درد گھر تو دونوں پاس ہیں لیکن ملاقاتیں کہاں - خواجہ میر درد

کاشفی

محفلین
غزل
(خواجہ میر درد)
گھر تو دونوں پاس ہیں لیکن ملاقاتیں کہاں
آمدورفت آدمی کی ہے، پہ وہ باتیں کہاں
ہم فقیروں کی طرف بھی تو نگاہیں دم بدم
پھینکتے جاتے تھے آپ آگے، وہ خیراتیں کہاں
بعد مرنے کے مرے ہوگی مرے رونے کی قدر
تب کہا کیجے گا لوگوں سے وہ برساتیں کہاں
یوں تو ہے دن رات میرے دل میں اس کا ہی خیال
جن دنوں اپنی بغل میں تھا سو وہ راتیں کہاں
جس طرح سے کھیلتا ہے وہ دلوں کا یاں شکار
درد آتی ہیں کسی دلبر کو وہ گھاتیں کہاں
 
Top