کے پیچھے چلے تھے اور پھر ان کو کس طرح سے خوار کرکے فارغ کیا۔ سب کو معلوم ہے۔
اب جبکہ عوام کی پسندیدہ جموریت آگئی ہے تو پھر فوجی بوٹوں کی آواز اور میرے عزیز ہم وطنوں والے خطاب کے لئے عوام کے کان ترس رہے ہیں۔ (یاد رہے کہ یہ وہ جموریت ہے جو بقول حامد میر اور اسی قبیل کے دوسرے صحافیوں کے مطابق "بہترین آمریت سے بہتر تھی"۔ اکثر ان کے پروگراموں میں یہ گونج سنائی دیتی تھی کہ "بد ترین جموریت بہترین آمریت سے بہتر ہے" اور پھر اس جمہوری دور میں ہی ان کی تواضح کس طرح کی گئی سب کو معلوم ہے۔)
 

نایاب

لائبریرین
وہ حبس ہے کہ لو کی دعا مانگتے ہیں لوگ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے عزیز ہم وطنوں کی صدا بلند کرنے والے لاکھ " جبر " کی فضا قائم رکھتے ہوں ۔
عوام کو کچھ نہ کچھ سکون ملتا رہتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
بھوکا کیا چاہے بس اک روٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں
 
مدیر کی آخری تدوین:

arifkarim

معطل
عوام کا سمجھ میں نہیں آتا. جب مشرف صاحب آئے تھے تو سب ان کے پیچھے چلے تھے اور پھر ان کو کس طرح سے خوار کرکے فارغ کیا۔ سب کو معلوم ہے۔
اصل میں عوام کو نہ آمریت چاہیئے نہ جمہوریت چاہیئے۔ انہیں تو بس وہ فنکار اور مداری چاہیئے جو ہر 4سال بعد انہیں اپنی انگلیوں پر نچوا سکیں :) :) :)
 

محمداحمد

لائبریرین
عوام کا سمجھ میں نہیں آتا. جب مشرف صاحب آئے تھے تو سب ان کے پیچھے چلے تھے اور پھر ان کو کس طرح سے خوار کرکے فارغ کیا۔ سب کو معلوم ہے۔
اب جبکہ عوام کی پسندیدہ جموریت آگئی ہے تو پھر فوجی بوٹوں کی آواز اور میرے عزیز ہم وطنوں والے خطاب کے لئے عوام کے کان ترس رہے ہیں۔ (یاد رہے کہ یہ وہ جموریت ہے جو بقول حامد میر اور اسی قبیل کے دوسرے صحافیوں کے مطابق "بہترین آمریت سے بہتر تھی"۔ اکثر ان کے پروگراموں میں یہ گونج سنائی دیتی تھی کہ "بد ترین جموریت بہترین آمریت سے بہتر ہے" اور پھر اس جمہوری دور میں ہی ان کی تواضح کس طرح کی گئی سب کو معلوم ہے۔)

عوام کو وہ لوگ پسند آتے ہیں جو کام کرتے ہیں اور جن کے کاموں کے مثبت اثرات نظر آتے ہیں۔

پھر جمہوریت کے نام پر عوام کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔

تاہم فوج کا کام حکومت سنبھالنا نہیں ہے۔ ہاں اگر ضرورت پڑے تو سیاسی لوگوں کا قبلہ درست کرنے کا موقع نہیں چھوڑنا چاہیے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
عوام کو وہ لوگ پسند آتے ہیں جو کام کرتے ہیں اور جن کے کاموں کے مثبت اثرات نظر آتے ہیں۔
جناب بالکل بجا فرمایا آپ نے۔ عوام کو وہی لوگ پسند آنے چاہیں جنہوں نے ان کے لئے کام کیا۔ تاہم یہاں پر تو ووٹ اس لئے نہیں پڑتا کہ کس نے کام کیا اور کس نے نہیں کیا بلکہ اس لئے پڑتا ہے کہ اس شخص کا تعلق کس پارٹی سے ہے یا کس برادری سے ہے۔
میرا اپنا ذاتی خیال ہے کہ جب تک عوام کی اکثریت صاحب شعور نہیں ہوگی (یعنی علم کی دولت سے بہرہ مند نہ ہوگی) تب تک کم از کم پاکستان کے لئے خالص جمہوریت فائدہ مند نہیں ہے۔ ہاں جہموریت یا آمریت کا آمیزہ شاید اس کو کچھ افاقہ دے سکے۔ جس طرح کے مشرف کے دور میں ہوا تھا۔
یاد رہے کہ یہ میرا ذاتی خیال ہے۔ اور اس کو میں اپنے بہت ہی کم عرصے پر محیط مشاہدے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں۔
 

arifkarim

معطل
تاہم فوج کا کام حکومت سنبھالنا نہیں ہے۔ ہاں اگر ضرورت پڑے تو سیاسی لوگوں کا قبلہ درست کرنے کا موقع نہیں چھوڑنا چاہیے۔
مطلب آپکے خیال میں افواج پاکستان کا انتخابی نشان "ڈنڈا" درست ہے؟ :)

جناب بالکل بجا فرمایا آپ نے۔ عوام کو وہی لوگ پسند آنے چاہیں جنہوں نے ان کے لئے کام کیا۔ تاہم یہاں پر تو ووٹ اس لئے نہیں پڑتا کہ کس نے کام کیا اور کس نے نہیں کیا بلکہ اس لئے پڑتا ہے کہ اس شخص کا تعلق کس پارٹی سے ہے یا کس برادری سے ہے۔
یا کس پیشے سے ہے۔ ہری پور میں نون لیگ کے امیدوار بابر نواز خان کامیاب رہے۔ انتخابی مہم کے دوران موصوف بھرے مجمع میں اقرار کرتے رہے کہ میں اور میرا خاندان چور بھی ہے اور ڈاکو بھی ہے لیکن میں پھر بھی آپ سے ووٹ مانگتا ہوں:
اب چونکہ پاک قوم کی اکثریت ٹیکس چور بھی ہے اسلئے ظاہر ہے ان امیدوار کو اس جرات مندانہ کھری مندی پر ووٹ کیونکر نہ پڑتا؟ :)
 
237،948 ووٹرز میں سے ایک کو جنرل راحیل شریف اور ان کا انتخابی نشان ڈنڈا پسند ہے جس کی وجہ سے ہری پور کی باقی ساری عوام عقلمند ٹھہرائی گئی۔
وا وا
سبحان اللہ

11258785_913862108687812_3549124737740992371_n.jpg
 

زیک

مسافر
237،948 ووٹرز میں سے ایک کو جنرل راحیل شریف اور ان کا انتخابی نشان ڈنڈا پسند ہے جس کی وجہ سے ہری پور کی باقی ساری عوام عقلمند ٹھہرائی گئی۔
وا وا
سبحان اللہ

11258785_913862108687812_3549124737740992371_n.jpg
آپ نے اس دستاویز سے جنرل کے لئے ایک ووٹ کیسے اخذ کیا؟ پاکستان میں write-in نہیں ہوتا لہذا راحیل شریف کے ووٹ مسترد کے کالم میں آئیں گے۔ لہذا 1 سے ل کر 3912 تک ہو سکتے ہیں۔ :D
 

محمداحمد

لائبریرین
اور فوج کا قبلہ کسے درست کرنا چاہیے ؟

حکومت کو۔ :)

عوام کی تو کوئی سنتا نہیں ہے۔ کیونکہ نہ تو ووٹ میں اتنی سکت ہے کہ حکومت کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکے اور نہ ہی عوام کو ووٹ کے صحیح استعمال کا شعور۔ پھر عوام کے پاس موجود "آپشنز" بھی سب الا ماشاءاللہ ہیں۔
 
عوام کی تو کوئی سنتا نہیں ہے۔ کیونکہ نہ تو ووٹ میں اتنی سکت ہے کہ حکومت کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکے اور نہ ہی عوام کو ووٹ کے صحیح استعمال کا شعور۔ پھر عوام کے پاس موجود "آپشنز" بھی سب الا ماشاءاللہ ہیں۔

میرا خیال ہے کہ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ عوام کی کوئی نہیں سنتا۔ فوج اور عدلیہ اور حکومت نے متعدد مواقع پر اجتماعی عوامی خواہشات کو مدنظر رکھا اس کی مثالیں موجود ہیں۔۔

1- 28 مئی 1998 کو حکومت نے جو ایٹمی دھماکے کئے اس کی وجوہات میں واضح عوامی دباؤ تھا اور مجید نظامی مرحوم نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو کہا تھا کہ ایٹمی دھماکے کر دو ورنہ عوام آپ کا دھماکہ کر دیں گے۔
2- نواز شریف کی پہلی حکومت کی سپریم کورٹ کے ذریعے بحالی میں بھی عوامی دباؤ کا دخل تھا کیونکہ اس وقت نواز حکومت بہت مقبول تھی اور بار بار ہڑتالیں ہورہی تھیں۔
3- چیف جسٹس افتخار چودھری کی معطلی کے بعد سپریم کورٹ کے ذریعے بحالی اور بعد میں دوسری بار لانگ مارچ کے ذریعے بحالی میں بھی عوامی دباؤ واضح تھا۔
4- جب بھی فوج نے جہوری حکومت کا تختہ الٹا اس وقت وہ حکومت عوام میں بدنام ہوچکی تھی کبھی فوج نے مقبول جمہوری حکومت کا تختہ نہیں الٹا مثلاً جب جنرل ضیاء نے بھٹو حکومت کو رخصت کیا اس وقت بھٹو حکومت مقبول نہیں تھی، جب مشرف نے 1999 کو بغاوت کی اس وقت بھی نواز حکومت کارگل واقعے کی وجہ سے بدنام تھی۔
اس لئے یہ کہنا بجا نہیں ہوگا کہ ملکی مقتدر عوامی خواہشات یا دباؤ کو بالکل اہمیت نہیں دیتے۔ بات یہ ہے کہ عوام دباؤ ڈالیں تو سہی
 

محمداحمد

لائبریرین
28 مئی 1998 کو حکومت نے جو ایٹمی دھماکے کئے اس کی وجوہات میں واضح عوامی دباؤ تھا اور مجید نظامی مرحوم نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو کہا تھا کہ ایٹمی دھماکے کر دو ورنہ عوام آپ کا دھماکہ کر دیں گے۔

یہ واقعی اچھی بات ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ تحریک شروع کرنے کا سہرا جماعتِ اسلامی کے سر جاتا ہے۔

2- نواز شریف کی پہلی حکومت کی سپریم کورٹ کے ذریعے بحالی میں بھی عوامی دباؤ کا دخل تھا کیونکہ اس وقت نواز حکومت بہت مقبول تھی اور بار بار ہڑتالیں ہورہی تھیں۔
3- چیف جسٹس افتخار چودھری کی معطلی کے بعد سپریم کورٹ کے ذریعے بحالی اور بعد میں دوسری بار لانگ مارچ کے ذریعے بحالی میں بھی عوامی دباؤ واضح تھا۔
4- جب بھی فوج نے جہوری حکومت کا تختہ الٹا اس وقت وہ حکومت عوام میں بدنام ہوچکی تھی کبھی فوج نے مقبول جمہوری حکومت کا تختہ نہیں الٹا مثلاً جب جنرل ضیاء نے بھٹو حکومت کو رخصت کیا اس وقت بھٹو حکومت مقبول نہیں تھی، جب مشرف نے 1999 کو بغاوت کی اس وقت بھی نواز حکومت کارگل واقعے کی وجہ سے بدنام تھی۔

شخصیات کی معطلی اور بحالی میں زیادہ کردار اور دلچسپی سیاسی جماعتوں کی ہی رہی۔ اور ان مقاصد کے حصول سے عوام الناس کو کوئی خاص فائدہ بھی نہیں پہنچا۔

اس لئے یہ کہنا بجا نہیں ہوگا کہ ملکی مقتدر عوامی خواہشات یا دباؤ کو بالکل اہمیت نہیں دیتے۔ بات یہ ہے کہ عوام دباؤ ڈالیں تو سہی

عوامی مسائل کی بات کریں تو ایسا ہی ہے۔

  • بجلی کی فراہمی میں تعطل
  • بجلی کی ہوشربا قیمتیں
  • بے تحاشا ٹیکسز
  • سرکاری اداروں کی نا اہلی
  • رشوت ستانی
  • سفارش
  • ملازمتوں کے حصول میں جائز ناجائز طریقہ کار

اور بہت سارے معاملات ایسے ہیں کہ عوام دباؤ ڈالنے کے قابل بھی نہیں ہیں۔
 

arifkarim

معطل
اسمیں قہقہے والی کیا بات ہے؟ انہوں نے کوئی لطیفہ تو نہیں سنایا :silent3:

آپ نے اس دستاویز سے جنرل کے لئے ایک ووٹ کیسے اخذ کیا؟ پاکستان میں write-in نہیں ہوتا لہذا راحیل شریف کے ووٹ مسترد کے کالم میں آئیں گے۔ لہذا 1 سے ل کر 3912 تک ہو سکتے ہیں۔ :D
Write-in تو میرے خیال میں صرف امریکی الیکشن سسٹم میں ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں ناروے میں صرف قومی انتخابات کے دوران اپنے نا پسندیدہ امیدوار کو ہٹانے اور اسکی جگہ کسی اور محبوب لیڈر کو ووٹ کرنے کا حق دیا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے دیگر ممالک میں بھی کچھ اسی قسم کا سسٹم ہو۔ ویسے یہ 3912 کا عدد کہاں سے آیا؟ :)

اور فوج کا قبلہ کسے درست کرنا چاہیے ؟
ہمسایہ ممالک کی افواج کو!!!:beating:

حکومت کو۔ :)

عوام کی تو کوئی سنتا نہیں ہے۔ کیونکہ نہ تو ووٹ میں اتنی سکت ہے کہ حکومت کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکے اور نہ ہی عوام کو ووٹ کے صحیح استعمال کا شعور۔ پھر عوام کے پاس موجود "آپشنز" بھی سب الا ماشاءاللہ ہیں۔
یہ حکومت 1947 والی نہیں ہے جناب! الاماشاءاللہ، 30 سال سے زائد ( 1958 – 1971, 1977 – 1988, 1999 – 2008 ) عرصہ ہماری افواج یہاں حکومتیں کر چکی ہیں۔ ایسے میں یہ توقع کرنا کہ ہماری سول حکومت مسلح افواج کے فیصلوں پر نظر اندازہو سکیں گی، یہ ناممکن بوجھ اٹھانے کے مترادف ہے: :warzish:

میرا خیال ہے کہ یہ تاثر درست نہیں ہے کہ عوام کی کوئی نہیں سنتا۔ فوج اور عدلیہ اور حکومت نے متعدد مواقع پر اجتماعی عوامی خواہشات کو مدنظر رکھا اس کی مثالیں موجود ہیں۔۔
بالکل۔ جہاں پر انکا اپنا مفاد شامل حال رہا، وہاں انہوں نے عوام کی بھی "لاج" رکھ لی۔ :redheart:

1- 28 مئی 1998 کو حکومت نے جو ایٹمی دھماکے کئے اس کی وجوہات میں واضح عوامی دباؤ تھا اور مجید نظامی مرحوم نے اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو کہا تھا کہ ایٹمی دھماکے کر دو ورنہ عوام آپ کا دھماکہ کر دیں گے۔
جو اسنے مشرف کے تختہ الٹنے کے بعد کر دیا۔ نون لیگ کا بھاری مینڈیٹ اسوقت بھی وزنی ثابت نہ ہوا۔ عوام نےمنتخب وزیر اعظم کو چھوڑ کر افواج پاکستان کا خیر مقدم کیا۔ :mad3:

4- جب بھی فوج نے جہوری حکومت کا تختہ الٹا اس وقت وہ حکومت عوام میں بدنام ہوچکی تھی کبھی فوج نے مقبول جمہوری حکومت کا تختہ نہیں الٹا مثلاً جب جنرل ضیاء نے بھٹو حکومت کو رخصت کیا اس وقت بھٹو حکومت مقبول نہیں تھی، جب مشرف نے 1999 کو بغاوت کی اس وقت بھی نواز حکومت کارگل واقعے کی وجہ سے بدنام تھی۔
اسرائیل اور دیگر مغربی جمہوریتوں میں جب منتخب حکومت کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنا عوامی مینڈیٹ کھو رہی ہے تو وہ فوراً سے پہلے نئے الیکشن کا اعلان کر دیتی ہے۔ پتا نہیں ہماری دیسی "جمہوری" حکومتوں کو عوام سے ایسا کیا خوف ہوتا ہے کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت نئے الیکشن کے ذریعہ واپس لانے کی بجائے اپنی آئینی 5 سالہ ٹرم جبراً مکمل کرنے کی ناکام کوششیں کرتی رہتی ہیں۔ اور اس چکر میں کبھی افوج تو کبھی کسی اور سیاسی انتشار کے ذریعہ ملک و ملت کا نقصان کر بیٹھتی ہیں۔
میری رائے میں تو بھٹو کو اپوزیشن کے مطالبات مان کر ری الیکشن کروا دینے چاہئے تھے۔ لیکن چونکہ 1977 کے الیکشن سے ملک گیر دھاندلیوں کی تاریخ شروع ہوئی تھی اسلئے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ وہ دوبارہ الیکشن پر بروقت رضامند ہو جاتا۔ اسی طرح سانحہ کارگل کے بعدنواز شریف کو فوری طور پر دوبارہ انتخابات کروالینے چاہئے تھے لیکن عزت مآب اقتدار سے چپکے رہے۔ بالآخر فوج کا ڈنڈا سر پر آگیا۔

اس لئے یہ کہنا بجا نہیں ہوگا کہ ملکی مقتدر عوامی خواہشات یا دباؤ کو بالکل اہمیت نہیں دیتے۔ بات یہ ہے کہ عوام دباؤ ڈالیں تو سہی
آپکی بات کسی حد تک درست ہے کہ عوامی دباؤ سے حکومت اور عدلیہ پریشر میں آجاتی ہے اور نہ چاہتے ہوئے بھی عوامی مطالبات منظور کر لیتی ہے۔ جیسے عمران خان کے دھرنا چھوڑنے کے باوجود حکومت کا جوڈیشل کمیشن برائے تحقیقات الیکشن کے قیام کا اعلان۔

اوہ۔۔۔پی پی پی پی کا امیدوار بھی نظر آ رہا ہے

RIP
اوہ، اگر تحریک انصاف نہ ہوتی تو شاید یہ بھی نظر نہ آتا :)

مشرف کی پارٹی کا تو اس سے بھی زیادہ بیڑہ غرق ہے :p
مشرف کو کس حکیم نے کہا تھا کہ وہ سیاست کرے۔ یہ سیاست کے کھیل جرنیلوں کے بس کی بات نہیں۔ انہیں یا تو صرف کرپٹ امراء چلا سکتے ہیں یا بہت ہوشیار و چالاک سٹے باز!
 
Top